بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hujuraat : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا تُقَدِّمُوْا : نہ آگے بڑھو بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ : اللہ کے آگے وَرَسُوْلِهٖ : اور اسکے رسول کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : سننے والا جاننے والا
مومنو ! (کسی بات کے جواب میں) خدا اور اسکے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو بیشک خدا سنتا جانتا ہے
1۔ 3۔ حضرت عبد اللہ 4 ؎ بن عباس ؓ کے قول کے موافق یہ سورة مدنی ہے۔ صحیح بخاری 5 ؎ میں عبد اللہ بن زبیر کی روایت سے جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ بنی تمیم میں کے کچھ لوگ آنحضرت ﷺ کے پاس آئے تھے ان لوگوں میں سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ایک شخص کو قوم کا سردار ہونے کے قابل خیال کیا اور حضرت عمر ؓ نے دوسرے شخص کو اس بحث میں یہ دونوں صاحب بلند آواز سے چیخ چیخ کر باتیں کرنے لگے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرمایا اے ایماندار لوگو جس طرح اللہ اور رسول کے حکم سے پہلے بنی تمیم میں کسی شخص کو سردار ٹھہرانے کی پیش قدمی کی گئی اور جس طرح اللہ کے رسول ﷺ کی مجلس میں عام مجلسوں کی شان کے موافق چیخ چیخ کر باتیں ہوئیں یہ اللہ کو پسند نہیں اللہ تعالیٰ سب باتیں سننا جانتا ہے اس لئے ایسی باتیں منہ سے نکالتے وقت اللہ سے ڈرنا چاہئے اور یہ سمجھنا چاہئے کہ دین کے تمام احکام امت کے لوگوں کو اللہ کے رسول کی معرفت پہنچتے ہیں جس کے سبب سے امت کے لوگوں کو اللہ کے رسول کی بہت بڑی توقیر لازم ہے جو شخص اس توقیر میں خلل ڈالے گا اس کی بیخبر ی میں ایسے شخص کے نیک عمل رائیگاں ہوجائیں گے کیونکہ جس شخص نے نیک عملوں کے حاصل ہونے کے ذریعہ کی کچھ قدر نہ کی اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے نیک عملوں کی کچھ قدر نہ کرے گا پھر فرمایا جو لوگ اللہ کے رسول کی مجلس میں دبی آواز سے باتیں کرتے ہیں ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے پرہیز گاری کے لئے جانچا ہے کیونکہ جن باتوں کے کرنے کا حکم ہے ان کو کرنا اور جن کی مناہی ہے ان سے بچنا اسی کا نام پرہیز گاری ہے پھر فرمایا ایسے لوگوں کے گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے گا اور ان کی نیکیوں کا بہت بڑا اجر ان کو ملے گا۔ صحیح بخاری 1 ؎ و مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا بعض وقت آدمی کے منہ سے کوئی ایسا کلمہ نکل جاتا ہے جس سے آدمی دوزخی قرار پا جاتا ہے اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آیتوں میں جس کے کلموں کے زبان سے نکالنے کی مناہی ہے حدیث میں اس قسم کے کلموں کی سزا جتلائی ہے۔ (1 ؎ صحیح بخاری باب حفظ اللسان الخ ص 959 ج 2۔ ) (4 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 83 ج 6۔ ) (5 ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة الحجرات ص 718 ج 2۔ )
Top