بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Al-Hujuraat : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا تُقَدِّمُوْا : نہ آگے بڑھو بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ : اللہ کے آگے وَرَسُوْلِهٖ : اور اسکے رسول کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : سننے والا جاننے والا
اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے پیغمبر (کی اجازت) سے پہلے تم سبقت نہ کیا کرو (بولا نہ کرو) اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ سننے والے جاننے والے ہیں
1 تا 10۔ اسرار ومعارف۔ نیز اصلاح عالم کی جہاد کی غرض یہی ہے کہ پہلے اصلاح نفس کی ضرورت ہے جس کی بنیاد ادب واحترام نبوی پر ہے چہ جائیکہ کوئی اطاعت وغلامی میں پس وپیش کرے۔ حد ادب یہ ہے کہ کبھی کسی کام میں یا کسی بات میں رسول اللہ پر سبقت نہ کیا کرو کہ یہ ایسے ہے جیسے اللہ کی ذات پر کسی نے سبقت کی کہ آپ کا ارشاد ہی اللہ کا ارشاد ہے اور اس معاملے میں اللہ سے ڈرو کہ وہ سب کچھ سنتا ہے اور جانتا ہے ۔ اصلاح نفس کی بنیاد ادب ہے بارگاہ نبوی میں اس کی ضرورت قرآن نے بتادی علماء مشائخ وارث نبوت ہو کر ادب کے مستحق ہیں۔ نیز اپنی آواز کو پست رکھا کرو اور کبھی بھی نبی کریم کی آواز سے بلندآواز میں بات نہ کرو نہ ہی آپ ﷺ سے کھل کر بات کیا کرو جیسے تم لوگ آپس میں بےتکلفی سے کھل کر بات کرلیتے ہو ایسا نہ ہو کہ تمہارے سب اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو یہاں بعض حضرات نے یوں فرمایا ہے بےارادہ آواز بلند کرے اور اس کا پتہ بھی نہ چلے مگر وہ اعمال کی بربادی کا سبب بن جائے چونکہ برکات نبوی حقیقی اور علماء حق سے نیز نور قلبی اور کیفیات روحانی مشائخ کے واسطے سے پہنچتی ہیں تو ان کا ادب بھی ایسے ہی کیا جائے گا جہاں تک اعمال کے ضائع ہونے کا تعلق ہے تو حبط عمل تو اہل سنت کے نزدیک کفر سے ہوتا ہے اور کفر اختیاری فعل ہے جب تک کوئی جان بوجھ کر اختیار نہ کرے کافر نہ ہوگا ، جیسے ایمان بھی اختیاری ہے کہ اپنی مرضی سے قبول نہ کرے تو مسلمان نہیں ہوسکتا اس کا حل مولانااشرف علی تھانوی نے اس طرح فرمایا ہے کہ آپ پر پیش قدمی یا بےمحابابات چیت شان رسالت میں گستاخی اور بےادبی ہے اور ایذائے رسول کا سبب ہوسکتی ہے اگر قصدا نہ بھی ہو تو بھی ایذا اور بےادبی کا احتمال ہے لہذا اسے ممنوع قرار دیا کہ یہ ایسی معصیت ہے جو توفیق عمل سبب کرلیتی ہے اور بندہ گناہوں میں پھنس کر کفر تک جاپہنچتا ہے ۔ مفتی محمد شفیع مرحوم معارف القرآن میں فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ اگر کسی نے کسی صالح بزرگ کو اپنا مرشد بنایا ہو تو اس کے ساتھ بےگستاخی یا بےادبی کا یہی حال ہے کہ سلب توفیق کا سبب بن کر انجام کار متاع ایمان کو ضائع کردیتی ہے اور ایسے لوگ جو بارگاہ نبوی میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں یہ ایسے لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقوی کے لیے خاص کردیا ہے ۔ ان کے قلوب میں کوئی ایسی بات آتی ہی نہیں جو خلاف تقوی ہو ایسے لوگوں کے لیے اللہ کی بخشش اور اجر عظیم ہے۔ روضہ اطہر پہ یہی ادب شرط ہے۔ علماء حق کا ارشاد ہے کہ آپ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی وہی تعظیم واجب ہے جو حیات دنیا میں تھی اور روضہ اطہر کے سامنے بھی بلندآواز سے سلام و کلام خلاف ادب ہے یا جس طرح آپ کی احادیث پڑھی جارہی ہوں تو وہاں بھی شوروشغب ممنوع ہے اور بےادبی ہے اسی طرح اکابر علماء کی مجلس میں ادب سے بات کی جائے اور شوروشغب ممنوع ہے اور جو لوگ آپ کو حجرات مبارکہ کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں کی اکثریت عقل مند نہیں ہے۔ یہ بنوتمیم کے کچھ لوگ جو دیہات سے آئے تھے اور واپس اموال واموشی کے پاس جانے کی جلدی میں تھے انہوں نے آپ کو حجرہ مبارک کے باہر سے آواز دی۔ حجرات مبارکہ۔ امہات المومنین کے حجرات کھجور کی شاخوں کے چھت سے بنے ہوئے تھے اور دروازوں پر سیاہ رنگ کے موٹی اون کے پردے پڑے ہوئے تھے روضہ اقدس ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا حجرہ مبارک تھا ، دوسرے متصل محراب کی طرف تھے ۔ حضرت داؤد بن قیس سے روایت کیا گیا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ میں نے ا ن کی زیارت کی تھی کہ باہر کے دروازے سے کمرہ تک کا فاصلہ چھ سات ہاتھ یعنی نودس فٹ کا ہوگا اور حجرہ مبارکہ کا کمرہ دس ہاتھ یعنی تقریبا پندرہ فٹ کا اور اونچائی سات آٹھ ہاتھ ہوگی۔ یہ حجرات مقدسہ ولید بن عبدالملک کے حکم سے مسجد نبوی میں شامل کردیے گئے۔ اگر وہ پکارنے والے صبر کرتے یہاں تک کہ آپ ان کی بات سننے کے لیے باہر تشریف لاتے تب اپنی گذارش پیش کرتے تو ان کے لیے باعث خیر ہوتا یہاں حتی تخرج الیھم سے مراد ہے کہ آپ ان کی طرف متوجہ ہوتے تب وگرنی اگر کسی اور غرض سے باہر تشریف لاتے بھی تو پکار کر اپنی طرف متوجہ کرنا درست نہ ہوتا۔ یہ چونکہ دین حاصل کرنے آئے تھے مخلص مسلمان تھے اور دیہاتی ہونے کے باعث آداب سے ناواقف لہذا نہیں فرمادیا کہ اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ مگر ان کی سادگی بھی ساری انسانیت کے لیے بارگاہ رسالت کے آداب بیان کرنے کا سبب بن کر باعث رحمت بن گئی۔ نیز مسلمانوں کو کسی شریر آدمی کی اطلاع پر بھروسہ بھی نہ کرنا چاہیے ، جو خواہ مخواہ آپ کی توہین یا آپ کی اطاعت سے انکار کی شکایت کرے تو اس خبر کی تحقیق کرلی جائے ایسا نہ ہو کہ غلطی سے کسی کو نقصان پہنچادو اور پھر اپنے کیے پر ندامت ہو۔ قبیلہ بنی المصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار جن کی صاحبزادی حضرت میمونہ امہات المومنین میں سے تھیں خدمت عالی میں حاضر ہو کر ایمان لائے اور قبیلہ کو بھی مسلمان کرنے اور ادائے زکوۃ کا حکم پہنچانے کی اجازت حاصل کی اور عرض کیا کہ فلاں وقت آپ اپنا قاصد روانہ فرمادیں جو وصول کرکے لے آئے گا۔ آپ ﷺ نے وقت مقررہ پر جس صحابی کو قاصد کے طور پر روانہ فرمایا ان کی پہلے اس قبیلہ سے دشمنی تھی وہ قاصد جان کر استقبال کو نکلے یہ سمجھے مجھے مارنے آرہے ہیں چناچہ پلٹ گئے اور شکایت کی ، آپ ﷺ نے حضرت خالد بن ولید کی سرکردگی میں فوج کا دستہ روانہ فرمایا مگر وہ قبیلہ والے راہی مدینہ تھے چناچہ سب مل کرلوٹے اور بارگاہ عالی میں حاضر ہوکر غلط فہمی کا ازالہ کیا۔ فاسق کی شہادت۔ اس آیت سے علماء نے ثابت فرمایا ہے کہ فاسق کی خبر پر عمل درست نہیں جب تک دوسرے ذرائع سے اس کی تحقیق نہ ہوجائے تو فاسق کی شہادت ہرگز قبول نہ ہوگی ۔ تفصیل کتب فقہ میں ہے کہ بعض عام خبروں میں قابل قبول ہے جیسے یہ بتائے کہ یہ ہدیہ فلاں نے بھیجا ہے مگر اہم امور میں جیسے یہاں جنگ کا اندیشہ ہے جائز نہیں۔ موجودہ ووٹ کی صورت۔ موجودہ ووٹ کی صورت بھی ایسی شہادت کی ہے جس سے حکومتیں بنتی ہیں اور ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے کرتی ہیں کاش یہ اصول بھی یہاں اپنایاجائے جس کا اپنایاجانا شرعا ضروری ہے۔ عدالت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ یہ خبر جس پر ساری غلط فہمی کا مدار تھا ایک صحابی نے دی تو کیا ان سے بھی فسق ہوا جبکہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل ہیں۔ علماء اہل سنت کا صحابہ کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ وہ معصوم نہیں ان سے گناہ سرزد ہوسکتا ہے ان پر شرعی سزا بھی جاری ہوگی مگر نصوص قرآن وسنت کی بنا پر کوئی صحابی ایسا نہیں جو گناہ سے توبہ کرکے پاک نہ ہوگیا ہو اور جن محدوے چند حضرات سے خطا ہوئی تو ان کی توبہ مثالی ہے اور اللہ کا ارشاد ہے ، رضی اللہ عنھم ورضواعنہ۔ شاہد ہے کہ رضائے الٰہی گناہوں کی معافی پر اور خاتمہ ایمان اور رضائے حق پر تب ہی حاصل ہوسکتی ہے نیز صحابیت کا شرف عام ہے کسی کو زیادہ مدت یہ سعادت نصیب رہی یا کوئی لمحہ نصیب ہواسب صحابی ہیں۔ اور یاد رکھو کہ تمہارے اندر رسول اللہ ﷺ تشریف فرما ہیں اس نعمت عظمی کا شکر ان کی غلامی کرکے ادا ہوسکتا ہے یہ نہ سوچا کرو کہ اپنی بات پیش کریں کہ اگر آپ تم لوگوں کی باتوں پہ چلیں تو بہت مشکل پڑے گی اور تمہارے لی باعث مضرت ہوگی جبکہ تمہارا آپ کی رائے پہ چلنا حصول رحمت کا باعث ہے ۔ مقام صحابہ۔ لہذا اطاعت رسول کے لیے اپنی رائے ختم کردو کہ شرف محبت رسول کے باعث اللہ نے تمہیں وہ عظمت عطا کی کہ تمہارے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دی اور اسے تمہارے دلوں میں پیوست کردیا کہ صحابہ اجمعین ہی محبت وعشق کی کامل مثال ہیں اور کفر یا گناہ ونافرمانی کے لیے تمہارے دلوں میں نفرت پیدا کردی جس کے نتیجے میں تم ہر آن رسول اللہ کی خوشنودی کی جستجو میں رہتے ہو اور یہی مثال لوگ ہیں جو اللہ کریم کے کرم سے راہ راست پر ہیں کہ یہ راستی ان پر اللہ کا انعام ہے اور اس کی بہت بڑی نعمت ۔ آج بھی آپ ہی کی شریعت اور احکامات و ارشادات موجود ہیں اور نبوت آپ ہی کی ہے آج بھی وہی درجہ اطاعت مطلوب ہے جو صحابہ کرام سے تھا۔ اور یہ جو آپ کے صحابہ کی عظمت کی خبر یہ اللہ نے دی ہے جو ہر بات سے واقف اور حکیم ودانا ہے۔ اگر مسلمانوں کے دو گروہوں میں تصادم ہوجائے تو ان کے درمیان اصلاح کی کوشش کرو اور صلح کرادی جائے اگر ان سے کوئی ایک دوسرے پر زیادتی سے باز نہ آئے تو اس سے لڑو تاآنکہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع ہوا اور صلح پر آمادہ ہوجائے تو ان کے درمیان جو بات جنگ کا باعث بنی ہو اس کو شرعی طریقے سے اور انصاف سے طے کردو تاکہ آئندہ جھگڑے کا خطرہ نہ رہے اور اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور باہمی صلح اور انصاف کا حکم اس لیے ہے کہ تمام مسلمان ایکد وسرے کے بھائی ہیں اور یہ معنوی رشتہ دنیا کے رشتہ سے مضبوط تر ہے لہذا بھائیوں کے درمیان صلح ہی زیب دیتی ہے لہذا صلح کردیا کرو اور تمام معاملات میں جنگ کے ہوں یاصلح کے اللہ سے ڈرتے رہا کرو وہ تم پر رحم کرے اور درست فیصلہ کرنے کی توفیق بخشے۔ مشاجرات صحابہ۔ علماء حق کا ارشاد ہے کہ یہ آیت مسلمانوں کی آپس میں تمام جنگوں کو شامل ہے خصوصا صحابہ کرام کی آپس کی آویزش کہ اگر قتال بھی ہواتوسب نے پورے خلوص کے ساتھ اجتہاد سے کام لیا اور سب کا مقصد رضائے الٰہی تھا لہذا بعدوالوں کو ان پر تنقید کرنے کا حق حاصل نہیں بلکہ ہمیشہ ان کا ذکر بہترین انداز میں کرنا ضروری ہے اس پر قرآن گواہ ہے اور بہت سی احادیث موجود ہیں تفاسیر میں اس پر بہت تفصیل سے لکھا گیا ہے۔
Top