بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - Al-Hujuraat : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا تُقَدِّمُوْا : نہ آگے بڑھو بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ : اللہ کے آگے وَرَسُوْلِهٖ : اور اسکے رسول کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : سننے والا جاننے والا
اے مومنو ! کسی بات کے جواب میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے پیش قدمی کی ممانعت تشریح : پہلی آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جب کوئی معاملہ پیش آئے تو اس کا حل خود سے کبھی پیش نہ کرو بلکہ سب سے پہلے قرآن میں دیکھو پھر احادیث میں پھر فرامین جاری کیے جائیں کسی بھی مسئلہ کا حل اپنے پاس سے پیش نہیں کرنا چاہیے۔ یہی حکم اجتماعی اور ملکی معاملات پر بھی عائد ہوتا ہے۔ اصل میں یہ اسلامی آئین کی بنیاد ہے۔ جج بھی اپنے فیصلے میں قرآن و سنت کے قوانین کا پابند ہے۔ مختلف احادیث اور قرآنی آیات بار بار اسی بات کی تلقین کرتی ہیں۔ رب العزت سے خوف کھانا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اللہ کا خوف انسان کو خود اعتمادی دیتا ہے اور تمام لوگوں سے بےنیاز کردیتا ہے۔ کیونکہ اس کا علم وسیع ہے جو اس نے قوانین بنا دئیے ہیں۔ وہی سب سے افضل و اعلیٰ اور مناسب ترین ہیں اور پھر یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ہر بات کو جانتا اور سنتا ہے۔ اس سے کوئی بات چھپی ہوئی نہیں۔ اسی سے مانگنا اور اسی کے احکامات پر عمل کرنا نجات کا ذریعہ ہے۔ دوسرا حکم نبی اکرم ﷺ کی عزت و احترام میں یہ دیا گیا ہے کہ یہ بھی آداب رسول ﷺ اور آداب محفل میں شامل ہے کہ جیسے لوگ آپس میں بےتکلفی سے اونچی آواز میں بات کرتے ہیں اس طرح اونچی آواز میں نبی کے سامنے ہرگز بات نہ کریں۔ کیونکہ یہ عمل اتنا ناپسندیدہ ہے کہ انسان کتنا بھی نیک پاک شریف اور پرہیزگار ہو اگر وہ رسول ﷺ سے بات کرتے ہوئے آداب کا لحاظ نہ رکھے گا تو وہ سمجھ لے کہ اس کے تمام اچھے اعمال ضائع ہوسکتے ہیں اور اسے اس بات کا پتہ بھی نہ چلے گا۔ پھر اس سے یہ بھی سمجھا دیا گیا ہے کہ انسان کی اصلیت اسی وقت پتہ چلتی ہے جب وہ کسی محفل کے آداب کا خیال رکھتا ہے۔ ایک بااصول شخص ایک بےاصول شخص کے برابر ہرگز نہیں ہوسکتا۔ حدیث میں آتا ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” کہ جب تمہارے پاس کسی قوم کا معزز آدمی آئے تو اس کی عزت کرو ”( ابن ماجہ) ۔ عام انسانوں کا بزرگوں کا احترام اپنی جگہ اخلاقی بلندی کا ثبوت ہے مگر رسول مکرم ﷺ کا ادب و احترام بہت بڑا اور خاص درجہ رکھتا ہے کیونکہ آپ ﷺ سے محبت اور آپ ﷺ کا احترام گویا اللہ سے محبت اور اللہ کے احترام کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ اللہ نے ہی آپ ﷺ کو اپنا رسول بنایا اور پھر ان کے احترام کا حکم بھی دیا کہ نہ ان کے آگے چلو نہ ان کے حکم کے خلاف کرو اور نہ ہی ان سے اونچی آواز میں بات کرو۔
Top