بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - Al-Hujuraat : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا تُقَدِّمُوْا : نہ آگے بڑھو بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ : اللہ کے آگے وَرَسُوْلِهٖ : اور اسکے رسول کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : سننے والا جاننے والا
مومنو ! (کسی بات کے جواب میں) خدا اور اسکے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو بیشک خدا سنتا جانتا ہے
ترجمہ :۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے، اب اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو قدم بمعنی تقدم سے مشتق ہے یعنی قول و فعل میں اللہ اور اس کے رسول پر جو اس کا پیغامبر ہے پیش قدمی نہ کرو یعنی ان دونوں کی اجازت کے بغیر اور اللہ سے ڈرت رہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہاری باتوں کو سننے والا تمہارے کاموں کو جاننے والا ہے، یہ آیت آنحضرت ﷺ کے حضور ابوبکر و عمر ؓ کے اقرع ابن حابس یا قعقاع بن معبد کو امیر بنانے میں نزاع کے بارے میں نازل ہوئی اور (آئندہ آیت) اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی کہ جس نے اپنی آواز کو آپ ﷺ کے حضور بلند کیا، اے ایمان والو ! جب تم گفتگو کیا کرو تو نبی کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کیا کرو جب وہ کلام کیر اور نہ اس کے سامنے اونچی آواز میں باتیں کرو جب تم اس سے سرگوشی کرو جیسا کہ تم آپس میں اونچی آواز سے باتیں کرتے ہو بلکہ اس کی آواز سے پست ہی رکھو، آپ کی جلالت شان کا خیال کرتے ہوئے تمہارے اعمال اکارت ہوجائیں اور تم کو اس کا احساس بھی نہ ہو، مذکورہ بلند اور اونچی آواز کی وجہ سے تمہارے اعمال کے ضائع ہونے کے پیش نظر (آپ ﷺ سے بلند آواز سے کلام نہ کرو) اور (آئندہ آیت) اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنی آواز کو آنحضرت ﷺ کے حضور پست کرتا تھا، جیسا کہ ابوبکر و عمر ؓ وغیرہ، بیشک وہ لول جو رسول اللہ کے حضور میں اپنی آوازوں کو پشت رکھتے ہیں یہی ہیں وہ لوگ جن کے قلوب کو اللہ نے تقویٰ کے لئے آزما لیا ہے تاکہ ان کا تقویٰ ظاہر ہوجائے ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے (یعنی) جنت اور نازل ہوئی ان لوگوں کے بارے میں جو دوپہر کے وقت آئے اور نبی ﷺ اپنے مکان میں تھے، سو انہوں نے آپ کو پکارنا شروع کردیا بلاشبہ وہ لوگ جو آپ کو حجروں کے باہر سے پکارت یہیں یعنی آپ ﷺ کے بارے میں یہ نہیں جانتے تھے کہ آپ کس حجرے میں ہیں ؟ کرختگی اور شدت کے ساتھ دیہاتیوں کے مانند پکارنا تھا ان میں کے اکثر آپ کے مقام بلند اور آپ کی مناسب تعظیم سے ناواقف تھے اس سلسلہ میں جو انہوں نے کیا اور اگر یہ لوگ صبر کرتے تاآنکہ آپ ﷺ خود ہی ان کی طرف نکلتے تو یہ ان کے لئے بہتر ہوتا انھم ابتداء کی وجہ سے محل رفع میں ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فعل مقدر کا فاعل ہے یعنی ثبت کا اللہ اس شخص کے لئے غفور اور رحیم ہے جس نے ان میں سے توبہ کی اور (آئندہ آیت) ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی اور آنحضرت ﷺ نے ان کو بنی مصطلق کی جانب محضل بنا کر بھیجا تھا، چناچہ انہوں نے اس عداوت کی وجہ سے جو ان کے اور بنی مطلق کے درمیان زمانہ جاہلیت میں تھی ان سے اندیشہ کیا، جس کی وجہ سے وہ واپس چلے آئے اور (آکر) کہہ دیا کہ انہوں نے صدقہ دینے سے انکار کردیا اور انہوں نے میرے قتل کا ارادہ کیا، چناچہ نبی ﷺ نے ان سے جنگ کرنے کا ارادہ فرما لیا، چناچہ اہل بنی مصطلق (آپ ﷺ کی خدمت میں) حاضر ہوئے اور ان کی طرف منسوب کر کے جو بات عقبہ ؓ نے آپ سے کہی اس کا انکار کیا، اے ایمان والو ! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دیا کرے تو اس کے سچ اور جھوٹ کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو اور ایک قرأت تثبتوا ہے ثبات سے، (یعنی توقف کرو، جلدی نہ کرو) ایسا نہ ہو کہ کہیں نادانی میں کسی قوم کو تکلیف پہنچا دو (ان تصیبوا) مفعول لہ ہے، یعنی اس اندیشہ کی وجہ سے بجھالۃ (تصیبوا) کے فاعل سے حال ہے اس حال میں کہ تم جاہل ہو پھر غلطی سے قوم کے ساتھ تم نے جو کچھ کر ڈالا اس پر شرمندہ ہوناپ ڑے ان حضرات کے اپنے شہروں کو واپس جانے کے بعد ان کے پاس آپ ﷺ نے خالد ؓ کو روانہ فرمایا، تو انہوں نے ان سے سوائے اطاعت اور خیر کے کچھ نہ دیکھا تو خالد ؓ نے اس امر کی خبر آنحضرت ﷺ کو روانہ فرمایا، تو انہوں نے ان سے سوائے اطاعت اور خیر کے کچھ نہ دیکھا تو خالد ؓ نے اس امر کی خبر آنحضرت ﷺ کو دی اور جان رکھو کہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول موجود ہیں، لہٰذا کوئی غلط بات نہ کہو اللہ تعالیٰ اس کو حقیقت حال کی خبر دیدیے گا اگر وہ بہت سے معاملات میں جن کی تم خلاف واقعہ خبر دیتے ہو تمہاری بات مان لیا کرے پھر اس پر اس کا مقتضیٰ بھی مرتب ہوجائے تو تم گنہگار ہو گے نہ کہ وہ (آپ ﷺ مرتب کا سبب بنے کی وجہ سے (نہ کہ اس کے ارتکارب کی وجہ سے) لیکن اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اسے تمہارے دلوں میں زینت بخشی (یعنی پسندیدہ بنادیا) کفر کو اور گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنادیا (لکن سے) استدراک ہے معنی کی حیثیت سے نہ کہ لفظ کی حیثیت سے اس لئے کہ من حبب الیہ الایمان الخ کی صفت متغایر ہے، ان کی صفت سے جن کا ذکر ماقبل میں ہوا ہے، یہی لوگ اس میں خطاب سے غیبت کی طرف التفات ہے، راہ یافتہ ہیں یعنی اپنے دین پر ثابت قدم رہنے والے ہیں اللہ کے فضل و احسان سے (فضلا) مصدر منصوب ہے اپنے فعل مقدر افضل کی وجہ سے، اور اللہ ان کے حالات سے واقف ہے اور ان پر انعام فرمانے کے بارے میں باحکمت ہے اور اگر مومنین کی دو جماعتیں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دیا کرو، یہ آیت ایک واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، واقعہ یہ ہے کہ ایک روز آپ ﷺ حمار پر سوار ہوئے اور آپ کا گذر عبد اللہ بن ابی کے پاس سے ہوا تو حمار نے پیشاب کردیا جس کی وجہ سے عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک دبائی، تو ابن رواحہ ؓ بولے، واللہ آپ ﷺ کے حمار کا پیشاب تیرم مشک سے زیادہ خوشبودار ہے سو ان دونوں کی قوموں کے درمیان ہا تھا پائی ہوگئی اور جوتے اور ڈنڈے چلنے لگے (طائفۃ) کی طرف نظر کرتے ہوئے، اقتتلوا کو جمع لائے ہیں، اس لئے کہ ہر طائفہ ایک جماعت ہوتی ہے اور اقتتلتا بھی پڑھا گیا ہے اور بینھما کو لفظ کی رعایت کرتے ہوئے، تثنیہ لایاگ یا ہے، پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو سب اس جماعت سے جو زیادتی کرتی ہے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے پس اگر لوٹ آئے تو انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (یاد رکھو) سارے مسلمان دینی بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں جب وہ جھگڑا کریں صلح کرا دیا کرو (اخویکم) کو تائے فوقانیہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور اصلاح کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر حم کیا جائے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : لاتقدموا اس میں دو صورتیں ہیں اول یہ کہ یہ متعدی ہے، تعمیم کے قصد سے اس کے مفعول کو حذف کردیا گیا ہے یا نفس فعل کا قصد کرنے کی وجہ سے مفعول کو تکر کردیا گیا ہے، جیسا کہ عرب کہتے ہیں فلان یمنع و یعطی دوسری صورت یہ کہ یہ لازم ہے جیسے وجہ و توجہ وہ متوجہ ہوا اور اسی کی تائید ابن عباس ؓ اور ضحاک اور یعقوب کی قرأت تقدموا کرتی ہے اور واحدی نے کہا ہے کہ قدم یہاں تقدم کے معنی میں ہے یعنی تم آگے نہ بڑھو (فتح القدیر) مفسر علام نے قدم بمعنی تقدم کہہ کر اشارہ کردیا کہ قدم لازم کے معنی میں ہے لہٰذا اس کا مفعول محذوف ماننے کی ضرورت نہیں۔ قولہ : المبلغ عنہ یہ رسولہ کی صفت ہے اور اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حکم و اجازت کے بغیر نہ قول میں سبقت کرو اور نہ فعل میں بعض حضرات نے کہا ہے کہ تقدموا کا مفعول محذوف ہے ای لاتقدموا امراً قولہ : اذا نا جبتموہ اس جملہ کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : اول جملہ یعنی لاترفعوا اصواتکم اور دوسرا جملہ ولاتجھروا لہ بالقول دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے جبکہ عطف مغایرت کا تقاضہ کرتا ہے تو پھر اس تکرار کا کیا مقصد ہے ؟ جواب :۔ دونوں جملوں کا مفہوم اور مصداق الگ الگ ہے، اول جملہ کا مفہوم یہ ہے کہ جب آپ ﷺ سے گفتگو ہو رہی ہو یعنی سوال و جواب ہو رہے ہوں تو اس طریقہ سے نہ بولو کہ تمہاری آواز آپ ﷺ کی آواز سے بلند ہوجائے اور دوسرے جملہ کا مطلب یہ کہ جب تم آپ ﷺ سے سوال کر رہے ہو اور آپ ﷺ خاموش سن رہے ہوں تو بھی زور زور سے نہ بولو جس طرح تم آپس میں بولتے ہو، لہٰذا تکرار کا شبہ ختم ہوگیا۔ قولہ : بل دون ذلک کا مطلب ہے کہ ہرحال میں اپنی آواز آپ ﷺ کی آواز سے پست رکھو، خواہ آپ سے گفتگو ہو رہی ہو یا تم بول رے ہو آپ ﷺ خاموش سن رہے ہوں۔ قولہ : اجلالاً یہ لاترفعوا ولاتجھروا کی علت ہے، مطلب یہ ہے کہ ہرحال میں آپ کی جلالت شان کا خیال رہنا چاہیے۔ قولہ : خشیۃ ذلک اس عبارت کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ان تحبط حذف مضاف کے ساتھ مفعول لہ ہونے کی وجہ سے منصوب المحل ہے، تقدیر عبارت یہ ہے انتھوا عما نھیتم لخشیۃ حبوط اعمالکم فائدہ : لاترفعوا اور لاتجھروا دونوں نے خشیۃ میں تنازع کیا ہے ہر ایک خشیۃ کو اپنا مفعول لہ بنانا چاہتا ہے، بصریین کے مذہب کے مطابق ثانی کو عمل دیا اور اول کے لئے مفعول لہ محذوف مان لیا (گویا کہ یہ باب تنازع فعلان سے ہے) قولہ : اولئک الذین الخ اولئک مبتداء ہے الذین امتحن اللہ موصول صلہ سے مل کر جملہ ہو کر ان کی خبر ہے۔ قولہ : لتظھر منھم اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : امتحان تقویٰ کا سبب نہیں ہوتا ہے حالانکہ امتحن اللہ قلوبھم اللتقویٰ میں متحان کو تقویٰ کا سبب بیان کیا گیا ہے۔ جواب : اختبار تقویٰ کا سبب نہیں ہے مگر ظہور تقویٰ کا سبب ضرور ہے یہ اطلاق السبب علی المسب کے قبیل سے ہے، اس لئے کہ امتحان دل کے اندر پوشیدہ تقویٰ کو ظاہر کردیتا ہے، اسی شبہ کو رفع کرنے کے لئے لتظھر منھم کا اضافہ کا یہ ہے۔ قولہ : ترۃ تاء کے کسرہ اور راء کی تخفیف کے ساتھ، بمعنی حسد، عداوت، شک قولہ : فتبتوا یہ تثبت سے امر کا جمع مذکر حاضر ہے تم توقف کرو جلدی نہ کرو۔ قولہ : خشیۃ ذلک یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان تصیبوا قوما، فتبینوا کا مفعول لہ ہے، ان تصیبوا سے پہلے مضاف محذوف ہے ای خشیۃ اصابۃ قوم قولہ : عنتم عنت سے ماضی جمع مذکر جمع مذکر حاضر، تم گنہگار ہوگئے تم مشکل میں پڑے گء۔ قولہ : دونہ یعنی دروغ گوئی اور غلط بیانی کی وجہ سے جو کچھ نتیجہ برآمد ہوگا اس کے ذمہ دار غلط بیانی کرنے والے ہوں گے نہ کہ آپ ﷺ اس لئے کہ آپ ﷺ تو تم لوگوں کی گواہی پر فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں۔ قولہ : اثم التسب الی المرتب یعنی لوگ مرتب شدہ نتیجہ کا ذریعہ اور سبب بننے کی وجہ سے گنہگار ہو گے نہ کہ ارتکاب فعل کی وجہ سے۔ قولہ : استدراک من حیث المعنی دون اللفظ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : سوال یہ ہے کہ لکن استدراک کے لئے ہے، اور استدراک کے لئے ضروری ہے کہ مابعد ماقبل کا نفیاً و اثباتاً مخالف ہو اور یہاں ایسا نہیں ہے لہٰذا یہ استدراک صحیح نہیں ہے۔ جواب :۔ لکن مابعد ماقبل سے اگرچہ نفیاً و اثباتاً ، لفظاً متغائر نہیں ہے مگر معناء متغائر ہے، لہٰذا استدراک صحیح ہے اور معنوی اختلاف یہ ہے کہ من حبب الیہ الایمان کی صفت ان لوگوں سے مختلف ہے جن کا ذکر سابق میں گذر چکا ہے اس طریقہ سے مستدرک مستدرک منہ سے مختلف ہے، لہٰذا استدراک بھی درست ہے۔ قولہ :۔ مصدر منصوب بفعلہ المقدر یعنی فضلاً اپنے فعل کا مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہے (مگر یہ صحیح نہیں ہے) اس میں تسامح ہے اس لئے کہ فضلاً اسم مصدر ہے مصدر اس کا افضالاً ہے، البتہ مفعول لہ درست ہے اور عامل اس میں حبب ہے عامل اور معمول کے درمیان اولئک ھم الراشدون جملہ معترضہ ہے۔ قولہ : اقتتلا جمع نظراً الی المعنی یہ ایک شواب کا جواب ہے۔ شبہ : اقتتلوا جمع کا صیغہ ہے حالانکہ اس کی ضمیر طائفتان تثنیہ کی طرف لوٹ رہی ہے، لہٰذا ضمیر و مرجع کے درمیان مطابقت نہیں ہے۔ دفع : طائفتان کے معنی کی طرف نظر کرتے ہوئے جمع کا صیغہ لایا گیا ہے، اس لئے کہ ہر طائفہ بہت سے افراد پر مشتمل ہوتا ہے، بینھما میں تثنیہ لایا گیا ہے، طائتان کے لفظ کی رعایت کرتے ہوئے۔ تفسیر و تشریح یہ سورت طوال مفعل میں سیپ ہلی سورت ہے، سورة حجرات سے سورة نازعات تک کی سورتیں طوال مفعل کہلاتی ہیں بعض نے سورة ق کو پہلی مفصل سورت قرار دیا ہے (ابن کثیر، فتح القدیر) ان سورتوں کا فجر کی نماز میں پڑھنا مسنون و مستحب ہے اور عبس سے سورة والشمس تک اوساطت مفصل اور سورة ضحی سے والناس تک قصار مفصل ہیں، ظہر و عشاء میں اوساطت اور مغرب میں قصار پڑھنی مسنون و مستحب ہیں۔ (ایسر التفاسیر) شان نزول : یایھا الذین آمنوا لاتقدموا (الٓایۃ) ان آیات کے نزول روایات حدیث میں بقول قرطبی چھ واقعات منقول ہیں اور قاضی ابوبکر بن عربی نے فرمایا کہ سب واقعات صحیح ہیں، کیونکہ وہ سب واقعات ان آیات کے مفہوم میں داخل ہیں، ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے جس کو امام بخاری نے روایت کیا ہے، واقعہ یہ ہے : ایک مرتبہ قبیلہ بنو تمیم کے کچھ لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، یہ بات زیر غور تھی کہ اس قبیلہ کا حاکم (امیر) کس کو بنایا جائے، حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے قعقاع بن معبد کے بارے میں رائے دی اور حضرت عمر ؓ نے اقرع بنحابس ؓ کے بارے میں رائے دی، اس معاملہ میں حضرت ابوبکر و عمر ؓ کے مابین آپ کی مجلس میں کچھ تیز گفتگو ہوگئی اور بات بڑھ گئی جس کی وجہ سے دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ زمانہ نزول : یہ بات روایات سے بھی معلوم ہوتی ہے اور سورت کے مضامین بھی اسی کی تائید کرتے ہیں کہ یہ سورت مختلف مواقع پر نازل شدہ احکام و ہدایات کا مجمعہ ہے، جنہیں مضون کی مناسبت سے ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے، اس کے علاوہ روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے اکثر احکام مدینہ طیبہ کے آخری دور میں نازل ہوئے ہیں مثلاً آیت 4 کے متعلق مفسرین کا بیان ہے کہ یہ بنو تمیم کے وفد کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جس وفد نے آ کر ازواج مطہرات کے حجروں کے باہر سے نبی ﷺ کو پکارنا شروع کردیا تھا اور تمام کتب سیرت میں اس وفد کی آمد کا زمانہ 9 ھ بیان کیا گیا ہے، اسی طرح آیت 6 کے متعلق حدیث کی اکثر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ولید بن عقبر ؓ کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہیں رسول اللہ ﷺ نے بنی مصطلق سے زکوۃ وصول کرنے کے لانے کے لئے بھیجا تھا اور یہ بات معلوم ہی ہے کہ ولید بن عقبہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔ لاتقدموا یعنی آنحضرت ﷺ کے سامنے پیش قدمی اور سبقت نہ کرو، کس چیز میں پیشقدمی کو منع کیا گیا ہے ؟ اسکا ذکر قرآن میں نہیں ہے، اس میں عموم کی طرف اشارہ ہے، یعنی کسی بھی قول وفعل میں آنحضرت ﷺ سے پیش قدمی نہ کرو بلکہ انتظار کرو کہ رسول اللہ ﷺ کیا جواب دیتے ہیں ؟ البتہ اگر آپ ہی کسی کو جواب کے لئے مامور فرما دیں تو جواب دے سکتا ہے، اسی طرح چلنے میں بھی کوئی آپ سے سبقت نہ کرے، اگر مثلاً کھانے کی مجلس ہے تو آپ سے پہلے کھانا شروع نہ کرے مگر قرائن یا صراحت سے اجازت معلمو ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ علماء دین اور دینی مقتدائوں کے ساتھ بھی یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے : بعض مشائخ نے فرمایا ہے کہ علماء و مشائخ دین کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ وہ وارث انبیاء ہیں اور دلیل اس کی یہ واقعہ ہے ایک روز حضرت ابولدرداء ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر ؓ کے آگے چل رہے ہیں تو آپ ﷺ نے تنبیہ فرمائی اور فرمایا کہ کیا تم ایسے شخص کے آگے چل رہے ہو جو دنیا و آخرت میں تم سے بہتر ہے اور فرمایا کہ دنیا میں آفتاب کا طلوع و غروب کسی ایسے شخص پر نہیں ہوا کہ جو انبیاء (علیہم السلام) کے بعد ابوبکر سے افضل ہو۔ (روح البیان معارف) لاتقدموا بین یدی اللہ و رسولہ کا یہ مطلب بھی ہے کہ دین کے معاملہ میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہ کرو بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اپنی طرز سے دین میں اضافہ یا بدعات کی ایجاد اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنے کی بےجا جسارت ہے۔ لاترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی اس آیت میں آپ ﷺ کی مجلس کا ادب بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے آپ ﷺ کی آواز سے زیادہ آواز بلند سے اس طرح گفتگو کرنا جیسے آپس میں ایک دوسرے سے بےمحابا کیا کرتے ہیں، ایک قسم کی بےادبی اور گستاخی ہے، چناچہ آیت کے نزول کے بعد صحابہ کرام کا یہ حال ہوگیا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ قسم ہے کہ اب مرتے دم تک آپ سے اس طرح بولوں گا جیسے کوئی کسی سے سرگوشی کرتا ہو۔ (درمنشور، ازبیھقی)
Top