بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Al-Hujuraat : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا تُقَدِّمُوْا : نہ آگے بڑھو بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ : اللہ کے آگے وَرَسُوْلِهٖ : اور اسکے رسول کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : سننے والا جاننے والا
اے ایمان والو ! تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ (کی اجازت) سے پہلے آگے نہ بڑھو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اللہ بہت سننے والا اور خوب جاننے والا ہے
لغات القرآن آیت نمبر (1 تا 5) ۔ لا تقد موا (تم آگے نہ بڑھو) ۔ لا تر فعوا (بلند مت کرو) ۔ اصوات (صوت) (آوازیں) ۔ لا تجھروا (چلاؤمت۔ شور مت کرو) ۔ تحبط (ضائع کرتا ہے) ۔ یغضون (دھیما کرتے ہیں۔ نیچی کرتے ہیں) ۔ امتحن ( امتحان لیا۔ آزمایا) ۔ ینادون (وہ آوازیں دیتے ہیں) ۔ وراء (پیچھے) ۔ الحجرات (الحجرۃ) (حجرے۔ کمرے) ۔ تشریح : آیت نمبر ( 1 تا 5 ) ۔” سورة الحجرات میں اہل ایمان کو رسول اللہ ﷺ سے ملنے اور آپ کی خدمت میں حاضری کے آداب و احکامات، آپ ﷺ سے محبت اور اصلاح نفس کے بنیادی اصول سکھائے گئے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و محبت سے دنیا اور آخرت کی تمام کامرانیاں حاصل ہو سکیں۔ اصل میں مدینہ منورہ کے آس پاس کی بستیوں میں رہنے والے نئے نئے مسلمان ابتداء میں بہت سے ان اصولوں سے واقف نہ تھے جو اللہ کے محبوب نبی اور رسول اللہ ﷺ سے فیض حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ تھے سادو اور بےتکلف معاشرہ تھا جس کی وجہ سے بعض قبیلوں کے سردار جب آپ کے پاس آتے اور آپ کو گھر سے باہر نہ دیکھتے تو رواج کے مطابق گھرکے باہر سے آپ کو آوازیں دیتے اور کہتے ” یا محمد اخرج الینا “ اے محمد ﷺ ہمارے لئے باہرآئیے۔ اسی طرح جب آپ کسی مجلس میں کچھ ارشاد فرماتے یا آپ تشریف رکھتے تھے تو آپس میں اس طرح زور زور سے بالتے کہ جس سے آپ ﷺ کی آواز دب جاتی یا جب آپ چلتے تو لوگ آپ سے آگے چلتے یا بہت سی باتوں میں مشورہ مانگے بغیر اپنی رائے دیدیتے ۔ ان تمام باتوں سے رسول اللہ ﷺ کو تکلیف پہنچتی تھی اس لئے ان آیات میں اہل ایمان کی تربیت کے لئے چند بنیادی اصولوں کو بتایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلا اصول یہ ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو ! رسول اللہ ﷺ کے سامنے اپنی رائے مت چلاؤ۔ جب آپ کوئی فیصلہ فرما رہے ہوں تو اپنی رائے پیش نہ کرو۔ اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرو۔ اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ وہ تمہاری ہر بات کو سنتا ہے اور تمہارے ہر معاملے کی پوری حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر رسول اللہ ﷺ کسی بات میں مشورہ طلب فرمائیں تو اپنی رائے اور مشورہ پیش کیا جائے اگر مشورہ نہ فرمائیں تو اپنی رائے سے کوئی بات نہ کریں۔ بعض علماء و مفسرین نے اس آیت کا مفہوم یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ اس اصول کے تحت اپنے کسی بڑے اور بزرگ کے آگے آگے چلنا اور دوسرے معاشرتیآداب میں پہل کرنا مناسب نہیں ہے چناچہ ایک دن نبی کریم ﷺ نے دیکھا کہ حضرت ابودردائ ؓ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے آگے چل رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ اے ابو درداء ؓ تم ایسے شخص کے آگے چل رہے ہو جو دنیا اور آخرت میں تم سے بہتر ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دنیا میں سورج کا طلوع و غروب کسی ایسے شخص پر نہیں ہوا جو انبیاء کے بعد ابوبکر سے بہتر و افضل ہو۔ (روح البیان) ۔ دوسرا ادب یہ سکھایا گیا کہ جب اہل ایمان رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں بیٹھیں تو اپنی آواز کو نبی کریم ﷺ کی آواز سے اونچا اور بلند نہ کریں اور اس طرح بات نہ کریں جس طرح وہ آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔ فرمایا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے سارے اعمال غارت ہوجائیں اور تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔ ادب یہ سکھایا گیا کہ وہ جب آپ کی مجلس میں آئیں تو ادب و احترام کا پیکر بن کر آئیں۔ دھیمی آواز سے بات کریں اور شور نہ مچائیں۔ علماء مفسرین نے اس ادب کے ضمن میں یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ اپنے بزرگوں سے بات چیت اور گفتگو کرتے وقت ان کے مرتبے اور مقام کا لحاظ رکھا جائے اور گفتگو میں کوئی ایسا طریقہ اخیتار نہ کریں جس سے ان کے بزرگوں کو یا والدین کو کسی طرح کی تکلیف پہنچے۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ محتاط ہوگئے اور ایک دن عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اللہ کی قسم اب مرتے دم تک آپ سے اسی طرح بولوں گا جیسے کوئی سر گوشی کرتا ہے۔ (در منثور) ۔ سیدنا حضرت عمر فاروق کی آواز اس قدر اونچی تھی کہ اگر مکہ کے کسی پہاڑ پر گفتگو کر رہے ہوتے تو شہر مکہ تک آپ کی آواز پہنچتی تھی لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد وہ نبی کریم ﷺ کی مجلس میں اس قدر آہستہ بولنے لگے تھے کہ بعض صحابہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم ان سے پوچھتے کہ اے عمر ؓ تم نے ہم سے کچھ کہا ہے ؟ اسی طرح حضرت ثابت بن قیس ؓ کی آواز کافی بلند تھی وہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بہت روئے اور اپنی آواز کو بہت پست کرلیا۔ (درمنثور) ۔ صحابہ کرام ؓ کے اس ادب سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور اکرم ﷺ کے روضہء اقدس پر حاضری کے وقت آپ کی تعظیم کا تقاضا یہ ہے کہ پورے ادب و احترام کے ساتھ آہستہ آواز سے درود سلام پڑھا جائے۔ زور سے سلام پڑھنے کی اجازت نہیں ہے ۔ اسی طرح جس جگہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث پڑھی پڑھائی جارہی ہوں وہاں بھی آپ کے کلام کا ادب یہ ہے کہ خاموشی اختیار کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے سامنے نرم اور دھیمی آواز سے بولتے ہیں ان کے دلوں کو اللہ نے نیکی اور پرہیز گاری کے لئے جانچ لیا ہے۔ ان کی خطائیں معاف کردی گئی ہیں اور ان کے لئے بہت زیادہ اجر وثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اہل ایمان کو تیسرا ادب یہ سکھایا گیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے آرام کا خیال بھی کھیں اگر آپ اپنے گھر کے اندر ہوں تو آپ کو باہر سے اس طرح آوازیں نہ دی جائیں جس طرح عام طور پر ایک دوسرے کو آوازیں دی جاتی ہیں بلکہ آپ کے احترام کا تقاضایہ ہے کہ جب آپ باہر تشریف لے آئیں تو آپ سے ادب و احترام کے ساتھ گفتگو کی جائے اور آپ کے باہر آنے کا انتظار کیا جائے۔ صحابہ کرام ؓ تہ حضور اکرم ﷺ کے فیض صحبت سے ادب و احترام کا پیکربن چکے تھے لیکن جو لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ان کے سردار حضور اکرم ﷺ کو اپنے رواج کے مطابق گھر کے باہر سے آوازیں دیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگ ناسمجھ ہیں ان کو حضور اکرم ﷺ کے باہر تشریف لانے کا انتظار کرنا چاہیے اسی میں ان کے لئے بہتری ہے بہر حال اگر ناسمجھی میں غلطی ہوگئی ہو تو اللہ مغفرت کرنے والا مہربان ہے۔
Top