بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Hujuraat : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا تُقَدِّمُوْا : نہ آگے بڑھو بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ : اللہ کے آگے وَرَسُوْلِهٖ : اور اسکے رسول کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : سننے والا جاننے والا
اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ (الحجرات : 1) (اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ ) ایمان کا اولین تقاضا اور اسلامی قانون کی پہلی دفعہ یہ ایمان کا اولین تقاضا بھی ہے اور اسلامی قانون کی پہلی دفعہ بھی۔ انفرادی زندگی بھی اسی پر استوار ہوتی ہے اور اجتماعی زندگی کی خشت اول بھی یہی ہے جس کو نہایت فصاحت و بلاغت سے سمیٹ کر اس طرح فرمایا گیا ہے کہ اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو۔ یعنی پہلی بات یہ ہے کہ سمع و اطاعت کے حقوق کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول میں کوئی فرق نہیں۔ جس طرح ہرحال میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ اس کی اطاعت بھی ضروری ہے اور اس پر کسی قسم کی شرط عائد نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت بھی ہر موقع پر، ہرحال میں ضروری اور لازمی ہے۔ جو شخص واقعی دل میں ایمان رکھتا ہے وہ کبھی بھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتا کہ میں زندگی کا کوئی فیصلہ اور کوئی عمل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی رہنمائی کے بغیر کرسکتا ہوں۔ وہ ہر کام اور ہر فیصلہ کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری سمجھتا ہے کہ کیا اس معاملے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے کوئی رہنمائی دی ہے۔ اور اگر اسے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول کوئی رہنمائی دے چکے ہیں تو وہ اس سے صرف نظر کرنا یا اس سے تغافل برتنا اپنے لیے حرام سمجھتا ہے۔ کیونکہ وہ یہ جان چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان کا تقاضا اس کی پیروی اور اس کی اطاعت ہے۔ میں ان سے آگے نہیں بلکہ پیچھے چلنے کا پابند ہوں۔ مجھے مقدم نہیں بلکہ ان کا تابع بنایا گیا ہے۔ اس کا اطلاق اس کی انفرادی زندگی پر بھی ہوتا ہے اور اجتماعی زندگی پر بھی۔ یعنی جس طرح ایک فرد اللہ تعالیٰ کے قانون کو جاننے کی کوشش کیے بغیر اور اس کو نظرانداز کرتے ہوئے ازخود کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا، اسی طرح مسلمانوں کی حکومت، ان کی عدالتیں، ان کی پارلیمنٹ بھی اپنے طور پر اس قانون سے آزاد ہو کر کسی فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں۔ حدیث کی بیشتر کتابوں میں صحیح سندوں کے ساتھ یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جب حضرت معاذ ( رض) بن جبل کو یمن کا حاکم عدالت بنا کر بھیجا تو آپ نے پوچھا کہ معاذ تم کس چیز کے مطابق فیصلے کرو گے۔ انھوں نے عرض کیا، کتاب اللہ کے مطابق۔ آپ نے پوچھا اگر کتاب اللہ میں کسی معاملے کا حکم نہ ملے تو کس چیز کی طرف رجوع کرو گے، انھوں نے کہا سنت رسول اللہ کی طرف۔ آپ نے فرمایا، اگر اس میں بھی کچھ نہ ملے، انھوں نے عرض کیا، پھر میں خود اجتہاد کروں گا۔ اس پر حضور ﷺ نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا، شکر ہے اس پروردگار کا جس نے اپنے رسول کے نمائندے کو وہ طریقہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائی جو اس کے رسول کو پسند ہے۔ اور وہ توفیق کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے اپنے اجتہاد پر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو مقدم رکھا۔ اور کسی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ان دونوں سے اچھی طرح رہنمائی لینے کی کوشش کی۔ مایوسی کی صورت میں اس نے اجتہاد کی طرف توجہ کی۔ درحقیقت یہی وہ چیز ہے جو ایک مسلمان جج کو غیرمسلم جج سے ممتاز کرتی ہے۔ مسلمان پارلیمنٹ کوئی بھی فیصلہ دینے سے پہلے یہ دیکھنا اپنے ایمان کا تقاضا سمجھتی ہے کہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی رہنمائی کیا ہے، یعنی قرآن و سنت اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔ اور آج کے دور میں ان دونوں کے بعد یہ بھی دیکھا جائے گا کہ کیا اس معاملے کے بارے میں امت کا کوئی اجماع موجود ہے یا نہیں۔ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں چونکہ اجماع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، اس لیے صرف کتاب اللہ اور سنت رسول کو دیکھنا ضروری تھا۔ اور اس کے بعد فقہائے امت کی وہ کاوشیں ہیں جو فقہی سرمائے کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ امت کے اہل علم نہایت اخلاص کے ساتھ ان سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے یہ بات بےحد ضروری ہے کہ ہر فیصلے اور اقدام سے پہلے اور ہر کاوش اور تحقیق سے پہلے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ دل میں موجود ہو۔ نفس کے تقاضے کسی وقت بھی آدمی کو بہکا سکتے ہیں صرف تقویٰ ہی ہے جو انسان کو اس سلسلے میں نور فراہم کرتا ہے۔ اور تقویٰ اس دل میں کبھی نہیں آتا جو ہمیشہ اس بات سے گراں بار نہیں رہتا کہ اللہ تعالیٰ سمیع بھی ہے اور علیم بھی ہے۔ وہ ہمارے باہمی مشوروں اور ہماری سرگوشیوں کو بھی سنتا ہے اور ہمارے فیصلوں کے محرکات تک سے واقف ہے۔
Top