بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - Al-Hujuraat : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا تُقَدِّمُوْا : نہ آگے بڑھو بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ : اللہ کے آگے وَرَسُوْلِهٖ : اور اسکے رسول کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : سننے والا جاننے والا
اے ایمان والو ! تم اللہ اور اس کے رسول سے سبقت نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو بلاشبہ اللہ سننے والا خوب جاننے والا ہے
سورة الحجرات مدینہ اللہ رب کریم اور نبی اعظم و آخر ﷺ کے سامنے بڑھ کر بات کرنے کی ممانعت 1 ۔ اس سورة مبارکہ میں مسلمانوں کو آداب سکھائے گئے ہیں جیسا کہ ہم نے تعارف میں عرض کردیا ہے اور آداب جمع ہے ادب کی اس لیے سمجھ لینا چاہیے کہ ادب کیا ہے ؟ ادب اس چیز کو کہتے ہیں جس کو عام بول چال میں پاس کرنا اور لحاظ رکھنا کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے جس کا ادب کیا جائے اس کے تعلق سے ادب حق ہے اور ادب کرنے والے کے تعلق سے فرض۔ انسان اگر فی الواقع انسان ہے اور انسانیت کو ضائع نہیں کر بیٹھا تو وہ اپنے سے برتر کا ادب کرتا ہے اور پھر برتری کی کئی صورتیں ہیں مثلاً رشتے اور قرابت کی برتری ہے ، عمر کی برتری ہے ، علم و ہنر کی برتری ہے ، استاد و معلم کی برتری ہے ، حکومت کی برتری ہے ، دولت کی برتری ہے ، احسان کی برتری ہے ، دینداری کی برتری ہے اور پھر سب سے بڑھ کر نبوت و رسالت کی برتری ہے جس کا اس جگہ ذکر مقصود ہے اس برتری میں سارے نبی و رسول آتے ہیں اور ہمارے لیے ان کی برتری پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے اور ہمارے نبی و رسول خاتم النبیین ﷺ کا ادب و احترام معلوم کرنے کے لیے کیا صورت ہوگی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہی ایک صورت ہے جو مجھ سے پہلے کسی نے کہہ دی ہے کہ ع ” بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر “ اور جو ادب کے طریقے اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں بتائے ہیں ان کا ذکر کیا جارہا ہے ان سب کا ماحصل معلوم کرنا ہے تو وہ یہ کہ عبادت کے لائق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس کے سوا اور کوئی نہیں جس کی عبادت کی جائے بس کوئی ایسا نہ ہو جس پر عبادت کا لفظ اطلاق کرے باقی ساری تعظیموں اور توقیروں سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و توقیر لازم و ضروری ہے کیونکہ آپ ﷺ ہی ساری برتویوں سے زیادہ برتر ہیں زیر نظر آیت میں ادب و احترام کے درس کا آغاز لفظ (لاتقدموا) سے بیان کیا گیا ہے مفسرین کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنے پیشوا و راہنما کے حکم کے بغیر خود ہی امرو نہی کے نافذ کرنے میں جلدی کرے تو اس کے متعلق عرب کہتے ہیں فلان قدم بین یدی امامہ یعنی فلاں شخص اپنے امام و پیشوا کے آگے آگے چلتا ہے اور ابن کثیر (رح) نے ابن عباس ؓ سے اس جملہ کی تفسیر اس طرح نقل کی ہے کہ عن ابن عباس ؓ عنھما لا تقولو اخلاف ال کتاب والسنۃ کتاب و سنت کی خلاف ورزی مت کرو ، کتاب اللہ کی خلاف ورزی اللہ سے آگے بڑھنے کی کوشش اور سنت کی خلاف ورزی رسول اللہ ﷺ سے آگے بڑھنے کی کوشش تصور کی جائے گی جس کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کے بعد کسی شخص کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے رب کریم اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے علی الرغم کوئی بات کہے یا کرے کیونکہ جو شخص اپنے مسلمان ہونے کا اعلان و اعتراف کرتا ہے تو گویا وہ اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ آج کے بعد اس کی خواہش ، اس کی مرضی ، اس کی مصلحت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم پر بلاحیل و حجت قربان کردی ہے اور پھر اس کا یہ کہنا اس کی خشصی اور انفرادی زندگی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ قومی اور اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں ، سیاسی ، اقتصادی اور اخلاقی پر بھی محیط ہے گویا نہ کسی فرد کو یہ حق ہے کہ وہ کوئی ایسا قانون بنائے جو کتاب و سنت سے متصادم ہو اور نہ ہی کسی عدالت کو یہ حق ہے کہ وہ احکام الٰہی اور احکام رسول ﷺ کے برعکس کوئی فیصلہ دے اگر کوئی فرد یا کوئی جماعت یا کوئی عدالت ایسا کرے گی تو وہ فرد مسلمان ، جماعت مسلمانوں کی جماعت اور عدالت اسلامی عدالت نہیں کہلا سکتی اور نہ ہی وہ فیصلہ کرنے والا ایک مسلمان جج ہوسکتا ہے خواہ وہ کوئی ہو ، کون ہو اور کیسا ہو۔ ایک بار پھر غور کرو کہ اس جگہ جو لفظ استعمال ہوا وہ ہے (لاتقدموا) اور تقدموا تقدیم سے ہے اور تقدیم چار طرح سے ہوتی ہے : 1 ۔ مکان کے لحاظ سے ۔ 2 ۔ زمانہ کے لحاظ سے ۔ 3 ۔ مرتبہ کے لحاظ سے۔ 4 ۔ ترتیب ضاعی کے لحاظ سے اور قدم کے معنی ہیں کسی چیز کو آگے کیا جائے گا بھجال جائے گا جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے کہ : (لمئس ماقدمت لھم انفسھم) (80:5) ” بہت ہی برا ہے جو انہوں نے اپنی جانوں کیلئے اگے بھیجا ہے “ اور ایک جگہ ارشاد ہوا کہ (یقدم قومہ بوم القیامہ) (98:11) ” قیامت کے روز وہ اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا “ اس جگہ نفی کیلئے ارشاد فرمایا کہ : (لاتقدموا) جب تم کو کسی کام کا حکم دیا جائے تو اسے اس کے اس وقت سے پہلے نہ کرو جس وقت تمہیں کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور (قدم بین یدیہ) کے معنی آگے بڑھنے کے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ (قدم) متعدی ہے یعنی ایک چیز کو دوسری سے آگے کرنا اور اس میں دو احتمال کئے گئے ہیں ایک یہ کہ مفعول کو چھوڑ دیا گیا ہے اور نفس فعل کی تقدیم ہی مراد ہے یعنی تقدیم مت اختیار کرو اور دوسرا یہ کہ مفعول کو عام رکھنے کی خاطر حذف کردیا گیا ہے اور دونوں ہی احتمال صحیح اور درست ہیں اور ابن کثیر کے حوالہ سے ہم نے اوپر ذکر کیا ہے کہ عبداللہ بن عباس ؓ نے اس کو اختیار کیا ہے یعنی کتاب و سنت کے خلاف مت کرو یا مت کہو ( بین یدیہ) کا استعمال قرآن کریم میں عام ہے اس کے لیے دیکھیں عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة البقرہ آیت 66 ، جلد دوم آل عمران آیت 50 ، جلد سوم سورة الاعراف آیت 17 ، جلد ہفتم سورة سبا آیت 31 اور آیت 46 وغیرہ وغیرہ۔ زیر نظر آیت کے شان نزول میں کئی باتیں کہی گئی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ باتیں کچھ بھی بیان ہوئی ہوں جب حکم عام ہے تو ان باتوں کے ذکر کرنے کی ضرورت کیا ہے اور اس تحقیق کی کہ آیا ان میں سے کون سی بات اصل سے تعلق رکھتی ہے بات عام اور واضح ہے اور اختصار اس کا یہ ہے کہ جب کسی بھی دنیا کی چیز کی محبت نبی اعظم و آخر ﷺ کی محبت پر فوقیت لے گئی تو گویا ایمان رخصت ہوگیا اور یہی بات آپ ﷺ نے خود ارشاد فرمائی جہاں آپ ﷺ نے فرمایا کہ : ( لا یومن احد کم حتیٰ کون احب الیہ من والدہ و والدہ والناس اجمعین) ” تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ مجھے اپنے باپ ، بیٹے اور دنیا کے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ سمجھے “ اور اس بات کی تصدیق زبان نہیں عمل ہی کرسکتا ہے جس کو یہ بات میسر آگئی لاریب وہ مومن ہوگیا اور خالی دعوئوں کی حیثیت جو کچھ ہوتی ہے وہ سب پر عیا ہے اس لیے ہر آدمی کو خود اپناجائزہ لے کر فیصلہ کرلینا چاہیے اللہ تعالیٰ توفیق دے اور یہ بات پہلے معلوم ہے کہ آپ ﷺ کی تعظیم ہی اللہ کی تعظیم ہے اور آپ ﷺ کا ادب و احترام ہی اللہ کا ادب و احترام ہے آپ ﷺ کی پیروی و اتباع اللہ کی پیروی و اتباع ہے اللہ کا حق بندوں پر صرف یہ ہے کہ وہ اس ذات الٰہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں خواہ وہ کوئی نبی و رسول ہی کیوں نہ ہو یہ شرک ہے اور اللہ کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں کیا جاسکتا اور جس کو بھی شریک مانا یا سمجھا جائے وہ کفر ہے اس آیت کے ضمن میں بہت سے مسائل ذکر کئے جاسکتے ہیں اور اس کی جنتی وضاحت کی جائے اتنی ہی کم ہے لیکن طول کلامی سے بچنے کے لیے اور اختصار کے پیش نظر ہم یہ کہیں گے کہ یہ بات معلوم ہوجانے کے بعد کہ فلاں معاملہ میں نبی اعظم و آخر ﷺ کا یہ حکم یا یہ فرمان ہے پھر جو شخص کسی امام ، پیشوا ، پیرو مرشد یا مذہبی اور سیاسی راہنما کی بات کا منتظر رہے کہ ہمارے امام ، پیشوا ، پیرو مرشد یا مذہبی و سیاسی لیڈر نے کیا فرمایا ہے لاریب وہ اس کی زد میں آتا ہے خواہ وہ کوئی ہے کون ہے اور کیسا ہے اس کسوٹی پر ہر ایک شخص کا حق ہے کہ وہ اپنی حالت کی خود جانچ پڑتال کرے کیونکہ یہ معاملہ بہت ہی نازک ہے اور جتنا نازک ہے اس سے بھی زیادہ اہم ہے اس وقت فی زمانا اس کسوٹی کی بہت ضرورت ہے کیونکہ ہماری محبتوں کا جو حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور آپ ﷺ کے ادب کا کون دعویدار نہیں ہم میں سے ہر ایک کا دعویٰ یین ہے کہ وہ جو ادب و احترام نبی کریم ﷺ کا کرتا ہے کوئی ایسا ادب و احترام نہیں کرسکتا یہاں تک کہ کوئی بانڈھ ، ڈوم ، قوال اور گانے بجانے والا بھی ایسا نہیں جو اس بات کا زحم اپنے اندر نہ رکھتا ہو۔ ایک بات مزید سن لیں اور اس کے بعد آگے بڑھتے ہیں وہ بات یہ ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کے ادب کے متعلق ہمارے بھائیوں سے ایک غلطی یہ بھی ہوئی ہے کہ وہ افراط ادب میں مبتلا ہوجاتے ہیں وہ یہ کہ پیغبر اعظم و آخر ﷺ کو خدا اور ادب کو عبادت بنا دیتے ہیں حالانکہ یہی بات شرک کہلاتی ہے۔ احمد کو ہم نے جان رکھا ہے وہی احد مذہب کچھ اور ہوگا کسی بو الفضول کا اور یہ بات جو سنی گئی ہے عرض کرنے میں کیا قباحت ہے کہ ” انا احمد بلامیم والعرب بلاعین “ یہ محبت نہیں بلکہ سو جھوٹوں کا ایک جھوٹ ہے اور ہم کو کہہ دینا چاہیے کہ سبحانک ھذا بھتان عظیم حاشاکلا یہ بہت بھاری بہتان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ (وما یومن اکثرھم باللہ الا وھم مشرکون) اکثر لوگوں کا حال ایسا ہی ہے کہ اللہ رب کریم کو مانتے ہیں اور شرک بھی کرتے جاتے ہیں مختصر یہ کہ اس سورت کے مضامین کا صل مقصد مسلمانوں کی باہم اخوت قائم کرنا ہے اس لیے اس کی ابتدا اس سے کی ہے کہ سب کے سب اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت کو باقی سب باتوں پر مقدم کریں اور یہی اخوت اسلامی کی بنیاد ہے اور باہمی محبت قائم ہی نہیں ہوسکتی جب تک کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کی محبت باقی سب محبتوں پر فوقیت نہ رکھتی ہو جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد اوپر نقل کیا جاچکا ہے اس کی مزید وضاحت درکار ہو تو عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة التوبہ کی آیت 108 ، جلد دوم سورة المائدہ 101 ، جلد چہارم سورة الانفال آیت 20 ، جلد ہفتم سورة الاحزاب آیت 53 ، سورة النور 62 ، 63 کی تفسیر دیکھیں۔
Top