بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafheem-ul-Quran - Al-Hujuraat : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا تُقَدِّمُوْا : نہ آگے بڑھو بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ : اللہ کے آگے وَرَسُوْلِهٖ : اور اسکے رسول کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : سننے والا جاننے والا
اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کےرسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو1 اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔2
سورة الْحُجُرٰت 1 یہ ایمان کا اولین اور بنیادی تقاضا ہے۔ جو شخص اللہ کو اپنا رب اور اللہ کے رسول کو اپنا ہادی و رہبر مانتا ہو، وہ اگر اپنے اس عقیدے میں سچا ہے تو اس کا یہ رویہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ اپنی رائے اور خیال کو اللہ اور رسول کے فیصلے پر مقدم رکھے یا معاملات میں آزادانہ رائے قائم کرے اور ان کے فیصلے بطور خود کر ڈالے بغیر اس کے کہ اسے یہ معلوم کرنے کی فکر ہو کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ان معاملات میں کوئی ہدایت دی ہے یا نہیں اور دی ہے تو وہ کیا ہے۔ اسی لیے ارشاد ہوا ہے کہ اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کے آگے " پیش قدمی نہ کرو "، یعنی ان سے آگے بڑھ کر نہ چلو، پیچھے چلو۔ مقدم نہ بنو، تابع بن کر رہو۔ یہ ارشاد اپنے حکم میں سورة احزاب کی آیت 36 سے ایک قدم آگے ہے۔ وہاں فرمایا گیا تھا کہ جس معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے کردیا ہو اس کے بارے میں کسی مومن کو خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا۔ اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ اہل ایمان کو اپنے معاملات میں پیش قدمی کر کے بطور خود فیصلے نہیں کرلینے چاہئیں بلکہ پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت میں ان کے متعلق کیا ہدایات ملتی ہیں۔ یہ حکم مسلمانوں کے محض انفرادی معاملات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان کے جملہ اجتماعی معاملات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ در حقیقت یہ اسلامی آئین کی بنیادی دفعہ ہے جس کی پابندی سے نہ مسلمانوں کی حکومت آزاد ہو سکتی ہے، نہ ان کی عدالت اور نہ پارلیمنٹ۔ مسند احمد، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں یہ روایت صحیح سندوں کے ساتھ منقول ہوئی ہے کہ نبی ﷺ جب حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا حاکم عدالت بنا کر بھیج رہے تھے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ تم " کس چیز کے مطابق فیصلے کرو گے ؟ " انہوں نے عرض کیا " کتاب اللہ کے مطابق "۔ آپ نے پوچھا " اگر کتاب اللہ میں کسی معاملے کا حکم نہ ملے تو کس چیز کی طرف رجوع کرو گے ؟ " انہوں نے کہا " سنت رسول اللہ کی طرف " آپ نے فرمایا " اگر اس میں بھی کچھ نہ ملے ؟ " انہوں نے عرض کیا " پھر میں خود اجتہاد کروں گا "۔ اس پر حضور ﷺ نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا " شکر ہے اس خدا کا جس نے اپنے رسول کے نمائندے کو وہ طریقہ اختیار کرنے کی توفیق بخشی جو اس کے رسول کو پسند ہے "۔ یہ اپنے اجتہاد پر کتاب اللہ و سنت رسول کو مقدم رکھنا اور ہدایت حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے ان کی طرف رجوع کرنا ہی وہ چیز ہے جو ایک مسلمان جج اور ایک غیر مسلم جج کے درمیان وجہ امتیاز ہے۔ اسی طرح قانون سازی کے معاملہ میں یہ بات قطعی طور پر متفق علیہ ہے کہ اولین ماخذ قانون خدا کی کتاب ہے اور اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی سنت۔ پوری امت کا اجماع تک ان دونوں کے خلاف یا ان سے آزاد نہیں ہوسکتا کجا کہ افراد امت کا قیاس و اجتہاد۔ سورة الْحُجُرٰت 2 یعنی اگر کبھی تم نے اللہ کے رسول سے بےنیاز ہو کر خود مختاری کی روش اختیار کی یا اپنی رائے اور خیال کو ان کے حکم پر مقدم رکھا تو جان رکھو کہ تمہارا سابقہ اس خدا سے ہے جو تمہاری سب باتیں سن رہا ہے اور تمہاری نیتوں تک سے واقف ہے۔
Top