بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Al-Hujuraat : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا تُقَدِّمُوْا : نہ آگے بڑھو بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ : اللہ کے آگے وَرَسُوْلِهٖ : اور اسکے رسول کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : سننے والا جاننے والا
ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے پیش قدمی نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ کیونکہ اللہ سنتا ‘ جانتا ہے۔
تفسیر : یہ سورة بالاتفاق مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔ سورة فتح کے اخیر میں صحابہ ؓ کا مرتبہ اور ان کی بزرگی بیان ہوئی تھی اس لیے اس سورة میں چند آداب تعلیم کرتا ہے تاکہ ان کے برخلاف عمل کرنے سے اس بزرگی میں فرق نہ آوے۔ اس سورة میں تمدن کے متعلق وہ احکام بیان فرمائے ہیں کہ جن سے قوت اعوانیہ و طاقت اجتماعیہ جو اتفاق و محبت باہمی پر مبنی ہے قائم رہے۔ اور سب سے اول مسئلہ سردار کی تعظیم و عظمت کا ہے کیونکہ اس کی عزت دل میں ہوگی تو اس کے احکام کی تعمیل بھی ہوگی وہی تو اس قوت کا جمع رکھنے والا ہے۔ اوّل حکم : اس لیے سب سے اول رسول اللہ ﷺ کی جناب سے ادب ملحوظ رکھنے کے احکام صادر فرمائے۔ فقال یا ایہا الذین امنوا لاتقدموا الخ یہ پہلا حکم ہے کہ اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو۔ اللہ کا لفظ اس لیے ذکر کیا کہ رسول اللہ کا نائب ہے اس کی گستاخی اللہ کی گستاخی اور اس کی تعظیم اللہ کی تعظیم ہے۔ آگے بڑھنے سے کیا مراد ہے ؟ یعنی کسی بات میں حضرت ﷺ کے سامنے جلدی نہ کرو بلکہ تابع رہو۔ حضرت ﷺ سے پہلے آپ کوئی حکم نہ دو ۔ آپ کے سامنے کسی کام میں سبقت نہ کرو چلنے میں ‘ بات کرنے میں ‘ حکم دینے میں ‘ کھانے میں ‘ کسی کے سوال کے جواب دینے میں ‘ آگے بڑھ کر بیٹھنے میں عام ہے۔ اور اللہ سے ڈرو اللہ تمہاری باتیں سنتا ہے دل کے احوال جانتا ہے۔ دوسرا حکم : یا ایہا الذین امنوالاترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی کہ نبی کی آواز سے اپنی آواز بلند نہ کیا کرو پست آواز اور نرمی سے بات کیا کرو کس لیے کہ سردار کے سامنے غل مچا کر اور ٹائیں ٹائیں آواز سے باتیں کرنا نہ تنہا گستاخی بلکہ بدتہذیبی بھی ہے۔ مہذب لوگ پست آواز سے باتیں کیا کرتے ہیں۔ بخاری نے اور مسلم نے اور دیگر محدثین نے نقل کیا ہے کہ ثابت بن قیس ؓ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد غمگین ہو کر گھر میں بیٹھ رہے۔ نبی ﷺ نے دریافت کیا اس نے عرض کروایا میری آواز بلند ہے میرے اعمال حبط ہوگئے ہیں ‘ جہنمی ہوگیا آپ کے سامنے بلند آوازی سے کلام کرنے سے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تو جنتی ہے۔ الغرض جن صحابہ ؓ کی آوازیں بلند تھیں اس آیت کے بعد سے وہ اس طرح پست آواز سے بات کرتے تھے کہ پوچھنے کی حاجت پڑتی تھی۔ تیسرا حکم : ولاتجہروالہ بالقول کجہر بعضکم لبعض نبی سے اس طرح سے پکار کر اور خطاب کر کے باتیں نہ کیا کرو کہ جس طرح آپس والوں سے کرتے ہیں۔ دوسرے حکم میں مطلقاً آواز بلند کرنے کی حضرت ﷺ کے روبرو ممانعت تھی خواہ حضرت ﷺ سے خواہ کسی اور سے نہ چیخو غل نہ مچائو۔ یہاں خاص آنحضرت ﷺ سے بات کرنے کا ادب۔ سکھایا گیا ہے۔ فرمایا ایسی گستاخی میں اعمال حبط ہوجانے کا ڈر ہے۔ الحمد للہ امت محمدیہ خصوصاً صحابہ ؓ نے اس حکم کی کمال درجہ تعمیل کی اب تک حرمین شریفین میں بلند آواز سے کوئی بات نہیں کرتا کسی کو دور سے بلایا جاتا ہے تو اشارے سے۔ افسوس ہندوستان کے مسلمانوں پر کہ مساجد میں کیسا غل مچاتے ہیں اور اکابر اور بزرگان دین کے سامنے بات کرنے میں تہذیب و ادب ان کے نصیب نہیں الاماشاء اللہ۔ کیسی بدتہذیبی آگئی ہے۔ اب پست آوازی سے بات کرنے والوں کے محامد بیان فرماتا ہے فقال ان الذین یغضون اصواتہم عند رسول اللہ اولئک الذین امتحن اللہ قلوبہم للتقوی لہم مغفرۃ واجر عظیم کہ جو لوگ نبی کے سامنے پست آواز سے بات کرتے ہیں اللہ نے ان کے دل پرہیز گاری کے لیے خاص و ممتاز کئے ہیں یعنی ان کے دلوں میں تقویٰ ہے ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے صحابہ خصوصاً خلفاء اربعہ ؓ اس صفت کے موصوف تھے کیوں نہ ہو۔ ان کی نسبت تورات میں اول ہی سے آگیا ہے کہ وہ تیرے قدموں کے نزدیک بیٹھے ہیں اور تیری باتوں کو مانیں گے۔ اس کے بعد اس حکم کے خلاف کرنے والوں کا حال بیان فرماتا ہے فقال ان الذین ینادونک من وراء الحجرات اکثرھم لایعقلون حجرات کو جمہور نے بضم جیم پڑھا ہے یہ حجرہ کی جمع ہے جیسا کہ غرفہ کی غرفات اور ظلمۃ کی ظلمات۔ حجرہ گھر خلوت خانہ جس کی چار دیواری ہو۔ اس سے مراد ازواج مطہرات کے مکانات ہیں۔ یعنی جو لوگ آپ کو حجرات کے باہر سے پکارتے ہیں وہ اکثر بےعقل ہیں۔ یہ عرب کے گنواروں کی عادت تھی جیسا کہ ہند کے گنواروں کی عادت ہے کہ کسی بزرگ سے ملنے گئے اور وہ اپنے مکان میں ہے باہر آنے کا انتظار نہیں کرتے پکارنے لگتے ہیں۔ نبی ﷺ سے بھی ایسا ہی اتفاق ہوا تھا۔ احمد وابن جریر و بغوی و طبرانی وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ اقرع بن حابس نے آکر پکارا تھا یا محمد ﷺ اخرج اے محمد ﷺ باہرآ۔ ابویعلی و مسدد وابن راہویہ و ابن مردویہ و طبرانی نے نقل کیا ہے کہ عرب کے چند آدمی آئے اور حضرت رسول کریم ﷺ کو باہر سے پکارنے لگے۔ یا محمد یا محمد ﷺ ۔ اس پر یہ آیت اتری۔ ادب سکھاتا ہے ولوانہم صبروا حتیٰ تخرج الیہم لکان خیرا لہم کہ اگر وہ صبر کرتے ہیں یہاں تک کہ اے نبی تم ازخود باہر نکل کر ان کے پاس آجاتے تو ان کے لیے بہتر تھا۔ واللہ غفور رحیم اللہ ان کی اس بےادبی کو جو جہالت و بےعقلی سے سرزد ہوئی ہے معاف کر دے گا اگر وہ توبہ کریں گے۔ اس کے بعد سے پھر کبھی کسی نے ایسا نہیں کیا عرب میں صلاحیت کا مادہ بہت کچھ ہے۔ اب تک وہاں کے بدو اور جگہ کے تہذیب یافتوں سے بات چیت میں اور دیگر امور میں مہذب ہیں جبکہ وہاں کے گھوڑے میں یہ صلاحیت ہے، تو آدمیوں کا کیا کہنا ہے اسی حکمت سے اس سرزمین پر خاتم النبین ﷺ مبعوث ہوئے۔
Top