بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Saadi - Al-Hujuraat : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا تُقَدِّمُوْا : نہ آگے بڑھو بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ : اللہ کے آگے وَرَسُوْلِهٖ : اور اسکے رسول کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : سننے والا جاننے والا
مومنو ! (کسی بات کے جواب میں) خدا اور اسکے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو بیشک خدا سنتا جانتا ہے
یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے ادب، نیز آپ کی تعظیم، احترام اور اکرام و تکریم کو متضمن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو ان امور کا حکم دیا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان کے متقاضی ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب۔ نیزیہ کہ وہ اپنے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کے اوامر کے مطابق چلیں اور اس کے رسول ﷺ کی سنت کی اتباع کریں، اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے آگے نہ بڑھیں، اس وقت تک کوئی بات نہ کریں جب تک کہ اللہ کا رسول ﷺ بات نہ کرے، وہ کسی کام کا حکم نہ دیں جب تک کہ اللہ کا رسول ﷺ حکم نہ دے۔ پس اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا یہی حقیق ادب ہے جو فرض ہے۔ یہی ادب بندے کی سعادت اور فلاع کا عنوان ہے، چناچہ اس کے حصول میں ناکامی سعادت ابدی اور نعیم سرمدی کے حصول میں ناکافی ہے۔ اس آیت کریمہ میں رسول اللہ ﷺ کے قول پر کسی اور کے قول کو مقدم رکھنے کی ممانعت ہے کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ کی سنت مبارکہ واضح ہو کر سامنے آجائے تو اس کی اتباع کرنا اور اس کو کسی اور قول اور رائے پر، خواہ وہ کوئی بھی ہو، مقدم رکھنا واجب ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالییٰ نے تقویٰ کا عمومی حکم دیا ہے۔ اور تقویٰ کا معنی طلق بن حبیب کے قول کے مطابق، یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے ثواب کے عطا ہونے کی امید رکھتے ہوئے اس کے نور کی روشنی میں اس کی اطاعت کریں اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اس کے نور کی روشنی میں اس کی معصیت کو ترک کردیں۔ (ان اللہ سمیع) بیشک اللہ تعالیٰ تمام اوقات اور تمام مخفی مقامات وجہات میں تمام آوازوں کو سنتا ہے (علیم) بیشک اللہ تعالیٰ تمام ظواہر اور بواطن، گزرے ہوئے اور آنے والے امور، تمام واجبات مستحیلات اور ممکنات کا علم رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنے کی ممانعت اور تقویٰ کا حکم دینے کے بعد، ان دو اسمائے کریمہ کا ذکر کرنے میں، ان مذکورہ اوامر حسنہ اور آداب مستحسنہ کی تعمیل کی ترغیب اور ان کی عدم تعمیل کی صورت میں ترھیب ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (یایھا الذین امنوالا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ولا تجھروالہ بالقول) یہ رسول اللہ ﷺ سے مخاطب ہونے میں آپ کا ادب ہے یعنی رسول اللہ ﷺ سے مخاطب ہونے والے کو چاہیے کہ وہ اپنی آواز کو آپ سے بلند کرے نہ اونچی آواز میں آپ سے گفتگو کرے، بلکہ اپنے لہجے کو پست رکھے، آپ سے نہایت ادب و ملائمت، تعظیم و تکریم اور جلال و عظمت کے ساتھ بات کرے۔ رسول اللہ ﷺ ان میں سے کسی فرد جیسے نہیں ہیں، اس لئے آپ سے مخاطب ہونے میں آپ کے امتیاز کا خاص خیال رکھیں۔ جیسا کہ آپ اپنی امت پر اپنے حقوق، آپ پر ایمان اور آپ کے ساتھ محبت کے واجب ہونے میں امتیاز رکھتے ہیں، جس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ کیونکہ ان آداب کا لحاط نہ رکھنے سے ڈر ہے کہ کہیں بندے کا عمل اکارت نہ جائے اور اسے شعور تک نہ ہو، جس طرح آپ کا ادب کرنا حصول ثواب اور قبولیت اعمال کا سبب ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان لوگوں کی مدح فرمائی ہے، جو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو تقویٰ کے لئے چن لیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو آزمایا اور ان کا امتحان لیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے دل تقویٰ کے لئے درست پائے، پھر اس نے ان کے ساتھ ان کے گناہوں کی بخشش کا وعدہ کیا جو ہر قسم کے شر اور ناپسندیدہ امر کے زائل ہونے اور اجر عظیم کے حصول کو متضمن ہے، جس کے وصف کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اسی میں ہر محبوب چیز کا حصول ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ امرو نہی اور مصائب و محن کے ذریعے سے دلوں کو آزماتا ہے پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے اوامر کا التزام کرتا ہے، اس کی رضا کی اتباع کرتا ہے، اس کی تعمیل کے لئے جلدی سے آگے بڑھتا ہے، اسے اپنی خواہشات نفس پر مقدم رکھتا ہے تو وہ تقویٰ کے لئے پاک صاف ہے اور اس کا قلب صحیح اور درست ہے اور جو کوئی ایسا نہیں ہوتا تو معلوم ہوا کہ وہ تقویٰ کے قابل نہیں۔
Top