بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Al-Hujuraat : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا تُقَدِّمُوْا : نہ آگے بڑھو بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ : اللہ کے آگے وَرَسُوْلِهٖ : اور اسکے رسول کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : سننے والا جاننے والا
مومنو ! (کسی بات کے جواب میں) خدا اور اسکے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو بیشک خدا سنتا جانتا ہے
اس میں تین مسائل ہیں :۔ مسئلہ نمبر 1: علماء نے کہا : عربوں میں نبی کریم ﷺ سے خطاب میں سختی اور سوء ادبی تھی اسی طرح وہ لوگوں کو القاب دینے میں بھی یہی رویہ اپناتے تھے یہ سورت مکارم اخلاق اور آداب کی رعایت کے حکم کے متعلق ہے۔ ضحاک اور یعقوب نے لاتقدامر تاء اور دال کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ تقدمہ سے مشتق ہے باقی قراء نے تاء کے ضمہ اور دال کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ تقدیم سے مشتق ہے دونوں کا معنی ظاہر ہے یعنی تم کوئی ایسا قول نہ کرو اور نہ ایسا فعل کرو جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے متجاوز ہو اور اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے قول اور فعل سے آگے نہ بڑھو جس کا حصول نبی کریم ﷺ کے وسیلہ سے ہو خواہ وہ امر دینی ہو یا دنیاوی ہو۔ جو اپنے قول اور فعل میں رسول اللہ ﷺ سے آگے بڑھا اور وہ اللہ تعالیٰ سے آگے بڑھا کیونکہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی حکم دیتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 2: اس کا سبب نزول کیا ہے اس بارے میں چھ اقوال ہیں :۔ (1) ابن جریج کی حدیث سے واحدی نے اسے ذکر کیا ہے : کہا : حضرت ابن ملیکہ نے حضرت عبداللہ بن زبیر سے روایت نقل کی ہے 1 ۔ کہ بنو تمیم کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی : قعقاع بن معبد کو امیر مقرر کیجئے۔ حضرت عمر نے عرض کی : اقرع بن حابس کو امیر مقرر کیجئے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے کہا : تو نے محض میری مخالفت کی وجہ سے یہ بات کی ہے۔ حضرت عمر نے جواب دیا : میں نے آپ کی مخالفت کا ارادہ نہیں کیا۔ دونوں نے گفتگو لمبی کی یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہوگئیں تو اس بارے میں یہ آیات ………نازل ہوئیں۔ اسے امام بخاری نے حسن بن عمر بن صباح سے نقل کیا ہے اور مہدوی نے بھی اسے ذکر کیا ہے (2) روایت بیان کی گئی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارادہ کیا کہ ایک آدمی کو مدینہ طیبہ پر نائب بنائیں جب آپ خیبر کی طرف تشریف لے گئے حضرت عمر نے ایک اور آدمی کے بارے میں مشورہ دیا تو یہ آیات نازل ہوئیں۔ اسے بھی مہدوی نے ذکر کیا ہے۔ (3) ۔ ماوردی نے ضحاک سے وہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں (1) کہ نبی کریم ﷺ نے چوبیس صحابہ کو بنی عامر کی طرف بھیجا بنی عامر نے انہیں قتل کردیا مگر تین آدمی پیچھے رہ گئے وہ سلامت رہے اور مدینہ طیبہ کی طرف واپس لوٹ آئے وہ بنو سلیم کے دو آدمیوں سے ملے انہوں نے ان دو افراد سے ان کے نسب کے بارے میں پوچھا : دونوں نے کہا : بنی عامر سے تعلق رکھتے ہیں کیوں کہ بنی عامر بنو سالم سے زیادہ معزز شمار ہوتے تھے۔ ان صحابہ نے ان دونوں کو قتل کردیا۔ بنی سلیم کے کچھ لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے عرض کی : ہمارے اور آپ کے درمیان معاہدہ ہے اور ہم میں سے آدمی قتل کردیئے گئے ہیں نبی کریم ﷺ نے ان کی دیت سو اونٹ عطا فرمائی، ان دوآدمیوں کے قتل کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں (4) ۔ قتادہ نے کہا : کچھ لوگ کہا کرتے تھے کاش : میرے بارے میں ایسی آیت نازل ہوتی، کاش میرے بارے میں ایس آیت نازل ہوتی تو یہ آیت نازل ہوئی (2) ۔ 5 ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : انہیں منع کیا گیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے کلام کریں۔ مجاہد نے کہا : تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے پہلے ہی حکم نہ دے دیا کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی زبان پر حکم دے، اسے امام بخاری نے بھی ذکر کیا ہے۔ (6) ۔ حضرت حسن بصری نے کہا : یہ آیات ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئیں (3) جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی جانب سے نماز ادا کرنے سے قبل ہی قربانیاں کردی تھیں تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ دوبارہ ذبح کریں۔ ابن جریج نے کہا : وہ وقت جس کا حکم اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہے اس سے قبل تم اطاعات کے اعمال نہ کرو۔ میں کہتا ہوں : یہ آخری پانچ اقوال انہیں قاضی ابوبکر بن عربی نے ذکر کیا اور اس سے قبل ماوردی نے اچھی طرح وضاحت کی قاضی نے کہا : یہ سب صحیح ہیں (4) عموم کے تحت داخل ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات ہی بہتر جانتی ہے جو ان آیات کے نزول کا سبب ہے ممکن ہے بغیر سبب کے نازل ہوئیں ہو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے قاضی نے کہا : جب ہم یہ کہیں کہ یہ طاعات کو ان کے اوقات سے پہلے لانے میں نازل ہوئی تو وہ بھی صحیح ہے کیونکہ ہر وہ عبادت جس کا ایک خاص وقت ہو تو وقت سے پہلے اسے ادا کرنا جائز نہیں ہوتا جس طرح نماز، روزہ، حج یہ سب واضح ہیں مگر علماء نے زکوۃ پر اختلاف کیا ہے جو عبادت مالیہ ہے۔ اور معنی مفہوم کے لئے مطلوب ہے وہ فقیر کی حاجت کو پورا کرتا ہے : کیونکہ نبی کریم ﷺ نے حضرت عباس سے دو سال کا صدقہ جلدی لیا جب ایسی روایات آئی ہیں کہ صدقہ فطر کو عیدالفطر سے پہلے جمع کیا جاتا تاکہ عیدالفطر کے روز مستحق لوگوں کو وہ چیز دے دی جائے تو یہ امر سال یا دو سال پہلے زکوۃ کی ادائیگی کے جواز کو ثابت کرتا ہے اگر سال کا اختتام نہ ہوا اور نصاب اپنی حالت پر تھا تو زکوۃ کی ادائیگی ہوگئی اگر سال کا اختتام ہوا جبکہ نصاب تبدیل ہوچکا تھا تو واضح ہوگیا ہے کہ وہ نفلی صدقہ ہے اشہب نے کہا : سال مکمل ہونے سے ایک گھڑی بھی پہلے دینا جائز نہیں (1) جس طرح نماز ہے گویا عبادت میں اس قاعدہ کو عام رکھا ہے ان کی رائے ہے کہ یہ اسلام کے ستونوں میں سے ایک ہے تو نظام اور حسن ترتیب میں اس کا پورا حق ادا کیا باقی ہمارے علماء کی رائے ہے کہ تھوڑی سی تقدیم جائز ہے کیونکہ اتنی چیز معاف ہے مگر کثیر معاف نہیں اشہب نے جو باب کہی وہ زیادہ واضح ہے کیونکہ تھوڑی چیز کا زیادہ سے الگ کرنا اصول شریعت میں صحیح ہے لیکن چند مقاصد جو تھوڑی چیز کے ساتھ خاص ہوں زیادہ کے ساتھ خاص نہ ہوں مگر ہمارے مسئلہ میں دن مہینہ کی طرح ہے مہینہ سال کی طرح ہے یا کلی تقدیم درست ہوگی جس طرح امام ابوحنیفہ اور امام شافعی (رح) تعالیٰ علیہ نے کہا : جہاں تک عبادت کا تعلق ہے تو وہ اپنے اوقات پر ہی ادا کی جائے گی جس طرح اشہب نے کہا : مسئلہ نمبر 3:۔ نبی کریم ﷺ کے اقوال کے تعرض کو ترک کرنے میں یہ اصل ہے آپ کی اتباع اور آپ کی اقتداء کے وجوب میں بھی اصل ہے نبی کریم ﷺ نے اپنی بیماری میں ارشاد فرمایا : (2) ابوبکر صدیق کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے حضرت حفصہ سے کہا : آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کرو بیشک ابوبکر صدیق جلد رونے والے ہیں جب وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو اپنی آواز نہ سنا سکیں گے، حضرت عمر کو حک دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” تم یوسف والیاں ہو، ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے “ تو صاحب یوسف کا معنی ہے وہ فتنہ جو جائز کو ناجائز کی طرف لوٹانے سے پیدا ہوتا ہے۔ (3) قیاس کے خلاف بغاوت کرنے والوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے یہ ان کی جانب سے باطل ہے کیونکہ جس امر پر دلیل قائم ہو اس کے بجا لانے میں اللہ تعالیٰ سے آگے نہیں بڑھنا ہے۔ یعنی اس آگے بڑھنے سے بچو جس سے منع کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ تمہارے اقوال کو سننے والا اور تمہارے افعال کو جاننے والا ہے۔
Top