بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ١ؕ۬ اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اَوْفُوْا : پورا کرو بِالْعُقُوْدِ : عہد۔ قول اُحِلَّتْ لَكُمْ : حلال کیے گئے تمہارے لیے بَهِيْمَةُ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی اِلَّا : سوائے مَا : جو يُتْلٰى عَلَيْكُمْ : پڑھے جائینگے (سنائے جائینگے تمہیں غَيْرَ : مگر مُحِلِّي الصَّيْدِ : حلال جانے ہوئے شکار وَاَنْتُمْ : جبکہ تم حُرُمٌ : احرام میں ہو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَحْكُمُ : حکم کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو چاہے
اے ایمان والو ! قول وقرار کو پورا کرو چوپایوں کی قسم کے تمام جانور تمہارے لئے حلال کردیئے گئے ہیں سوائے ان کے جن کی فرت تم کو سنا دی جائے گی مگر ایسی حالت میں جب کہ تم احرام میں ہو شکار کو کسی وقت بھی حلال نہ سمجھنا بیشک اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔1
1 اے ایمان والو ! اپنے قول وقرار اور عہد و پیماں کو پورا کرو چوپایوں کی قسم کے تمام جانور تمہارے لئے حلال کردیئے گئے ہیں یعنی اونٹ گائے بھیڑ بکری سے ملتے جلتے جانور جیسے ہرن اور نیل گائے وغیرہ سوائے ان چوپایوں کے جن کی حرمت آگے تم کو سنا دی جائے گی کہ وہ باوجود بہیمتہ الانعام ہونے کے حرام ہیں مگر ان میں سے جو شکار ہوں ان کو تم احرام کی حالت میں کسی وقت بھی حلال نہ سمجھو یعنی تم جب احرام باندھے ہوئے ہو تو جنگل کے کسی شکار کو حلال نہ جانو بلاشبہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔ (تیسیر) عقد کے معنی ہیں دو چیزوں کو اس طرح ملانا اور ربط دینا کہ ان کو جدا کرنا مشکل ہوجائے۔ یہاں مراد ہے مضبوط عہد، عقد عام طریق پر استعمال ہوتا ہے۔ عقد نکاح، عقد یمین ، عقد بیع، عقد شرکت، عقد حلف، وغیرہ وفا اور ایفا ہم منی ہیں لیکن ایفا میں مبالغہ زیادہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا ہے کہ عقود سے مراد وہ چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حلال کی ہیں اور حرام فرمائی ہیں۔ بعض نے کہا ان عہود سے وہ عہود مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ نے یوم میثاق سے لے کر آخری شریعت تک اپنے بندوں سے لئے ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا وہ عہود ہیں جو اہل کتاب سے نبی کریم ﷺ اور آپ کی شریعت کے بارے میں وقتاً فوقتاً لئے گئے ۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ان عقود سے مراد وہ عہد و پیمان ہیں جو لوگ آپس میں کیا کرتے ہیں وہ امانات ہوں یا معاملات ہوں۔ غرض ! آیت اپنی جامعت کے اعتبار سے ہراس عہد کو شامل ہے جن کا وفا کرنا ضروری ہے۔ خواہ وہ بندے اور خدا کے درمیان ہو، خواہ آپس میں ایک بندے کا دوسرے بندے کے ساتھ ہو۔ ہم اللہ تعالیٰ اور بندے کے عہد کو پہلے سمجھا چکے ہیں کہ ہر بندہ فطرتاً اور طبعاً اللہ تعالیٰ کے ساتھ اطاعت و فرمانبرداری کا عہد کرچکا ہے جیسے ہر انسان فطرتاً جانتا ہے کہ ماں کی خدمت کرنا اس کے ذمہ ضروری ہے خواہ اس نے اپنی ماں سے خدمت کا عہد کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ اسی طرح تمام مخلوق سمجھتی ہے کہ خلاق کے احکام کی تعمیل کرنا ضروری ہے یہی وہ فطری عہد ہے جس کی جانب قرآن جگہ جگہ ارشاد کرتا ہے۔ اب خواہ ہم کو یوم میثاق کے الست بربکم کا جواب یاد ہو یا نہ یاد ہو اور اسی طرح جب ایک بندہ اسلام قبول کرتا ہے اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے سالام کے تمام حلال و حرام کو قبول کرنے کا عہد کرتا ہے خواہ کوئی عہد نامہ لکھا جائے یا نہ لکھا جائے بلکہ اس کلمہ کی توثیق ہی اس امر کی شاہد ہوتی ہے کہ بندہ اپنے رب سے عہد کر رہا ہے کہ جو چیزیں آپ میرے لئے حلال کریں گے ا ن کو حلال سمجھوں گا اور جو چیزیں آپ حرام کردیں گے ان کو حرام سمجھوں گا۔ بہیمہ ہر اس ذی روح کو کہتے ہیں جو غیر ذوی العقول ہو۔ انعام ان چوپایوں کو جو چار ہاتھ پائوں پر چلتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بہمیہ سے مراد وہ جانور ہوں جو قوائم اربع پر چلتے ہوں اور انعا م سے مراد اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ ہو ۔ کیونکہ عام طور پر قرآن کریم میں انعام انہی چار قسموں پر بولا گیا ہے جیسا کہ انشاء اللہ آٹھویں پارہ میں آجائے گا۔ بہمیہ کی اضافت انعام کی جانب عام مطلق کی اضافت خاص کی طرف ہے۔ پھر کسی نے بمعنی لام رکھا اور کسی نے بمعنی من رکھا ہے۔ صاحب کشاف اور بیضاوی کا رجحان یہی ہے کہ یہ اضافت خاتم فضتا اور ثوب خز کے اسی قبیل سے ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ اضافت مشبہ بالمشبہ بہ کے قبیل سے ہو جیسا کہ ہمارے ترجمہ اور تیسیر میں ہے اور یہ طریقہ آسان ہے ۔ سمجھنے کے اعتبار سے بھی اور ترکیب کے اعتبار سے بھی اور چونکہ بہیمہ اور انعام میں قول مختلف ہوگئے اس لئے اضافت میں بھی اختلاف ہوگیا ہے اگرچہ مطلب میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ہم نے آسان اور سہل صورت اختیار کرلی ہے۔ بہرحال مطلب یہ ہے کہ وہ بہائم جو کچلیاں نہیں رکھتے اور جگالی کرتے ہیں اور چار پائوں سے چلتے پھرتے اور چرتے ہیں وہ مراد ہیں اور انہی کا حکم بیان کرنا ہے لہٰذا درنددے اور کچلیوں والے جانور شامل نہیں ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور شعبی کا ایک قول یہ بھی ہے کہ بہیمتہ الانعام سے جنین مراد ہے یعنی وہ بچہ جو مادہ کے پیٹ میں ہو۔ لیکن یہاں ہم اس سے بحث کرنا نہیں چاہتے اگر اس کو معلوم کرنا ہو تو فقہ سے معلوم کیجیے الا مایتلی علیکم سے مراد آگے کی آیت ہے۔ حرمت علیکم المیتۃ والدم اور اس کا مطلب انحصار ہے بلکہ قرآن کریم کی اس آیت کو ان جانوروں کی حرمت بھی شامل ہے جو حدیث اور اجماع اور قیاس سے ثابت ہو، جیسے گدھا اور خچر وغیرہ گویا مراد یہ ہے کہ بہائم میں سے وہ جانور حلال نہیں ہیں جو ہم قرآن کریم میں بیان کردیں یا ہمارا پیغمبر ان کی حرمت بیان کر دے اور اس کی شریعت سے ان بہائم کی حرمت ثابت ہوتی ہو ان کے علاوہ باقی سب بہائم حلال ہیں اور چونکہ ان بہائم میں سے بعض وہ بھی ہیں جو جنگل میں رہتے ہیں اور جن کو لوگ کو شکار کیا کرتے ہیں آگے ان کو فرمایا کہ ان بہائم میں جو شکار ہیں تو ان کو احرام کی حالت میں شکار نہ کرنا اور اسی طرح اگر یہ شکار حرم میں ہو تو حرم میں بھی شکار نہ کرنا۔ البتہ دریائی شکار حلال ہے جیسا کہ آگے انشاء اللہ ساتویں پارے میں آجائے گا اور احرام بھی حج کا ہو یا عمرے کا دونوں حالتوں میں جنگل کا شکار ممنوع ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں ۔ یعنی آدمی جب مسلمان ہوا تو سب حکم اللہ کے قبول کرنے ٹھیرا چکا اب آگے حکم فرمائے ان کو قبول کرو۔ فائدہ۔ مواشی یہ جانور ہیں جن کو لوگ پالتے ہیں کھانے کو جیسے گائے بکری پھر جنگل کے ہرن جیسے نیل گائے وغیرہ اسی میں داخل ہیں کہ جنس ایک ہے ان کو احرام کے وقت اور اسی طرح کے مکان میں حرام فرمایا اس کے ساتھ حرم کے آداب اور بھی فرما دئیے۔ (موضح القرآن) آیت کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ اے اہل ایمان تم اپنے عہد و پیمان کو پوری طرح پورا کرو خواہ یہ عہد و پیمان تمہارے آپس میں ہوا ہو یا وہ عہد ہو جو تم نے اللہ تعالیٰ سے کر رکھا ہے اور فطرتاً تم اس کو پورا کرنے کے پابند ہو اور دیکھو ہم نے تمہارے لئے تمام بہائم جو چار پائوں سے چلتے اور جگالی کرتے ہیں اور جن کے کچلیاں نہیں ہوتیں وہ سب بہائم حلال کردیئے ہیں البتہ بہائم میں سے وہ بہائم حرام ہیں جن کو ہم تمہیں پڑھ کر سنا دیں گے اور وہ بہائم بھی حرام سمجھو جن کو ہمارا رسول تم کو وقتاً فوقتاً بتاتا رہے اور اس کی شریعت کے اصول سے جن بہائم کی حرمت ثابت ہوتی ہو لیکن حالت احرام میں یا حرم میں شکار کرنا حرام ہے اور اسی طرح احرام کی حالت میں کئے ہوئے شکار اور حرم کے شکار کا گوشت کھانا بھی حرام ہے اور دیکھو اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے حکم دے دیتا ہے وہ جس جانور کو چاہے حرام کر دے اور جس کو چاہے ہمیشہ کے حلال کر دے اور جس حرام کو چاہے حالت اضطرار میں حلال کر دے۔ غرض ! وہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے تم کو ہر حال میں اس کے حکم کی تعمیل کرنی چاہئے اس کا ہر حکم حکمت سے خالی نہیں۔ اس نے جو چیزیں حرام کی ہیں ان میں سے کوئی انسانی صحت کے لئے مضر ہے۔ کوئی انسانی اخلاق کو بگاڑنے والی ہے۔ لہٰذا تم ان چیزوں سے جن کو اس نے حرام کیا ہے پرہیز کرو۔ اس آیت میں حلال پرندوں کا ذکر نہیں ہے اور دوسرے اولہ شرعیہ سے معلوم ہو سکیں گے۔ اسی طرح جو پرندے حرام ہیں ان کا حکم بھی دوسرے دلائل شرعیہ سے معلوم ہو سکے گا۔ آیت ترکیب کے اعتبار سے اور اپنے مفہوم کے اعتبار سے عجیب و غریب آیت ہے۔ ایک قصہ اس آیت کے سلسلے میں یاد آگیا کہ کسی صاحب نے ایک فلسفی کو قرآن شریف دے کر کہا کہ اے حکیم ہم کو اس کتاب کا جواب لکھوانا ہے۔ اس طبیب نے کہا رکھ جائو جواب لکھ دیا جائے گا۔ چند دن کے بعد وہ صاحب اس فلسفی کے پاس گئے اور ان سے کہا جناب نے اس کا جواب لکھ دیا ہو تو دے دیجیے۔ اس فلسفی نے کہا بھائی میں اس کے جواب کی قدرت نہیں رکھتا اور میرے خیال میں کوئی بھی اس کا جواب نہیں لکھ سکتا میں نے اس کو کھولا تو میری نظر سورة مائدہ پر پڑی تو میں نے دیکھا کہ دو سطروں میں عہد کا پورا کرنا اور نقض عہد سے بچنا بھی ہے عام تحلیل بہائم کا اعلان بھی ہے استثنا بھی ہے پھر حالت احرام میں شکار کی حرمت بھی ہے پھر آخر میں اپنی قدرت اور حکمت کا اظہار بھی ہے۔ دو سطروں میں اس قدر مضامین اور مسائل کا بیان و اظہار کسی انسان کے لئے ناممکن ہے ہم نے تیسیر اور تسہیل میں اس امر کی رعایت رکھی ہے کہ آیت کی ترکیب آسانی سے ہو سکے۔ حنفیہ نے اوفوا بالعقود سے استدلال کیا ہے کہ عقد بالبیع کا پورا کرنا ضروری ہے اگرچہ تفرق بالا بدان نہ ہو۔ (واللہ اعلم) اب آگے حرم اور دوسرے شعائر کے اور آداب بیان فرمائے ہیں۔ (تسہیل)
Top