Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 3
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ١۫ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ١ؕ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ١ؕ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ١ؕ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا١ؕ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
حُرِّمَتْ : حرام کردیا گیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَيْتَةُ : مردار وَالدَّمُ : اور خون وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ : اور سور کا گوشت وَمَآ : اور جو۔ جس اُهِلَّ : پکارا گیا لِغَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا بِهٖ : اس پر وَ : اور الْمُنْخَنِقَةُ : گلا گھونٹنے سے مرا ہوا وَالْمَوْقُوْذَةُ : اور چوٹ کھا کر مرا ہوا وَالْمُتَرَدِّيَةُ : اور گر کر مرا ہوا وَالنَّطِيْحَةُ : اور سینگ مارا ہوا وَمَآ : اور جو۔ جس اَ كَلَ : کھایا السَّبُعُ : درندہ اِلَّا مَا : مگر جو ذَكَّيْتُمْ : تم نے ذبح کرلیا وَمَا : اور جو ذُبِحَ : ذبح کیا گیا عَلَي النُّصُبِ : تھانوں پر وَاَنْ : اور یہ کہ تَسْتَقْسِمُوْا : تم تقسیم کرو بِالْاَزْلَامِ : تیروں سے ذٰلِكُمْ : یہ فِسْقٌ : گناہ اَلْيَوْمَ : آج يَئِسَ : مایوس ہوگئے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سے مِنْ : سے دِيْنِكُمْ : تمہارا دین فَلَا تَخْشَوْهُمْ : سو تم ان سے نہ ڈرو وَاخْشَوْنِ : اور مجھ سے ڈرو اَلْيَوْمَ : آج اَكْمَلْتُ : میں نے مکمل کردیا لَكُمْ : تمہارے لیے دِيْنَكُمْ : تمہارا دین وَاَتْمَمْتُ : اور پوری کردی عَلَيْكُمْ : تم پر نِعْمَتِيْ : اپنی نعمت وَرَضِيْتُ : اور میں نے پسند کیا لَكُمُ : تمہارے لیے الْاِسْلَامَ : اسلام دِيْنًا : دین فَمَنِ : پھر جو اضْطُرَّ : لاچار ہوجائے فِيْ : میں مَخْمَصَةٍ : بھوک غَيْرَ : نہ مُتَجَانِفٍ : مائل ہو لِّاِثْمٍ : گناہ کی طرف فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا ہوا) لہو اور سُؤر کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلاگھٹ کر مرجائے اور چوٹ لگ کر مرجائے اور جو گر کر مرجائے اور جو سینگ لگ کر مرجائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کر کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو۔ اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو۔ یہ سب گناہ (کے کام) رہیں۔ آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہوگئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو۔ (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔ ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہوجائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ تو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
یہ اوپر گزر چکا ہے کہ یہ آیت اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ کی تفسیر ہے اس میں سے وہ چوپائے حرام ہیں جن کا ذکر اس آیت میں ہے مردہ اور وہ جانور جو بغیر ذبح اور شکار کے اپنی موت سے مرجاوے۔ سورة بقرہ میں مسند امام احمد، ابن ماجہ اور مستدررک حاکم وغیرہ کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی حدیث گزرچکی ہے 3 ؎ کہ مردار جانوروں میں سے دو مردار جانور مچھلی اور ٹڈی حلال ہیں۔ اس حدیث کی سند میں عبد اللہ بن زید بن اسلم کو بعض علماء نے اگرچہ ضعیف کہا ہے لیکن امام احمد نے عبد اللہ بن زید کو ثقہ لوگوں میں شمار کیا ہے 4 ؎۔ اس حدیث کی سند کا صحیح ہونا تسلیم کر کے ابو زرعہ وغیرہ نے یہ کہا ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے اس کا جواب اور علماء نے یہ دیا ہے کہ اس حدیث میں اُخِلَّ لَنَاکا لفظ ہے اور اصول حدیث میں یہ طے ہوچکا ہے کہ صحابی کے جس قول میں اس طرح کے لفظ ہوں وہ قول حدیث نبوی کے حکم میں ہوا کرتا ہے 5 ؎ سورة بقرہ میں یہ گزر چکا ہے کہ ذبح کے وقت جانور کی رگوں میں سے نکل کر جو خون بہا کرتا ہے وہ خون حرام ہے گوشت میں لگا ہوا خون حرام نہیں ہے۔ عبد اللہ بن عمر ؓ کی حدیث جو اوپر گزری اس میں یہ بھی ہے کہ خون میں سے دو خون کلیجی اور تلی حلال ہیں۔ اوپر سے جانوروں کے گوشت کا ذکر تھا اس لئے لحم الخنزیز فرما کر اس کے بعد فانہ رجس بھی فرمایا تاکہ معلوم ہوجاوے کہ گوشت پر منحصر نہیں سور کے سارے اجز ناپاک ہیں۔ بعض مفسروں نے سورة الانعام کی آیت کی تفسیر میں یہ بحث جو کی ہے کہ لحم خنزیر کی ترکیب اضافی ہے اور اس طرح کی ترکیب اضافی کے بعد جو ضمیر آتی ہے وہ مضاف کی طرف پھرا کرتی ہے مضاف الیہ کی طرف سے نہیں پھرا کرتی اس لئے فانہ میں جو ضمیر ہے وہ لحم کی طرف پھرے گی اور معنی یہ ہوں گے کہ سور کا گوشت ناپاک ہے، اس معنی کی بنا پر سور کے سارے اجزاکا ناپاک ہونا آیت سے نکلے گا۔ اس کا جواب اور علماء نے یہ دیا ہے کہ آیت { کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا } (5/62) اور آیت { اَشْکُرُوْ انَعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ } ( 114/16) کی بھی یہی ترکیب ہے اور ان میں یحمل کی ضمیر اور ایاہ کی ضمیر مضاف الیہ کی طرف پھرتی ہے اس لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس طرح کی ترکیب میں ہمیشہ ضمیر کا مضاف کی طرف پھرنا لازمی ہو۔ صحیح مسلم، ابوداؤد، اور ابن ماجہ میں بریدہ اسلمی ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا چوسر کھیلنے والا شخص جب تک چوسر کھیلتا ہے تو اس کے ہاتھ گویا سور کے خون میں ڈوبے رہتے ہیں۔ جن علماء نے سور کے سارے اجزا کو ناپاک ٹھہرایا ہے اس حدیث سے ان کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے۔ کیونکہ اس حدیث میں اللہ کے رسول نے ناپاکی ٹھہرایا ہے اگرچہ اب عیسائی لوگ سور کو حرام نہیں سمجھتے لیکن تورات کے حصہ استثناء کے باب 14 کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل عیسائی مذہب میں سور قطعی حرام ہے۔ گو دباغت سے امام ابوحنیفہ (رح) اور امام شافعی (رح) کے نزدیک سور کی کھال پاک نہیں ہوتی امام مالک (رح) اور امام احمد (رح) سے اس باب میں مختلف روایتیں ہیں۔ دباغتؔ اس طریقہ کو کہتے ہیں جس سے کھال کو پاک و صاف کر کے استعمال کے قابل کیا جاتا ہے اور امام ابو یوسف (رح) کو اس باب میں امام ابوحنیفہ (رح) سے اختلاف ہے۔ صحیح مسلم، ترمذی، ابن ماجہ اور مسند امام احمد میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہر ایک کھال دباغت سے پاک ہوسکتی ہے 2 ؎۔ اس حدیث سے امام ابو یوسف (رح) کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے۔ زیادہ تفصیل اس مسئلہ کی بڑی کتابوں میں ہے 3 ؎۔ جمہور مفسرین نے آیت و ما اھل لغیر اللہ کے یہ معنی کئے ہیں کہ یہ وہ جانور وہ ہے جس کے ذبح کے وقت سو اللہ کے اور کسی کا نام لے کر اس کو ذبح کیا جائے جس طرح مشرکین مکہ جانوروں کے ذبح کرنے سے پہلے اپنے بتوں کے نامزد کرتے تھے اور ذبح کے وقت ان بتوں کا نام لے کر ان جانوروں کو ذبح کرتے تھے۔ جمہور مفسرین کے معنی کے علاوہ تفسیر عزیزی میں آیت کے یہ معنی بیان کئے گئے ہیں کہ سوا اللہ کے کسی اور شخص کی تعظیم کی غرض سے اگر کوئی جانور اس شخص کے نام کا ٹھہرایا جائے اور ذبخ کے وقت عادت کے طور پر بسم اللہ اللہ اکبر زبان سے کہہ کر اس جانور کو ذبخ کیا جاوے تو ایسے جانور کا گوشت بھی حرام ہے۔ اپنے اس قول کے صحیح ہونے کی وجہ شاہ صاحب نے یہ بیان کی ہے کہ مثلاً جو لوگ سید احمد کبیر کی گائے بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ذبح کرتے ہیں جب ان سے یہ کہا گیا کہ اس گائے کے معاوضہ کا گوشت بازار سے لے کر ایک دو دفعہ تم اپنا کام چلاؤ تاکہ معلوم ہو کہ ذبح کے وقت تمہارا بسم اللہ اکبر کا زبان سے کہنا دل ارادہ سے ہے تو ان لوگوں نے اس بات کو منظور نہیں کیا جس سے معلوم ہوا کہ ذبح کے وقت ان لوگوں کا بسم اللہ اللہ اکبر کہنا برائے نام ہے اس کی نیت میں اس شخص کی تعظیم ذبح کے وقت بھی بسی ہوئی ہوتی ہے جس کے انہوں کا انہوں وہ جانور ذبح سے پہلے ٹھہریا تھا اس لئے اس ذبح کو ذبح شرعی کہہ سکتے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ حضرت عمر ؓ کی صحیح بخاری و مسلم کی حدیث انما الاعمال بالنیات اور صحیح مسلم کی ابوہریرہ ؓ کی حدیث اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَنْظُرُ اِلٰی اَجْسَامِکُمْ وَلاَ اِلٰی صُوْرِکُمْ وَلٰکِنْ یَنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ 2 ؎ اور اس قسم کی اور حدیثوں کے موافق شریعت کے سارے کاموں کا دارو مدار آدمی کی نیت اور دلی ارادہ پر ہے اس واسطے نیت اور دلی ارادہ کی بنا پر جو فیصلہ شاہ صاحب نے کیا وہ بالکل اصول شرع کے موافق ہے۔ گلہ گھٹ کر جو جانور مرجاوے اس کو منخنقۃ کہتے ہیں۔ لکڑی وغرلہ کے مارنے سے جو جانور مرجاوے وہ موقوذہ ہے۔ اونچی جگہ سے گر کر جو جانور مرجائے وہ متردیہ ہے۔ دوسرے جانور کے سینک مارنے سے جو جانور مرجائے وہ نطیحہ ہے۔ کسی درندہ نے ایک جانور پر حملہ کیا اور کسی شخص نے اس جانور کو زندہ پا کر اسے ذبح کرلیا تو وہ حلال ہے، نہیں تو حرام، یہ تفسیر بعض مفسرین کے قول کی بنا پر ہے لیکن حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا قول یہ ہے کہ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ مَااُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ سے وَمَا اَکَلَ السَّبُعُ تک سب جانوروں سے متعلق ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ ان سب جانروں میں سے جس جانور کو کوئی شخص زندہ پاکر ذبح کر لیوے تو وہ حلال ہے۔ زکوٰۃ کے معنی ذبح کرنے کے ہیں ذبح کرنے کی چیز ایسی ہونی چاہیے جس سے گردن کی رگیں کٹ کر خون بہ جائے دانت اور ناخنوں سے ذبح منع ہے چناچہ صحیح بخاری و مسلم کی رافع بن خدیج ؓ کی حدیث میں اس کا ذکر تفصیل سے ہے 3 ؎۔ سلف کے نزدیک جو جانور دم ہلائے یا آنکھیں کھول کر دیکھنے لگے یا کھڑا ہوجائے وہ زندہ شمار کیا جائے گا۔ مشرکین مکہ نے تین سو ساٹھ تھان بتوں کے نام کے کعبہ کی اطراف میں بنا رکھے تھے جس میں تیر رکھے تھے ان تھانوں کی پوجا بھی کی جاتی تھی اور ان تھانوں پر بتوں کے نام کے جانور بھی ذبح کئے جاتے تھے ان ہی جانوروں کو مَا ذَبِحَ فرمایا اور ان تھانوں کو نصب فرمایا ہبل بت کے نام کا ایک بڑاتھان تھا وہاں پر تین تیر رکھے ہوئے تھے ایک پر اجازت لکھی ہوتی تھی۔ دوسرے پر مخالفت اور تیسرا خالی تھا۔ مشرکین مکہ کو جب کسی کام کے کرنے نہ کرنے میں پس و پیش ہوتا تو اس تھان کے کاہن کے پاس جاتے تھے وہ کان ان تیروں کو جوئے کے پانسوں کی طرح اس طرح کام میں لاتا کہ ان کو ایک تھیلی میں ڈال کر بغیر دیکھے ایک تیر نکالتا اگر اجازت کا پانسا بالکل نکل آتا تو وہ کام کرلیا جاتا اور ممانعت کے پانسے پر اسی کام کا ارادہ فسخ کردیا جاتا تھا۔ اگر خالی تیر والا پانسہ نکلتا تو پھر گھڑی گھڑی وہ پانسے یہاں تک کام میں لائے جاتے کہ اجازت یا ممانعت کا پانسہ نکل آتا۔ ان تیروں کے پانسوں کا نام لازم ہے۔ اور استقسام کے معنی ان پانسوں کے ذریعے سے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم دریافت کرنے کے ہیں۔ مشرکین مکہ کا یہ غلط اعتقاد تھا کہ ان پانسوں کے ذریعے سے غیب کی خبر کا دریافت کرنا ملت ابراہیمی کا ایک مسئلہ ہے چناچہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ فتح کے دن آنحضرت ﷺ نے کعبہ کے اندر ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کی تصوریں دیکھیں جن کے ہاتھوں میں یہی پانسے تھے ان کو دیکھ کر آپ نے فرمایا اللہ ان مشرکوں کو ہلاک کرے جنہوں نے یہ تصویریں بنائی ہیں ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) نے تو کبھی پانسے ہاتھ میں نہیں لئے 1 ؎۔ یہ پانسوں کا عمل ہبل بت کے تھان پر کیا جاتا تھا اس لئے تھانوں کے ذکر میں اس کا ذکر بھی فرمایا۔ اس طریقہ سے ایک توغیب کی خبر دریافت کی جاتی تھی جو سوا اللہ تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں۔ دوسری غلطی سے اس کو ملت ابراہیمی کا ایک حکم شمار کیا جاتا تھا اس واسطے اس طریقہ کی ممانعت فرمائی۔ قرآن شریف کے نازل ہونے سے پہلے شیاطین آسمان کی بہت سی خبریں سن آتے تھے اور عرب کے کچھ لوگوں سے اس واسطے کہہ دیتے تھے کہ یہ لوگ ان شیاطینوں کی نذر نیاز کرتے رہتے تھے۔ انہی لوگوں کو کاہن کہتے ہیں یہ کاہن لوگ فال کے طور پر ان باتوں کو عام لوگوں کی ضرورت کے وقت بہت سی باتیں اپنی طرف سے ملا کر عام لوگوں سے کہہ دیتے تھے اور عامل لوگوں سے کچھ لے لیا کرتے تھے اسی پر ان کاہنوں کی گزران تھی 2 ؎۔ صحیح بخاری و مسلم اور فقط صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ؓ کی حدیثیں ہیں ان میں ان شیاطینوں اور کاہنوں کا ذکر تفصیل سے ہے 3 ؎ ذلکم فسق کا یہ مطلب ہے کہ جن باتوں کا اوپر ذکر گزرا کہ وہ باتیں حرام ہیں ان کو حلال جاننا نافرمانی اور گمراہی ہے کیونکہ ملت ابراہیمی میں ان باتوں کے کرنے کا کہیں حکم نہیں ہے۔ فتح مکہ سے پہلے مشرکین کو یہ امید تھی کہ شاید دین اسلام ضعیف ہو کر قریش میں کے جو لوگ مسلمان ہوگئے ہیں وہ پھر بت پرست بن جاویں فتح مکہ کے بعد مشرکوں کی وہ امید منقطع ہوگئی اسی کا ذکر آگے فرما کر فرمایا کہ مشرکوں کا خوف تو اب اٹھ گیا مگر ہر ایمان دار کو اللہ کا خوف دل میں رکھنا چاہیے تاکہ اللہ سے نڈر ہوجانے کے سبب سے حالت اسلام میں کچھ ایسے کام مسلمانوں سے نہ ہوجائیں جس سے اللہ کی مدد کم ہو کر اسلام میں ضعف آجائے۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر ؓ کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جزیرہ عرب میں شیطان کے بہکانے سے بت پرستی جو پھیلی ہوتی تھی وہ تو ایسی گئی کہ شیطان اس سے ناامید ہوگیا لیکن آپس کی لڑائیوں کے لئے شیطان کے بہکاوے کا اثر اسلام میں باقی ہے 1 ؎۔ یہ حدیث آیت کے آخری ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے کیونکہ آیت کے آخری ٹکڑے اور حدیث میں ان آپس کی لڑائیوں سے پیشین گوئی کے طور پر ڈرایا گیا ہے جو اللہ سے نڈر ہوجانے اور شیطان کے بہکانے میں پھنس جانے سے باہم مسلمانوں میں لڑائیاں ہوئیں جن سے آخر کو اسلام میں ضعف آگیا۔ بخاری اور کتب حدیث میں روایت ہے کہ بعض یہودی لوگوں نے حضرت عمر ؓ سے کہا کہ قرآن میں ایک ایسی اتری ہے کہ اگر ہم لوگوں پر وہ آیت اترتی تو ہم اس کے اترنے کے دن کو عید ٹھہراتے حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ مجھ کو معلوم ہے کہ کہا اور کس دن یہ آیت اتری ہے۔ خدا کا شکر ہے اس دن دو عیدیں جمع تھیں کیونکہ حجۃ الوداع کے عرفہ اور جمعہ کے دن یہ آیت اتری ہے 2 ؎۔ ابن جریر نے سدی سے روایت کی ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد پھر کوئی کم حلال یا حرام کی بابت نہیں نازل ہوا اور اس آیت کے نزول کے دو مہینے اکیس روز کے بعد آنحضرت ﷺ نے وفات پائی 3 ؎۔ ابن جریر میں یہ بھی روایت ہے کہ جس روز یہ آیت اتری ہے خدا کا شکر ہے کہ اس کے اترنے کے دن دو عیدیں جمع تھیں کیونکہ حجۃ الوداع کے عرفہ کے دن یہ آیت اتری ہے 4 ؎۔ ابن جریر میں بھی روایت ہے کہ جس روز یہ ْآیت اتری اس روز حضرت عمر ؓ بہت روئے آنحضرت آنحضرت نے حضرت عمر ؓ سے رونے کا سبب پوچھا انہوں نے جواب دیا کہ آج تک دن بدن دین کے بڑھنے کی توقع تھی اس آیت سے معلوم ہوا کہ آج دین کا مرتبہ کمال کو پہنچ گیا اور ہر کمال کو زوال کا خوف ہے اس لئے میں روتا ہوں۔ آنحضرت نے فرمایا سچ ہے 5 ؎ صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث جس میں آنحضرت ﷺ نے پہلے صاحب شریعت نبی حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ علہ السلام تک کی شریعتوں کو ایک خوشنما مکان سے تشبیہ دے کر یہ فرمایا کہ اس مکان میں ایک آخر اینٹ کی کسر تھی وہ آخری اینٹ میں ہوں کہ میری شریعت کے بعد وہ مکان پورا ہوگیا کیونکہ میں خاتم النبیین ہوں 6 ؎۔ یہ حدیث گویا اس آیت کی تفسیر ہے کس لئے کہ آیت اور حدیث کے ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ پچھلی شریعتوں کی تکمیل شریعتِ محمدی سے ہوئی اور شریعت محمدی کی تکمیل قرآن شریف کے نزول کی تاریخ سے شروع ہو کر سارے قرآن کے نزول کے ختم پر وہ تکمیل پوری ہوگئی۔ ترمذی اور مستدرک حاکم میں حضرت عائشہ ؓ اور عبد اللہ بن عمر ؓ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ سورة مائدہ حرام و حلال کے باب میں آخری سورة ہے اس کے بعد حرام و حلال کا کوئی حکم نہیں اترا 1 ؎۔ ان روایتوں کی بنا پر تفسیر سدی 2 ؎ وغیرہ میں ہے کہ اس مطلب کے ادا کرنے کے لئے اس سورة ہیں { اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ } فرمایا۔ لیکن امام المفسرین حضرت عبد اللہ عباس ؓ کی روایت جو صحیح بخاری میں ہے وہ اس کی مخالف ہے کیونکہ وہ فرماتے ہیں سورة بقر کی آیت { یَآاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تَّقُوْ اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا } ( سورة مائدہ کے بعد نازل ہوئی 3 ؎ اس روایت کی بنا پر قتادہ اور سعید بن جبیر کے قول کے موافق حافظ ابن جریر کے نزدیک صحیح مطلب آیت { اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ } کا یہ نہیں ہے کہ حرام و حلال کے احکام پورے ہو کر اس آیت کے نزول کے دن اسلام کامل ہوگیا بلکہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اِنَّا فَتَحْنَا میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے خواب کو سچا کر کے مسلمانوں سے یہ وعدہ جو فرمایا تھا کہ اسلام کے غالب اور کامل ہونے کا وہ زمانہ آنے والا ہے جس میں مسلمان بےخوف و خطر کعبہ کا حج کریں گے اور حدیبیہ کی مزاحمت کی طرح کوئی مخالف اسلام کچھ مزاحمت نہ کرسکے گا حجۃ الوداع کے وقت اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوگیا اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اپنے وعدے کے پورے ہوجانے کی نعمت مسلمانوں کو یاد دلائی حضرت عمر ؓ کے رونے اور آنحضرت ﷺ کے اس رونے کی حالت کو تصدیق کرنے کی جو روایت اوپر گزری اس سے سعید بن جبیر اور قتادہ کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ کمال وزوال اسلام کی قوت و ضعف کی حالت سے بھی ہے۔ کس لئے کہ اسلام کے بعد کوئی شریعت قیامت تک نہیں ہے جو اسلام کے احکام کو منسوخ کر کے ان پر کچھ زوال کا اثر ڈالے اسلام میں پچھلے اسب انبیاء اور پچھلی سب شریعتوں کے حق ہونے کی صداقت ہے اور قیامت تک یہی دین قائم رہے گا پچھلی شریعتوں میں جس طرح کچھ ردو بد لہوا وہ اس میں کچھ نہ ہوگا کیونکہ آنحضرت ﷺ خاتم النبیین ہیں اور اسلام آخری شریعت ہے اس لئے فرمایا کہ اس آخر زمانہ میں اللہ کو دین اسلام پسند ہے۔ آگے فرمایا کہ اوپر جن چیزوں کے حرام ہونے کا ذکر گزرا وہ چیزیں ایسے شخص کو حلال ہی جو بھوک سے لا چار ہوجاوے اور سوا ان حرام چیزوں کے اور کوئی حلال چیز اس شخص کو کھانے کو نہ ملے زیادہ تفصیل اس مسئلہ کی سورة بقرہ میں گزر چکی ہے یہ جو مشہور ہے کہ تین دن کے فاقہ کے بعد حرام چیز حلال ہوتی ہے اس کا کچھ پتہ شروع کے احکام سے نہیں لگتا۔ بلکہ شرع میں لا چار اور بےبس آدمی کے لئے یہ حکم ہے۔ اور معتبر سند سے امام احمد میں ابو واقد لیثی سے جو روایت ہے اس میں آنحضرت ﷺ نے اس شخص کو لاچار اور بےبس ٹھہرا دیا ہے جس کو صبح اور شام کا کھانا میسر نہ آوے 1 ؎ ترمذی میں بریدہ ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اہل جنت کی ایک سو بیس 120 صفیں ہوں گی جس میں اسی 80 صفیں امت محمدیہ کی ہوں گی 2 ؎۔ اسلام کے اللہ تعالیٰ کے پسند ہونے کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے کیونکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بہ نسبت اور شر یعتوں کے دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دو چند پھیلا یا ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ مخمصہ کے معنی بھوک کے ہیں متجانف کے معنی کسی جانب کو مائل ہونے والا شخص۔
Top