Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 3
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ١۫ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ١ؕ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ١ؕ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ١ؕ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا١ؕ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
حُرِّمَتْ
: حرام کردیا گیا
عَلَيْكُمُ
: تم پر
الْمَيْتَةُ
: مردار
وَالدَّمُ
: اور خون
وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ
: اور سور کا گوشت
وَمَآ
: اور جو۔ جس
اُهِلَّ
: پکارا گیا
لِغَيْرِ اللّٰهِ
: اللہ کے سوا
بِهٖ
: اس پر
وَ
: اور
الْمُنْخَنِقَةُ
: گلا گھونٹنے سے مرا ہوا
وَالْمَوْقُوْذَةُ
: اور چوٹ کھا کر مرا ہوا
وَالْمُتَرَدِّيَةُ
: اور گر کر مرا ہوا
وَالنَّطِيْحَةُ
: اور سینگ مارا ہوا
وَمَآ
: اور جو۔ جس
اَ كَلَ
: کھایا
السَّبُعُ
: درندہ
اِلَّا مَا
: مگر جو
ذَكَّيْتُمْ
: تم نے ذبح کرلیا
وَمَا
: اور جو
ذُبِحَ
: ذبح کیا گیا
عَلَي النُّصُبِ
: تھانوں پر
وَاَنْ
: اور یہ کہ
تَسْتَقْسِمُوْا
: تم تقسیم کرو
بِالْاَزْلَامِ
: تیروں سے
ذٰلِكُمْ
: یہ
فِسْقٌ
: گناہ
اَلْيَوْمَ
: آج
يَئِسَ
: مایوس ہوگئے
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سے
مِنْ
: سے
دِيْنِكُمْ
: تمہارا دین
فَلَا تَخْشَوْهُمْ
: سو تم ان سے نہ ڈرو
وَاخْشَوْنِ
: اور مجھ سے ڈرو
اَلْيَوْمَ
: آج
اَكْمَلْتُ
: میں نے مکمل کردیا
لَكُمْ
: تمہارے لیے
دِيْنَكُمْ
: تمہارا دین
وَاَتْمَمْتُ
: اور پوری کردی
عَلَيْكُمْ
: تم پر
نِعْمَتِيْ
: اپنی نعمت
وَرَضِيْتُ
: اور میں نے پسند کیا
لَكُمُ
: تمہارے لیے
الْاِسْلَامَ
: اسلام
دِيْنًا
: دین
فَمَنِ
: پھر جو
اضْطُرَّ
: لاچار ہوجائے
فِيْ
: میں
مَخْمَصَةٍ
: بھوک
غَيْرَ
: نہ
مُتَجَانِفٍ
: مائل ہو
لِّاِثْمٍ
: گناہ کی طرف
فَاِنَّ اللّٰهَ
: تو بیشک اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: مہربان
تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا ہوا) لہو اور سُؤر کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلاگھٹ کر مرجائے اور چوٹ لگ کر مرجائے اور جو گر کر مرجائے اور جو سینگ لگ کر مرجائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کر کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو۔ اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو۔ یہ سب گناہ (کے کام) رہیں۔ آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہوگئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو۔ (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔ ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہوجائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ تو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
یہ اوپر گزر چکا ہے کہ یہ آیت اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ کی تفسیر ہے اس میں سے وہ چوپائے حرام ہیں جن کا ذکر اس آیت میں ہے مردہ اور وہ جانور جو بغیر ذبح اور شکار کے اپنی موت سے مرجاوے۔ سورة بقرہ میں مسند امام احمد، ابن ماجہ اور مستدررک حاکم وغیرہ کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی حدیث گزرچکی ہے 3 ؎ کہ مردار جانوروں میں سے دو مردار جانور مچھلی اور ٹڈی حلال ہیں۔ اس حدیث کی سند میں عبد اللہ بن زید بن اسلم کو بعض علماء نے اگرچہ ضعیف کہا ہے لیکن امام احمد نے عبد اللہ بن زید کو ثقہ لوگوں میں شمار کیا ہے 4 ؎۔ اس حدیث کی سند کا صحیح ہونا تسلیم کر کے ابو زرعہ وغیرہ نے یہ کہا ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے اس کا جواب اور علماء نے یہ دیا ہے کہ اس حدیث میں اُخِلَّ لَنَاکا لفظ ہے اور اصول حدیث میں یہ طے ہوچکا ہے کہ صحابی کے جس قول میں اس طرح کے لفظ ہوں وہ قول حدیث نبوی کے حکم میں ہوا کرتا ہے 5 ؎ سورة بقرہ میں یہ گزر چکا ہے کہ ذبح کے وقت جانور کی رگوں میں سے نکل کر جو خون بہا کرتا ہے وہ خون حرام ہے گوشت میں لگا ہوا خون حرام نہیں ہے۔ عبد اللہ بن عمر ؓ کی حدیث جو اوپر گزری اس میں یہ بھی ہے کہ خون میں سے دو خون کلیجی اور تلی حلال ہیں۔ اوپر سے جانوروں کے گوشت کا ذکر تھا اس لئے لحم الخنزیز فرما کر اس کے بعد فانہ رجس بھی فرمایا تاکہ معلوم ہوجاوے کہ گوشت پر منحصر نہیں سور کے سارے اجز ناپاک ہیں۔ بعض مفسروں نے سورة الانعام کی آیت کی تفسیر میں یہ بحث جو کی ہے کہ لحم خنزیر کی ترکیب اضافی ہے اور اس طرح کی ترکیب اضافی کے بعد جو ضمیر آتی ہے وہ مضاف کی طرف پھرا کرتی ہے مضاف الیہ کی طرف سے نہیں پھرا کرتی اس لئے فانہ میں جو ضمیر ہے وہ لحم کی طرف پھرے گی اور معنی یہ ہوں گے کہ سور کا گوشت ناپاک ہے، اس معنی کی بنا پر سور کے سارے اجزاکا ناپاک ہونا آیت سے نکلے گا۔ اس کا جواب اور علماء نے یہ دیا ہے کہ آیت { کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا } (5/62) اور آیت { اَشْکُرُوْ انَعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ } ( 114/16) کی بھی یہی ترکیب ہے اور ان میں یحمل کی ضمیر اور ایاہ کی ضمیر مضاف الیہ کی طرف پھرتی ہے اس لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس طرح کی ترکیب میں ہمیشہ ضمیر کا مضاف کی طرف پھرنا لازمی ہو۔ صحیح مسلم، ابوداؤد، اور ابن ماجہ میں بریدہ اسلمی ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا چوسر کھیلنے والا شخص جب تک چوسر کھیلتا ہے تو اس کے ہاتھ گویا سور کے خون میں ڈوبے رہتے ہیں۔ جن علماء نے سور کے سارے اجزا کو ناپاک ٹھہرایا ہے اس حدیث سے ان کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے۔ کیونکہ اس حدیث میں اللہ کے رسول نے ناپاکی ٹھہرایا ہے اگرچہ اب عیسائی لوگ سور کو حرام نہیں سمجھتے لیکن تورات کے حصہ استثناء کے باب 14 کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل عیسائی مذہب میں سور قطعی حرام ہے۔ گو دباغت سے امام ابوحنیفہ (رح) اور امام شافعی (رح) کے نزدیک سور کی کھال پاک نہیں ہوتی امام مالک (رح) اور امام احمد (رح) سے اس باب میں مختلف روایتیں ہیں۔ دباغتؔ اس طریقہ کو کہتے ہیں جس سے کھال کو پاک و صاف کر کے استعمال کے قابل کیا جاتا ہے اور امام ابو یوسف (رح) کو اس باب میں امام ابوحنیفہ (رح) سے اختلاف ہے۔ صحیح مسلم، ترمذی، ابن ماجہ اور مسند امام احمد میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہر ایک کھال دباغت سے پاک ہوسکتی ہے 2 ؎۔ اس حدیث سے امام ابو یوسف (رح) کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے۔ زیادہ تفصیل اس مسئلہ کی بڑی کتابوں میں ہے 3 ؎۔ جمہور مفسرین نے آیت و ما اھل لغیر اللہ کے یہ معنی کئے ہیں کہ یہ وہ جانور وہ ہے جس کے ذبح کے وقت سو اللہ کے اور کسی کا نام لے کر اس کو ذبح کیا جائے جس طرح مشرکین مکہ جانوروں کے ذبح کرنے سے پہلے اپنے بتوں کے نامزد کرتے تھے اور ذبح کے وقت ان بتوں کا نام لے کر ان جانوروں کو ذبح کرتے تھے۔ جمہور مفسرین کے معنی کے علاوہ تفسیر عزیزی میں آیت کے یہ معنی بیان کئے گئے ہیں کہ سوا اللہ کے کسی اور شخص کی تعظیم کی غرض سے اگر کوئی جانور اس شخص کے نام کا ٹھہرایا جائے اور ذبخ کے وقت عادت کے طور پر بسم اللہ اللہ اکبر زبان سے کہہ کر اس جانور کو ذبخ کیا جاوے تو ایسے جانور کا گوشت بھی حرام ہے۔ اپنے اس قول کے صحیح ہونے کی وجہ شاہ صاحب نے یہ بیان کی ہے کہ مثلاً جو لوگ سید احمد کبیر کی گائے بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ذبح کرتے ہیں جب ان سے یہ کہا گیا کہ اس گائے کے معاوضہ کا گوشت بازار سے لے کر ایک دو دفعہ تم اپنا کام چلاؤ تاکہ معلوم ہو کہ ذبح کے وقت تمہارا بسم اللہ اکبر کا زبان سے کہنا دل ارادہ سے ہے تو ان لوگوں نے اس بات کو منظور نہیں کیا جس سے معلوم ہوا کہ ذبح کے وقت ان لوگوں کا بسم اللہ اللہ اکبر کہنا برائے نام ہے اس کی نیت میں اس شخص کی تعظیم ذبح کے وقت بھی بسی ہوئی ہوتی ہے جس کے انہوں کا انہوں وہ جانور ذبح سے پہلے ٹھہریا تھا اس لئے اس ذبح کو ذبح شرعی کہہ سکتے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ حضرت عمر ؓ کی صحیح بخاری و مسلم کی حدیث انما الاعمال بالنیات اور صحیح مسلم کی ابوہریرہ ؓ کی حدیث اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَنْظُرُ اِلٰی اَجْسَامِکُمْ وَلاَ اِلٰی صُوْرِکُمْ وَلٰکِنْ یَنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ 2 ؎ اور اس قسم کی اور حدیثوں کے موافق شریعت کے سارے کاموں کا دارو مدار آدمی کی نیت اور دلی ارادہ پر ہے اس واسطے نیت اور دلی ارادہ کی بنا پر جو فیصلہ شاہ صاحب نے کیا وہ بالکل اصول شرع کے موافق ہے۔ گلہ گھٹ کر جو جانور مرجاوے اس کو منخنقۃ کہتے ہیں۔ لکڑی وغرلہ کے مارنے سے جو جانور مرجاوے وہ موقوذہ ہے۔ اونچی جگہ سے گر کر جو جانور مرجائے وہ متردیہ ہے۔ دوسرے جانور کے سینک مارنے سے جو جانور مرجائے وہ نطیحہ ہے۔ کسی درندہ نے ایک جانور پر حملہ کیا اور کسی شخص نے اس جانور کو زندہ پا کر اسے ذبح کرلیا تو وہ حلال ہے، نہیں تو حرام، یہ تفسیر بعض مفسرین کے قول کی بنا پر ہے لیکن حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا قول یہ ہے کہ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ مَااُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ سے وَمَا اَکَلَ السَّبُعُ تک سب جانوروں سے متعلق ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ ان سب جانروں میں سے جس جانور کو کوئی شخص زندہ پاکر ذبح کر لیوے تو وہ حلال ہے۔ زکوٰۃ کے معنی ذبح کرنے کے ہیں ذبح کرنے کی چیز ایسی ہونی چاہیے جس سے گردن کی رگیں کٹ کر خون بہ جائے دانت اور ناخنوں سے ذبح منع ہے چناچہ صحیح بخاری و مسلم کی رافع بن خدیج ؓ کی حدیث میں اس کا ذکر تفصیل سے ہے 3 ؎۔ سلف کے نزدیک جو جانور دم ہلائے یا آنکھیں کھول کر دیکھنے لگے یا کھڑا ہوجائے وہ زندہ شمار کیا جائے گا۔ مشرکین مکہ نے تین سو ساٹھ تھان بتوں کے نام کے کعبہ کی اطراف میں بنا رکھے تھے جس میں تیر رکھے تھے ان تھانوں کی پوجا بھی کی جاتی تھی اور ان تھانوں پر بتوں کے نام کے جانور بھی ذبح کئے جاتے تھے ان ہی جانوروں کو مَا ذَبِحَ فرمایا اور ان تھانوں کو نصب فرمایا ہبل بت کے نام کا ایک بڑاتھان تھا وہاں پر تین تیر رکھے ہوئے تھے ایک پر اجازت لکھی ہوتی تھی۔ دوسرے پر مخالفت اور تیسرا خالی تھا۔ مشرکین مکہ کو جب کسی کام کے کرنے نہ کرنے میں پس و پیش ہوتا تو اس تھان کے کاہن کے پاس جاتے تھے وہ کان ان تیروں کو جوئے کے پانسوں کی طرح اس طرح کام میں لاتا کہ ان کو ایک تھیلی میں ڈال کر بغیر دیکھے ایک تیر نکالتا اگر اجازت کا پانسا بالکل نکل آتا تو وہ کام کرلیا جاتا اور ممانعت کے پانسے پر اسی کام کا ارادہ فسخ کردیا جاتا تھا۔ اگر خالی تیر والا پانسہ نکلتا تو پھر گھڑی گھڑی وہ پانسے یہاں تک کام میں لائے جاتے کہ اجازت یا ممانعت کا پانسہ نکل آتا۔ ان تیروں کے پانسوں کا نام لازم ہے۔ اور استقسام کے معنی ان پانسوں کے ذریعے سے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم دریافت کرنے کے ہیں۔ مشرکین مکہ کا یہ غلط اعتقاد تھا کہ ان پانسوں کے ذریعے سے غیب کی خبر کا دریافت کرنا ملت ابراہیمی کا ایک مسئلہ ہے چناچہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ فتح کے دن آنحضرت ﷺ نے کعبہ کے اندر ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کی تصوریں دیکھیں جن کے ہاتھوں میں یہی پانسے تھے ان کو دیکھ کر آپ نے فرمایا اللہ ان مشرکوں کو ہلاک کرے جنہوں نے یہ تصویریں بنائی ہیں ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) نے تو کبھی پانسے ہاتھ میں نہیں لئے 1 ؎۔ یہ پانسوں کا عمل ہبل بت کے تھان پر کیا جاتا تھا اس لئے تھانوں کے ذکر میں اس کا ذکر بھی فرمایا۔ اس طریقہ سے ایک توغیب کی خبر دریافت کی جاتی تھی جو سوا اللہ تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں۔ دوسری غلطی سے اس کو ملت ابراہیمی کا ایک حکم شمار کیا جاتا تھا اس واسطے اس طریقہ کی ممانعت فرمائی۔ قرآن شریف کے نازل ہونے سے پہلے شیاطین آسمان کی بہت سی خبریں سن آتے تھے اور عرب کے کچھ لوگوں سے اس واسطے کہہ دیتے تھے کہ یہ لوگ ان شیاطینوں کی نذر نیاز کرتے رہتے تھے۔ انہی لوگوں کو کاہن کہتے ہیں یہ کاہن لوگ فال کے طور پر ان باتوں کو عام لوگوں کی ضرورت کے وقت بہت سی باتیں اپنی طرف سے ملا کر عام لوگوں سے کہہ دیتے تھے اور عامل لوگوں سے کچھ لے لیا کرتے تھے اسی پر ان کاہنوں کی گزران تھی 2 ؎۔ صحیح بخاری و مسلم اور فقط صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ؓ کی حدیثیں ہیں ان میں ان شیاطینوں اور کاہنوں کا ذکر تفصیل سے ہے 3 ؎ ذلکم فسق کا یہ مطلب ہے کہ جن باتوں کا اوپر ذکر گزرا کہ وہ باتیں حرام ہیں ان کو حلال جاننا نافرمانی اور گمراہی ہے کیونکہ ملت ابراہیمی میں ان باتوں کے کرنے کا کہیں حکم نہیں ہے۔ فتح مکہ سے پہلے مشرکین کو یہ امید تھی کہ شاید دین اسلام ضعیف ہو کر قریش میں کے جو لوگ مسلمان ہوگئے ہیں وہ پھر بت پرست بن جاویں فتح مکہ کے بعد مشرکوں کی وہ امید منقطع ہوگئی اسی کا ذکر آگے فرما کر فرمایا کہ مشرکوں کا خوف تو اب اٹھ گیا مگر ہر ایمان دار کو اللہ کا خوف دل میں رکھنا چاہیے تاکہ اللہ سے نڈر ہوجانے کے سبب سے حالت اسلام میں کچھ ایسے کام مسلمانوں سے نہ ہوجائیں جس سے اللہ کی مدد کم ہو کر اسلام میں ضعف آجائے۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر ؓ کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جزیرہ عرب میں شیطان کے بہکانے سے بت پرستی جو پھیلی ہوتی تھی وہ تو ایسی گئی کہ شیطان اس سے ناامید ہوگیا لیکن آپس کی لڑائیوں کے لئے شیطان کے بہکاوے کا اثر اسلام میں باقی ہے 1 ؎۔ یہ حدیث آیت کے آخری ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے کیونکہ آیت کے آخری ٹکڑے اور حدیث میں ان آپس کی لڑائیوں سے پیشین گوئی کے طور پر ڈرایا گیا ہے جو اللہ سے نڈر ہوجانے اور شیطان کے بہکانے میں پھنس جانے سے باہم مسلمانوں میں لڑائیاں ہوئیں جن سے آخر کو اسلام میں ضعف آگیا۔ بخاری اور کتب حدیث میں روایت ہے کہ بعض یہودی لوگوں نے حضرت عمر ؓ سے کہا کہ قرآن میں ایک ایسی اتری ہے کہ اگر ہم لوگوں پر وہ آیت اترتی تو ہم اس کے اترنے کے دن کو عید ٹھہراتے حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ مجھ کو معلوم ہے کہ کہا اور کس دن یہ آیت اتری ہے۔ خدا کا شکر ہے اس دن دو عیدیں جمع تھیں کیونکہ حجۃ الوداع کے عرفہ اور جمعہ کے دن یہ آیت اتری ہے 2 ؎۔ ابن جریر نے سدی سے روایت کی ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد پھر کوئی کم حلال یا حرام کی بابت نہیں نازل ہوا اور اس آیت کے نزول کے دو مہینے اکیس روز کے بعد آنحضرت ﷺ نے وفات پائی 3 ؎۔ ابن جریر میں یہ بھی روایت ہے کہ جس روز یہ آیت اتری ہے خدا کا شکر ہے کہ اس کے اترنے کے دن دو عیدیں جمع تھیں کیونکہ حجۃ الوداع کے عرفہ کے دن یہ آیت اتری ہے 4 ؎۔ ابن جریر میں بھی روایت ہے کہ جس روز یہ ْآیت اتری اس روز حضرت عمر ؓ بہت روئے آنحضرت آنحضرت نے حضرت عمر ؓ سے رونے کا سبب پوچھا انہوں نے جواب دیا کہ آج تک دن بدن دین کے بڑھنے کی توقع تھی اس آیت سے معلوم ہوا کہ آج دین کا مرتبہ کمال کو پہنچ گیا اور ہر کمال کو زوال کا خوف ہے اس لئے میں روتا ہوں۔ آنحضرت نے فرمایا سچ ہے 5 ؎ صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث جس میں آنحضرت ﷺ نے پہلے صاحب شریعت نبی حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ علہ السلام تک کی شریعتوں کو ایک خوشنما مکان سے تشبیہ دے کر یہ فرمایا کہ اس مکان میں ایک آخر اینٹ کی کسر تھی وہ آخری اینٹ میں ہوں کہ میری شریعت کے بعد وہ مکان پورا ہوگیا کیونکہ میں خاتم النبیین ہوں 6 ؎۔ یہ حدیث گویا اس آیت کی تفسیر ہے کس لئے کہ آیت اور حدیث کے ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ پچھلی شریعتوں کی تکمیل شریعتِ محمدی سے ہوئی اور شریعت محمدی کی تکمیل قرآن شریف کے نزول کی تاریخ سے شروع ہو کر سارے قرآن کے نزول کے ختم پر وہ تکمیل پوری ہوگئی۔ ترمذی اور مستدرک حاکم میں حضرت عائشہ ؓ اور عبد اللہ بن عمر ؓ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ سورة مائدہ حرام و حلال کے باب میں آخری سورة ہے اس کے بعد حرام و حلال کا کوئی حکم نہیں اترا 1 ؎۔ ان روایتوں کی بنا پر تفسیر سدی 2 ؎ وغیرہ میں ہے کہ اس مطلب کے ادا کرنے کے لئے اس سورة ہیں { اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ } فرمایا۔ لیکن امام المفسرین حضرت عبد اللہ عباس ؓ کی روایت جو صحیح بخاری میں ہے وہ اس کی مخالف ہے کیونکہ وہ فرماتے ہیں سورة بقر کی آیت { یَآاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تَّقُوْ اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا } ( سورة مائدہ کے بعد نازل ہوئی 3 ؎ اس روایت کی بنا پر قتادہ اور سعید بن جبیر کے قول کے موافق حافظ ابن جریر کے نزدیک صحیح مطلب آیت { اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ } کا یہ نہیں ہے کہ حرام و حلال کے احکام پورے ہو کر اس آیت کے نزول کے دن اسلام کامل ہوگیا بلکہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اِنَّا فَتَحْنَا میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے خواب کو سچا کر کے مسلمانوں سے یہ وعدہ جو فرمایا تھا کہ اسلام کے غالب اور کامل ہونے کا وہ زمانہ آنے والا ہے جس میں مسلمان بےخوف و خطر کعبہ کا حج کریں گے اور حدیبیہ کی مزاحمت کی طرح کوئی مخالف اسلام کچھ مزاحمت نہ کرسکے گا حجۃ الوداع کے وقت اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوگیا اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اپنے وعدے کے پورے ہوجانے کی نعمت مسلمانوں کو یاد دلائی حضرت عمر ؓ کے رونے اور آنحضرت ﷺ کے اس رونے کی حالت کو تصدیق کرنے کی جو روایت اوپر گزری اس سے سعید بن جبیر اور قتادہ کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ کمال وزوال اسلام کی قوت و ضعف کی حالت سے بھی ہے۔ کس لئے کہ اسلام کے بعد کوئی شریعت قیامت تک نہیں ہے جو اسلام کے احکام کو منسوخ کر کے ان پر کچھ زوال کا اثر ڈالے اسلام میں پچھلے اسب انبیاء اور پچھلی سب شریعتوں کے حق ہونے کی صداقت ہے اور قیامت تک یہی دین قائم رہے گا پچھلی شریعتوں میں جس طرح کچھ ردو بد لہوا وہ اس میں کچھ نہ ہوگا کیونکہ آنحضرت ﷺ خاتم النبیین ہیں اور اسلام آخری شریعت ہے اس لئے فرمایا کہ اس آخر زمانہ میں اللہ کو دین اسلام پسند ہے۔ آگے فرمایا کہ اوپر جن چیزوں کے حرام ہونے کا ذکر گزرا وہ چیزیں ایسے شخص کو حلال ہی جو بھوک سے لا چار ہوجاوے اور سوا ان حرام چیزوں کے اور کوئی حلال چیز اس شخص کو کھانے کو نہ ملے زیادہ تفصیل اس مسئلہ کی سورة بقرہ میں گزر چکی ہے یہ جو مشہور ہے کہ تین دن کے فاقہ کے بعد حرام چیز حلال ہوتی ہے اس کا کچھ پتہ شروع کے احکام سے نہیں لگتا۔ بلکہ شرع میں لا چار اور بےبس آدمی کے لئے یہ حکم ہے۔ اور معتبر سند سے امام احمد میں ابو واقد لیثی سے جو روایت ہے اس میں آنحضرت ﷺ نے اس شخص کو لاچار اور بےبس ٹھہرا دیا ہے جس کو صبح اور شام کا کھانا میسر نہ آوے 1 ؎ ترمذی میں بریدہ ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اہل جنت کی ایک سو بیس 120 صفیں ہوں گی جس میں اسی 80 صفیں امت محمدیہ کی ہوں گی 2 ؎۔ اسلام کے اللہ تعالیٰ کے پسند ہونے کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے کیونکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بہ نسبت اور شر یعتوں کے دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دو چند پھیلا یا ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ مخمصہ کے معنی بھوک کے ہیں متجانف کے معنی کسی جانب کو مائل ہونے والا شخص۔
Top