Tafseer-e-Jalalain - Al-Maaida : 3
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ١۫ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ١ؕ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ١ؕ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ١ؕ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا١ؕ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
حُرِّمَتْ : حرام کردیا گیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَيْتَةُ : مردار وَالدَّمُ : اور خون وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ : اور سور کا گوشت وَمَآ : اور جو۔ جس اُهِلَّ : پکارا گیا لِغَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا بِهٖ : اس پر وَ : اور الْمُنْخَنِقَةُ : گلا گھونٹنے سے مرا ہوا وَالْمَوْقُوْذَةُ : اور چوٹ کھا کر مرا ہوا وَالْمُتَرَدِّيَةُ : اور گر کر مرا ہوا وَالنَّطِيْحَةُ : اور سینگ مارا ہوا وَمَآ : اور جو۔ جس اَ كَلَ : کھایا السَّبُعُ : درندہ اِلَّا مَا : مگر جو ذَكَّيْتُمْ : تم نے ذبح کرلیا وَمَا : اور جو ذُبِحَ : ذبح کیا گیا عَلَي النُّصُبِ : تھانوں پر وَاَنْ : اور یہ کہ تَسْتَقْسِمُوْا : تم تقسیم کرو بِالْاَزْلَامِ : تیروں سے ذٰلِكُمْ : یہ فِسْقٌ : گناہ اَلْيَوْمَ : آج يَئِسَ : مایوس ہوگئے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سے مِنْ : سے دِيْنِكُمْ : تمہارا دین فَلَا تَخْشَوْهُمْ : سو تم ان سے نہ ڈرو وَاخْشَوْنِ : اور مجھ سے ڈرو اَلْيَوْمَ : آج اَكْمَلْتُ : میں نے مکمل کردیا لَكُمْ : تمہارے لیے دِيْنَكُمْ : تمہارا دین وَاَتْمَمْتُ : اور پوری کردی عَلَيْكُمْ : تم پر نِعْمَتِيْ : اپنی نعمت وَرَضِيْتُ : اور میں نے پسند کیا لَكُمُ : تمہارے لیے الْاِسْلَامَ : اسلام دِيْنًا : دین فَمَنِ : پھر جو اضْطُرَّ : لاچار ہوجائے فِيْ : میں مَخْمَصَةٍ : بھوک غَيْرَ : نہ مُتَجَانِفٍ : مائل ہو لِّاِثْمٍ : گناہ کی طرف فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا ہوا) لہو اور سُؤر کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلاگھٹ کر مرجائے اور چوٹ لگ کر مرجائے اور جو گر کر مرجائے اور جو سینگ لگ کر مرجائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کر کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو۔ اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو۔ یہ سب گناہ (کے کام) رہیں۔ آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہوگئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو۔ (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔ ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہوجائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ تو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
آیت نمبر 3 تا 5 ترجمہ : تمہارے لئے مردار اور بہنے والا خون (حرام کردیا گیا ہے) جیسا کہ سورة انعام میں مذکور ہے، اور خنزیر کا گوشت اور وہ جانور جس پر (بوقت ذبح) غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو بایں صورت کہ غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، کا کھانا حرام کردیا گیا ہے اور گلا گھٹ کر مرا ہوا جانور اور چوٹ کھا کر مرا ہوا جانور اور اوپر سے گر کر مرا ہوجانور، اور وہ جانور جو دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور وہ جانور کہ جس میں سے درندہ نے کھالیا ہو (کھانا حرام کردیا گیا ہے) الا یہ کہ تم نے اس کو ذبح کرلیا ہو (تو وہ حرام نہیں ہے) اور وہ جانور جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو نصب، نصاب کی جمع ہے اور وہ بت ہیں (حرام کردیا گیا ہے) اور پانسوں کے ذریعہ قسمت آزمائی کرنا اور نتیجہ معلوم کرنا (حرام کردیا گیا ہے) ازلام، زلم کی جمع ہے زاء کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ مع لام کے فتحہ کے قدح چھوٹا تیر جس میں نہ پر لگے ہوں اور نہ اس میں انّی ہو، قدح قاف کے کسرہ کے ساتھ ہے اور وہ سات تیر تھے جو بیت اللہ کے خادم کے پاس رہا کرتے تھے، ان پر علامتیں لگی رہتی تھیں ان سے جواب مانگا کرتے تھے (فال لیا کرتے تھے) اگر وہ ان کو اجازت دیتے تو اس کام کو کرتے اور اگر جواب ممانعت میں نکلتا تو نہ کرتے، یہ فسق ہے یعنی اطاعت سے خروج ہے، اور (آئندہ آیت) حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات میں نازل ہوئی، اب کافر تمہارے دین (اسلام) سے مرتد ہونے کے بارے میں خواہش رکھنے کے باوجود مایوس ہوچکے ہیں، اس لئے کہ وہ اس دین کی قوت دیکھ چکے ہیں، لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرو آج میں نے تمہارے دین (یعنی) اس کے احکام و فرائض کو مکمل کردیا چناچہ اس کے بعد حلال و حرام کا کوئی حکم نازل نہیں ہوا اور تم پر میں نے دین مکمل کر کے اپنا انعام تام کردیا اور کہا گیا ہے کہ مکہ میں مامون طریقہ پر داخل کر کے (انعام تام کردیا) اور میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا، پس جو شخص شدت بھوک سے بیتاب ہو اس کے لئے حرام کردہ چیزوں میں کچھ کھا لینا تو مباح ہے۔ بشرطیکہ معصیت کی جانب میلان نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے کھانے کو معاف کرنے والا ہے، اور اس کے لئے اس (کھانے کو) مباح کر کے رحم کرنے والا ہے، بخلاف اس شخص کے کہ جو معصیت کی طرف مائل ہو یعنی (معصیت) کا مرتکب ہو، جیسا کہ راہ زن، باغی، مثلاً ، تو اس شخص کے لئے (مذکورہ چیزوں) میں سے کھانا حلال نہیں ہے، اے محمد ﷺ آپ سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ ان کے لئے کون سا کھانا حلال کیا گیا ہے ؟ آپ کہہ دیجئے تمہارے لئے پاکیزہ لذیذ چیزیں حلال کردی گئی ہیں اور ان شکاری جانوروں کا کیا ہوا شکار جن کو تم نے سدھایا ہے خواہ کتے ہوں یا درندے یا پرندے، بشرطیکہ تم ان کو شکار کے پیچھے چھوڑو (مکلبین) علمتم، کی ضمیر سے حال ہے، اور کلبت الکلب بالتشدید سے ماخوذ ہے ای ارسلت علی الصید حال یہ کہ تم نے اللہ کے سکھائے ہوئے آداب صید میں سے ان کو سکھایا ہو (تعلمونھن) مکلبین کی ضمیر سے حال ہے، ای تؤدبونھن، تو تم اس شکار کو کھا سکتے ہو جو اس نے تمہارے لئے کیا ہے، اگرچہ اس کو مار ڈالا ہو بشرطیکہ اس میں سے کچھ کھایا نہ ہو، بخلاف بغیر سدھے ہوئے شکاری جانور کے کہ اس کا کیا ہوا شکار حلال نہیں ہے، اور سدھے ہوئے کی پہچان یہ ہے کہ جب اس کو شکار کے پیچھے دوڑایا جائے تو دوڑ پڑے اور جب روکا جائے تو رک جائے، اور شکار کو پکڑ کر اس سے کچھ کھائے نہیں، اور کم سے کم علامت کہ جس کے ذریعہ جانور کا معلم ہونا معلوم ہو تین بار (شکار کے پیچھے) چھوڑنا ہے، اگر شکاری جانور نے اس شکار سے کچھ کھالیا تو سمجھ لو کہ یہ اس نے اپنے مالک کے لئے نہیں پکڑا لہٰذا ایسی صورت میں اس شکار کا کھانا حلال نہیں ہے جیسا کہ صحیحین کی حدیث میں ہے اور اس میں ہے کہ تیر سے کیا ہوا شکار جبکہ تیر چھوڑتے وقت بسم اللہ کہی ہو تو یہ تیر کا شکار شکاری جانور کے شکار کے مانند (حلال) ہے اور صید معلم کو چھوڑتے وقت اللہ کا نام لو اور اللہ سے ڈرتے رہو یقینا اللہ جلد حساب لینے والا ہے، آج تمام پاکیزہ چیزیں تمہارے لئے حلال کردی گئی ہیں اور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لئے یعنی یہود و نصاریٰ کا ذبیحہ حلال کردیا گیا اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے، اور پاکدامن مومن عورتیں اور اہل کتاب (یہود ونصاری) کی آزاد عورتیں تمہارے لئے حلال کردی گئی ہیں یعنی تمہارے لئے ان سے نکاح کرنا جائز ہے جبکہ تم ان کے مہر ادا کردو، حال یہ کہ تم ان سے نکاح کرنے والے ہو، نہ کہ ان سے اعلانیہ (زنا کے ذریعہ) شہوت رانی کرنے والے اور نہ پوشیدہ طور پر ان سے آشنائی کرنے والے کہ ان سے زنا کو چھپانے والے ہو اور جو شخص ایمان کا منکر ہوا یعنی مرتد ہوگیا تو اس کے سابقہ اعمال صالحہ ضائع ہوگئے لہٰذا وہ کسی شمار میں نہ ہوں گے اور نہ ان پر اجر دیا جائے گا، اور وہ آخرت میں زیاں کاروں میں سے ہوگا جبکہ وہ ارتداد ہی پر فوت ہوا ہو۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : المَیْتَة، اسم صفت ہے، مردار، وہ جانور جو بلا ذبح شرعی کسی حادثہ یا طبعی موت سے مرجائے۔ قولہ : اَکْلُھا، مضاف محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ حلت و حرمت کا تعلق افعال سے ہوتا ہے نہ کہ ذات سے۔ قولہ : اَلمنخَنِقَۃ، اسم فاعل واحد مؤنث (اِنْخِنَاق، انفعال) خَنِقًا (ن) گلا گھونٹنا۔ قولہ : اُھِلَّ ، اَلْاِھْلال رفع الصوت، لغیر اللہ بہ میں لام بمعنی باء اور باء بمعنی عند، المعنی، مارفع الصوت عند ذکاتہ باسم غیر اللہ۔ قولہ : المَوْقُوْذَةُ وَقذ (ض) اسم مفعول واحد مؤنث، چوٹ کھا کر مرا ہوا۔ قولہ : المُتَرَدِّیةُ اسم فاعل واحد مؤنث تَرَدّی (تفعل) اونچائی سے گر کر مرنے والا جانور۔ قولہ : النَطِیْحَۃُ صیغہ صفت بروزن فَعِیْلۃ بمعنی منطوحَۃ نطع (ف، ن) وہ بکری جو دوسرے کے سینگ کی چوٹ سے مری ہو، بعض اہل لغت نے بکری کی تخصیص نہیں کی ہے۔ سوال : نطیحۃ، بروزن فعیلة ہے فعیلة کے وزن میں مذکر اور مؤنث دونوں برابر ہوتے ہیں، لہٰذا یہاں تاء کی ضرورت نہیں ہے ؟ جواب : نطیحۃ میں تاء انتقال من الوصفیۃ الی الاسمیۃ کے لئے ہے نہ کہ تانیث کے لئے جیسا کہ ذبیحۃ میں ہے۔ قولہ : منہ، مِنْہ کے اضافہ کا مقصد اس سوال کا جواب ہے کہ فَاَکَلَ السَبُعُ ، کا مطلب ہے کہ جس کو درندہ نے کھالیا ہو اور یہ بات ظاہر ہے کہ درندے نے جس کو کھالیا وہ معدوم ہوگیا اور معدوم سے حلت یا حرمت کا کوئی متعلق نہیں ہوتا، مِنہ، کہ کر اس کا یہ جواب دیا کہ جس شکار میں سے کچھ حصہ درندے نے کھالیا ہو جس کی وجہ سے وہ جانور مرگیا ہو تو اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔ قولہ : اِلاَّ ما ذکَّیْتُمْ ، یہ المنخقۃ اور اس کے مابعد سے استثناء ہے۔ قولہ : عَلیٰ اِسْمِ النُّصُبِ ۔ سوال : لفظ ’ اسم ‘ کے اضافہ کا کیا فائدہ ہے ؟ جواب : تاکہ ذبح کا صلہ عَلیٰ درست ہوجائے، لہٰذا علی بمعنی لام لینے کی ضرورت نہ ہوگی۔ (کما قال البعض) ۔ قولہ : ذلک، ای الاستقسام بالازلام خَاصۃً فسق۔ قولہ : رَضِیْتُ ، یہ بیان حال کے لئے جملہ مستانفہ ہے، اس کا عطف اکملتُ پر نہیں ہے، اس لئے کہ اس سے لازم آئیگا کہ اسلام سے دین ہونے کے اعتبار سے آج راضی ہوا اس سے پہلے راضی نہیں تھا حالانکہ اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین رہا ہے اور ہر نبی کا دین السلام ہے رضیت متعدی بیک مفعول ہے، اور وہ الاسلام ہے، اور دِینًا تمیز ہے۔ قولہ : اِخْتَرْتُ ، بعض حضرات نے کہا ہے کہ رضیت بمعنی اخترتُ ہے جو کہ متعدی بدو مفعول ہے اور اول مفعول، اَلاسلامَ اور دوسرا دِینًا ہے، لہٰذا اس صورت میں دِیْناً کو حال یا تمیز قرار دینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ قولہ : غیرَ مُتجانِفٍ ، تفاعل سے اسم فاعل واحد مذکر ہے، بدی کی طرف مائل ہونے والا، حق سے روگردانی کرنے والا، غَیْرَ ، منصوب علی الحال ہے۔ قولہ : مَخْمَصَۃٍ ، اسم، ایسی بھوک کہ جس میں پیٹ لگ جائے۔ قولہ : فَمَنِ اضْطُرَّ فی مخمصۃٍ ، یہ آیت تین جگہ آئی ہے یہاں اور سورة بقرہ میں اور سورة نحل میں۔ جواب شرط کی طرف اشارہ کردیا ہے اور بعض حضرات نے، فَلَا اثم عَلَیْہ محذوف مانا ہے، فَمَنْ اضطر الخ، یہ آیت سابقہ آیت کا تتمہ ہے اور ذلکم فسق سے یہاں تک جملہ معترضہ ہے، جو کہ دو کلاموں کے درمیان واقع ہوا ہے۔ قولہ : کقَا طِعِ الطَّرِیْق، ای اِذَا کانا مسافِرَیْنِ ۔ تفسیر و تشریح حرمَتْ علیکم المیتۃ الخ، آیت نمبر 1 میں حلال جانوروں کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ان حلال جانوروں کے علاوہ کچھ حرام جانور بھی ہیں جن کی تفصیل آئندہ آئے گی، گویا کہ حرمَتْ عَلَیکُمُ الْمَیْتَۃُ الخ، اِلاّ مَا یُتْلیٰ عَلَیْکم، کی تفصیل ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اُحِلّت لکم بھِیْمَۃُ الْاَنْعَام، میں عمومی طور پر چوپایوں کے حلال ہونے کا حکم دیا گیا ہے ان میں سے وہ چوہائے حرام ہیں جن کا ذکر اس آیت میں ہے۔ مسند امام احمد، ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں حضرت عبد اللہ بن عمر کی یہ حدیث مروی ہے کہ مردار جانوروں میں دو مردار جانور مچھلی اور ٹڈی حلال ہیں اس حدیث کی سند میں بعض علماء نے عبد اللہ بن زید بن اسلم کو اگرچہ ضعیف کہا ہے لیکن امام احمد نے عبد اللہ بن زید کو ثقہ کہا ہے۔ مردہ اور حرام گوشت والے جانوروں کی مغفرت : جن جانوروں کا گوشت انسان کیلئے مضر ہے خواہ جسمانی طور پر یا روحانی طور پر یا روحانی طور پر کہ اس سے انسان کے اخلاق اور قلبی کیفیات پر منفی اثر پڑنے کا خطرہ ہے ان کو قرآن مجید نے خبائث قرار دیکر حرام کردیا حرمَتْ علیکم الْمَیْتَۃُ الخ، اس آیت میں مردار جانور کو حرام قرار دیا گیا، مردار جانور سے وہ جانور مراد ہے جو شرعی طریقہ پر ذبح کئے بغیر کسی بیماری کے سبب طبعی یا حادثاتی موت مرجائے ایسے جانور کا گوشت طبی طور پر بھی انسان کیلئے سخت مضر ہے اور روحانی طور پر بھی۔ دوسری چیز جس کو اس آیت نے حرام قرار دیا ہے وہ خون ہے اور قرآن کریم کی دوسری آیت اودما مسفوحًا نے بتلا دیا کہ خون سے مراد بہنے والا خون ہے گوشت میں لگا ہوا خون حرام نہیں ہے، جگر و تلیّ باوجود خون ہونے کے اس حکم سے مستثنیٰ ہیں حدیث مذکور میں جہاں مردار سے مچھلی اور ٹڈی کو مستثنیٰ کیا ہے وہیں جگر اور طحال کو خون سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ تیسری چیز لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ ہے : اوپر سے چونکہ جانوروں کے گوشت کا ذکر چل رہا ہے اس لئے یہاں بھی لحم الخنزیر فرما دیا ورنہ خنزیر کے بدن کی ہر چیز حرام ہے، یا اس لئے کہ جانور میں اعظم مقصود گوشت ہی ہوتا ہے اس لئے لحم الخنزیر فرمایا۔ اکلہ نجسٌ وَاِنّما خصّ اللحم لِاَنَّہ معظم المقصود۔ سُوَرْ کے گوشت کی جسمانی مضرتوں سے طبی لڑیچر بھرا پڑا ہے، اخلاقی اور روحانی نقصانات کا ذکر ہی کیا ! ؟ بریدۃ الاسلمی کی حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جس کو صحیح مسلم، ابو داؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا ! چوسر کھیلنے والا شخص جب تک چوسر کھیلتا ہے تو اس کے ہاتھ گویا سور کے خون میں ڈوبے رہتے ہیں، اگرچہ بعض مفسرین نے خنزیر کے بعض اجزاء کو حرمت سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ بعض اجزاء کو پاک قرار دینے والے علماء کا استدلال : سورة انعام میں یہ بحث شروع کردی ہے کہ لحم الخنزیر میں ترکین اضافی ہے اور اس طرح کی ترکیب کے بعد جو ضمیر آتی ہے وہ مضاف کی طرف لوٹتی ہے، اس لئے فَاِنَّہٗ میں جو ضمیر ہے وہ لحم کی طرف لوٹے گی، اور معنی یہ ہوں گے کہ سور کا گوشت ناپاک ہے اس معنی کے اعتبار سے سور کے تمام اجزاء کا ناپاک ہونا ثابت نہ ہوگا۔ مذکورہ استدلال کا جواب : بعض علماء نے اس استدلال کا جواب دیا ہے کہ آیت ” کمثل الحمار یحمل اسفارا “ اور آیت واشکروا نعمۃ اللہ علیکم ان کنتم ایاہ تعبدون کی بھی یہی ترکیب ہے اور ان میں یحمل کا ضمیر اور ایاہ کی ضمیر مضاف الیہ کی طرف راجع ہے نہ کہ مضاف کی طرف اس لئے یہ ضروری نہیں کہ اس طرح کی ترکیب میں ہمیشہہ ضمیر کا مرجع مضاف کی طرف ہی راجع ہو۔ عیسائیوں کے نزدیک سور کا گوشت حرام ہے : اگرچہ اب عیسائی سور کے گوشت کو حرام نہیں سمجھتے تورات کے حصہ استثناء کے باب 14 کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل عیسائی مذہب مذہب میں سور قطعی حرام ہے۔ بائبل میں سور کے گوشت کی حرمت و نجاست : اور سور کہ اس کا کھر دو حصہ (چرواں) ہوتا ہے پر وہ جگالی نہیں کرتا وہ بھی تمہارے لئے ناپاک ہے۔ (اخبار 8: 11) مزید تفصیل کے لئے جلد اول کے صفحہ نمبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھئے۔ چوتھے وہ جانور جو غیر اللہ کے لئے نام زد کردیا گیا ہو، اگر ذبح کرتے وقت بھی اس پر غیر اللہ کا نام کیا جائے تو وہ کھلم شرک ہے اور جانور بالاتفاق مردار کے حکم میں ہے۔ جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ جانور ذبح کرتے وقت بتوں کا نام لیا کرتے تھے، حضرت علی ؓ کے پاس آپ ﷺ کے ارشادات کی ایک تحریر تھی جسے وہ حفاظت کے خیال سے ہمیشہ تلوار کی میان میں رکھا کرتے تھے، اس تحریر کے الفاظ یہ تھے، اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے جس نے غیر اللہ کا نام لے کر ذبح کیا اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے جس نے زمین کی مخصوص علامات بدل دیں، اللہ اس پر لعنت فرمائے جس نے اپنے باپ پر لعنت کی، اللہ اس پر لعنت کرے کہ جس نے ایسے شخص کو پناہ دی کہ جو دین میں نئے شوشے نکالتا رہتا ہے۔ (رواہ مسلم) پانچویں منخنقہ، یعنی وہ جانور جو گلاگھونٹ کر یا گردن مروڑ کر مار دیا گیا، یا خود ہی کسی جال یا پھندے میں پھنسنے کی وجہ سے دم گھٹ کر مرگیا ہو۔ چھٹی موقوذۃ، یعنی وہ جانور جو ضرب شدید کی وجہ سے مرگیا ہو، جیسے لاٹھی یا پتھر وغیرہ، تیرا گرانی کی طرف سے لگنے کے بجائے دستہ کی طرف سے لگا جس کی ضرب سے شکار مرگیا تو یہ بھی موقوذۃ کے حکم میں ہے جیسا کہ حضرت عدی بن حاتم ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ جو شکار بندوق کی گولی سے ہلاک ہوگیا ہو اس کو فقہاء نے موقوذۃ میں شمار کیا ہے، امام جصاص نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے نقل کیا ہے کہ فرماتے تھے، المقتولۃ بالبندقۃ تلک الموقوذۃُ ، گولی کے ذریعہ جو شکار مرا ہو وہ بھی موقوذہ ہے، امام ابو حنیفہ، شافعی، مالک ؓ وغیرہ اسی پر متفق ہیں۔ ساتویں متردیۃ، وہ جانور کہ جو کسی اونچی جگہ مثلاً پہاڑ ٹیلہ وغیرہ سے گر کر مرا ہوا سی طرح کنویں وغیرہ میں گر کر مرنے والا بھی اس میں داخل ہے اسی طرح تیر لگا ہوا جانور اگر پانی میں گر کر مرا تو وہ بھی متردیۃ میں شامل ہوگا، اس لئے کہ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس کی موت پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے ہوئی ہو۔ آٹھویں نطیحۃ، وہ جانور جو کسی دوسرے جانور کے سینگ مارنے یا ٹکر مارنے یا کسی تصادم مثلاً ریل، موٹر وغیرہ کی زد میں آکر مرجائے تو ایسا جانور بھی حرام ہے۔ نویں وہ جانور کہ جسے کسی درندے نے پھاڑ دیا ہو جس کے صدمہ سے وہ مرگیا ایسا جانور بھی حرام ہے۔ اِلاّ ما ذکیتم، یہ ماقبل میں مذکور نو جانوروں سے استثناء ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے مذکور جانوروں میں سے کسی کو زندہ پالیا اور ذبح کرلیا تو وہ حلال ہے یہ استثناء اول چار قسموں سے متعلق نہیں ہے، اسلئے کہ مردار اور خون میں تو اس کا امکان ہی نہیں اور خنزیر اور مَا اُھِلَّ لغیر اللہ اپنی ذات سے حرام ہیں، ان کا ذبح کرنا نہ کرنا برابر ہے۔ دسویں استھانوں پر ذبح کیا ہوا جانور بھی حرام ہے، نُصُبْ ان پتھروں کو کہا جاتا ہے کہ جو دیوی دیوتاؤں کے نام پر نصب کئے جاتے ہیں اسی قسم کے 360 پتھر کعبۃ اللہ کے اطراف میں نصب کئے ہوئے تھے زمانہ جاہلیت میں مشرکین ان کی پوجا کیا کرتے تھے اور ان کے پاس جانور لاکر ذبح کیا کرتے تھے موجودہ اصطلاح میں ان کو استھان اور آستانہ کہتے ہیں اور اس کو عبادت سمجھتے تھے۔ گیارہویں استقسام بالازلام تیروں کے ذریعہ قسمت آزمائی کرنا، نزول قرآن کے وقت عرب میں یہ طریقہ رائج تھا کہ جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا خواہ سفر سے متعلق ہو یا شادی و بیاہ وغیرہ سے تو اس کو کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ تیروں سے معلوم کرتے، کعبۃ اللہ میں دس تیر رکھے رہتے تھے ان میں سے بعض پر نعم اور بعض پر لا لکھا رہتا اور بعض خالی ہوتے جب کسی کو کسی اہم معاملہ میں فیصلہ مطلوب ہوتا تو وہ بیت اللہ کے خادم کے پاس جاتا اور اس کو اول کچھ نذرانہ پیش کرتا اس کے بعد قریش کے بت ہبل کی بندگی کے اقرار کے ساتھ چمڑے کے تھیلے میں جس میں وہ تیر رکھے رہتے تھے مجاور ہاتھ ڈال کر تیر نکالتا اگر نعم والا نکل آتا تو وہ اجازت کا اشارہ سمجھا جاتا اور اگر ’ لا ‘ موالا نکل آتا تو یہ ممانععت کا اشارہ سمجھا جاتا، اور خالی نکل آتا تو وہ عمل مکرر کیا جاتا تاآنکہ نعم یا لا والا تیر نکل آتا۔ استقسام کی دوسری صورت یہ ہوتی کہ دس لوگ موٹی اور فربہ بکریاں خریدتے ان کو ذبح کرنے کے بعد ان کا گوشت یکجا کردیتے اس کے بعد تھیلے میں سے ہر شریک، ایک تیر نکالتا، ہر تیر پر مختلف حصے لکھے ہوتے تھے کل اٹھائیس ہوتے تھے اور بعض تیر خالی بھی ہوتے تھے تیروں کی کل تعداد دس ہوتی تھی جس کے حصے میں جو تیر آتا اس لکھے ہوئے حصہ کا وہ حق دار ہوتا اور بعض لوگوں کے حصہ میں خالی تیر نکلتا تو وہ گوشت سے محروم رہتا، اس کے علاوہ اور بھی قسمت آزمائی کی صورتیں تھیں جو کہ قمار ہی کی قسمیں تھیں۔ ذلک فسق، یعنی قسمت آزمائی کا مذکورہ طریقہ فسق ہے، ذلک فسق، کا مصداق صرف استقسام بالازلام بھی ہوسکتا ہے، اور ما قبل میں مذکور تمام ممنوعات بھی۔ الیومَ یئسَ الذین کفروا مِنْ دینکم، الیوم سے مراد یوم فتح مکہ بھی ہوسکتا ہے اور مطلقا زمان حاضر بھی مراد ہوسکتا ہے مطلب یہ ہے کہ آج کفار تمہارے دین پر غالب آنے سے مایوس ہوچکے ہیں اسلئے اب تم ان سے کوئی خوف نہ رکھو صرف مجھ سے ڈرتے رہو۔ مایوس ہونے کا دوسرا مطلب : جب تک مکہ فتح نہیں ہوا تھا تو مشرکین مکہ کو یہ امید تھی کہ شاید اسلام کمزور اور ضعیف ہوجائے اور جو لوگ مسلمان ہوچکے ہیں وہ مرتد ہو کر واپس اپنے آبائی مذہب بت پرستی کی طرف پلٹ آئیں، فتح مکہ کے بعد مشرکین کی مذکورہ امید ناامیدی میں تبدیل ہوگئی اسی کا ذکر مذکورہ آیت میں ہے، کہ مشرکوں کا خوف تو اب ختم ہوا مگر ہر ایماندار کو اللہ کا خوف دل میں رکھنا ضروری ہے، ایسا ہو کہ اللہ سے نڈر ہو کر مسلمان کچھ ایسے کاموں میں مشغول ہوجائیں جن کی وجہ سے اللہ کی جو مدد مسلمانوں کے شامل حال ہے وہ موقوف ہوجائے جس کے نتیجے میں اسلام میں ضعف آجائے اور کافر غالب ہوجائیں۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر ؓ کی روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جزیرۃ العرب میں شیطان کے بہکانے سے بت پرستی جو پھیلی ہوئی تھی وہ تو ایسی گئی کہ اب شیطان اس سے مایوس ہوگیا، لیکن آپس میں لڑانے کے لئے شیطان کا اثر باقی ہے دین مکمل کردینے سے کیا مراد ہے ؟ دین کو مکمل کردینے سے مراد اس کو ایک مستقل نظام فکر اور اس کو ایک ایسا مکمل نظام تہذیب و تمدن بنادینا ہے جس میں زندگی کے جملہ مسائل کا جواب اصولاً یا تفصیلاً موجود ہو اور ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ الیوم اکملت لکم دینکم، یہ آیت بہت اہم موقع پر نازل ہوئی تھی ذوالحجہ کی 9 تاریخ تھی جمہ کا دن تھا عصر کے بعد کا وقت تھا آپ حجۃ الوداع کے موقع پر دعاء میں مصروف تھے، گویا ہر لحاظ سے نہایت مبارک موقع تھا۔ یہ آیت ایک طرف بےانتہاء مسرت کا پیغام تھا دوسری طرف اس میں ایک غم کا پہلو بھی تھا، یعنی اس آیت میں اس بات کا کھلا اشارہ تھا کہ تکمیل دین ہوچکی اور صاحب نبوت کا فرض پورا ہوچکا، چناچہ اس آیت کے نزول کے بعد آپ صرف 4 ماہ بقید حیات رہے جب حضرت عمر ؓ نے یہ آیت سنی تو بےاختیار رونے لگے آپ ﷺ نے حضرت عمر سے معلوم کیا عمر کیوں روتے ہو ؟ عرض کیا جب تک دین مکمل نہ ہوا تھا ہمارے کمالات میں اضافہ ہوتا رہتا تھا، اب تکمیل کے بعد اس کی گنجائش کہاں ؟ اسلئے کے ہر کمال کیلئے زوال ہے آپ ﷺ نے فرمایا سچ ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ کی روایت ہے جس میں آپ ﷺ نے پہلے صاحب شریعت نبی حضرت نوح (علیہ السلام) سے لیکر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک کی شریعتوں کو ایک خوشنما مکان سے تشبیہ دیکر فرمایا کہ اس مکان میں ایک آخری اینٹ کی کسر تھی وہ آخری اینٹ میں ہوں کیونکہ میں خاتم النبیین ہوں۔ احکامی آخری آیت : حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ الیوم اکملت لکم دینکم الخ، نزول کے اعتبار سے تقریبا آخری آیت ہے اس کے بعد احکام سے متعلق کوئی آیت نازل نہیں ہوئی، اس کے بعد صرف چند آیتیں ترہیب و ترغیب کی نازل ہوئیں، مذکورہ آیت جویں ذی الحجہ 10 ھ میں نازل ہوئی اور 11 ھ بارہ ربیع الاول کو آنحضرت ﷺ کا وصال ہوا۔ غیرَ متجانفٍ لاثمٍ ، اسی مضمون کو سورة بقرہ آیت 173، فَمَنِ اضْطُرَّ غیرَ باغ ولا عادٍ فلا اثم علیہ، میں مزید وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے، اس آیت میں حرام چیز کے استعمال کی اجازت تین شرطوں کے ساتھ دی گئی ہے، (1) یہ کہ واقعی مجبوری کی حالت ہو مثلاً بھوک یا پیاس کی وجہ سے جان بلب ہوگیا ہو یو بیماری کی وجہ سے جان کا خطرہ لاحق ہوگیا ہو اور اس حرام چیز کے علاوہ اور کوئی چیز میسر نہ ہو، (2) دوسرے یہ کہ خدائی قانون کو توڑنے کی نیت نہ ہو، (3) تیسرے یہ کہ ضرورت کی حد سے تجاوز نہ کرے مثلاً حرام چیز کے چند لقمے یا چند گھونٹ یا چند قطرے اگر جان بچا سکتے ہوں تو ان سے زیادہ اس چیز کا استعمال نہ ہونے پائے، احناف کے نزدیک مذکورہ آیت کا یہی مطلب ہے، مفسر علام نے متجانف کی تفسیر قطاع الطریق اور باغی سے اپنے مسلک شافعی کے مطابق کی ہے۔
Top