Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 3
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ١۫ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ١ؕ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ١ؕ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ١ؕ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا١ؕ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
حُرِّمَتْ : حرام کردیا گیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَيْتَةُ : مردار وَالدَّمُ : اور خون وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ : اور سور کا گوشت وَمَآ : اور جو۔ جس اُهِلَّ : پکارا گیا لِغَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا بِهٖ : اس پر وَ : اور الْمُنْخَنِقَةُ : گلا گھونٹنے سے مرا ہوا وَالْمَوْقُوْذَةُ : اور چوٹ کھا کر مرا ہوا وَالْمُتَرَدِّيَةُ : اور گر کر مرا ہوا وَالنَّطِيْحَةُ : اور سینگ مارا ہوا وَمَآ : اور جو۔ جس اَ كَلَ : کھایا السَّبُعُ : درندہ اِلَّا مَا : مگر جو ذَكَّيْتُمْ : تم نے ذبح کرلیا وَمَا : اور جو ذُبِحَ : ذبح کیا گیا عَلَي النُّصُبِ : تھانوں پر وَاَنْ : اور یہ کہ تَسْتَقْسِمُوْا : تم تقسیم کرو بِالْاَزْلَامِ : تیروں سے ذٰلِكُمْ : یہ فِسْقٌ : گناہ اَلْيَوْمَ : آج يَئِسَ : مایوس ہوگئے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سے مِنْ : سے دِيْنِكُمْ : تمہارا دین فَلَا تَخْشَوْهُمْ : سو تم ان سے نہ ڈرو وَاخْشَوْنِ : اور مجھ سے ڈرو اَلْيَوْمَ : آج اَكْمَلْتُ : میں نے مکمل کردیا لَكُمْ : تمہارے لیے دِيْنَكُمْ : تمہارا دین وَاَتْمَمْتُ : اور پوری کردی عَلَيْكُمْ : تم پر نِعْمَتِيْ : اپنی نعمت وَرَضِيْتُ : اور میں نے پسند کیا لَكُمُ : تمہارے لیے الْاِسْلَامَ : اسلام دِيْنًا : دین فَمَنِ : پھر جو اضْطُرَّ : لاچار ہوجائے فِيْ : میں مَخْمَصَةٍ : بھوک غَيْرَ : نہ مُتَجَانِفٍ : مائل ہو لِّاِثْمٍ : گناہ کی طرف فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا) لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کر مر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ بھی کہ پاسوں سے قسمت معلوم کرو یہ سب گناہ (کے کام) ہیں آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہو گئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے
حرمت علیکم المیتۃ حرام کردیا گیا ہے تم پر مردار۔ یہاں سے مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْکی تفصیل شروع کی گئی ہے۔ میتہوہ مردار جس کی روح خود (بغیر کسی بیرونی سبب کے) بدن سے نکلی ہو۔ ابن مندہ نے کتاب الصحابہ میں کہا ہے کہ حضرت حیان بن ابجر نے فرمایا ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ایک ہانڈی میں مردار کا گوشت تھا ‘ میں اس کے نیچے آگ جلا رہا تھا کہ تحریم میۃ کی آیت نازل ہوئی میں نے فوراً ہانڈی الٹ دی۔ میں نے اس جگہ یہ حدیث ” الباب النقول فی اسباب النزول “ کے اتباع میں نقل کی ہے۔ ورنہ صحیح بات یہ ہے کہ سورة مائدہ کی اس آیت کے نزول کے وقت حضرت حیان کے اس واقعہ کا ہونا ناممکن ہے کیونکہ آیات احکام کی سب سے آخری آیت یہی ہے اور سورة انعام میں حرمت میۃ والی آیت ہجرت سے پہلے نازل ہوچکی تھی اور یہ ممکن نہیں کہ حرمت میۃ کے حکم کے بعد (یعنی سورة انعام کی آیت کے نزول کے بعد) صحابی مردار کا گوشت پکاتے ہوں۔ اس لئے صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حیان ؓ والا قصہ سورة انعام کی آیت تحریمہ کے نزول کے وقت کا ہے۔ اس آیت سے اس قصہ کا کوئی تعلق نہیں۔ وَالدَّمَ اور خون۔ باجماع علماء اس سے مراد سیال خون ہے اہل جاہلیت سیال خون پیا کرتے تھے۔ (اس کی حرمت کا حکم اس آیت میں دے دیا گیا) ۔ ولحم الخنزیر اور خنزیر کا گوشت۔ یوں تو پورا خنزیر اس کا ہر حصہ نص اور اجماع کی رو سے نجس ہے مگر عموماً کھانے میں گوشت ہی آتا ہے اس لئے صرف گوشت کا تذکرہ کیا گیا۔ وما اہل لغیر اللہ بہ اور وہ جانور جس پر (یعنی جس کو ذبح کرنے کے وقت) اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو۔ اہلال آواز بلند کرنا اس سے مراد وہ آواز ہے جو کسی جانور کو ذبح کرنے کے وقت مشرکین چیخ کر باسم اللاّت والعزیٰ کہا کرتے تھے۔ ابوالطفیل کی روایت ہے کہ حضرت علی ؓ سے دریافت کیا گیا کیا رسول اللہ ﷺ نے خصوصیت کے ساتھ کوئی چیز (بطور وصیت یا اندرونی حکم) دی تھی فرمایا عام لوگوں کو جو چیز نہ دی ہو اور ہم کو خصوصیت کے ساتھ دی ہو ایسی کوئی چیز نہیں ہاں جو میری تلوار کے پرتلہ میں ہے بس یہی چیز تھی پھر آپ نے (تلوار کے پرتلہ سے) ایک تحریر نکالی جس میں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی ‘ اللہ کی لعنت اس پر جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کے لئے ذبح کرے۔ (یعنی ذبح کے وقت دوسرے کے نام کو شریک بنا لے یا تنہا دوسرے کا نام لے) اور اللہ کی لعنت اس پر جو زمین کے نشانات میں چوری کرے۔ دوسری روایت میں چوری کے لفظ کی جگہ بگاڑنے کا لفظ آیا ہے یعنی جو زمین کے نشانات کو بگاڑے اور اللہ کی لعنت اس پر جو اپنے باپ پر لعنت کرے اور اللہ کی لعنت اس پر جو (دین میں اپنی طرف سے) نئی بات نکالنے والے کو ٹھکانا دے۔ رواہ مسلم۔ مسئلہ : ذبح کے وقت اللہ کے نام کے ساتھ ملا کر بغیر عطف کے کسی دوسری چیز کا ذکر کرنا مکروہ ہے مگر حرام نہیں ہے جیسے ذبح کے وقت بسم اللہ کے بعد فوراً ساتھ ساتھ اللّٰہُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ فُلاَنٍکہنا یا بسم اللہ کے بعد متصلاً بغیر فصل کے محمد رسول اللہ کہنا مکروہ ہے لیکن اگر بالکل ملا کر عطف کے ساتھ کسی اور کا ذکر کیا۔ مثلاً بسم اللہ واسم فلاں یا بسم اللہ ومحمد رسول اللہ کہہ دیا تو ذبیحہ حرام ہوجائے گا ذبح کے وقت غیر اللہ کی شرکت ہوجائے گی۔ ہاں اگر جانور کو لٹانے اور بسم اللہ پڑھنے سے پہلے غیر اللہ کا ذکر کردیا تو کوئی ہرج نہیں ہے اسی طرح ذبح کے بعد بھی کچھ (دعائیہ یا دوسرے طرح کے) الفاظ کہنا مکروہ نہیں ہے۔ روایت میں آیا ہے کہ ذبح کے بعد رسول اللہ ﷺ نے دعا کی تھی اللّٰہُمَّ تقبل ہذا عن امۃ محمد ممن شَہِدَ لَکَ بالوحدانیۃ ولی بالبلاغ سورة بقرہ میں مسئلہ کی یہ چاروں صورتیں اور ان سے متعلق مباحث کا ذکر ہم کرچکے ہیں۔ والمنخنقۃ اور گلا گھونٹ کر مرا ہوا جانور۔ یعنی وہ جانور جو گلا گھونٹنے سے مرا ہو۔ والموقوذۃ اور چوٹ کھا کر مرا ہوا جانور۔ وَقذٌ : سخت چوٹ۔ اہل جاہلیت جانور کو لاٹھی اور پتھر کی ضرب سے بھی قتل کرتے (اور پھر کھالیتے) تھے۔ والمتردیۃ اور اوپر سے نیچے گر کر مرنے والا جانور ‘ اوپر سے لڑھک کر نیچے گر کر مرا ہوا یا کنوئیں میں گر کر ‘ ذبح کرنے سے پہلے مرگیا ہو۔ والنطیحۃ اور ٹکر سے مرا ہوا جانور جیسے جانور باہم ٹکراتے (یعنی لڑتے ‘ 12) اور ایک دوسرے کو سینگوں سے مارڈالتے ہیں۔ وما اکل السبع اور وہ جانور جس کو درندہ نے کچھ کھا کر باقی حصہ چھوڑ دیا ہو (اور جانور کے پھاڑنے سے ذبح کرنے سے پہلے وہ مرچکا ہو) اس فقرہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر شکاری جانوروں نے شکار کا کچھ حصہ کھالیا ہو (اور ذبح کرنے سے پہلے وہ شکار مرگیا) تو وہ حرام ہے اس کو کھانا جائز نہیں۔ الا ما ذکیتم مگر وہ جانور (حلال ہے جس کو مرنے سے پہلے) تم ذبح کر پاؤ۔ تذکِیَۃٌکا لغوی معنی ہے تمام کرنا ذکت النارآگ پوری روشن ہوگئی یہاں ذبح مراد ہے ذبح سے زندگی پوری ہوجاتی ہے۔ صحاح میں ہے ذَکَّیْتُ الشَّاۃ میں نے بکری کو ذبح کردیا۔ تذکیہ کی حقیقت صرف یہ ہے کہ جانور کی طبعی حرارت کو بدن سے نکال دیا جائے لیکن شریعت میں (ہر طریقہ سے ازالۂ حرارت کو تزکیہ نہیں کہا جاتا بلکہ ایک خاص طریقہ سے ابطال حیات کا نام تزکیہ ہے) یعنی بالارادہ اللہ کا نام لے کر حلق ولبہ کو کاٹ کر یا چھید کر ابطال حیات کرنے کا نام شرعاً تزکیہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نوفل بن ورقاء خزاعی کو اونٹ پر سوار کر کے منیٰ کی گھاٹیوں میں (تمام حاجیوں کی تعلیم کے لئے) یہ ندا کرنے کے لئے بھیجا کہ ذکات (ذبح اور نحر) حلق اور لبہ میں ہونا چاہئے۔ رواہ ابن الجوزی من طریق الدارقطنی۔ مسئلہ : درندہ کا زخمی کیا ہوا یا کچھ کھایا ہوا جانور اس وقت حلال ہے جب مرنے سے پہلے اس کو ذبح کرلیا جائے۔ آیت میں یہی مفہوم مراد ہے اگر درندہ کے زخمی کرنے سے شکار کی حالت ذبیحہ جیسی ہوگئی (خواہ مرا نہ ہو) اور اس کو ذبح کرلیا جائے تب بھی وہ مردار کے حکم میں ہے اس کو کھانا حلال نہیں۔ متردیہ ‘ نطیحہ اور موقوذح کا بھی یہی حکم ہے اگر ان کی حالت چوٹ سے ذبیحہ جیسی ہوگئی ہو تو ان کو کھانا حرام ہے خواہ مرنے سے پہلے اس کو ذبح کرلیا گیا ہو۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا الا ما ذکیتم میں استثناء صرف درندہ کے کھائے ہوئے جانور سے تعلق رکھتا ہے۔ کیونکہ چند معطوفات کے بعد اگر استثناء آئے تو اس کا تعلق آخری معطوف سے ہوتا ہے باقی چاروں یعنی منخنقۃ ‘ موقوذہ ‘ نطیحہ اور متردیہکا استثنائی حکم قیاسی ہے (منصوص نہیں ہے) ما اکل السبع کے استثناء پر قیاس کرنے سے معلوم ہوا ہے سب کے ساتھ استثناء کا تعلق یوں بھی ممکن نہیں کیونکہ منتخنقہتو کہتے ہی اس کو ہیں جو گلا گھونٹنے سے مرگیا ہو اسی طرح متردیہ ‘ موقوذہ اور نطیحہ بھی انہی جانوروں کو کہا جاتا ہے جو گرنے چوٹ کھانے اور ٹکرانے سے مرگئے ہوں اس لئے ان قریب الموت جانوروں کو جو ذبح سے پہلے زندہ تھے یہ الفاظ شامل ہی نہیں ہیں اور شمول نہیں تو استثناء کا بھی ان سے تعلق نہیں ہوسکتا۔ مسئلہذبح کی رگیں چار ہیں۔ حلقوم ‘ یعنی سانس کی نالی۔ مری یعنی غذا کی نالی اور دوا وداج یعنی خون کی نالیاں۔ امام مالک کے نزدیک چار کا کٹنا ضروری ہے ایک قول امام احمد کا بھی اسی طرح آیا ہے۔ امام شافعی (رح) کے نزدیک صرف حلقوم اور مری کا کٹنا کافی ہے امام احمد کا بھی دوسرا قول یہی ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا ‘ تین رگیں کٹنی ضروری ہیں کوئی تین ہوں۔ تعیین نہیں۔ امام ابو یوسف (رح) : کا بھی اوّل قول یہی تھا۔ پھر آپ نے اس قول سے رجوع کرلیا اور حلقوم مری اور ایک ودج کٹنے کو ضروری قرار دیا۔ ایک روایت میں امام محمد (رح) : کا بھی یہی قول منقول ہے۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ امام محمد نے فرمایا چاروں میں سے ہر ایک کا زیادہ حصہ کٹنا لازم ہے۔ ایک روایت میں امام ابوحنیفہ (رح) : کی طرف بھی اس قول کی نسبت کی گئی ہے۔ بہرحال امام محمد کے قول کا حاصل یہ ہے کہ چاروں کا کٹنا ضروری ہے مگر اکثر کو کُل کا قائم مقام مان لیا جاتا ہے۔ امام ابو یوسف (رح) کے قول کی وجہ یہ ہے کہ اوداج کے کٹنے سے مقصود ہے خون کا بہانا اور ایک ودج کے کٹنے سے پورا خون بہہ جاتا ہے۔ لہٰذا حلقوم اور مری کے علاوہ ایک ودج کٹنا کافی ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا ‘ بکثرت مسائل میں اکثر کو کل کا قائم مقام قرار دیا جاتا ہے۔ لہٰذا تین کافی ہیں ‘ اصل مقصد یعنی سیال خون کا بہا دینا اس سے حاصل ہوجاتا ہے۔ مسئلہ : جس آلہ سے سیال خون کا بہاؤ اور رگوں کا کٹنا ممکن ہو ذبح کے لئے وہ کافی ہے شیشہ ہو یا دھار دار پتھر یا کھپاچ ہو مگر دھار دار ہو۔ دانت ‘ ناخن اور سینگ بھی آلۂ ذبح ہوسکتا ہے بشرطیکہ وہ جسم سے الگ کرلیا گیا ہو (جب تک دانت اور ناخن ذبح کرنے والے کے جسم کا جز ہیں ان سے ذبح کرنا ناجائز ہے سب اکھڑ کر الگ ہوجائیں تو ان کو آلۂ ذبح قرار دیا جاسکتا ہے) مگر دھار دار ہونا ضروری ہے اور یہ مکروہ ہے امام اعظم کا یہی قول ہے۔ باقی تینوں اماموں کے نزدیک دانت ناخن اور سینگ سے ذبح ناجائز ہے ایسا ذبیحہ مردار ہوگا کذا فی الہدایہ۔ حضرت رافع بن خدیج کا بیان ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کل کو ہمارا مقابلہ دشمن سے ہوگا اور جانو رکو ذبح کرنے کے لئے ہمارے پاس چھیریاں نہیں ہیں کیا ہم کھپاچ سے ذبح کرسکتے ہیں فرمایا جو آلہ (اپنی دھار سے کاٹ کر) خون بہا دے اور (ذبح کے وقت) اللہ کا نام لے لیا گیا ہو۔ تم ایسا ذبیحہ کھا سکتے ہو مگر آلۂ ذبح دانت اور ناخن نہیں ہونا چاہئے میں تم سے اس کی وجہ بیان کرتا ہوں دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھریاں ہیں۔ (بخاری و مسلم) حضرت کعب بن مالک (رح) کا بیان ہے ہماری بکریاں سلع میں چرتی تھیں ایک روزہ ہماری باندی نے ایک بکری کو مرتے دیکھ کر فوراً ایک پتھر توڑ کر اس کی دھار سے بکری کو ذبح کردیا میں نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا فرمایا کھالو۔ رواہ البخاری۔ حضرت عدی بن حاتم کا بیان ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اگر کسی کو شکار مل جائے اور چھری موجود نہ ہو تو کیا دھار دار پتھر یا لاٹھی کی شگافتہ کھپاچ سے ذبح کرسکتا ہے فرمایا خون بہا دو جس آلہ سے ہو سکے اور (ذبح کے وقت) اللہ کا نام لے لو۔ رواہ ابو داؤد والنسائی۔ عطاء بن یسار نے قبیلۂ بنی حارثہ کے ایک شخص کا بیان نقل کیا جو کوہ احد کی کسی گھاٹی میں اپنی اونٹنیاں چرا رہا تھا۔ اتفاق سے ایک اونٹنی مرنے لگی اور (چھری وغیرہ) کوئی چیز تھی نہیں کہ اونٹنی کو نحر کرسکے مجبوراً اس نے ایک میخ لے کر اس کی نوک سے اونٹنی کے لبہ میں شگاف کردیا اس طرح اونٹنی کا خون بہ گیا پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر واقعہ عرض کردیا حضور ﷺ نے اس کو ذبیحہ کر کے کھانے کی اجازت دے دی۔ رواہ ابو داؤد ومالک دوسری روایت میں میخ کی جگہ شظاظ کا لفظ آیا ہے (شظاظ اس دھار دار لکڑی کو کہتے ہیں جو اونٹ پر لدی ہوئی دو خورجینوں کے درمیان باندھ دی جاتی ہے تاکہ دونوں طرف دونوں خورجین ایک ہی لکڑی سے بندھ کر آویزاں ہوجائیں) امام ابوحنیفہ (رح) نے اپنے قول کے ثبوت میں رسول اللہ ﷺ کے فرمان ما انہر فکل کے عموم کو پیش کیا ہے۔ لفظ ما عام ہے ناخن اور دانت کو بھی شامل ہے دوسرے فقرہ میں حضور ﷺ نے فرمایا اہرق الدم بما شئت اس میں بھی ما کا لفظ عام ہے۔ تینوں ائمہ نے حضور ﷺ کے فرمان لیس السن والظفر سے دانت اور ناخن سے ذبح جائز نہ ہونے پر استدلال کیا ہے مگر امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا اس سے مراد وہ دانت اور ناخن ہیں جو جسم سے اکھڑے ہوئے نہ ہوں کیونکہ حبشی اپنے پنجوں سے ذبح کرتے تھے (اور ممانعت کی علت میں حضور ﷺ نے یہی فرمایا تھا کہ یہ حبشیوں کی چھریاں ہیں) استثناء میں بظاہر دانت سے مراد وہی دانت ہے جس میں تیزی اور دھار نہ ہو۔ دیکھو حضور ﷺ نے (اسی لئے) دانت کو ہڈی فرمایا۔ بہرحال اگر دانت اور ناخن جسم سے اکھڑا ہوا نہ ہو تو بالاجماع اس سے ذبح کرنا ناجائز ہے کیونکہ (اس وقت ذبیحہ کا قتل آلہ کے بوجھ کے سبب ہوگا اور ایسا ذبیحہ منخنقہ کے حکم میں ہوجائے گا۔ مسئلہ : ذبح سے پہلے چھری کو تیز کرلینا مستحب ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ نے ہر چیز میں حسن کار کو لازم کردیا ہے اس لئے اگر قتل کرو تو برے طریقہ سے قتل نہ کرو اور ذبح کرو تو ذبح کرنے میں بھی خوبی کو اختیار کرو۔ چھری کو تیز کرلیا جائے اور ذبیحہ کو دکھ کم پہنچایا جائے۔ رواہ مسلم عن شداد بن اوس۔ مسئلہ : اگر اڑتے پرندے کے تیر مارا اور تیر لگ گیا اور پرندہ زمین پر گر کر مرگیا تو حلال ہے کیونکہ زمین پر تو اس کو گرنا ہی تھا لیکن اگر پانی میں گرایا پہاڑ یا درخت پر گر کر وہاں سے لڑھک کر مرگیا تو اس کو کھانا ناجائز ہے۔ وہ متردیہ کے حکم میں آگیا۔ ہاں اگر تیر پرندہ کے اسی مقام پر لگا جس جگہ ذبح کیا جاتا ہے تو جہاں بھی گرے حلال ہے کیونکہ تیر سے اس کا ذبح ہوچکا۔ وما ذبح علی النصب اور جس جانور کو تھانوں میں ذبح کیا گیا ہو۔ نصب جمع ‘ نصاب ‘ واحد جیسے کتب اور کتاب بعض کے نزدیک نصب مفرد ہے اس کی جمع انصاب آتی ہے جیسے عنق کی جمع اعناق ہے۔ مجاہد و قتادہ نے کہا کہ کعبہ کے آس پاس 360 پتھر نصب تھے جن کی پوجا ہوتی تھی۔ اہل جاہلیت ان کی تعظیم کرتے اور وہاں جانوروں کی بھینٹ کرتے تھے یہ بت نہ تھے بتوں کی تو مورتیاں صورتیں ہوتی ہیں۔ دوسرے لوگوں نے کہا یہ مورتیاں ہی تھیں۔ قطرب نے کہا عَلَی النصب میں علی بمعنی لام ہے یعنی جو جانور استھانوں کے لئے ذبح کئے گئے ہوں وہ حرام کردیئے گئے ہیں۔ ابن زید نے کہا مَا اُہِلَّ لغَیَرِ اللّٰہِ بِہٖاور ماذبح عَلَی النُّصُبِسے مراد ایک ہی ہے۔ میں کہتا ہوں عطف تغایر کو چاہتا ہے صحیح مجاہد و قتادہ کا قول ہی ہے کہ کعبہ کے گرداگرد کچھ پتھر نصب تھے۔ اہل جاہلیت ان پر ذبح کرتے اور اس کو عبادت سمجھتے تھے۔ وان تقستسموا بالازلام اور جوئے کے تیروں سے تمہارا فال نکالنا بھی حرام کردیا گیا ہے۔ استسقام اپنا نصیب پہنچانے کی طلب۔ الازلامجمع زَلَمْکی اور زلم واحد جوئے کے چھوٹے تیر جن میں نہ پر ہوتے تھے نہ پھل۔ ازلام سات تھے جو کعبہ کے مجاور کے پاس رہتے تھے یہ شوحط لکڑی کے بنے ہوتے تھے ایک پر لکھا ہوتا تھا ہاں۔ ” ٹھیک ہے “۔ دوسرے پر لکھا ہوتا ” نہیں “۔ ایک پر لکھا ہوتا تم سے۔ دوسرے پر ہوتا تمہارے علاوہ دوسروں سے ایک پر ہوتا چسپاں۔ دوسرے پر عقل اور ایک خالی ہوتا اس پر کچھ لکھا نہیں ہوتا۔ جب لوگ کسی کام کا ارادہ کرتے مثلاً سفر کا یا نکاح کا یا دامادی کا یا نسب یا دیت میں اختلاف ہوتا تو ہبل کے پاس جاتے ہبل قریش کا سب سے بڑا بت تھا۔ ہبل کے پاس پہنچ کر مجاور کو سو درہم دیتے اور وہ ترکش کو گھما کر تیر نکالتا اگر ہاں نکل آتا تو اس کام کو کرتے اگر نہیں نکلتا تو سال بھر تک وہ کام نہیں کرتے اور اگر تحقیق نسب کے لئے فال نکالتے اور تم میں سے۔ نکل آتا تو اس کو اپنے قبیلہ کا ایک شریف النسب فرد قرار دیتے اور اگر تمہارے غیر میں سے لکھا ہوتا تو اس کو اپنا معاہد دوست قرار دیتے اور اگر چسپاں کا لفظ نکلتا تو ایسے آدمی کو نہ نسبی شریک مانا جاتا نہ معاہد دوست اور اگر دیت کے متعلق اختلاف ہوتا اور فال نکالتے اور العقل نکل آتا تو دیت کا بار برداشت کرلیتے اور اگر بےنشان تیر نکلتا تو دوبارہ فال نکالتے یہاں تک کہ کچھ نہ کچھ لکھا ہوا تیر نکل آتا اور اس کے موافق عمل کرتے۔ اللہ نے اس کی ممانعت فرما دی۔ ذلکم فسق یہ سب گناہ ہے۔ سعید بن جبیر نے کہا : ازلام کچھ سفید سنگریزے ہوتے تھے جو مارا کرتے تھے۔ مجاہد نے کہا اہل فارس اور روم کی جوئے کی گوٹیں ہوتی ہیں جن سے جوا کھیلتے تھے سفیان بن وکیع نے شطرنج کے لفظ سے تشریح کی ہے۔ شعبی وغیرہ نے کہا عرب کے لئے ازلام اور عجم کے لئے گوٹیں (دونوں کا ایک حکم ہے) میں کہتا ہوں اس طریقہ سے علم غیب حاصل کرنے کی جو چیزیں ہوں سب ازلام میں داخل ہیں جیسے اہل علم کے پانسے ‘ فالنامے اور وہ تمام بازیاں (خواہ کرسی پر بیٹھ کر کھیلے ‘ گراؤنڈ میں کھیلے ‘ کمپیوٹر پر کھیلے ‘ انٹر نیٹ پہ ہو ‘ وغیرہ ‘ 12) جن میں جوا کھیلا جاتا ہے۔ سب کا اندراج استقسام کے ذیل میں ہے۔ حضرت ابو درداء ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے کاہن سے خبر طلب کی یا نصیب معلوم کرنا چاہا یا سفر سے رک جانے کا شگون لیا وہ قیامت کے جنت کے اونچے درجات کی طرف بھی نہیں دیکھے گا۔ رواہ البغوی عن قبیصۃ۔ یہ بھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پرندوں کے ناموں سے آوازوں سے اور گزرنے سے فال حاصل کرنا اور شگون لینا اور کنکریاں مارنا (یعنی ہار جیت یا کرنے نہ کرنے کا حکم معلوم کرنا) کفر سے ہے۔ رواہ ابو داؤد بسند صحیح۔ الیوم یئس الذین کفروا من دینکم اب کافر تمہارے دین (پر غالب آنے) سے ناامید ہوگئے الیوم سے مراد آج کا دن نہیں بلکہ وقت حاضر اور اس کے بعد آنے والے متصل زمانے سب اس میں شامل ہیں۔ بعض نے کہا نزول آیت کا دن مراد ہے۔ دین کی طرف سے کافروں کی ناامیدی کا یہ معنی ہے کہ دین اور اہل دین کے مغلوب ہونے اور دین کو چھوڑ کر مسلمانوں کے مرتد ہونے سے کافر مایوس ہوگئے۔ فلا تخشوہم پس تم کافروں سے نہ ڈرو۔ یعنی یہ اندیشہ نہ کرو کہ کافر تم پر غالب آجائیں گے یا تمہارے دین کو برباد کرسکیں گے۔ واخشون اور مجھ سے ڈرو یعنی صرف مجھ ہی سے ڈرو۔ الیوم اکملت لکم دینکم اب میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا۔ یعنی اصول عقائد کی صراحت کردی فرائض واجبات ‘ سنن ‘ مستحبات ‘ حلال ‘ حرام ‘ مکروہات ‘ مفسدات ‘ مشروعات جیسے مفسد صوم و صلوٰۃ و بیع وغیرہ اور غیر منصوص میں اجتہاد کے قوانین ہر چیز سے واقف کردیا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تکمیل دین سے مراد ہو رسول اللہ ﷺ کو قرب کے اس مرتبہ پر پہنچا دینا جو تمام اگلے پچھلے باکمال انسانوں کے لئے قابل رشک ہے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے مرتبۂ محبوبیت پر فائز ہونے کی وجہ سے ہی اللہ نے آپ کی امت کے تمام گناہ معاف فرما دئیے خواہ اللہ کے حقوق سے تعلق رکھتے یا بندوں کے حقوق سے ‘ حد یہ کہ آپس کی خون ریزیاں اور مظالم بھی معاف کردیئے گئے۔ حضرت عباس ؓ بن مرداس کی روایت ہے کہ عرفہ کی شام کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کے گناہ بخشنے کے لئے دعا کی جو قبول کرلی گئی اور فرمایا گیا کہ میں نے سوائے باہمی مظالم کے ان کے گناہ معاف کر دئیے مظلوم کا بدلہ ظالم سے ضرور لوں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے عرض کیا میرے رب اگر تو چاہے تو مظلوم کی مظلومیت کے بدلہ میں جنت کا کوئی حصہ اس کو دے دے اور ظالم کو معاف کر دے۔ شام کو یہ التجا قبول نہیں ہوئی۔ صبح کو مزدلفہ میں رسول اللہ ﷺ نے پھر گزشتہ دعا کا اعادہ کیا اس وقت درخواست قبول کرلی گئی اور حضور ہنس دیئے یا مسکرا دیئے۔ حضرت ابوبکر ؓ و عمر ؓ نے عرض کیا۔ اللہ آپ کو ہنساتا رکھے ‘ آپ ایسے وقت تو ہنستے نہ تھے۔ آج ہنسنے کا کیا باعث ہے ‘ فرمایا اللہ کے دشمن ابلیس کو جب معلوم ہوا کہ اللہ نے میری دعا قبول فرما لی اور میری امت کو بخش دیا تو سر پر خاک ڈالنے اور واویلا مچانے لگا مجھے اس کا یہ اضطراب دیکھ کر ہنسی آگئی۔ رواہ ابن ماجۃ والبیہقی فی کتاب البعث۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اس آیت کے بعد حلال ‘ حرام ‘ فرائض ‘ سنن ‘ حدود اور احکام میں سے کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔ اگر شبہ کیا جائے کہ حضرت ابن عباس ؓ ہی کی روایت میں آیا ہے کہ اس کے بعد آیت ربوا کا نزول ہوا۔ ہم جواب میں کہیں گے کہ اگر اس روایت کی صحت ثابت ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حرمت سود کا حکم اگرچہ اس آیت کے نزول سے پہلے آچکا تھا مگر سورة بقرہ کی آخر کی آیات اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرَّبٰوا لاَ یَقُوْمُوْنَ ۔۔ یَاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا الخ اس آیت کے نزول کے بعد نازل ہوئیں۔ حضرت جابر ؓ کی روایت سے حجۃ الوداع کے قصہ میں رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان آیا ہے کہ جاہلیت کا سود ساقط کیا جاتا ہے اور اپنے سودوں میں سے سب سے پہلے میں عباس بن عبدالمطلب کا سود ساقط کرتا ہوں وہ سارا سود چھوڑ دیا گیا۔ سعید بن جبیر ؓ نے آیت مذکورہ کی تشریح اس طرح کی کہ میں نے اب تمہارا دین کامل کردیا اب کسی مشرک نے تمہارے ساتھ حج نہیں کیا۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ تمام مذاہب پر تمہارے دین کو میں نے غالب کردیا اور دشمنوں سے تم کو بےخوف کردیا۔ فائدہ : حجۃ الوداع میں بمقام عرفہ جمعہ کے دن عصر کے بعد یہ آیت نازل ہوئی رسول اللہ ﷺ اس وقت عرفہ میں اپنی اونٹنی عضباء پر کھڑے تھے کہ وحی کے بار سے اونٹنی کے بازو ٹوٹنے لگے اور یہ آیت نازل ہوئی۔ شیخین نے صحیحین میں بیان کیا ہے کہ ایک یہودی نے حضرت عمر ؓ سے عرض کیا امیر المؤمنین ! ایک آیت آپ لوگوں کی کتاب میں ہے جو آپ پڑھتے ہیں اگر ہم یہودیوں پر وہ اترتی تو ہم اس کے یوم نزول کو روز عید بنا لیتے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا وہ کون سی آیت ہے یہودی نے کہا الیوم اکملت لکم دینکم الخحضرت عمر ؓ نے فرمایا ہم کو دن اور وہ مقام معلوم ہے جس میں یہ آیت رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی تھی۔ عرفہ میں جمعہ کے دن رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے تھے کہ یہ آیت اتری۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے اس کلام سے اس طرف اشارہ کیا کہ آیت کے نزول کے دن ہماری دوہری عید ہوگئی جمعہ کا دن اور قیام عرفہ کا دن۔ بغوی نے بیان کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر ؓ اس کو سن کر رو دئیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عمر ؓ کیوں روتے ہوئے عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھے یہ بات رو لا رہی ہے کہ اب تک تو ہمارا دین ترقی پذیر تھا اور اب کامل ہوگیا تو کمال کے بعد آئندہ نقصان (کے احتمال) کے سوا اور کچھ باقی نہیں رہا۔ حضور ﷺ نے فرمایا تم نے سچ کہا یہ آیت رسول اللہ ﷺ : کی وفات کی اطلاع تھی چناچہ اس کے نزول کے بعد حضور صرف 81 دن زندہ رہے اور 3 ربیع الاوّل 11 ھ ؁ کو پیر کے دن زوال کے بعد آپ کی وفات ہوگئی اور ہجرت کی تاریخ 12 ربیع الاول تھی۔ واتممت علیکم نعمتی اور میں نے اپنا انعام تم پر پورا کردیا۔ یعنی تم سے جو بطور وعدہ کے کہا تھا ولاتم نعمتی علیکم اس وعدہ کو پورا کردیا۔ تکمیل انعام کی صورتیں یہ ہوئیں کہ پوری ہدایت کردی دین کو کامل کردیا توفیق بھی عطا کردی فتح مکہ بھی عنایت کردی جاہلیت کے نشان گرا دیئے یہاں تک کہ تنہا مسلمانوں نے اطمینان کے ساتھ حج بھی کرلیا ‘ اور اس حج میں کوئی مشرک شریک نہ ہوسکا۔ ورضیت لکم الاسلام دینا اور (تمام مذاہب میں) اسلام کو تمہارا دین ہونے کے لئے انتخاب کرلیا ‘ اللہ کے نزدیک صرف یہی دین صحیح ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ نے بیان کیا میں نے خود سنا رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے کہ جبرئیل ( علیہ السلام) نے (مجھ سے) اللہ کا قول نقل کیا یہ دین ہے جس کو میں نے اپنے (یعنی اپنی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے) انتخاب کیا ہے اس دین کی درستی صرف سخاوت اور حسن اخلاق سے ہوگی لہٰذا جب تک تم اس دین کے رفیق ہو سخاوت اور حسن اخلاق سے اس کو عزت دو ۔ واللہ اعلم۔ فمن اضطر فی مخمصۃ غیر متجانف لاثم پس جو شخص شدت کی بھوک میں بےتاب ہوجائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو۔ اس آیت کا تعلق مذکورہ ممنوعات سے ہے بیچ میں ایسے امور کا تذکرہ آگیا تھا جو ممنوعات سے اجتناب کے مقتضی ہیں یعنی دین کی تعظیم اور دین کی تکمیل کا مسلمانوں پر احسان اور امور ممنوعہ کے ارتکاب کا فسق ہونا۔ مخمصۃ غذا سے پیٹ کا خالی ہونا۔ رَجُلٌ خَمِیْصُ الْبَطْنِبھوکے کو کہتے ہیں متجانف بمعنی مائل۔ لاثم میں لام بعمنی الیٰ ہے۔ یعنی جو شخص انتہائی بھوک کی حالت میں مذکورہ ممنوعات میں سے کسی کو کھانے کے لئے بےتاب ہوجائے بشرطیکہ لذت اندوزی کے لئے نہ کھائے اور نہ حد جواز سے آگے بڑھے۔ اگر وہ ایسی حالت میں کھالے گا۔ فان اللہ غفور رحیم تو اللہ غفور رحیم ہے اپنی رحمت سے معاف کر دے گا۔ سورة بقرہ میں یہ مسئلہ اور اس کے متعلقات کا بیان کیا جا چکا ہے۔ بغوی نے ابو واقد لیثی کی روایت سے لکھا ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم (کبھی) ایسی سرزمین میں ہوتے ہیں جہاں ہم کو بھوک لگتی ہے (اور کھانے کو کچھ ملتا نہیں) ہمارے لئے مردار کب حلال ہوجائے گا فرمایا جب صبح کو تم کچھ نہ پی سکو نہ پچھلے دن میں کچھ پی سکو نہ زمین سے کچھ سبزی اکھاڑ کر کھا سکو اس وقت تم جانور اور مردار کو کھا سکتے ہو۔ واللہ اعلم۔ طبرانی ‘ حاکم اور بیہقی وغیرہ نے حضرت ابو رافع کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ایک بار حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور داخل ہونے کی اجازت طلب کی آپ نے اجازت دے دی لیکن جبرئیل ( علیہ السلام) نے داخل ہونے میں تاخیر کی تو حضور خود اپنی چادر لے کر (یعنی اوڑھ کر) باہر تشریف لے آئے دیکھا دروازہ پر حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) موجود ہیں فرمایا ہم نے تو آپ کو داخل ہونے کی اجازت دے دی تھی۔ حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) نے کہا بیشک لیکن ہم اس گھر میں نہیں جاتے جہاں کوئی تصویر یا کتا ہو لوگوں نے دیکھا تو ایک کوٹھری میں کتے کا بچہ موجود تھا۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے ابو رافع کو حکم دیا کہ مدینہ میں کسی کتے کو زندہ نہ چھوڑیں سب کو قتل کردیں ‘ اس پر کچھ لوگ حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ اس امت (نوع حیوانی) میں سے ہمارے لئے کیا حلال ہے۔ جس کے قتل کا آپ نے حکم دیا ہے اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top