Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 3
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ١۫ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ١ؕ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ١ؕ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ١ؕ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا١ؕ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
حُرِّمَتْ
: حرام کردیا گیا
عَلَيْكُمُ
: تم پر
الْمَيْتَةُ
: مردار
وَالدَّمُ
: اور خون
وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ
: اور سور کا گوشت
وَمَآ
: اور جو۔ جس
اُهِلَّ
: پکارا گیا
لِغَيْرِ اللّٰهِ
: اللہ کے سوا
بِهٖ
: اس پر
وَ
: اور
الْمُنْخَنِقَةُ
: گلا گھونٹنے سے مرا ہوا
وَالْمَوْقُوْذَةُ
: اور چوٹ کھا کر مرا ہوا
وَالْمُتَرَدِّيَةُ
: اور گر کر مرا ہوا
وَالنَّطِيْحَةُ
: اور سینگ مارا ہوا
وَمَآ
: اور جو۔ جس
اَ كَلَ
: کھایا
السَّبُعُ
: درندہ
اِلَّا مَا
: مگر جو
ذَكَّيْتُمْ
: تم نے ذبح کرلیا
وَمَا
: اور جو
ذُبِحَ
: ذبح کیا گیا
عَلَي النُّصُبِ
: تھانوں پر
وَاَنْ
: اور یہ کہ
تَسْتَقْسِمُوْا
: تم تقسیم کرو
بِالْاَزْلَامِ
: تیروں سے
ذٰلِكُمْ
: یہ
فِسْقٌ
: گناہ
اَلْيَوْمَ
: آج
يَئِسَ
: مایوس ہوگئے
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سے
مِنْ
: سے
دِيْنِكُمْ
: تمہارا دین
فَلَا تَخْشَوْهُمْ
: سو تم ان سے نہ ڈرو
وَاخْشَوْنِ
: اور مجھ سے ڈرو
اَلْيَوْمَ
: آج
اَكْمَلْتُ
: میں نے مکمل کردیا
لَكُمْ
: تمہارے لیے
دِيْنَكُمْ
: تمہارا دین
وَاَتْمَمْتُ
: اور پوری کردی
عَلَيْكُمْ
: تم پر
نِعْمَتِيْ
: اپنی نعمت
وَرَضِيْتُ
: اور میں نے پسند کیا
لَكُمُ
: تمہارے لیے
الْاِسْلَامَ
: اسلام
دِيْنًا
: دین
فَمَنِ
: پھر جو
اضْطُرَّ
: لاچار ہوجائے
فِيْ
: میں
مَخْمَصَةٍ
: بھوک
غَيْرَ
: نہ
مُتَجَانِفٍ
: مائل ہو
لِّاِثْمٍ
: گناہ کی طرف
فَاِنَّ اللّٰهَ
: تو بیشک اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: مہربان
حرام کردیا گیا تم پر مردار، خون، سور کا گوشت، اور ہر اس چیز کو جس کو غیر اللہ (کی تعظیم و خوشنودی) کے لئے نامزد کردیا گیا ہو2 اور جو جانور مرجائے گلا گھٹنے سے، یا چوٹ لگنے سے، یا مرجائے گر پڑنے سے، یا سینگ لگنے سے، اور جس کو پھاڑ ڈالے کوئی درندہ، مگر (ان میں اسے) جس کو تم ذبح کرلو، نیز جسے ذبح کیا گیا ہو آستانوں پر، 3 اور یہ کہ تم باہم حصے معلوم کرو جوے کے تیروں سے، کہ یہ سب گناہ ہیں، 4 آج کے دن مایوس ہوگئے کافر لوگ تمہارے دین (کے مٹنے اور مغلوب ہونے) سے پس تم لوگ ان سے نہیں ڈرنا بلکہ خاص مجھ ہی سے ڈرتے رہنا، آج میں نے مکمل کردیا تمہارے لئے تمہارے دین کو، اور پورا کردیا تم پر اپنے انعام کو، اور پسند کرلیا تمہارے لئے اسلام کو (ہمشہ کے) دین کے طور پر، پھر جو کوئی مجبور ہوگیا (اور اس نے ان ممنوعہ چیزوں میں سے کچھ کھالیا) بشرطیکہ اس کا کسی گناہ کی طرف میلان نہ ہو، تو (اس پر کوئی گناہ نہیں کہ) بیشک اللہ بڑا ہی بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے،
10 نذر و نیاز کے بارے میں اہم اور بنیادی تعلیم : یعنی غیر اللہ کے نام کی نذر و نیاز کی حرمت اور کلمہ " مَا " کے عموم و شمول کا بیا ن۔ یعنی " مَا " کا کلمہ عام ہے جو کہ غیر اللہ کی نذر و نیاز کی ہر شکل کو شامل ہے۔ خواہ وہ کوئی جانور ہو یا کوئی غلہ اور شیرینی اور مٹھائی وغیرہ۔ کیونکہ کلمہ " مَا " کا عموم ان سب کو شامل ہے۔ اور اصل یہی ہے کہ لفظ کو اپنے ظاہر اور عموم پر رکھا جائے۔ الا یہ کہ ایسا کرنا متعذر ہو یا کوئی قرینہئِ صارفہ ایسا پایا جاتا ہو جس کی بنا پر ظاہر اور متبادر معنیٰ مراد نہ لیا جا سکتا ہو۔ اور یہاں ایسی کوئی بھی بات موجود نہیں۔ اور دوسرے اس لئے کہ غیر اللہ کے نام کے ذبیحے کا ذکر اس کے کچھ ہی بعد اسی آیت کریمہ میں اس صراحت سے موجود و مذکور ہے ۔ { وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُب } ۔ اب اگر { مَا اُہِلَّ } میں بھی یہی مراد لیا جائے تو پھر { وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ } کا کوئی فائدہ نہیں رہ جاتا۔ اسی لئے حضرت شاہ عبد العزیز وغیرہ جیسے ثقہ حضرات اہل علم نے بھی " مَا " کو اپنے ظاہر اور عموم ہی پر رکھا ہے۔ سو جو بھی کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی خوشنودی کیلئے نامزد کی جائے گی وہ حرام ہوگی ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور غیر اللہ کے نام کی نذر و نیاز کی اس حرمت کی وجہ یہ ہے کہ یہ غیر اللہ کی عبادت و بندگی ہے جو کہ شرک اور حرام ہے۔ اور اس سے کھانا ان کے اس شرک میں حصہ دار بننا ہے۔ اور اس سے راضی ہونا ہے جو کہ ممنوع و حرام ہے۔ (المراغی وغیرہ) ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف نذر و نیاز چونکہ عبادت ہی کا حصہ اور اسی کی ایک شکل ہے، لہٰذا یہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کا حق ہے۔ اس کے سوا کسی اور کے لئے ایسا کرنا شرک ہوگا جو کہ ممنوع اور حرام ہے ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ جَلَّ وَعلاَ ۔ کیونکہ عبادت کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اسی وحدہ لا شریک کا حق ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ - 11 غیر اللہ کے نام کی نامزدگی کی حرمت کا بیان اور اہل بدعت کے مغالطے کی تردید : یعنی اس کے تقرب کے لئے۔ جیسا کہ مشرکین عرب اپنے بتوں کے نام پر سانڈ چھوڑ دیتے تھے اور ہندوستان میں ہندو اپنے دیوتاؤں کے نام چھوڑتے ہیں۔ اور جاہل مسلمان اپنے بزرگوں کے نام پر۔ جیسے " شیخ سدو کا بکرا "، " سید احمد کبیر کے نام کی گائے " وغیرہ وغیرہ۔ پس غیر اللہ کے نام سے نامزدگی اور اس شرک کی بنا پر وہ جانور ایسا ناپاک ہوجاتا ہے جیسا کہ خنزیر۔ اسی لئے یہاں اس کا ذکر { لحم الخنزیر } یعنی " خنزیر کے گوشت " کے ساتھ ملا کر فرمایا گیا ہے۔ لہذا جس طرح خنزیر اللہ کا نام لے کر ذبح کرنے سے پاک نہیں ہوسکتا، اسی طرح ایسا جانور بھی ذبح کرنے سے پاک نہیں ہوسکتا جو غیر اللہ کے نام پر چھوڑا گیا ہو اور اس کیلئے نامزد کیا گیا ہو۔ اور غیر اللہ کے نام پر اور اس کے تقرب کے لئے ایسا کرنے والا مرتد اور اس کا ذبح حرام ہوگا۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : اکلیل ج ا ص 81 للعلامہ شیخ زادہ، الدرالمختار ص 399، البحرالرائق ج 2 ص 298، الشامی ج 3 ص 175، فتاویٰ عالمگیری ج 1 ص 229، شرح النووی لصحیح مسلم ج 2 ص 161، البحر المحیط ج ص 489 تفسیر عزیزی ج 2 ص 38 و فتاویٰ عزیزیہ ج 1 ص 56 وغیرہ وغیرہ) ۔ اور " اِہلال " کا لفظ دراصل ماخوذ و مشتق ہے " ہلال " سے۔ اور " ہلال " شروع میں طلوع ہونے والے نئے چاند کو کہا جاتا ہے۔ کیونکہ عربوں کا طریقہ تھا کہ وہ نئے چاند کو دیکھ کر خوشی اور مبارک بادی کے انداز میں کہا کرتے تھے " الہلال الہلال واللہ " ۔ " چاند چاند، نیا چاند اللہ کی قسم ! "۔ سو اسی سے یہ لفظ یعنی " اِہلال " مطلق رفع صوت یعنی آواز اٹھانے کے معنیٰ میں استعمال ہونے لگا۔ سو { مَا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہ } کا معنیٰ ہوگا " وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا جائے "۔ اور اس سے مقصود اس کی تعظیم ہو۔ کیونکہ یہ سب چیزیں جب مخلوق اللہ پاک کی ہیں تو پھر ان پر نام بھی اسی وحدہٗ لاشریک کا لیا جائے۔ اور اس سے تقرب و خوشنودی بھی اسی کی مقصود ہونی چاہیئے۔ ورنہ ایسا ذبیحہ خنزیر کی طرح حرام ہوجائے گا۔ لہٰذا اہل بدعت کا اپنی مطلب برآوری کے لئے اس کو " عبد اللہ کی گائے "، " عقیقے کا بکرا " اور " ولیمہ کے جانور " جیسی نسبتوں پر قیاس کرنا باطل و مردود اور قیاس قیاس مع الفارق ہے۔ کیونکہ ان میں سے کسی بھی نسبت میں غیر اللہ کے لئے تقرب کا کوئی سوال نہیں۔ بلکہ ایسی تمام مثالوں میں نسبت دین کے کسی خاص حکم کی تکمیل و تعمیل کے اعتبار سے ہے کہ " عبداللہ کی گائے " میں نسبت ملکیت کے اعتبار سے ہے۔ اور دوسری دونوں مثالوں میں عقیقہ اور ولیمہ کے دو مسنون حکموں کے اعتبار سے ہے۔ پس نہ اس میں عبد اللہ کے تقرب کا کوئی سوال ہے اور نہ عقیقے والے مولود اور ولیمہ والے زوجین یا ان میں سے کسی ایک کے تقرب یا کوئی پاس ولحاظ کا۔ پس اہل بدعت کا یہ قیاس قیاس مع الفارق ہے۔ اسی طرح ان لوگوں کی یہ بات بھی سراسر باطل و مردود ہے کہ ۔ { اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ } ۔ کا استثناء { مَا اُہِلَّ بِہ } کو لاحق ہوگا۔ کیونکہ جمہور مفسرین کرام کا اجماع و اتفاق ہے کہ یہ استثناء شروع کی چار چیزوں کو چھوڑ کر اس کے بعد والی اشیاء یعنی " مُنْخَنِقَۃ "، " مَوْقُوْذَۃ " وغیرہ کے ساتھ ہے نہ کہ اس سے پہلے ذکر فرمودہ اشیاء کے ساتھ۔ ورنہ ان لوگوں کی یہ نرالی منطق اگر تسلیم کرلی جائے تو پھر " مَیْتَۃ "، " دم " اور " لَحْمُ الْخِنْزِیر " کے بارے میں بھی وہی کچھ ماننا پڑے گا جو وہ { مَا اُہِلَّ بِہ } کے بارے میں مانتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ایساتو یہ لوگ بھی نہیں مان سکتے ۔ وَمَزِید التَّفصِیْلِ فی المُفَصَُّل اِنْ شَاء اللّٰہُ العزیــــز وبیدہ ازمۃ التوفیق - 12 تذکیہ شرعی کے ذریعے حلت کا استثنا : سو ارشاد فرمایا گیا " مگر جس کو تم ذبح کرلو "۔ یعنی اس کے مرنے سے پہلے شرعی طریقہ ذبح کے مطابق تو وہ حلال و پاک ہے۔ یعنی " مُنْخَنِقَۃ "، " مُـوْقُوْذَۃ "، " مُتَرَدِّیَۃ " اور " نَطِیْحَۃ " میں سے جس کو بھی تم زندہ پالو اور اس میں زندگی کی رمق باقی ہو۔ مثلاً ذبح سے پہلے ان میں کوئی ایسی حرکت پائی جائے جس سے اس کے زندہ ہونے کا ثبوت مل سکے۔ جیسا کہ مختلف آثار و روایات میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ مثلاً حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ " مُنْخَنِقَۃ "، " مُـوْقُوْذَۃ "، " مُتَرَدِّیَۃ " اور " نَطِیْحَۃ " میں سے جسکو بھی ذبح کرنے کا موقع تم کو ملے کہ وہ اپنے ہاتھ پاؤں کو ہلا رہا ہو تو تم اس کو ذبح کر کے کھالو۔ (محاسن التاویل، المراغی اور ابن کثیر وغیرہ) ۔ سو ایسا جانور حلال ہے اور اس کا کھانا جائز ہے کہ اس کو مرنے سے پہلے شرعی طریقہ سے ذبح کردیا گیا اور اس سے دم مسفوح نکل گیا اور باعث حرمت کا ازالہ ہوگیا ۔ والحمد للہ جل وعلا - 13 غیر اللہ کے تقرب کیلئے ذبح کی جانے والی چیز حرام ہے : سو ارشاد فرمایا گیا ہے کہ نیز جس کو ذبح کیا گیا ہو آستانوں پر غیر اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے کہ یہ بھی حرام ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ۔ { وَمَا اُہِلَّ لِغَیْرِاللّٰہِ } ۔ میں ذبح کی قید لگانا صحیح نہیں۔ ورنہ پھر۔ { وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ } ۔ کے ذکر کا کوئی خاص فائدہ باقی نہیں رہ جاتا۔ " نُصُب " کا لفظ یا تو مفرد ہے اور جمع اس کی " اَنْصَاب " ہے۔ جیسے " عنق " کی جمع " اَعناق " اور " قفل " کی جمع " اَقفال " کی اور یا یہ لفظ جمع ہے۔ مفرد اس کا " نِصَاب " ہے۔ جیسے " کُتُب " جمع ہے " کتاب " کتاب کی۔ بہرکیف " نصب " ہر ایسے پتھر وغیرہ کو کہا جاتا ہے جس کو بطور نشانی کسی جگہ گاڑ دیا جائے اور اس کی پوجا اور تقرب کے لیے لوگ اس کے پاس آئیں اور وہاں قربانیاں کریں اور بھینٹ چڑھائیں۔ جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ کیا کرتے تھے۔ اور اسی بنا پر ان لوگوں نے بیت اللہ کے پاس تین سو ساٹھ بت گاڑ رکھے تھے۔ (محاسن التاویل وغیرہ) ۔ اور مشرکین مکہ اپنے ان خود ساختہ معبودوں اور من گھڑت بتوں کے لئے طرح طرح کی قربانیاں دیتے اور بھینٹ چڑھایا کرتے تھے۔ اور ایسی قربانیاں اور بھینٹیں چونکہ غیر اللہ کے تقرب کے لئے ہوتی ہیں اس لئے ایسا کرنا شرک ہے۔ اور اس طرح کی نذر و نیاز سے کھانا حرام ہے ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہِ الْعَظِیْم مِنْ اَنْوَاع الشِّرْکِ وَشَوَائِبِہ ۔ 14 " اِحْداث فی الدِّین " کی ممانعت اور اہل بدعت کے ایک مغالطے کا جواب : اس آیت شریفہ کے بارے میں جب یہود کے ایک گروہ نے حضرت عمر۔ ؓ ۔ وغیرہ بعض صحابہ کرام سے عرض کیا کہ اگر یہ آیت ہمارے دین میں نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو عید اور جشن کے طور پر مناتے۔ تو حضرت عمر۔ ؓ ۔ نے فرمایا کہ مجھے وہ دن بھی خوب معلوم ہے جس دن یہ آیت اتری۔ اور وہ وقت بھی کہ جس میں یہ نازل ہوئی۔ وہ دن جمعہ کا تھا اور وقت عرفہ کی شام کا۔ مطلب یہ کہ ہمیں ازخود کسی جشن اور عید کی بدعت نکالنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ ہمارے لئے ہمارے دین نے پہلے سے ہی عرفہ اور جمعہ کی جن دو عیدوں کو جمع فرما دیا ہے وہ ہمارے لئے کافی ہے۔ (ابن کثیر، محاسن التاویل وغیرہ) ۔ یعنی چونکہ ہم اتباع کرنے والی امت ہیں ابتداع ۔ بدعتیں نکالنے ۔ والی نہیں، اس لئے ہم ایسے کسی جشن کی بدعت کے قائل اور روادار نہیں۔ سو کتنا سیدھا صاف اور واضح مطلب ہے حضرت عمر۔ ؓ کے اس ارشاد کا۔ لیکن اہل بدعت کے بعض رؤساء و زعماء نے حسب عادت مالوفہ اس سے عید میلاد کے جواز پر استدلال کیا ہے کہ ان لوگوں کو یہاں پر لفظ عید نظر آگیا۔ حالانکہ یہ ارشاد ان کی بدعت پرستی کی بیخ کنی کرتا ہے۔ مگر وہ ہیں کہ اس سے اس کے جواز کا استدلال کرتے ہیں کہ ساون کے اندھے کو ہمیشہ اور ہر جگہ ہریالی ہی نظر آتی ہے۔ جب کھوپڑی الٹی ہوجائے اور مت مار دی جائے تو یہی حال ہوتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ پھر ان سے کوئی پوچھے کہ یہ استدلال حضرت عمر فاروق ۔ ؓ ۔ اور دوسرے صحابہ کرام کو آخر کیوں نہ سوجھا ؟ اور ان حضرات میں سے کسی نے بھی عید میلاد منانے کا فتویٰ آخر کیوں نہ دیا ؟ اور خیر القرون کے اس زمانہ ئِ خیر و برکت میں کبھی بھی عید میلاد آخر کیوں نہ منائی گئی۔ اور اگر یہ دین کا ایسا ہی کوئی حکم اور تقاضا تھا تو اس سے وہ سب حضرات آخر اس طرح غافل کیوں رہے ؟ اور ہمیشہ دو ہی عیدوں یعنی " عید الفطر " اور " عید الاضحی " پر اکتفا کیوں کرتے رہے ؟ اور حدیث و فقہ کی تمام کتابوں میں " کتاب العیدین " ۔ دو عیدوں ۔ ہی کا عنوان آج تک کیوں قائم ہے ؟ کسی تیسری عید کا کوئی ذکر وبیان ان میں آخر کیوں نہیں ملتا ؟ سو ان تمام واضح دلائل اور جلی حقائق سے یہ امر پوری طرح واضح ہو کر سامنے آجاتا ہے کہ اسلام میں صرف دو ہی عیدیں ہیں۔ اس کے سوا کسی اور عید کو دین میں شامل کرنا " اِحْداث فِی الِدّیْن " ہوگا جو کہ بڑا سنگین جرم اور گناہ ہے ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہِ الْعَظِیْمِ مِنْ کُلِّ زَیْغٍ وَّ ضَلَالٍ ۔ اللہ ہمیشہ راہ حق پر ثابت و مستقیم رکھے ۔ آمین۔ 15 تکمیل دین کا مژدئہ بےمثال و جانفزا : سو تکمیل دین کی بشارت ایک عظیم الشان اور بےمثال بشارت ہے۔ اور اس جیسی دوسری کوئی بشارت ممکن ہی نہیں ۔ فللّٰہِ الحمْدُ وَلَہُ الشُّکْرُ ۔ بہرکیف اس ارشاد ربانی سے واضح فرما دیا گیا کہ اس دین کی تکمیل کردی گئی۔ احکام و مسائل، اصول و کلیات، بنیادی قواعد و ضوابط اور فرائض و واجبات کے اعتبار سے۔ اور اس درجہ مکمل کہ اب قیامت تک نہ تمہیں کسی اور وحی و کتاب کی کوئی ضرورت ہوگی نہ کسی نبی اور شریعت کی۔ دین و ہدایت سے متعلق تمہیں جو بھی ضرورت پیش آئے گی اس کا حل اور جواب و علاج تم اس کتاب میں موجود پاؤ گے ۔ سبحان اللہ !۔ کیسی عظیم اور کتنی بڑی اعجازی شان ہے اس دین حنیف کی جس سے قدرت کی طرف سے ہمیں نوازا گیا ہے ۔ فالحمدللہ رب العالمین ۔ سو اس دین حق اسلام کو اس کے اصول و کلیات کے اعتبار سے ایسا اور اس حد تک مکمل کردیا گیا کہ لاکھوں کروڑوں، بلکہ اربوں کھربوں انسانوں سے تعلق رکھنے والے لاتعداد و بیشمار اور بےحد و حساب مسائل اور قیامت تک پھیلے جملہ زمانوں اور تمام ادوار کے تقاضوں کا کافی و شافی حل اور واضح جواب اس میں موجود ہے۔ اور عقائد و عبادات، مسائل و معاملات، امن و جنگ، حرب و ضرب، سیاست و سماج، اَخلاق و عادات، اِجتماع و انفراد، تمدن و معاشرت، مصالحت و مسالمت، معیشت و اقتصاد، نکاح و طلاق، تطہیر و تزکیہ، حلال و حرام، عدل و انصاف، صحت و فساد، غرضیکہ دن و رات، ماہ و سال اور دنیا و آخرت سے متعلق ہر گوشے کے بارے میں اس دین متین میں ایسی صاف وصریح اور واضح و جلی اور اعلیٰ وارفع اور مجلیٰ و منقیٰ تعلیمات مقدسہ اور علم و حکمت پر مبنی ارشاد ات عالیہ موجود ہیں جن کی کوئی نظیر و مثال تو کیا اس کا عشر عشیر بھی کسی دوسرے دین و مذہب میں نہیں پایا جاسکتا۔ روئے زمین پر پائے جانے والے مختلف مذاہب و اَدیان کی اکثریت تو انسانی فکر و کاوش اور خیالات و تصورات اور دوسرے مختلف عوامل اور احوال و ظروف کا ثمرہ و نتیجہ ہے سوائے یہودیت و نصرانیت کے۔ جو کہ بنیادی طور پر اور اپنی اصل کے اعتبار سے آسمانی دین ہیں۔ ان کے بارے میں بھی ان کے حاملین اور پیروکاروں کا کہنا ہے کہ مذہب انسان کا پرائیویٹ معاملہ ہے اور بس۔ پس ان کے یہاں دین و مذہب کے نام سے کچھ رسم و رواج اور تقالید و عادات ہیں جن کو ان لوگوں کے یہاں لگے بندھے طریقوں سے اپنے گھروں یا گرجاؤں میں بجا لایا جاتا ہے اور بس۔ باقی سیاست و سماج، معیشت و معاشرت اور نظام حکومت وغیرہ وغیرہ سب اس سے آزاد اور اس کی گرفت و کنٹرول سے خارج اور باہر ہیں۔ اور یہ ان لوگوں کے یہاں گویا حکومت و عوام دونوں کے درمیان ایک طے شدہ پالیسی ہے۔ اور جب ان آسمانی دینوں کا یہ حال ہے تو پھر باقیوں کا کہنا ہی کیا۔ ان کا معاملہ تو سرے سے ہی خارج ازبحث ہے۔ سو اس پس منظر میں دیکھنے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ دین حق اسلام کس قدر عظیم، کتنا جامع اور قدرت کا کتنا بڑا عدیم النظیر اور بےمثال عطیہ و احسان ہے۔ اسی لئے ایک انگریز جب اسلام میں داخل ہوا تو اس سے پوچھا گیا کہ تم کیوں مسلمان ہوئے ہو ؟ تم نے اسلام میں ایسا کیا دیکھا جس نے تمہارے دامن دل کو اپنی طرف کھینچا ؟ تو اس نے جواب میں اسی حقیقت عظمیٰ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا " اس لئے کہ اسلام میں ہر سوال کا جواب موجود ہے " ۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ شَرَّفَنَا بِہٰذَا الدِّیْنِ الْعَظِیْمِ الْمُبَارِکِ ، بِمَحْضِ مَنِّہٖ وَکَرَمِہ جَلَّ وَعَلَاٗ ۔ فَاِیَّاہُ نَسْاَلُ الثَّبَاتَ عَلَیْہِ وَ الاِسْتَقَامَۃَ ۔ نیز اس موقع پر ذرا اس جانب بھی ایک نظر ڈال لیجئے اور ایک لمحے کے لئے سوچئے اور غور کیجئے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی حیات نبوت کے صرف تئیس -23 ۔ سالوں کے مختصر و محدود عرصے میں اپنی امت کو کیا کچھ دے گئے اور پوری نوع انسانیت کے لئے کتنے عظیم الشان اور مقدس وبے مثل خزانے چھوڑ گئے جو قیامت تک دنیا جہاں کو فیضیاب کرتے رہیں گے ۔ صَلَوَات اللّٰہِ وَسَلامُہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ وَمَنِ اہْتَدٰی بِہَدْیِہ وَدَعَا بِدَعْوَتِہ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ وَجَزَاہُ عَنَّا وَعَنْ سَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ خَیْرَ مَا جُوْزِیَ بِہٖ نَبِیٌّ عَنْ اُمَّتِہٖ وَاَنْزَلَہُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَہ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔ آمین ثم آمین۔ بہرکیف دین حنیف ایک ایسا کامل اور مکمل دین ہے جو ہر انسان کی تمام ضروریات کی تکمیل کا کفیل وضامن ہے کہ یہ دین دین فطرت ہے جو فطرت کے تمام تقاضوں کی تکمیل کرتا ہے ۔ فَالحمد لِلّـہِ ربِّ العالمین - 16 اِتمام نعمت کا مژدہ جانفزا : سو ارشاد فرمایا گیا اور میں نے پورا کردیا تم لوگوں پر ـ یعنی تم پر اپنے اس دین کو مکمل کردیا جو کہ حضرت آدم سے شرع ہوا تھا اور تمہاری اس شریعت کی تکمیل کرکے جس کا آغاز غار حراء میں اترنے والی پہلی وحی سے ہوا تھا۔ نیز تم کو سیاسی غلبہ سے نوازا کہ مکہ مکرمہ فتح ہوگیا اور اس سے بتوں کی نجاست کا ازالہ کردیا گیا۔ (معارف، محاسن، تدبر وغیرہ) ۔ اور تکمیل دین کی یہ نعمت سب سے بڑی نعمت ہے کہ دین حق کی نعمت سے بڑھ کر کوئی نعمت ممکن ہی نہیں کہ نور حق و ہدایت کی یہ نعمت ہی وہ نعمت ہے جو انسان کیلئے دارین کی سعادت و سرخروئی کی راہیں منور اور روشن کرتی ہے ۔ فِللّـہ الحمدُ ربِّ العالمین ۔ سو دین حنیف جس کا آغاز ابو البشر حضرت آدم پر وحی سے ہوا تھا جو ہر زمانے کی ضرورتوں اور مشیت الٰہی کے تقاضوں کے مطابق نازل ہوتا رہا یہاں تک کہ حضرت خاتم الانبیاء ﷺ پر اس کی تکمیل اور خاتمہ ہوگیا۔ اور قیامت تک کی دنیا کو دین کامل نصیب ہوگیا۔ جبکہ اس سے پہلے آنے والے تمام دینوں کی حیثیت اسی دین کامل کے مختلف اجزا کی سی ہے۔ اور اتمام نعمت سے مراد اس وحی کی تکمیل ہے جس کا آغاز تئیس برس قبل غار حرا میں ہوا تھا۔ سو اس موقع پر اس کی بھی تکمیل ہوگئی۔ اس طرح اس روز اہل ایمان کو دو انعام یکجا مل گئے کہ حضرت آدم سے شروع ہونے والا سلسلہ وحی بھی مکمل ہوگیا اور اس سلسلہ وحی کی بھی تکمیل ہوگئی جس کا آغاز اس سے تئیس سال قبل حضرت امام الانبیاء ﷺ پر غار حرا میں ہوا تھا۔ 17 خداوند قدوس کا پسندیدہ دین، اسلام : سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف وصریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ میں نے پسند کرلیا تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر۔ پس اسلام کے سوا اور کوئی بھی دین اس کے یہاں قابل قبول نہیں۔ لہذا جس نے اسلام کے سوا کسی بھی دوسرے دین کو اپنایا وہ اس سے قبول نہیں ہوگا۔ اور ایسا شخص سراسر خسارے میں ہوگا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی تصریح فرمائی گئی ۔ { وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الاِسْلامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی الاٰخٰرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْن } ۔ (آل عمران : 85) ۔ اور دین حنیف اسلام ہی وہ دین ہے جو عقل و فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق اور انسان کو حقیقی کامیابی اور ابدی سعادتوں سے بہرہ مند و سرفراز کرنے والا دین ہے۔ اور اسلام کا حاصل اور اس کا خلاصہ ہے اپنے آپ کو اپنے خالق ومالک اللہ وحدہ لاشریک کے حوالے کردینا جیسا کہ حضرت ابراہیم نے کہا تھا ۔ { اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ } ۔ (البقرۃ : 131) یعنی " میں نے اپنے آپ کو حوالے کردیا پروردگار عالم کے "۔ اور یہی دین ہے اس پوری کائنات کا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَلَہُ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْہًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ } ۔ (آل عمران : 83) یعنی " اسی کے آگے سرنگوں ہیں وہ سب جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی سے یا مجبوری سے۔ اور سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے "۔
Top