Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 3
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ١۫ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ١ؕ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ١ؕ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ١ؕ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا١ؕ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
حُرِّمَتْ
: حرام کردیا گیا
عَلَيْكُمُ
: تم پر
الْمَيْتَةُ
: مردار
وَالدَّمُ
: اور خون
وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ
: اور سور کا گوشت
وَمَآ
: اور جو۔ جس
اُهِلَّ
: پکارا گیا
لِغَيْرِ اللّٰهِ
: اللہ کے سوا
بِهٖ
: اس پر
وَ
: اور
الْمُنْخَنِقَةُ
: گلا گھونٹنے سے مرا ہوا
وَالْمَوْقُوْذَةُ
: اور چوٹ کھا کر مرا ہوا
وَالْمُتَرَدِّيَةُ
: اور گر کر مرا ہوا
وَالنَّطِيْحَةُ
: اور سینگ مارا ہوا
وَمَآ
: اور جو۔ جس
اَ كَلَ
: کھایا
السَّبُعُ
: درندہ
اِلَّا مَا
: مگر جو
ذَكَّيْتُمْ
: تم نے ذبح کرلیا
وَمَا
: اور جو
ذُبِحَ
: ذبح کیا گیا
عَلَي النُّصُبِ
: تھانوں پر
وَاَنْ
: اور یہ کہ
تَسْتَقْسِمُوْا
: تم تقسیم کرو
بِالْاَزْلَامِ
: تیروں سے
ذٰلِكُمْ
: یہ
فِسْقٌ
: گناہ
اَلْيَوْمَ
: آج
يَئِسَ
: مایوس ہوگئے
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سے
مِنْ
: سے
دِيْنِكُمْ
: تمہارا دین
فَلَا تَخْشَوْهُمْ
: سو تم ان سے نہ ڈرو
وَاخْشَوْنِ
: اور مجھ سے ڈرو
اَلْيَوْمَ
: آج
اَكْمَلْتُ
: میں نے مکمل کردیا
لَكُمْ
: تمہارے لیے
دِيْنَكُمْ
: تمہارا دین
وَاَتْمَمْتُ
: اور پوری کردی
عَلَيْكُمْ
: تم پر
نِعْمَتِيْ
: اپنی نعمت
وَرَضِيْتُ
: اور میں نے پسند کیا
لَكُمُ
: تمہارے لیے
الْاِسْلَامَ
: اسلام
دِيْنًا
: دین
فَمَنِ
: پھر جو
اضْطُرَّ
: لاچار ہوجائے
فِيْ
: میں
مَخْمَصَةٍ
: بھوک
غَيْرَ
: نہ
مُتَجَانِفٍ
: مائل ہو
لِّاِثْمٍ
: گناہ کی طرف
فَاِنَّ اللّٰهَ
: تو بیشک اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: مہربان
حرام ہوا تم پر مردہ جانور اور لہو اور گوشت سور کا اور جس جانور پر نام پکارا جائے اللہ کے سوا کسی اور کا اور جو مرگیا ہو گلا گھونٹنے سے یا چوٹ سے یا اونچے سے گر کر یا سینگ مارنے سے اور جس کو کھایا ہو درندہ نے مگر جس کو تم نے ذبح کرلیا اور حرام ہے جو ذبح ہوا کسی تھان پر اور یہ کہ تقسیم کرو جوئے کے تیروں سے یہ گناہ کا کام ہے آج ناامید ہوگئے کافر تمہارے دین سے سو ان سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو آج میں پورا کرچکا ہوں تمہارے لئے دین تمہارا اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین پھر جو کوئی لاچار ہوجاوے بھوک میں لیکن گناہ پر مائل نہ ہو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
خلاصہ تفسیر
تم پر (یہ جانور وغیرہ) حرام کئے گئے ہیں مردار (جانور جو کہ باوجود واجب الذبح ہونے کے بلاوجہ شرعی مر جاوے) اور خون (جو بہتا ہو) اور خنزیر کا گوشت (اسی طرح اس کے سب اجزاء) اور جو جانور کہ (بقصد قربت) غیر اللہ کے نامزد کردیا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرجاوے اور جو کسی ضرب سے مر جاوے اور جو اونچے سے گر کر مر جاوے (مثلاً پہاڑ سے یا کنوئیں میں) اور جو کسی کی ٹکر سے مرجاوے اور جس کو کوئی درندہ (پکڑ کر) کھانے لگے (اور اس کے صدمہ سے مرجاوے) لیکن (منخنقہ سے ما اکل السبع تک جن کا ذکر ہے ان میں سے) جس کو تم (دم نکلنے سے پہلے قاعدہ شرعیہ کے مطابق) ذبح کر ڈالو (وہ اس حرمت سے مستثنیٰ ہے)۔ اور (نیز) جو جانور (غیر اللہ کی) پرستش گاہوں پر ذبح کیا جاوے (حرام ہے گو زبان سے غیر اللہ کے نامزد نہ کرے۔ کیونکہ مدار حرمت کا نیت خبیثہ پر ہے۔ اس کا ظہور کبھی قول سے ہوتا ہے کہ نامزد کرے کبھی فعل سے ہوتا ہے کہ ایسے مقامات پر ذبح کرے) اور یہ (بھی حرام ہے) کہ (گوشت وغیرہ) تقسیم کرو بذریعہ قرعہ کے تیروں کے یہ سب گناہ (اور حرام) ہیں آج کے دن (یعنی اب) ناامید ہوگئے کافر لوگ تمہارے دین (کے مغلوب و گم ہوجانے) سے (کیونکہ ماشاء اللہ اسلام کا خوب شیوع ہوگیا) سو ان (کفار) سے مت ڈرنا (کہ تمہارے دین کو گم کرسکیں) اور مجھ سے ڈرتے رہنا (یعنی میرے احکام کی مخالفت مت کرنا) آج کے دن تمہارے لئے تمہارے دین کو میں نے (ہر طرح) کامل کردیا (قوت میں بھی جس سے کفار کو مایوسی ہوئی اور احکام و قواعد میں بھی) اور (اس کمال سے) میں نے تم پر اپنا انعام تمام کردیا (دینی انعام بھی کہ احکام کی تکمیل ہوئی اور دنیوی انعام بھی کہ قوت حاصل ہوئی اور اکمال دین میں دونوں آگئے) اور میں نے اسلام کو تمہارا دین بننے کے لئے (ہمیشہ کو) پسند کرلیا (یعنی قیامت تک تمہارا یہی دین رہے گا۔ اس کو منسوخ کرکے دوسرا دین تجویز نہ کیا جاوے گا۔ پس تم کو چاہیے کہ میری نعمت کا شکر کرکے اس دین پر پورے پورے قائم رہو) پھر (اشیائے مذکورہ بالا کی حرمت دریافت کرلینے کے بعد یہ بھی معلوم کر لو کہ) جو شخص شدت کی بھوک میں بیتاب ہوجاوے (اور اس وجہ سے اشیائے بالا کو کھالے) بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو (یعنی نہ قدر ضرورت سے زیادہ کھاوے اور نہ لذت مقصود ہو جس کو سورة بقرہ میں، غیر باغ ولا عاد، سے تعبیر فرمایا ہے) تو یقینا اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے ہیں (اگر قدر ضرورت کا پورا اندازہ نہ ہوا اور ایک آدھ لقمہ زیادہ بھی کھا گیا اور) رحمت والے ہیں (کہ ایسی حالت میں اجازت دے دی)۔
معارف و مسائل
یہ سورة مائدہ کی تیسری آیت ہے۔ جس میں بہت سے اصول اور فروعی
احکام و مسائل
بیان کئے گئے ہیں۔ پہلا مسئلہ حلال و حرام جانوروں کا ہے۔ جن جانوروں کا گوشت انسان کے لئے مضر ہے، خواہ جسمانی طور پر کہ اس سے انسان کے بدن میں بیماری کا خطرہ ہے، یا روحانی طور پر کہ اس سے انسان کے اخلاق اور قلبی کیفیات خراب ہونے کا خطرہ ہے۔ ان کو قرآن نے خبائث قرار دیا اور حرام کردیا، اور جن جانوروں میں کوئی جسمانی یا روحانی مضرت نہیں ہے، ان کو طیب اور حلال قرار دیا۔
اس آیت میں فرمایا ہے کہ حرام کئے گئے تم پر مردار جانور۔ مردار سے مراد وہ جانور ہیں جو بغیر ذبح کے کسی بیماری کے سبب یا طبعی موت سے مر جائیں۔ ایسے مردار جانور کا گوشت ”طبعی“ طور پر بھی انسان کے لئے سخت مضر ہے اور روحانی طور پر بھی۔
البتہ حدیث شریف میں رسول کریم ﷺ نے دو چیزوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ ایک ”مچھلی“ دوسرے ٹڈی۔ یہ حدیث مسند احمد، ابن ماجہ، دار قطنی، بیہقی وغیرہ نے روایت کی ہے۔
دوسری چیز جس کو اس آیت نے حرام قرار دیا ہے وہ خون ہے، اور قرآن کریم کی دوسری آیت میں اودما مسفوحا فرما کر یہ بتلا دیا گیا، کہ خون سے مراد بہنے والا خون ہے۔ اس لئے جگر اور تلی باوجود خون ہونے کے اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ حدیث مذکور میں جہاں ”میتہ“ سے مچھلی اور ٹڈی کو مستثنیٰ فرمایا ہے۔ اسی میں جگر اور طحال کو خون سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔
تیسری چیز ”لحم خنزیر“ ہے۔ جس کو حرام فرمایا ہے۔ لحم سے مراد اس کا پورا بدن ہے۔ جس میں چربی، پٹھے وغیرہ سب ہی داخل ہیں۔
چوتھے وہ جانور جو غیر اللہ کے لئے نامزد کردیا گیا ہو۔ پھر اگر ذبح کے وقت بھی اس پر غیر اللہ کا نام لیا ہے تو وہ کھلا شرک ہے۔ اور یہ جانور باتفاق مردار کے حکم میں ہے۔
جیسا کہ مشرکین عرب اپنے بتوں کے نام پر ذبح کیا کرتے تھے۔ یا بعض جاہل کسی پیر فقیر کے نام پر، اور اگر بوقت ذبح نام تو اللہ تعالیٰ کا لیا، مگر جانور کسی غیر اللہ کے نام پر نذر کیا ہو اور اس کی رضامندی کے لئے قربان کیا ہے تو جمہور فقہاء نے اس کو بھی ما اھل لغیر اللہ بہ، کے تحت حرام قرار دیا ہے۔
پانچویں۔ منخنقة۔ یعنی وہ جانور حرام ہے جو گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا ہو ہو یا خود ہی کسی جال وغیرہ میں پھنس کر دم گھٹ گیا ہو۔ اگرچہ منخنقہ، اور موقوذة بھی میتہ کے اندر داخل ہیں، مگر اہل جاہلیت ان کو جائز سمجھتے تھے۔ اس لئے خصوصی ذکر کیا گیا۔
چھٹے۔ موقوذة، یعنی وہ جانور جو ضرب شدید کے ذریعہ ہلاک ہوا ہو۔ جیسے لاٹھی یا پتھر وغیرہ سے مارا گیا ہو۔ اور جو تیر کسی شکار کو اس طرح قتل کر دے کہ دھار کی طرف سے نہ لگے ویسے ہی ضرب سے مر جائے وہ بھی موقوذة میں داخل ہو کر حرام ہے۔
حضرت عدی بن حاتم ؓ نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ میں بعض اوقات ”معراض“ تیر سے شکار کرتا ہوں۔ اگر شکار اس سے مر جائے تو کیا کھا سکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر وہ جانور عرض تیر کی چوٹ سے مرا ہے تو وہ موقوذة میں داخل ہے اس کو مت کھا (اور اگر دھار کی طرف سے لگا ہے اور اس نے زخم کردیا ہے تو کھا سکتے ہو۔ یہ روایت جصاص نے ”احکام القرآن“ میں اپنی اسناد سے نقل کی ہے۔ اس میں شرط یہ ہے کہ تیر پھینکنے کے وقت بسم اللہ کہہ کر پھینکا گیا ہو۔
جو شکار بندوق کی گولی سے ہلاک ہوگیا۔ اس کو بھی فقہاء نے موقوذہ میں داخل اور حرام قرار دیا ہے۔ امام جصاص رحمة اللہ علیہ نے حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے تھےالمقتولة بالبندقة تلک الموقوذہ۔ یعنی بندوق کے ذریعہ جو جانور قتل کیا گیا ہے وہ ہی موقوذہ ہے اس لئے حرام ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ ؓ ، شافعی، مالک وغیرہ سب اس پر متفق ہیں۔ (قرطبی) ساتویں متردیہ۔ یعنی وہ جانور جو کسی پہاڑ، ٹیلہ یا اونچی عمارت یا کنوئیں وغیرہ میں گر کر مر جائے وہ بھی حرام ہے۔ اسی لئے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ اگر کوئی شکار پہاڑ پر کھڑا ہے، اور تم نے تیر بسم اللہ پڑھ کر اس پر پھینکا اور وہ تیر کی زد سے نیچے گر کر مر گیا تو اس کو نہ کھاؤ۔
کیونکہ اس میں بھی احتمال ہے کہ اس کی موت تیر کی زد سے نہ ہو گرنے کے صدمہ سے ہو تو وہ متردّیہ میں داخل ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر کسی پرندہ پر تیر پھینکا، وہ پانی میں گرگیا تو اس کے کھانے کو بھی اسی بناء پر منع فرمایا ہے کہ وہ بھی احتمال ہے کہ اس کی موت ڈوبنے سے واقع ہوئی ہو۔ (جصاص)۔
آٹھویں۔ نطیحہ۔ یعنی وہ جانور جو کسی ٹکر اور تصادم سے ہلاک ہوگیا ہو۔ جیسے ریل، موٹر وغیرہ کی زد میں آکر مر جائے یا کسی دوسرے جانور کی ٹکر سے مرجائے۔
نویں۔ وہ جانور جس کو کسی درندہ جانور نے پھاڑ دیا ہو اس سے مر گیا ہو۔
ان نو اقسام کی حرمت بیان فرمانے کے بعد ایک استثناء ذکر کیا گیا۔ فرمایاالا ما ذکیتم۔ یعنی اگر ان جانوروں میں سے تم نے کسی کو زندہ پالیا اور ذبح کرلیا تو وہ حلال ہوگیا۔ اس کا کھانا جائز ہے۔
یہ استثناء شروع کی چار قسموں سے متعلق نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ میتہ اور دم میں تو اس کا امکان ہی نہیں۔ اور خنزیر اور ما اھل لغیر اللہ۔ اپنی ذات سے حرام ہیں، ذبح کرنا نہ کرنا ان میں برابر ہے۔ اسی لئے حضرت علی ؓ ، ابن عباس ؓ ، حسن بصری، قتادہ وغیرہ سلف صالحین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ استثناء ابتدائی چار کے بعد، یعنی منخنقہ اور اس کے مابعد سے متعلق ہے۔ اس لئے مطلب اس کا یہ ہوگیا کہ ان تمام صورتوں میں اگر جانور زندہ پایا گیا، زندگی کی علامتیں محسوس کی گئیں اور اسی حالت میں اس کو اللہ کے نام پر ذبح کردیا گیا تو وہ حلال ہے۔ خواہ وہ منخنقہ ہو، یا موقوذہ یا متردیہ اور نطیحہ یا جس کو درندے نے پھاڑ ڈالا ہے۔ ان میں سے جس کو بھی آثار زندگی محسوس کرتے ہوئے ذبح کرلیا وہ حلال ہوگیا۔
دسویںوہ جانور حرام ہے جو نصب پر ذبح کیا گیا ہو۔ نصب وہ پتھر ہیں جو کعبہ کے گرد کھڑے کئے ہوئے تھے۔ اور اہل جاہلیت ان کی پرستش کرتے اور ان کے پاس لاکر جانوروں کی قربانی ان کے لئے کرتے تھے۔ اور اس کو عبادت سمجھتے تھے۔
اہل جاہلیت ان سب قسم کے جانوروں کو کھانے کے عادی تھے جو خبائث میں داخل ہیں۔ قرآن کریم نے ان سب کو حرام قرار دیا۔
گیارہویں چیز جس کو اس آیت میں حرام قرار دیا ہے۔ وہ استقسام بالازلام ہے ازلام، زلم کی جمع ہے۔ زلم اس تیر کو کہتے ہیں جو جاہلیت عرب میں اس کام کے لئے مقرر تھا کہ اس کے ذریعہ قسمت آزمائی کی جاتی تھی اور یہ سات تیر تھے۔ جن میں سے ایک پر نعم ایک پر لا۔ اور اسی طرح کے دوسرے الفاظ لکھے ہوتے تھے۔ اور یہ تیر بیت اللہ کے خادم کے پاس رہتے تھے۔
جب کسی شخص کو اپنی قسمت یا آئندہ کسی کام کا مفید ہونا یا مضر ہونا معلوم کرنا ہوتا، تو خادم کعبہ کے پاس جاتے اور سو روپے اس کو نذرانہ دیتے وہ ان تیروں کو ترکش سے ایک ایک کر کے نکالتا۔ اگر اس پر لفظ نعم نکل آیا تو سمجھتے تھے کہ یہ کام مفید ہے، اور اگر لا نکل آیا تو سمجھتے تھے کہ یہ کام نہ کرنا چاہیے۔ حرام جانوروں کے سلسلہ میں اس کا ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے، کہ عرب کی یہ بھی عادت تھی کہ چند آدمی شریک ہو کر کوئی اونٹ وغیرہ ذبح کرتے مگر گوشت کی تقسیم ہر ایک کے حصہ شراکت کے مطابق کرنے کے بجائے ان جوئے کے تیروں سے کرتے تھے۔ جس میں کوئی بالکل محروم رہتا، کسی کو بہت زیادہ، کسی کو حق سے کم ملتا تھا۔ اس لئے جانوروں کی حرمت کے ساتھ اس طریقہ کار کی حرمت کو بیان کردیا گیا۔
علماء نے فرمایا کہ آئندہ کے حالات اور غیب کی چیزیں معلوم کرنے کے جتنے طریقے رائج ہیں، خواہ اہل جفر کے ذریعہ یا ہاتھ کے نقوش دیکھ کر یا فال وغیرہ نکال کر یہ سب طریقے استقسام بالازلام کے حکم میں ہیں۔
اور استقسام بالازلام کا لفظ کبھی قمار یعنی جوئے کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ جس میں قرعہ اندازی یا لاٹری کے طریقوں سے حقوق کی تعیین کی جائے۔ یہ بھی بنص قرآن حرام ہے۔ جس کو قرآن کریم نے میسر کے نام سے ممنوع قرار دیا ہے۔ اسی لئے حضرت سعید بن جبیر، مجاہد اور شعبی نے فرمایا کہ جس طرح عرب ازلام کے ذریعہ حصے نکالتے اسی طرح فارس و روم میں شطرنج، چوسر وغیرہ کے مہروں سے یہ کام لیا جاتا ہے۔ وہ ازلام کے حکم میں ہیں (مظہری)۔
استقسام بالازلام کی حرمت کے ساتھ ارشاد فرمایا۔
ذلکم فسق۔ یعنی یہ طریقہ قسمت معلوم کرنے یا حصہ مقررر کرنے کا فسق اور گمراہی ہے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا۔
الیوم یئس الذین کفرو من دینکم فلا تخشوھم واخشون۔ آج کے دن کفار تمہارے دین پر (غالب آنے) سے مایوس ہوچکے ہیں۔ اس لئے تم ان سے کوئی خوف نہ رکھو البتہ مجھ سے ڈرتے رہو۔
یہ آیت ہجرت کے دسویں سال حجة الوداع کے یوم عرفہ میں رسول کریم ﷺ پر نازل ہوئی۔ جبکہ مکہ اور تقریباً سارا عرب فتح ہوچکا تھا۔ پورے جزیرة العرب پر اسلامی قانون جاری تھا۔ اس پر فرمایا کہ آپ سے پہلے جو کفار یہ منصوبے بنایا کرتے تھے کہ مسلمانوں کی جماعت ہمارے مقابلہ میں کم بھی ہے اور کمزور بھی ان کو ختم کردیا جائے۔ اب نہ ان میں یہ حوصلے باقی رہے، نہ ان کی وہ طاقت رہی۔ اس لئے مسلمان ان سے مطمئن ہو کر اپنے رب کی اطاعت و عبادت میں لگ جائیں۔
اس آیت کے نزول کی خاص شان ہے، عرفہ کا دن ہے جو تمام سال کے دنوں میں سید الایام ہے اور اتفاق سے یہ عرفہ جمعہ کے دن واقع ہوا۔ جس کے فضائل معروف ہیں۔ مقام میدان عرفات کا جبل رحمت کے قریب ہے، جو عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نزول رحمت کا خاص مقام ہے۔ وقت عصر کے بعد کا ہے، جو عام دنوں میں بھی مبارک وقت ہے۔ اور خصوصاً یوم جمعہ میں کہ قبولیت دعا کی گھڑی بہت سی روایات کے مطابق اسی وقت آتی ہے اور عرفہ کے روز اور زیادہ خصوصیت کے ساتھ دعائیں قبول ہونے کا خاص وقت ہے۔
حج کے لئے مسلمانوں کا سب سے بڑا پہلا عظیم اجتماع ہے۔ جس میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابہ کرام ؓ شریک ہیں۔ رحمة للعالمین صحابہ کرام ؓ کے ساتھ جبل رحمت کے نیچے اپنی ناقہ ”عضباء پر سوار ہیں۔ اور حج کے اب بڑے رکن یعنی وقوف عرفات میں مشغول ہیں۔
ان فضائل و برکات اور رحمتوں کے سایہ میں یہ آیت کریمہ رسول کریم ﷺ پر نازل ہوتی ہے۔ صحابہ کرام کا بیان ہے کہ جب آپ پر یہ آیت بذریعہ وحی نازل ہوئی تو حسب دستور وحی کا ثقل اور بوجھ اتنا محسوس ہوا کہ اونٹنی اس سے دبی جا رہی تھی یہاں تک کہ مجبور ہو کر بیٹھ گئی۔
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت تقریباً قرآن کی آخری آیت ہے۔ اس کے بعد کوئی آیت احکام سے متعلق نازل نہیں ہوئی۔ صرف ترغیب و ترہیب کی چند آیتیں ہیں۔ جن کا نزول اس آیت کے بعد بتلایا گیا ہے۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول کریم ﷺ اس دنیا میں صرف اکیاسی روز بقیدحیات رہے، کیونکہ 10 ہجری کی نویں ذی الحجہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اور 11 ہجری کی بارہویں ربیع الاول کو آنحضرت ﷺ کی وفات ہوگئی۔
یہ آیت جو اس خاص شان اور اہتمام سے نازل ہوئی اس کا مفہوم بھی ملت اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑی خوشخبری اور بھاری انعام اور اسلام کا طرائے امتیاز ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دین حق اور نعمت الہیٰ کا انتہائی معیار جو اس عالم میں بنی نوع انسان کو عطا ہونے والا تھا، آج وہ مکمل کردیا گیا۔ گویا حضرت آدم ؑ کے زمانہ سے جو دین اور نعمت الہیہ کا نزول اور ترویج شروع کی گئی تھی اور ہر زمانہ اور ہر خطہ کے مناسب حال اس نعمت کا ایک حصہ اولاد آدم کو عطا ہوتا رہا آج وہ دین اور نعمت مکمل صورت میں خاتم الانبیاء رسول اللہ ﷺ اور آپ کی امت کو عطا کردی گئی۔
اس میں تمام انبیاء و رسل کے زمرہ میں سید الانبیاء ﷺ کی سعادت اور امتیازی شان کا تو اظہار ہے ہی اس کے ساتھ تمام امتوں کے مقابلہ میں امت مرحومہ کی بھی ایک خاص امتیازی شان کا واضح ثبوت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ چند علماء یہود، حضرت فاروق اعظم ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ تمہارے قرآن میں ایک ایسی آیت ہے جو اگر یہود پر نازل ہوئی تو وہ اس کے نزول کا ایک جشن عید مناتے فاروق اعظم ؓ نے سوال کیا کہ وہ کونسی آیت ہے۔ انہوں نے یہی آیت الیوم اکملت لکم دینکم پڑھ دی۔
حضرت فاروق اعظم ؓ نے ان کے جواب میں فرمایا کہ ہاں ہم جانتے ہیں کہ یہ آیت کسی جگہ اور کسی دن نازل ہوئی۔ اشارہ اسی بات کی طرف تھا کہ وہ دن ہمارے لئے دوہری عید کا دن تھا ایک عرفہ دوسرے جمعہ۔
عید اور تہوار منانے کا اسلامی اصول
فاروق اعظم ؓ کے اس جواب میں ایک اسلامی اصول کی طرف بھی اشارہ ہے۔ جو تمام دنیا کی اقوام و مذاہب میں صرف اسلام ہی کا طغرائے امتیاز ہے۔ وہ یہ کہ دنیا میں ہر قوم اور ہر مذہب و ملت کے لوگ اپنے اپنے حالات و خصوصیات کے ماتحت اپنے خاص خاص تاریخی واقعات کے دنوں کی یادگاریں مناتے ہیں۔ اور ان ایام کو ان کے یہاں ایک عید یا تہوار کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
کہیں قوم کے بڑے آدمی کی پیدائش یا موت کا یا تخت نشینی کا دن منایا جاتا ہے اور کہیں کسی خاص ملک یا شہر کی فتح یا اور کسی عظیم تاریخی واقعہ کا جس کا حاصل اشخاص خاص کی عزت افزائی کے سوا کچھ نہیں۔ اسلام اشخاص پرستی کا قائل نہیں ہے۔ اس نے ان تمام رسوم جاہلیت اور شخصی یادگاروں کو چھوڑ کر اصول اور مقاصد کی یادگاریں قائم کرنے کا اصول بنادیا۔
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کو ”خلیل اللہ“ کا خطاب دیا گیا اور قرآن کریم میں ان کے امتحانات اور ان سب میں مکمل کامیابی کو سراہا گیا۔ واذابتلی ابراہیم ربہ بکلمٰتٍ فاتمھن۔ کا یہی مفہوم ہے۔ لیکن نہ ان کی پیدائش یا موت کا دن منایا گیا۔ نہ ان کے صاحبزادے اسماعیل ؑ اور ان کی والدہ کی پیدائش و موت یا دوسرے حالات کی کوئی یادگار قائم کی گئی۔
ہاں ان کے اعمال میں جو چیزیں مقاصد دین سے متعلق تھیں، ان کی یادگاروں کو نہ صرف محفوظ رکھا گیا، بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کے دین و مذہب کا جز اور فرض و واجب قرار دے دیا گیا۔ قربانی، ختنہ، صفاو مروہ کے درمیان دوڑنا، منیٰ میں تین جگہ کنکریاں مارنا۔ یہ سب انھیں بزرگوں کے ایسے افعال کی یادگار ہیں جو انہوں نے اپنے نفسانی جذبات اور انسان کے طبعی تقاضوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے مقابلے میں کچلتے ہوئے ادا کئے۔ اور جن میں ہر قرن اور ہر زمانے کے لوگوں کو اس کا سبق ملتا ہے کہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے اپنی محبوب سے محبوب چیز کو قربان کردینا چاہیے۔
اسی طرح اسلام میں کسی بڑے بڑے آدمی کی موت وحیات یا شخصی حالات کا کوئی دن منانے کے بجائے ان کے اعمال کے دن منائے گئے۔ جو کسی خاص عبادت سے متعلق ہیں جیسے شب براءت، رمضان المبارک، شب قدر، یوم عرفہ، یوم عاشورہ وغیرہ، عیدین صرف دو رکھی گئیں، وہ بھی خالص دینی لحاظ سے۔ پہلی عید رمضان المبارک کے اختتام اور اشہر حج کے شروع ہونے پر رکھی گئی۔ اور دوسری عید عبادتِ حج سے فراغت کے بعد رکھی گئی۔
خلاصہ یہ ہے کہ حضرت فاروق اعظم ؓ کے اس جواب نے یہ بتلا دیا کہ یہود و نصاریٰ کی طرح ہماری عیدیں تاریخی وقائع کے تابع نہیں۔ کہ جس تاریخ میں کوئی اہم واقعہ پیش آگیا اس کو عید منادیں۔ جیسا کہ جاہلیت اولیٰ کی رسم تھی۔ اور آج کل کی جاہلیت جدیدہ نے تو اس کو بہت ہی پھیلا دیا ہے۔ یہاں تک کہ دوسری قوموں کی نقل کرکے مسلمان بھی اس میں مبتلا ہونے لگے۔
عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کے یوم پیدائش کی عید میلاد منائی۔ ان کو دیکھ کر کچھ مسلمانوں نے رسول کریم ﷺ کی پیدائش پر عید میلاد النبی کے نام سے ایک عید بنادی۔ اسی روز بازاروں میں جلوس نکالنے اور اس میں طرح طرح کی خرافات کو اور رات میں چراغاں کو عبادت سمجھ کر کرنے لگے۔ جس کی کوئی اصل صحابہ ؓ وتابعین رحمة اللہ علیہ اور اسلاف امت کے عمل میں نہیں ملتی۔
اور یہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دن منانے کا طریقہ ان قوموں میں تو چل سکتا ہے کہ جو باکمال افراد اور ان کے حیرت انگیز کارناموں کے لحاظ سے مفلس ہیں۔ دو چار شخصیتیں کل قوم میں اس قابل ہوتی ہیں، اور ان کے بھی کچھ مخصوص کام ایسے ہوتے ہیں، جن کی یادگار منانے کو قومی فخر سمجھتے ہیں۔
اسلام میں یہ دن منانے کی رسم چلے تو ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زائد تو انبیاء (علیہم السلام) ہیں۔ جن میں سے ہر ایک کی نہ صرف پیدائش بلکہ ان کی حیرت انگیز کارناموں کی طویل فہرست ہے جن کے دن منانے چاہئیں۔ انبیاء (علیہم السلام) کے بعد خاتم الانبیاء ﷺ کی حیات طیبہ کو دیکھا جائے تو آپ کی زندگی کا شاید کوئی دن بھی ایسے کارناموں سے خالی نہیں جن کا دن منانا چاہئیے۔ بچپن سے لے کر جوانی تک کے وہ کمالات جنہوں نے پورے عرب میں آپ کو امین کا لقب دیا تھا۔ کیا وہ ایسے نہیں ہیں کہ مسلمان ان کی یادگار منائیں پھر نزول قرآن، ہجرت، غزوہ بدر، احد، خندق، فتح مکہ، حنین، تبوک اور تمام غزوات رسول کریم ﷺ ہیں۔ ایک بھی ایسا نہیں کہ جس کی یادگار نہ منائی جائے۔ اسی طرح آپ کے ہزاروں معجزات یادگار منانے کی چیزیں ہیں۔ اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ کی حیات طیبہ کا ہر دن نہیں ہر گھنٹہ ایک یادگار منانے کا داعیہ رکھتا ہے۔
آنحضرت ﷺ کے بعد تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابہ کرام ؓ وہ ہیں جن میں سے ہر ایک دو حقیقت رسول اللہ ﷺ کا زندہ معجزہ ہے کیا یہ بےانصافی نہیں ہوگی کہ ان کی یادگاریں نہ منائی جائیں۔ اور یہ رسم چل پڑے تو پھر صحابہ کرام کے بعد امت کے اکابر، اولیاء اللہ اور علماء و مشائخ پر نظر ڈالو، جو کروڑوں کی تعداد میں ہوں گے۔ اگر یادگاری دن منائے جائیں تو ان کو چھوڑ دینا کیا ان کے حق میں بےانصافی اور قدر شناسی نہیں ہوگی۔ اور اگر یہ طے کرلیا جائے کہ سبھی کے یادگاری دن منائے جائیں تو سال بھر میں ایک دن بھی ہمارا یادگار منانے سے خالی نہیں رہے۔ بلکہ ہر دن کے ہر گھنٹہ میں کئی کئی یادگاریں اور کئی کئی عیدیں منانی پڑیں گی۔
یہی وجہ ہے کہ ”رسول کریم ﷺ“ اور صحابہ کرام ؓ نے اس رسم کو جاہلیت کی رسم قرار دے کر نظر اندا کیا ہے حضرت فاروق اعظم ؓ کے اس فرمان میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔
اب اس آیت کے معنی و مطالب کی تفصیل سنئے۔ اس میں حق تعالیٰ شانہ نے رسول کریم ﷺ اور آپ کی امت مرحومہ کو تین خصوصی انعام عطا فرمانے کی بشارت دی ہے۔ ایک اکمال دین، دوسرے اتمام نعمت، تیسرے شریعت اسلام کا اس امت کے لئے انتخاب۔
اکمال دین کے معنی ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ وغیرہ نے یہ بیان فرمائے ہیں کہ آج دین حق کے تمام حدود و فرائض اور احکام و آداب مکمل کردیے گئے ہیں۔ اب اس میں نہ کسی اضافہ اور زیادتی کی ضرورت باقی ہے اور نہ کمی کا احتمال (روح)۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد احکام اسلام میں سے کوئی نیا حکم نازل نہیں ہوا جو چند آیتیں اس کے بعد نازل ہوئیں، ان میں یا تو ترغیب و ترہیب کے مضامین ہیں، اور یا انھیں احکام کی تاکید جن کا بیان پہلے ہوچکا تھا۔
اور یہ بات اس کے منافی نہیں کہ اصول و اجتہاد کے ماتحت ائمہ مجتہدین نئے نئے پیش آنے والے واقعات و حالات کے متعلق اپنے اجتہاد سے احکام شرعیہ بیان کریں کیونکہ قرآن کریم نے جس طرح احکام شرعیہ کے حدود و فرائض وغیرہ بیان فرمائے ہیں اسی طرح اصول اجتہاد بھی قرآن ہی نے متعین فرما دئے ہیں۔ ان کے ذریعہ جو احکام قیامت تک نکالے جائیں وہ سب ایک حیثیت سے قرآن ہی کے بیان کئے ہوئے احکام ہیں۔ کیونکہ ان اصول کے ماتحت ہیں جو قرآن نے بیان کئے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اکمال دین کا مطلب۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی تفسیر کے مطابق یہ ہے کہ دین کے تمام احکام کو مکمل کردیا گیا۔ اب نہ اس میں کسی زیادتی کی ضرورت باقی ہے نہ منسوخ ہو کر کمی کا احتمال۔ کیونکہ اس کے بعد ہی متصل سلسلہ وحی وفات رسول ﷺ کے ساتھ منقطع ہونے والا تھا اور بغیر وحی الہٰی کے قرآن کا کوئی حکم منسوخ نہیں ہوسکتا۔ اور جو بظاہر زیادتی احکام کی اصول اجتہاد کے تحت فقہاء و مجتہدین کی طرف سے ہوئی۔ وہ در حقیقت زیادتی نہیں بلکہ احکام قرآنی کی توضیح وبیان ہے۔
اور اتمام نعمت سے مراد مسلمانوں کا غلبہ اور عروج اور ان کے مخالفین کا مغلوب و مفتوح ہونا ہے، جس کا ظہور مکہ مکرمہ کی فتح اور رسوم جاہلیت کے مٹانے سے اور اس سال حج میں کسی مشرک کے شریک نہ ہونے کے ذریعہ ہوا۔
یہاں الفاظ قرآن میں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ دین کے ساتھ لفظ اکمال استعمال فرمایا گیا اور نعمت کے ساتھ لفظ اتمام، حالانکہ یہ دونوں لفظ بظاہر ایک دوسرے کے ہم معنی اور مرادف سمجھے جاتے ہیں۔
لیکن در حقیقت ان دونوں کے مفہوم میں ایک فرق ہے جس کو مفردات القرآن میں امام راغب اصفہانی رحمة اللہ علیہ نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ کسی چیز کا ”اکمال“ اور ”تکمیل“ اس کو کہتے ہیں کہ اس چیز سے جو غرض اور مقصود تھا وہ پورا ہوگیا۔ اور لفظ اتمام کے معنی یہ ہیں کہ اب دوسری چیز کی ضرورت اور حاجت نہیں رہی۔ اسی لئے ”اکمال دین“ کا حاصل یہ ہوا کہ قانون الہٰی اور احکام دین کے اس دنیا میں بھیجنے کا جو مقصد تھا وہ آج پورا کردیا گیا۔ اور اتمام نعمت کا مطلب یہ ہوا کہ اب مسلمان کسی کے محتاج نہیں۔ ان کو خود حق تعالیٰ جل شانہ نے غلبہ، قوت اور اقتدار عطاء فرما دیا جس کے ذریعہ وہ اس دین حق کے احکام کو جاری اور نافذ کرسکیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس آیت میں نسبت تو مسلمانوں کی طرف فرمائی گئی ہے اور نعمت کی نسبت حق تعالیٰ کی طرف، وجہ یہ ہے کہ دین کا ظہور ان اعمال و افعال کے ذریعہ ہوتا ہے جو امت کے افراد کرتے ہیں اور نعمت کی تکمیل براہ راست حق تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ (ابن قیم، تفسیر القیم)۔
اس تقریر سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ اکمال دین آج ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے انبیاء (علیہم السلام) کا دین ناقص تھا۔ بلکہ جیسا تفسیر محیط میں بحوالہ قفال مروزی رحمة اللہ علیہ نقل کیا ہے کہ دین تو ہر نبی و رسول کا اس کے زمانہ کے اعتبار سے کامل و مکمل تھا۔ یعنی جس زمانہ میں جس پیغمبر پر کوئی شریعت و دین اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا اس زمانہ اور اس قوم کے لحاظ سے وہی کامل و مکمل تھا۔ لیکن اللہ جل شانہ کے علم میں یہ تفصیل پہلے سے تھی کہ جو دین اس زمانہ اور اس قوم کے لئے مکمل ہے وہ اگلے زمانہ اور آنے والی قوموں کے لئے مکمل نہ ہوگا، بلکہ اس کو منسوخ کرکے دوسرا دین و شریعت نافذ کی جائے گی۔ بخلاف شریعت اسلام کے جو سب سے آخر میں نازل کی گئی کہ وہ ہر جہت اور ہر لحاظ سے کامل و مکمل ہے۔ نہ وہ کسی خاص زمانہ کے ساتھ مخصوص ہے اور نہ کسی خاص خطہ، ملک یا قوم کے ساتھ۔ بلکہ قیامت تک ہر زمانہ اور ہر خطہ اور ہر قوم کے لئے یہ شریعت کامل و مکمل ہے۔
تیسرا انعام جو اس امت مرحومہ کے لئے اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اس امت کے لئے اللہ جل شانہ نے اپنے تکوینی انتخاب کے ذریعہ دین اسلام کو منتخب فرمایا جو ہر حیثیت سے کامل و مکمل ہے۔ اور جس پر نجات کا انحصار ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیت نے یہ بتلا دیا کہ امت مرحومہ کے لئے دین اسلام ایک بڑی نعمت ہے جو ان کو بخشی گئی ہے۔ اور یہی دین ہے جو ہر حیثیت اور جہت سے کامل و مکمل ہے، نہ اس کے بعد کوئی دین آئے گا اور نہ اس میں کوئی کمی بیشی کی جائے گی۔
یہی وجہ تھی کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو عام مسلمان اس کو سن کر خوش ہو رہے تھے مگر حضرت فاروق ؓ پر گریہ طاری تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے رونے کی وجہ پوچھی تو عرض کیا کہ اس آیت سے اس کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اب آپ کا قیام اس دنیا میں بہت کم ہے۔ کیونکہ تکمیل کے ساتھ ارسال رسول کی ضرورت بھی پوری ہوچکی۔ رسول کریم ﷺ نے اس کی تصدیق فرمائی (تفسیر ابن کثیر و بحر محیط وغیرہ) چناچہ آنے والے وقت نے بتلا دیا کہ اس کے صرف اکیاسی (81) روز بعد آنحضرت ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
آخر آیت میں فمن اضطر فی مخمصة کا تعلق ان جانوروں سے ہے، جن کی حرمت کا بیان شروع آیت میں آیا ہے۔ اور اس جملہ کا مطلب ایک خاص حالت کو عام قاعدہ سے مستثنیٰ کرنا ہے کہ اگر کوئی شخص بھوک کی شدت سے بیتاب ہوجاوے اور خطرہ موت کا لاحق ہوجائے۔ ایسی حالت میں اگر وہ مذکورہ بالا حرام جانوروں میں سے کچھ کھالے تو اس کے لئے گناہ نہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ پیٹ بھرنا اور لذت حاصل کرنا مقصود نہ ہو، بلکہ صرف اتنا کھالے جس سے اضطرار کی کیفیت رفع ہوجاوے۔
آیت میں غیر متجانف لاثم کا یہی مطلب ہے کہ اس کھانے میں اس کا میلان گناہ کی طرف نہ ہو بلکہ صرف اضطرار کا رفع کرنا ہو۔ آخر میں فان اللہ غفور رحیم سے اس طرف اشارہ ہے کہ یہ محرمات اس وقت بھی اپنی جگہ حرام و ناجائز ہی ہیں، صرف اس شخص کو اضطرار کی وجہ سے معاف کردیا گیا ہے۔
Top