Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 3
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ١۫ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ١ؕ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ١ؕ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ١ؕ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا١ؕ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
حُرِّمَتْ : حرام کردیا گیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَيْتَةُ : مردار وَالدَّمُ : اور خون وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ : اور سور کا گوشت وَمَآ : اور جو۔ جس اُهِلَّ : پکارا گیا لِغَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا بِهٖ : اس پر وَ : اور الْمُنْخَنِقَةُ : گلا گھونٹنے سے مرا ہوا وَالْمَوْقُوْذَةُ : اور چوٹ کھا کر مرا ہوا وَالْمُتَرَدِّيَةُ : اور گر کر مرا ہوا وَالنَّطِيْحَةُ : اور سینگ مارا ہوا وَمَآ : اور جو۔ جس اَ كَلَ : کھایا السَّبُعُ : درندہ اِلَّا مَا : مگر جو ذَكَّيْتُمْ : تم نے ذبح کرلیا وَمَا : اور جو ذُبِحَ : ذبح کیا گیا عَلَي النُّصُبِ : تھانوں پر وَاَنْ : اور یہ کہ تَسْتَقْسِمُوْا : تم تقسیم کرو بِالْاَزْلَامِ : تیروں سے ذٰلِكُمْ : یہ فِسْقٌ : گناہ اَلْيَوْمَ : آج يَئِسَ : مایوس ہوگئے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سے مِنْ : سے دِيْنِكُمْ : تمہارا دین فَلَا تَخْشَوْهُمْ : سو تم ان سے نہ ڈرو وَاخْشَوْنِ : اور مجھ سے ڈرو اَلْيَوْمَ : آج اَكْمَلْتُ : میں نے مکمل کردیا لَكُمْ : تمہارے لیے دِيْنَكُمْ : تمہارا دین وَاَتْمَمْتُ : اور پوری کردی عَلَيْكُمْ : تم پر نِعْمَتِيْ : اپنی نعمت وَرَضِيْتُ : اور میں نے پسند کیا لَكُمُ : تمہارے لیے الْاِسْلَامَ : اسلام دِيْنًا : دین فَمَنِ : پھر جو اضْطُرَّ : لاچار ہوجائے فِيْ : میں مَخْمَصَةٍ : بھوک غَيْرَ : نہ مُتَجَانِفٍ : مائل ہو لِّاِثْمٍ : گناہ کی طرف فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا ہوا) لہو اور سُؤر کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلاگھٹ کر مرجائے اور چوٹ لگ کر مرجائے اور جو گر کر مرجائے اور جو سینگ لگ کر مرجائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کر کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو۔ اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو۔ یہ سب گناہ (کے کام) رہیں۔ آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہوگئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو۔ (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔ ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہوجائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ تو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
حکم سوم تفصیل محرمات۔ قال تعالی، حرمت علیکم المیتتہ۔۔۔ الی۔۔۔ فسق۔ ربط) شروع سورت میں الا مایتلی علیکم سے جن چیزوں کی تحریم کی طرف اجمالی اشارہ تھا اب اس آیت میں ان محرمات کو تفصیل کے ساتھ بیان فرماتے ہیں اور یہ بتلاتے ہیں کہ وہ بہیمنہ الانعام جن کو اللہ نے تمہارے لیے حلال کیا ہے وہ بعض احوال میں حرام ہوجاتے ہیں اور اس حالت میں ان کا استعمال ممنوع ہے لہذا تم کو چاہیے کہ ان محرمات سے بچو تاکہ اللہ تعالیٰ کے شدید عذاب سے محفوظ رہو جیسا کہ گذشتہ آیت میں حکم دیا تھا واتقواللہ ان اللہ شدید العقاب۔ اور حرام سے بچنے کا نام تقوی اور پرہیزگاری ہے اب آئندہ آیت میں ان محرمات کی تفصیل فرماتے ہیں جن کا اوپر کی آیت الا مایتلی علیکم میں اجمالا ذکر فرمایا تھا چناچہ فرماتے ہیں کہ اے مسلمانو وہ چیزیں جو کہ حلال چیزوں سے مستثنی کی گئیں اور تم پر حرام کی گئیں وہ گیارہ چیزیں ہیں۔ (اول) ۔ مردار جانور یعنی جو بلاذبح اور بلاشکار کے اپنی طبعی موت مرجائے وہ تم پر حرام کیا گیا ہے اس لیے کہ جب وہ جانور ذبح نہیں کیا گیا تو اس کا خون اندر ہی منجمد ہوگیا جس کا کھانا تمہارے لیے غایت درجہ مضر صحت ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر مردار جانوروں کا کھانا حرام کردیا۔ (دوسری) جو تم پر حرام کی گئی وہ خون ہے جو بہتا ہوا ہو جیسا کہ دوسری جگہ پر ارشاد ہے او دما مسفوحا مشرکین عرب خون جما کر کسی توے اور کڑھائی میں تل کر کھایا کرتے تھے اس آیت میں اس کو حرام کردیا گیا البتہ وہ خون جو گوشت پر لگا رہ جائے وہ اس سے مستثنی ہے اور علی ہذا کلیجی اور تلی بھی مستثنی ہے خون کا کھانا چونکہ ہایت مضر صحت ہے اس لیے اللہ نے اس کا کھانا حرام فرمایا اور (تیسری) چیز سور کا گوشت حرام کیا گیا جس میں اس کی چربی اور اس کی کھال بھی شامل ہے غذا کا اثر اخلاق پر پڑتا ہے اور سور میں بہت سی صفات ذمیمہ پائی جاتی ہیں وہ حدردجہ کا حریص اور پرلے درجہ کا بےغیرت ہے بےغیرتی اس کے خمیر میں داخل ہے جو قومیں سور کا گوشت کھاتی ہیں وہ بےغیرت ہیں عیاں راچہ بیاں اس لیے شریعت نے سور کے گوشت کو حرام کیا تاکہ مسلمان بےغیرتی سے محفوظ رہیں قرآن کریم میں اگرچہ سور کے گوشت کی حرمت کا ذکر آیا ہے لیکن تمام امت محمدیہ پر اس کا اجما ہے کہ سور نجس العین ہے اور اس کے کسی جز سے انتفاع درست نہیں خدا تعالیٰ نے کھانے کی تخصیص اس لیے کی ہے جانور سے بڑا مقصود کھانا ہی ہوتا ہے۔ اور (چوتھی) چیز جو بقصد تقرب غیر اللہ کے نامز کردیا گیا ہو وہ بھی تم پر حرام کیا گیا بقصد تقرب وتعظیم جانور کو غیر اللہ کے لیے نامز کرنا یہ شرک ہے اس نیت شرکیہ کی وجہ سے وہ جانور نجس ہوجاتا ہے اور اس کا کھانا حرام ہوجاتا ہے اگرچہ ذبح کے وقت اس پر اللہ کا نام لیاجائے اس لیے کہ حرمت کا مدار اس نیت شرکیہ پر ہے جب تک اس نیت سے توبہ نہ کرے گا حلال نہ ہوگا جس طرح کلب اور خنزیر اور بہائم محرمہ ذبح کے وقت خدا کا نام لینے سے حلال نہیں ہوجاتے اسی طرح مااھل بہ لغیر اللہ ذبح کے وقت اللہ کا نام لینے سے حلال نہی ہوگا جب تک اس نیت شرکیہ سے توبہ نہ کرے اور حدیث میں ہے انماالاعمال باالنیات اس بارے میں مفصل کلام سورة بقرہ میں گزرچکا ہے وہاں دیکھ لیا جائے۔ خلاصہ کلام یہ کہ جو جانور غیر خدا کی تعظیم کے لیے ذبح کیا جائے وہ مردار ہے۔ (پانچویں) چیز وہ جانور جو گلا گھٹ کر مرجائے وہ بھی تم پر حرام کیا گیا اس لیے کہ ایسا جانور درحقیقت مردار ہے۔ اور (چھٹی) چیز وہ جانور جو چوٹ کھا کر مرا ہو وہ بھی تم پر حرام کیا گیا یعنی لکڑی کی چوٹ سے مرگیا وہ بھی حرام کیا گیا۔ (اور ساتویں) چیز وہ جانور جو اوپر سے نیچے گر کر مرا ہو خواہ وہ خود گر مرا ہو یا کسی نے گرایا ہو وہ بھی حرام ہے ( اور آٹھویں) چیز وہ جانور کہ جو دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مرا ہو وہ بھی تم پر حرام کیا گیا وہ بھی مردار ہے۔ (اور نویں چیز) وہ جانور جس کو درندے نے پھاڑ کھایا ہو اس کا بقیہ تم پر حرام ہے لیکن منحتفہ اور موقوذہ اور متردیہ اور مااکل السبع میں جن جانوروں کا ذکر ہے ان میں سے اگر تم کسی جانور کو جان نکلنے سے پہلے قاعدہ شرعیہ کے مطابق ذبح کرڈالو تو وہ اس حرمت کے حکم سے مستثنی اور خارج ہے یعنی ان جانوروں میں اگر تم کسی کو جیتا ہوا پاؤ اور مرنے سے پہلے اس کو ذبح کرلو تو وہ حرام نہیں ہے۔ (ف) ۔ منحنفہ اور موقوذہ اور متردیہ اور مااکل السبع اگرچہ یہ سب چیزیں میتہ میں داخل تھیں لیکن ان کو علیحدہ ذکر کیا عام اطلاق میں میتہ اسی جانور کہتے ہیں کہ جس کی موت کا کوئی ظاہری سبب نہ ہو اور منحنقہ وغیرہ میں موت کا ظاہری سبب موجود ہے اس لیے ان کو علیحدہ ذکر کیا یہ سب مردار کے حکم میں ہیں (اور دسویں) چیز جو تم پر حرام کی گئی وہ جانور ہے کہ ذبح کیا جائے کسی تھان پر یعنی کسی معبود کے باطل نشان پر وہ بھی حرام ہے تھان سے مراد وہ مقامات ہیں جن کو لوگ متبرک سمجھ کر خدا کے سوا دوسروں کی نذرونیاز چڑھاتے تھے۔ امام راغب فرماتے ہیں کہ نصب ان پتھروں کو کہتے ہیں جن کو مشرکین عرب غیر اللہ کی عبادت کے لیے نصبت کرتے تھے اور جانوروں کو لے جا کر وہاں ذبح کرتے تھے کماقال تعالی، الی نصب یوفضون (مفردات ص 513) ۔ نصب اور صنم میں فرق یہ ہے کہ نصب اس غیر مصور پتھر کو کہتے ہیں جو کسی دیوتا یا دیوی کے نام پر کھڑا کیا جائے اور صنم وہ مصور پتھر ہے جس پر کسی دیوتا یا دیوی کی تصویر یعن یصورت بنی ہوئی ہوخانہ کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ پتھر کھڑے کیے ہوئے تھے جن کو مشرکین اپنے دیوتاؤں کا تھان سمجھ کر بتوں کے لیے ان کے پاس آکر قربانیاں کیا کرتے تھے اور کچھ خون بھی ان پر چھڑک دیا کرتے تھے اور ان پتھروں کے بدلتے بھی رہتے تھے ایک پتھر کے بجائے دوسرا اچھا پتھر رکھ دیتے تھے پس اللہ نے اس کو بھی نجس اور حرام کردیا اور ان قربانیوں کے کھانے کی ممانعت کی جو ان تھانوں پر کی جائیں کیونکہ یہ صورت بھی فی الحقیقت نذر بغیر اللہ کی ایک خاص سورت ہے گوذبح کے وقت زبان سے بسم اللہ اللہ اکبر کہہ دیا جائے اس لیے کہ اصل مقصود اور اصل نیت اس ذبح سے غیر اللہ کی تعظیم اور تقرب ہے جو شرک ہے اس لیے اللہ نے اس کو حرام قرار دیا کیونکہ حرمت کا اصل دارومدار نیت شرکیہ پر ہے جس کا ظہور کبھی قول سے ہوتا ہے اور کبھی فعل سے یعنی ایسے مقامات پر ذبح کرنے سے جو بتوں کے نام پر بنے ہوئے ہیں اللہ نے ایسا ذبیحہ کھانا حرام قرار دیا تفسیر قرطبی ص 57 ج 6) ۔ (نکتہ) ۔ گذشتہ آیت میں ہدی کے ادب اور حترام کا ذکر تھا جو جانور تقرب الی اللہ کی غرض سے خانہ کعبہ پہنچ جاتے ہیں ان سے تعرض نہ کرو اب اس آیت میں اس کے بالمقابل اس جانور کا ذکر فرمایا جو خدا کے سوا کسی دوسرے کے نام پر ذبح کیا جائے یا خانہ خدا کے سوا کسی دوسرے مکان کی تعظیم کے لیے ذبح کیا جائے تو وہ حرام اور مردار ہے (ماخوذ از موضح القرآن) ۔ اس تقریر سے مااھل لغیر اللہ بہ اور ماذبح علی النصب کا فرق واضح ہوگیا، فللہ الحمد۔ اور (گیارھویں) چیز جو تم پر حرام کی گئی وہ یہ ہے کہ پانسوں سے تم قسمت معلوم کرو از لام زلم کی جمع ہے جس کے معنی تیر کے ہیں ازلام ان تیروں کو کہتے ہیں کہ جو بتوں کے مجاوروں کے پاس ہوا کرتے تھے مشرکین عرب کا یہ دستور تھا کہ جب کوئی ضرورت پیش آتی اور کسی مہتم بالشان کام کا ارادہ کرتے تو قسمت انجام معلوم کرنے کے لیے ان مجاوروں کے پاس جا کر سوال کرتے کہ مثلا میں نکاح کروں یا نہ کروں اور اس سفر میں جاؤں یا نہ جاؤں تو وہ مجاور اپنا تھیلا نکالتا جس میں تین تیر ہوتے ایک پر لکھا ہوا تھا امرنی ربی، حکم دیا مجھے میرے رب نے) دوسرے تیر پر لکھا تھا نہانی ربی (منع کیا مجھ کو میرے رب نے) اور تیسرا تیر خالی تھا یہ تینوں تیر مجاور کے پاس ایک تھیلے میں رکھے رہتے تھے جب کسی کو کسی کام میں کوئی تردد اور تذبذب لاحق ہوتا تو مجاور کے پاس جاتے اور وہ تھیلہ میں ہاتھ ڈال کر کسی تیر کو نکالتا اگر امرنی ربی والا تیر نکل آیا تو وہ کام کرتے اور اگر نہانی ربی والا تیر نکل آیا تو ایک سال کے لیے اس کام سے رک جاتے اور اگر خالی تیر نکلتا تو پھر یہی عمل کیا جاتا یہاں تک کہ کرو یا نہ کرو والا تیر نکلتا چونکہ یہ بتوں سے ایک قسم کا مشورہ اور استعانت تھی جس کی بناء پر خالص جہالت اور وہم پرستی اور افتراء علی اللہ پر تھی اس لیے اللہ نے قرآن کریم میں جا بجا اس رسم کی حرمت کو شدت کے ساتھ ذکر فرمایا اور اس مقام پر میتہ اور خنزیر جیسی گندی چیزوں کے ساتھ ملا کر اس کی حرمت کو بیان فرمایا اور یہ بتلادیا کہ یہ ایک مشرکانہ اور جاہلانہ رسم ہے اس طریقہ سے قسمت اور انجام کسی طرح معلوم نہیں ہوسکتا شریعت نے بجائے اس رسم قبیح کے استخارہ کا حکم دیا کہ جب کسی امر میں تردد ہو تو استخارہ کرو یہ تمام باتیں جو تم پر حرام کی گئیں سب فسق وفجور یعنی گناہ اور بدکاری ہیں یا یوں کہوں کہ ذالکم کا اشارہ فقط اخیر یعنی استقسام بالازلام کی طرف ہے اور مطلب یہ کہ تیروں سے قستم اور انجام کا معلوم کرنا سراسر فسق اور ضلالت اور شرک اور جہالت ہے مومن کا کام یہ ہے کہ جب اس کو کسی کام میں تردد ہو تو خداوند ذوالجلال کی طرف رجوع کرے اور استخارہ کرے جیسا کہ احادیث میں اس کا طریقہ وارد ہوا ہے۔ حکم چہارم۔ تاکید تمسک بشرائع اسلام مع بشارت اکمال دین واتمام انعام۔ قال تعالی، الیوم یئیس الذین کفرو۔۔۔۔ الی۔۔۔۔۔ دینا۔ ربط) ۔ حلال و حرام کی تفصیل کے بعد اب اس آیت میں بشارت دیتے ہیں کہ تمہارا دین مکمل ہوگیا کوئی خیر اور بھلائی ایسی باقی نہ رہی جو بتلادی گئی ہو اور کوئی شر اور برائی ایسی نہ رہی جس سے منع نہ کردیا گیا اور اس کے ساتھ اللہ نے تم کو اتنی قوت اور عزت عطا کی کہ کافر ناامید ہوچکے ہیں اور دین اسلام کے مٹانے کا تصور اور خیال خام ان کے دلوں سے نکل چکا ہے لہذا اے مسلمانوں تم بےخوف و خطرہ ہو کر دین اسلام کے فرائض اور احکام کو بجالاؤ اور کافروں کی نفرت اور وحشت کو خاطر میں نہ لاؤ دین کا غلبہ مکمل ہوچکا ہے اب کسی میں یہ طاقت نہیں کہ حلال و حرام کے بارے میں کوئی مزاحمت کرسکے اور جاہلیت کی طرح مخالفین اسلام کے جو روستم کی وجہ سے مسلمان آزادی کے ساتھ شرائع اسلام اور حلال و حرام پر عمل نہیں کرتے اب اللہ نے اسلام کے ضعف کو قوت سے اور اس کے خوف کو امن سے اور اس کے فقر کو غنی سے بدل دیا ہے اب تم آزادی کے ساتھ بےخوف وخطر شرائع اسلام کو بجالاؤ اور جس چیز کو اللہ نے حلال کیا ہے اس کو استعمال کرو اور جیسے حرام کیا ہے اس سے بچو چناچہ فرماتے ہیں آج کے دن یعنی اب کفار تمہارے دین سے ناامید ہوگئے یعنی اس کے مٹانے یا اس پر غالب آجانے سے ایوس ہوگئے اب تک تو یہ سمجھتے تھے کہ اسلام چند روز کا مہمان ہے اور جو لوگ مسلمان ہوئے وہ عنقریب دین اسلام چھوڑ کر پھر انہیں میں جا ملیں گے لیکن اب وہ بالکل ناامید ہوگئے اور سمجھ گئے کہ یہ شمع بجھنے والی نہیں اور یہ پروانے اسے چھوڑنے والے نہیں پس جب یہ بات ہے کہ کفار تمہارے دین کے مٹانے اور اس پر غالب آنے سے ناامید ہوچکے ہیں تو تم اس دین پر عمل کرنے میں ان سے بالکل نہ ڈرو وہ تمہارا کچھ نہیں کرسکتے اور مجھ سے ڈرو یعنی ان کی خوشامد میں شریعت کے خلاف کرکے اپنے کو تباہ نہ کرو اس دین کو کوئی نہیں مٹا سکتا اس سے معلوم ہوا کہ تقیہ ایک فعل مہمل ہے اور بزدلانہ حرکت ہے۔ (تفسیر کبیر ص 368 ج 3) ۔ اب میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیا تمام حلال و حرام فرض اور واجب چیزیں مکارم اخلاق اور عقائد اور اصول قواعد سب بیان کردیے اور اپنی نعمت کو تم پر پورا کردیا کہ تم کو دین کامل دیا اور اب تم کسی دین اور کسی شریعت کے محتاج نہیں رہے اور کافروں پر تمہیں غلبہ بخشا مطلب یہ ہے کہ یہ نعمت دو اعتبار سے تم پر تمام ہوئی ایک قوت و شوکت کے اعتبار سے کہ اس دین کو تمام دینوں پر غلبہ عطا کیا، ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی۔۔۔۔ الی۔۔۔ کلہ۔ کا وعدہ پورا کیا اور دوسرے قواعد اور احکام و حلال، حرام کی تفصیل اور مبداء اور معاش اور معاد کی تفصیل کے اعتبار سے اتنا کامل کردیا کہ اب قیامت تک جتنے واقعات پیش آئیں گے ان سب کے احکام اسی دین حق یعنی کتاب وسنت کی روشنی میں معلوم کیے جاسکیں گے یا یوں کہو کہ اتمام نعمت سے یہ مراد ہے کہ لذائذ اور طیبات کو تمہارے لیے حلال کردی اور خباثت اور ارجاس کو تم پر حرام کردیا اس طرح تم پر اپنی نعمت پوری کی یا یوں کہو کہ حج فرض کرکے ارکان دین کو مکمل کردیا۔ (ف) ۔ چونکہ حدیث اور اجماع قیاس کی حجیت خود قرآن کریم سے ثابت ہے اس لیے جو حکم ثابت ہو حدیث اور اجماع اور قیاس سے وہ بھی دین کا جز ہوگا جس نے حدیث نبوی یا اجماع امت یا قیاس فقہاء کو دین سے خارج اور اس کا مقابلہ اور قسیم سمجھا وہ بےدین اور بےعقل ہے اور قرآن کریم اور حدیث شریف اور اجماع علماء اور قیاس فقہاء سب دین کے اجزاء اوراقسام ہیں نیز قیاس مظہر حکم ہے مثبت حکم نہیں یعنی جو حکم کتاب وسنت میں پوشیدہ ہے اور مخفی تھا قیاس اسے ظاہر کردیتا ہے جیسا کہ لعلمہ الذین یستنبطونہ کی تفسیر میں گذر چکا ہے قیاس کے معین خودرائی اور جدید حکم کے نہیں۔ رہا اجماع سوہ وہ بھی کسی آیت یا حدیث ہی کے مختلف فیہ مضمون پر ہوتا ہے چیز (دین) ایک ہے الوان (رنگتیں مختلف ہیں) ۔ عبار اتنا شتی وحسنک واحد، وکل الی ذاک الجمال یشیر بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش، من از رفتار پایت می شناسم۔ اور پسند کیا میں نے تمہارے لیے دین اسلام کو یعنی اب یہی دین خدا کے نزدیک مرضی اور پسندیدہ اور تمام دینوں سے بہتر ہے اور برتر ہے اور اب قیامت تک یہی دین رہے گا اور کبھی منسوخ نہ ہوگا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے نازل ہونے کے بعد اسی دین اور شریعت کا اتباع کریں گے لہذا اب دین کامل اور پسندیدہ خداوندی کے بعد جو شخص سوائے دین اسلام کے کوئی اور دین اختیار کرے گا تو وہ خدا کے یہاں ہرگز قابل قبول نہ ہوگا کما قال تعالی، ومن یبتغ غیرالاسلام دینا۔۔۔ الی۔۔۔ الخاسرین۔ آیت۔ فوائد لطائف۔ (1) ۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو وہ دن حجۃ الوداع کا تھا یعنی نویں تاریخ ذی الحجہ کو میدان عرفات میں جمعہ کے دن عصر کے وقت یہ آیت نازل ہوئی وہ وقت تقریبا کا بھی آخر تھا اور ہفتہ کا بھی آخری دن تھا اور دن بھی قریب الختم تھا اسلیے کہ عصر کے بعد غروب کا وقت آجاتا ہے۔ اسی طرح حضور پرنور کی عمر شریف بھی آخری زمانہ تھا اس کے تین ماہ بعد ربیع الاول میں حضور کا وصال ہوگیا ہماری اس تقریر سے یہ معلوم ہوگیا کہ آخر سے حقیقی آخر مراد نہیں بلکہ قریب آخر مراد ہے چناچہ اس کے بعد فمن اضظر فی مخمصۃ۔۔ الی۔۔ رحیم۔ یہ آیت نازل ہوئی لہذا اب یہ اشکار وارد نہ ہوگا کہ جب دین کامل ہوچکا تو پھر یہ حکم مضطر کیسے نازل لیے کہ مراد آخر سے قریب آخر ہے اس پر خدشہ وارد نہیں ہوتا نیز الیوم سے خاص آج کا دن مراد نہیں بلکہ الیوم سے زمانہ حاضر مراد ہے جو ماقبل اور مابعد سے متصل ہے لہذا اب شبہ نہ رہا جب ا آج دین مکمکل ہوگیا تو اس کے بعد کوئی حکم نازل نہ ہونا چاہیے اور آیات احکام میں یہ آخری آیت اور آخری حکم ہونا چاہیے بحمدہ تعالیٰ اس شبہ کے دو جواب ہوگئے۔ (2) ۔ دین کے کامل کردینے کے معنی یہ ہیں کہ حدود اور فرائض اور حلال و حرام کے احکام اور مبداء اور معاد دنیا اور آخرت اور زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق ایسے اصول اور قواعد بتلادیے گئے کہ قیامت تک آنے والے واقعت اور جزئیات کے احکام انہی کلیات سے صراحتہ یا اشارۃ معلوم ہوسکیں۔ اور قیامت تک اس میں زیادتی اور ترمیم کی ضرورت نہ ہوگی نبوت و رسالت آپ پر ختم ہوتی اور یہ آخری کتاب ہے اس کے بعد کوئی کتاب آسمان سے نازل نہ ہوگی۔ طب کامل وہ ہے جس سے ہر مرض کا علاج معلوم ہوسکے اسی طرح دین کامل وہ ہے جو اصول اور قواعد کلیہ کا جامع ہو اور تمام جزئیات کا حکم اس سے معلوم ہوسکتے خلاصہ کلام یہ کہ اکمال دین کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام حلال و حرام اور فرائض اور واجبات اور اصول وقواعد بیان کردیے گئے اب تمہیں دینی یا دنیوی ہدایت کے لیے کسی اور دین کی ضرورت نہیں اور نہ کسی اور نبی کی حاجت رہی، یہی دین تمہاری دینی اور دنیوی اور تدبیر منزلی اور تدبیر ملکی اور سیاسیت داخلیہ اور خارجیہ کی مشکلات میں ہدایت اور رہنمائی کے لیے کافی اور شافی ہے جیسا کہ کتب فقہ میں، کتاب وسنت کی روشنی میں ان امور کی تفصیل موجود ہے۔ اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اکمال دین کے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے دین اسلام کو تمام ادیان پر غلبہ عطا کیا مگر راجح قول وہی ہے جو ہم نے پہلے بیان کیا۔ 3۔ اور اتممت علیکم نعمتی۔ آیت۔ کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے تم کو دین کامل دے کر تم پرا اپنی نعمت پوری کردی کہ تم کو ایسا کامل اور غایت درجہ معتدل قانون اور دستور عطا کیا کہ جو تمام شریعتوں کا خلاصہ اور لب لباب ہے اور جو باتیں ادیان سماویہ میں ناتمام تھیں اس دین کامل میں ان کی تکمیل اور تیمم کردی گئی اب قیامت تک اس میں کسی اضافہ اور ترمیم کی گنجائش نہیں البتہ اس کے احکام کی توضیح اور تلویح اور تفصیل اور تشریح ہوتی رہے گی جس طرح حدیث کی تفسیر ہے اسی طرح فقہ حدیث کی شرح ہے اور وہ قانون ایسا واضح اور صاف ہے کہ کوئی ملحد اس میں تحریف اور تبدیل کی امید قائم نہیں کرسکتا اور ظاہری قوت و شوکت کے اعتبار سے اس کی جڑیں اتنی مضبوط کردی ہیں کہ کفار اس کے مٹانے سے مایوس ہوچکے ہیں فتح مکہ سے تمام جزیرہ العرب اسلام کے زیرنگین آگیا اور کفر کی یہ مجال نہیں رہی کہ وہ اسلام کے مقابلہ میں سراٹھا سکے مطلب یہ ہوا کہ دین کامل دے کر دین اور دنیا دونوں اعتبار سے تم پر اللہ کی نعمت پوری ہوئی۔ 4۔ حضرات انبیاء سابقین کو جو شریعتیں عطاء کی گئی وہ ناقص نہ تھیں بلکہ اپنے اپنے وقت اور اس خاص زمان اور اس خاص مکان اور اس خاص قوم کے ساتھ مخصوص نہیں شریعت اسلامیہ کا کمال کمال مطلق بھی ہے اور دائم اور مستمر بھی ہے قیامت تک اس کا کوئی حکم منسوخ نہ ہوگا کذا فی السراج المنیر۔ للشربینی ص 292 ج 2۔ یا یوں کہو کہ ہر شریعت فی حدذاتہ کامل تھی مگر اللہ اپنے علم اور ارادہ سے جس حد تک پہنچانا چاہتے تھے اس کے اعتبار سے سابق شریعتیں کم تھیں مثلا اللہ نے کسی کو ساٹھ برس کی عمر عطا کی اور کسی کو سو سال سو ساٹھ سال کی عمر فی حد ذاتہ ناقص نہیں مگر اس عمر کے لحاظ سے ناقص ہے جو اللہ نے دوسرے کو عطا کی ابتداء میں ظہر اور عصر اور عشاء کی دو دو رکعتیں تھیں بعد میں چار چار رکعتیں کردی گئی لہذا یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ چار رکعتیں دو رکعتوں سے زیادہ کامل ہیں اور دو رکعتیں اس سے کم ہیں لیکن یہ کمی کسی عیب یا خلل یا قصور کی بناء پر نہیں بلکہ اللہ کے اضافہ اور تکمیل کے اعتبار سے ناقص ہیں اللہ نے جس مرتبہ کمال تک پہنچانے کا ارادہ فرمایا تھا اس کے اعتبار سے ناقص ہیں اور جو جو احکام شرعیہ بتدریج حد کمال کو پہنچے ان کو بھی اسی طرح سمجھو۔ تفسرقرطبی۔ ص 62 ج 6) 5۔ جس طرح حکومت کے دستور اور آئین کا مکمل ہونا موجب صد مسرت ہے اسی طرح اللہ کی طرف سے بندوں کو دستو کامل یعنی دین کامل اور شریعت کاملہ کا عطا ہونا ایک نعمت عظمی اور بشارت کبری ہے اللہ، احکم الحاکمین ہے اور دین اسلام اس کے قوانین اور احکام کا نام ہے چناچہ کسی یہودی نے حضرت عمر سے کہا اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنالیتے حضرت عمر نے فرمایا کہ جس دن یہ آیت نازل ہوئی اس دن بحمدللہ مسلمانوں کی دوعیدیں جمع ہوگئی تھیں یہ دنوں دن بحمد اللہ ہمارے لیے عید ہیں ایک یوم عرفہ اور ایک یوم جمعہ۔ یعنی ہمیں اپنی طرف سے کسی اور عید کی ضرورت نہیں بس ہمیں وہی عید کافی ہے جو من جانب اللہ ہے۔ 6۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین اسلام ایک عظیم نعمت ہے اور نعمت کا شکر عقلا وشرعا واجب ہے اس لیے امت میں اسلام جیسی نعمت کے شکر کے لیے یہ کلمہ مشہور ہے الحمدللہ علی نعمۃ الاسلام۔ (تفسیر کبیرص 369 ج 3) اور اللہ کا وعدہ ہے لئن شکرتم لازیدنکم۔ آیت۔ جو اسلام کی نعمت کا شکر کرے گا الہ اس کے اسلام اوردین میں زیادتی اور خیر و برکت عطا فرمائے گا۔ 7۔ ورضیت لکم الاسلام دینا۔ آیت۔ یعنی اللہ کے نزدیک یہی دین پسندیدہ اور مقبول ہے اور اس ی پر نجات کا دارومدار ہے جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بغیراسلام قبول کیے اپنے مذہب پر عمل کرنے سے نجات ہوسکتی ہے جیسا کہ اس زمانہ کے بعض آزاد منشوں کا یہ خیال ہے کہ گاندھی بھی بغیر اسلام میں داخل ہوئے اخروی عذاب سے نجات پاسکتا ہے سو یہ ایساصریح کفر ہے کہ جس میں تاویل کی بھی گنجائش نہیں۔ کیا اسلام مانع ترقی ہے۔ اسلام حقیقی ترقی کا ہرگز ہرگز مانع نہیں بلکہ حقیقی ترقی کا حکم دیتا ہے اس سے بڑھ کر کیا ترقی ہوسکتی ہے صحابہ کرم نے چند ہی روز میں قیصر و کسری کی سلطنت پر قبضہ کرلیا اور وئے زمین پر اپنی سیادت اور اقتدار کو قائم کردیا اور شریعت اسلامیہ کا دستور اور قانون دنیا میں رائج کردیا اور جس سرزمین پر قدم رکھا بغیر کسی کالج اور یونیورسٹی کے وہاں کی زبان عربی بن گئی اور وہاں کا تمدن سلامی تمدن بن گیا اور آج سے دوسوسال پیشتر تک تمام سلاطین اسلام کا یہی حال رہا اور اللہ نے ان کو وہ عزت دی جو اب خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتی البتہ اسلام اس خیالی ترقی کا مانع اور مخالف ہے جس کی حقیقت سوائے حرص اور طول امل کے کچھ نہیں شیخ چلی کی سی پلاؤ پکالینے کا نام ترقی نیہں۔ عالم کی اصل ترقی کا دارومدار چار چیزیں ہیں زراعت اور تجارت اور صنعت وحرفت اور ملازمت جس کو اصلاح شریعت میں اجارہ کہتے ہیں شریعت کی بیشمار نصوص سے ان تمام امور کی تاکید اور ترغیب ثابت ہوتی ہے اور اللہ نے ان امور کے متعلق احکام صادر کیے ہیں جو چیزیں حقیقتا مفید اور نافع تھیں ان کو جائز قرار دیا اور جو چیزیں مضر تھیں ان کو ناجائز قرار دیا گیا اگرچہ کوئی خود غرض بعض چیزوں کو اپنیلیے مفید اور نافع سمجھتا ہے ہر حکومت نے اپنے قانون میں رشوت اور چوری ڈاکہ زنی کو جرم اور ممنوع قرار دیا حالانکہ چوری اور ڈاکہ زنی شخصی منافع سے خالی نہیں چوری سے اور رشوت سے مال میں بڑی ترقی ہوتی ہے مگر کوئی شخص بھی حکومت اور قانون پر یہ اعتراض نہیں کرتا کہ یہ قانون ہماری ترقی میں حارج اور مزاحم ہے لہذا اس کو منسوغ کیا جائے اسی طرح شریعت نے سود اور قمار اور رشوت کو حرام قرار دیا جو مضرت میں چوری اور ڈاکہ سے کہیں بڑھ کر ہیں لیکن افسوس کہ شریعت کے احکام کو مانع ترقی سمجھتے ہیں اور قوانین حکومت کو مانع ترقی نہیں سمجھتے معترضین یہ بتلائیں کہ شریعت کے کون سے احکام ایسے ہیں جو حقیقتا دنیاوی ترقی میں حارج اور مزاحم ہیں بتلائیں تو سہی کیا شراب اور زنا اور بےپردگی کی اجاست سے ملک کو مادی ترقی حاصل ہوجائے گی شریعت پروپیگنڈے کو ممنوع قرار دیتی ہے حیرت کا مقام ہے کہ جھوٹ سے تو ملک کو ترقی ہوئی اور سچائی سے ملک کو تنزلی ہوئی ہماری سمجھ میں نہی آتا کہ ان نجاست خوروں (جھوٹا پروپیگنڈا) کرنے والوں کو صدق اور سچائی کی حلاوت اور لذت کس طرح سمجھائی جائے بلکہ حق یہ بات کہ شریعت نے جس چیز سے منع کیا وہی چیز تنزل کا سبب ہے اور جس چیز کا حکم دیا ہے وہی ترقی کا ذریعہ ہے۔ ترجمہ۔ پھر جو کوئی ناچار ہوگیا بھوک میں، کچھ گناہ پر نہیں ڈھلتا تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ 3 تتمہ حکم سوم۔ قال تعالی۔ فمن اضطر۔۔ الی۔۔۔۔ رحیم۔ آیت۔ پہلی آیت میں جو میتہ وغیرہ کی حرمت کا ذکر تھا یہ آیت اسی حکم سابق کا تتمہ ہے چناچہ فرماتے ہیں پس جو شخص بھوک کی شدت میں مجبور اور لاچار ہوجاتے وہ اگر ان حرام چیزوں میں سے بقدر سد رمق کچھ کھالے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں بشرطیکہ وہ گناہ کی طرف جھکنے والا نہ ہو یعنی پیٹ بھر کر نہ کھائے اور مقدارحاجت سے تجاوز نہ کرلے تو یقیناً اللہ بڑابخشنے والا مہربان ہے اس نے اپنی رحمت سے مجبوری کی حالت کو حرمت سے مستثنی فرمادیا۔ ترجمہ۔ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ ان کو کیا حلال ہے تو کہہ تم کو حلال ہیں ستھری چیزیں اور جو سدہاؤ شکاری جانور دوڑانے کو کہ ان کو سکھاتے ہو کچھ ایک جو (اللہ نے تم کو سکھایا ہے سو کھاؤ اس میں سے کہ رکھ چھوڑ دیں تمہارے واسطے اور اللہ کا نام لواس پر اور ڈرتے رہو اللہ سے اللہ شتاب لینے والا ہے حساب۔ 4
Top