Tafseer-e-Baghwi - Al-Maaida : 3
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ١۫ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ١ؕ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ١ؕ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ١ؕ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا١ؕ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
حُرِّمَتْ : حرام کردیا گیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَيْتَةُ : مردار وَالدَّمُ : اور خون وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ : اور سور کا گوشت وَمَآ : اور جو۔ جس اُهِلَّ : پکارا گیا لِغَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا بِهٖ : اس پر وَ : اور الْمُنْخَنِقَةُ : گلا گھونٹنے سے مرا ہوا وَالْمَوْقُوْذَةُ : اور چوٹ کھا کر مرا ہوا وَالْمُتَرَدِّيَةُ : اور گر کر مرا ہوا وَالنَّطِيْحَةُ : اور سینگ مارا ہوا وَمَآ : اور جو۔ جس اَ كَلَ : کھایا السَّبُعُ : درندہ اِلَّا مَا : مگر جو ذَكَّيْتُمْ : تم نے ذبح کرلیا وَمَا : اور جو ذُبِحَ : ذبح کیا گیا عَلَي النُّصُبِ : تھانوں پر وَاَنْ : اور یہ کہ تَسْتَقْسِمُوْا : تم تقسیم کرو بِالْاَزْلَامِ : تیروں سے ذٰلِكُمْ : یہ فِسْقٌ : گناہ اَلْيَوْمَ : آج يَئِسَ : مایوس ہوگئے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سے مِنْ : سے دِيْنِكُمْ : تمہارا دین فَلَا تَخْشَوْهُمْ : سو تم ان سے نہ ڈرو وَاخْشَوْنِ : اور مجھ سے ڈرو اَلْيَوْمَ : آج اَكْمَلْتُ : میں نے مکمل کردیا لَكُمْ : تمہارے لیے دِيْنَكُمْ : تمہارا دین وَاَتْمَمْتُ : اور پوری کردی عَلَيْكُمْ : تم پر نِعْمَتِيْ : اپنی نعمت وَرَضِيْتُ : اور میں نے پسند کیا لَكُمُ : تمہارے لیے الْاِسْلَامَ : اسلام دِيْنًا : دین فَمَنِ : پھر جو اضْطُرَّ : لاچار ہوجائے فِيْ : میں مَخْمَصَةٍ : بھوک غَيْرَ : نہ مُتَجَانِفٍ : مائل ہو لِّاِثْمٍ : گناہ کی طرف فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا ہوا) لہو اور سُؤر کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلاگھٹ کر مرجائے اور چوٹ لگ کر مرجائے اور جو گر کر مرجائے اور جو سینگ لگ کر مرجائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کر کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو۔ اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو۔ یہ سب گناہ (کے کام) رہیں۔ آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہوگئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو۔ (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔ ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہوجائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ تو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
آیت نمبر 3 تفسیر :(حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اھل لغیر اللہ بہ) (یعنی وہ جانور جن کو ذبح کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کا نام لیا گیا ہو۔ ) (والمنخنقۃ) یعنی ایسا جانور جس کا گلا گھونٹ کر مارا گیا ہو۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اہل جاہلیت بکری کو گلا گھونٹ کر مارتے تھے اور کھاتے تھے (اور لکڑی سے مارا ہوا جانور) یعنی ایسا جانور جس کو لکڑی سے قتل کیا گیا ہو۔ حضرت قتادہ (رح) فرماتے ہیں لوگ جانور کو لاٹھی سے مارتے تھے جب وہ مرجاتا تو اس کو کھالیتے تھے۔ (والمتردیۃ) (اونچی جگہ سے گرنے والا جانور) یعنی وہ جانور جو بلند جگہ سے لڑھک گیا ہو یا کنویں میں گر کر مرگیا ہو ( والنطیحۃ) (سینگ سے ہلاک ہونے والا) وہ ایسا جانور ہے جس کو دوسرا جانور سینگ مار کر ہلاک کردے اور تانیث کی ھاء فعیل کے وزن پر اس وقت داخل ہوتی ہے جب وہ فاعل کے معنی میں ہو اور جب فعیل مفعول کے معنی میں ہو تو اس میں مذکر اور مونث برابر ہیں جیسے ” عین کحیل “ یمنی سرمگیں آنکھ اور ” کف خضیب “ مہندی والی ہتھیلی۔ پھر جب اسم کو حذف کرکے تنہا صفت کو لایا جائے تو ھاء داخل کردیتے ہیں جیسے اہل عرب کہتے ہیں ” راینا کحیلۃ و خضیبۃ “ ہم نے سرمگیں آنکھ اور مہندی والی ہتھیلی دیکھی اور آیت میں ” النطیحۃ “ پر ھاء داخل کی گئی ہے کیونکہ اس کا اسم پہلے مذکور نہیں ہے اگر ھاء کو نہ لایا جاتا تو یہ معلوم نہ ہوتا کہ مونث کی صفت ہے یا مذکر کی اور اسی کی مثل ” الذبیحۃ “ اور ” النسیکۃ “ اور ” اکیلۃ السبع “ کے الفاظ ہیں۔ (وما اکل السبع) (اور جو جانور کھالے) اس سے مراد وہ جانور ہے جو درندے کے کھانے کے بعد بچ جائے۔ اہل جاہلیت اس کو کھالیتے تھے۔ (الا ماذکیتم) (مگر جس کو تم ذبح کردو) یعنی مذکورہ تمام جانوروں میں سے کسی کے مرنے سے پہلے اگر تم اس کو ذبح کردو تو وہ حلال ہے اور تذکیہ کا اصل معنی کسی شے کو مکمل کرنا ہے، ” ذکیت النار “ اس وقت بولا جاتا ہے جب آپ اسی ک شعلے مکمل بھڑکالیں اور یہاں مراد ” ذکیتم “ سے یہ ہے کہ تمام رگوں کو کاٹ کر خون بہا دیاجائے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو چیز خون بہادے اور اللہ تعالیٰ کا نام اس پر کیا جائے تو اس کو کھالو سوائے دانت اور ناخن سے ذبح کیے ہوئے جانور کو جس جانور کے ذبح پر قدرت ہو اس میں ذبح کی کم از کم مقدار یہ ہے کہ سانس اور کھانے والی نالی کاٹ دی جائے اور مکمل ذبح یہ ہے کہ ان دو کے ساتھ خون کی دو رگیں بھی کاٹ دی جائیں اور ہر دھار والے آلہ سے ذبح کرنا جائز ہے خواہ وہ لوہے کا ہو یا نرکل کا یا شیشے کا لیکن ناخن اور دانت سے ذبح جائز نہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ان سے ذبح کرنے سے منع کیا ہے اور درندے کے حملے سے زخمی جانور کا کھانا اس وقت حلال ہے جب تو اس کو زندگی کی حالت میں پائے اور اس کو ذبح کرے اور جو جانور درندے کے حملے سے مرنے کے قریب ہوگیا ہو اس کو ذبح کرکے کھانا حلال نہیں کیونکہ یہ مردار کے حکم میں ہے اس کو اگرچہ ذبح کردیا جائے یہ حلال نہ ہوگا۔ جیسا کہ مردار کا حکم ہے اور یہی حکم اونچی جگہ سے گرنے والے اور سینگ سے زخمی جانور کا ہے کہ اگر تم اس کو زخم سے اس حالت میں پائو کہ اس کی زندگی کی امید ہے تو ذبح کرکے کھانا جائز ہے اور اگر وہ جاں بلب چکا ہے تو کھانا حلال نہیں ہے اور اگر فضا میں کسی پرندہ کو تیر مارا اور وہ پرندہ تیر لگنے کے بعد زمین پر گر کر مرگیا تو اس کا کھانا حلال ہے۔ اس لیے کہ زمین پر گرنا ناگزیر تھا اور اگر تیر لگنے کے بعد درخت یا پہاڑ پر گرا اور اس سے لڑھک کر زمین پر گر کر مرگیا تو یہ متردیہ کے حکم میں ہے اور حلال نہیں ہے۔ ہاں اگر تیر پرندہ کے ذبح کی رگوں کو لگے اور ان کو کاٹ دے تو وہ جس جگہ اور جس کیفیت سے گرے اس کا کھانا حلال ہے۔ (وما ذبح علی النصب) (اور جو جانور نصب کے نام پر ذبح کیا جائے) بعض حضرات نے کہا ہے کہ نصب جمع ہے اس کا مفرد نصاب ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ مفرد ہے اور اس کی جمع انصاب ہے جیسے عنق اور اعناق کا لفظ ہے اور نصب منصوب شے کو کہتے ہیں۔ نصب کی تفسیر میں آئمہ مفسرین کے اقوال اس کی مراد میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ حضرت مجاہد و قتادہ رحمہماا اللہ فرماتے ہیں کہ بیت اللہ کے اردگرد تین سو ساٹھ پتھر گاڑھے ہوئے تھے ۔ اہل جاہلیت ان کی عبادت و تعظیم کرتے تھے اور ان کے لیے جانور ذبح کرتے تھے اور یہ پتھر بت نہیں تھے کیونکہ بت تو منقش تصویریں ہوتے ہیں۔ اور دیگر مفسرین فرماتے ہیں کہ ” نصب “ سے مراد وہ بت ہیں جو وہاں رکھے ہوئے تھے اور آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ جانور نہ کھائو جو بتوں کے نام پر ذبح کیے گئے ہیں۔ ابن زید (رح) کہتے ہیں کہ جو جانور بتوں کے نام پر ذبح کیا جائے اور جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے یہ دونوں ایک ہیں۔ قطرب کہتے ہیں کہ ” علی النصب “ میں علی لام کے معنی میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو جانور بتوں کی وجہ سے ذبح کیا جائے۔ ازلام کی تفسیر (وان تستفسموابالازلام) ( اور یہ حرام ہے کہ تم تیروں کے ساتھ تقسیم کرو) یعنی تم پر تیروں کے ساتھ تقسیم کو حرام کیا ہے اور استقسام کا معنی ہے تقسیم کو طلب کرنا اور ازلام اس تیر کو کہتے ہیں جس کے پر اور بھالانہ ہو اس کا واحد زلم اور زلم زا کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ آتا ہے۔ ان کے ازلام سات برابر سائز کے تیر ایک تھیلے میں ہوتے تے یہ تھیلا کعبہ کے خادم کے پاس ہوتا تھا۔ ایک پر (ہاں) لکھا ہوتا تھا اور ایک پر (نہیں) اور ایک پر (تم میں سے) اور ایک پر (تمہارے علاوہ سے) اور ایک پر (ملا ہوا) اور ایک پر (دیت) اور ایک خالی ہوتا۔ اس پر کوئی چیز نہیں لکھی ہوتی تھی۔ پھر جب ان لوگوں کا ارادہ ہوتا کسی سفر یا نکاح یا ختنہ وغیرہ کی تقریب کا یا کسی کے نسب میں دیت ادا کرنے میں اختلاف ہوتا تو وہ مکہ میں قریش کے بڑے بت ھبل کے پاس آتے تھے اور اپنے ساتھ سو درہم لاتے تھے وہ درہم اس تیروں والے کو دے دیتے تھے اور وہ تیروں کو گھماتا تھا اور وہ لوگ دعا مانگتے تھے ، اے ہمارے معبود ! ہمارا اس کام کا ارادہ ہے اگر ” ہاں “ والا تیر نکلتا تو اس کام کو کرتے اور اگر ” نہیں “ والا نکلات تو ایک سال تک اس کام کو نہ کرتے اور سال بعد پھر تیر والے کے پاس آتے اور اگر کسی کے نسب میں جھگڑا ہوتا اور ” تم میں سے “ والا تیر نکلتا تو وہ بچہ ان کے درمیان ہوتا اور اگر ” تمہارے غیر سے “ والا تیر نکلتا تو وہ بچہ ان کا حلیف ہوتا اور اگر (ملا ہوا) والا تیر نکلتا تو اس بچہ کا نہ نسب ہوتا اور نہ کوئی حلیف اور جب کسی دیت کی ادائیگی میں اختلاف ہوتا تو جس کے حق میں (دیت) والا تیر نکلتا تو وہ اس دیت کے ادا کرنے کا پابند ہوتا اور اگر خالی نکل آتا تو دوبارہ گھماتے رہتے۔ جب تک کسی لکھائی والا تیر نہ نکل آتا تو اللہ تعالیٰ نے اس کام سے منع کیا اور اس کو حرام کیا اور فرمایا کہ یہ گناہ ہے۔ سعید بن جبیر ؓ فرماتے ہیں کہ ازلام سفید کنکریاں تھیں جن کو وہ لوگ پھینکتے تھے۔ اور مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ ازلام فارس اور روم کے نرد کے مہرے تھے جن سے وہ جوا کھیلتے تھے اور اما شعبی (رح) اور دیگر فرماتے ہیں تیر عرب کے لیے ہیں اور نرد کے مہرے عجم کے لیے اور سفیان بن وکیع (رح) فرماتے ہیں کہ ازلام شطرنج ہے۔ اور مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا پرندوں کے نام ، آواز اور راستہ کاٹن ی سے فال نکالنا اور کسی شے سے بدفال نکالنا اور منحوس سمجھنا اور کنکر پھینکنا یہ اس جبت میں سے ہے جس سے قرآن میں اجتناب کا حکم ہے۔ (ابودائود) حضرت ابوالدرداء ؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے کہانت کی یا تیروں کی تقسیم طلب کی یا ایسی بدفالی کی جس کی وجہ سے سفر سے رک گیا تو وہ قیامت کے دن بلند درجیات کی طرف نہیں دیکھ سکے گا۔ (الیوم یئس الذین کفروا من دینکم) (آج کے دن کافر لوگ تمہارے دین سے نامید ہوچکے ہیں) یعنی اس بات سے ناامید ہوگئے ہیں کہ تم کافر ہوکر ان کے دین کی طرف لوٹ جائو حالانکہ کافر لوگ اس سے پہلے یہ امید رکھتے تھے کہ مسلمان ان کے دین کی طرف لوٹ جائیں گے۔ پس جب اسلام مضبوط ہوگیا تو وہ ناامید ہوگئے اور ” یئس “ اور ” ایس “ کا ایک ہی معنی ہے۔ (فلا تخشوھم واخشون الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا) (تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا ہے اور تم پر اپنی نعمت مکمل کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا ہے) یہ بروز جمعہ عرفہ کے دن عصر کے بعد حجۃ الوداع میں نازل ہوئی۔ اس وقت آپ (علیہ السلام) میدان عرفات میں اپنی اونٹنی عضبا پر سوار تھے اس وحی کے بوجھ سے اس اونٹنی کی پنڈلیاں ٹوٹنے کے قریب ہوگئیں تو وہ بوجھ کی تاب نہ لاکر بیٹھ گئی۔ طارق بن شہاب حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ یہود کے ایک آدمی نے ان کو عرض کیا اے امیر المومنین ! کہ تمہاری کتاب میں ایک ایسی آیت ہے جس کو تم لوگ پڑھتے ہو اگر وہ ہم یہود پر نازل ہوتی تو ہم لوگ اسی دن کو عید کا دن بنالیتے۔ آپ ؓ نے پوچھا کون سی آیت ؟ اس نے کہا ” الیوم اکملت الخ “ حضرت عمر ؓ نے ارشاد فرمایا ہم اس دن اور اس جگہ کو اچھی طرح جانتے ہیں جس میں یہ آیت حضور ﷺ پر نازل ہوئی۔ آپ (علیہ السلام) جمعہ کے دن میدان عرفات میں کھڑے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ دن ہمارے لیے پہلے سے عید کا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس دن میں پانچ عیدیں تھیں۔ 1 ۔ جمعہ، 2 ۔ عرفہ، 3 ۔ یہود کی عید ، 4 ۔ نصاریٰ کی عید، 5 ۔ مجوس کی عید۔ اس دن سے پہلے تمام ادیان والے ایک دن میں عید کے اعتبار سے جمع نہیں ہوئے اور نہ اس کے بعد ایسا ہوگا کہ ایک ہی دن میں تمام اہل ملل کی عید ہو۔ ہارون بن عترہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر ؓ روپڑے تو آپ ؓ کو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کس چیز نے آپ کو رلایا ہے تو آپ ؓ نے عرض کیا مجھے اس بات نے رلایا ہے کہ ہم اپنے دین میں زیادتی میں تھے جب دین مکمل ہوگیا تو ہر مکمل شے میں پھر کمی آتی ہے تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا آپ ؓ نے سچ کہا۔ یہ آیت آپ ﷺ کی وفات کی خبر تھی۔ آپ (علیہ السلام) اس آیت کے نزول کے بعد اکیاسی دن زندہ رہے اور آپ (علیہ السلام) کی وفات پیر کے دن 11 ہجری 3 ربیع الاول کو ہوئی اور بعض نے کہا ہے کہ 12 ربیع الاول کو آپ (علیہ السلام) کی وفات ہوئی اور بارہ ربیع الاول ہی کو آپ (علیہ السلام) نے ہجرت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان ” الیوم اکملت لکم… الخ “ کی تفسیر یہ ہے کہ اس آیت کے نزول کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیا یعنی فرائض، سنن ، حدود، جہاد، احکام ، حلال و حرام وغیرہ۔ اس آیت کے نزول کے بعد نہ کوئی حلال و حرام کا حکم نازل ہوا اور نہ فرائض و سنن اور حدود و احکام کا۔ ابن عباس ؓ کے قول کا بھی یہی معنی ہے کہ مطلب آیت کا یہ ہے کہ ” میں نے تمہارے لیے تمہارا دن مکمل کردیا، پس تمہارے ساتھ کوئی مشرک حج نہ کرے “ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ ” میں نے تمہارا دین غالب و ظاہر کردیا اور تم کو دشمنوں سے بےخوف کردیا “ اور اللہ تعالیٰ کے فرمان ” واتممت علیکم نعمتی “ کا معنی یہ ہے کہ میں نے تم سے دوسری جگہ وعدہ کیا تھا کہ ” ولائم نعمتی علیکم “ تاکہ تم پر اپنی نعمت مکمل کروں تو میں نے اپنا وہ وعدہ پورا کردیا اپنی نعمت کو مکمل کرکے اور اس مکمل نعمت کی ایک علامت یہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ مکہ میں امن کی حالت میں غلبہ کے ساتھ داخل ہوئے اور اتنے اطمینان سے حج کیا کہ کوئی مشرک ان کے ساتھ کہیں بھی نہیں تھا۔ (ورضیت لکم الاسلام دینا) (اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا) جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جبرئیل (علیہ السلام) فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ دین میں نے اپنے لیے پسند کیا ہے اور اس کو صرف سخاوت اور اچھے اخلاق سے ہی درست کیا جاسکتا ہے تو تم اس دین کا ان دو صفتوں کے ساتھ اکرام کرو جب تک تمہارے پاس یہ دین ہے۔ (فمن اضطرفی مخمصۃ) (پس جو شخص بھوک کی حالت میں مجبور ہوجائے) یعنی جو شخص بھوک کی وجہ سے سخت مشقت میں ہو۔” مخمصۃ “ کا معنی ہے پیٹ کا غذا سے خالی ہونا۔ ” رجل خمیص البطن “ اس وقت کہا جاتا ہ کے کہ جب کوئی بہت زیادہ بھوکا ہو ( غیر متجانف لالم) ( گناہ کی طرف مائل ہونے والے نہ ہو) یعنی گناہ کی طرف مائل ہونے والے نہ ہو اور وہ میلان یہ ہے کہ پیٹ بھرنے کی مقدار سے بھی زائد کھالیں اور قتادہ (رح) فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اپنے ارادہ میں گناہ کا قصد کرنے والے نہ ہو ( فان اللہ غفور رحیم ) ( پس بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والے نہایت رحم کرنے والے ہیں ) اور اس عبارت میں اضمار ہے یعنی پس اس نے مردار وغیرہ کو کھالیا۔ ایسی حالت میں تو اللہ تعالیٰ بخشنے والے نہایت رحم کرنے والے ہیں۔ ابوداقدلیثی (رح) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم ایسے علاقوں میں ہوتے ہیں کہ ہمیں مخمصہ کی حالت آجاتی ہے تو ہمارے لیے مردار کب حلال ہوگا ؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تم صبح کو کچھ نہ پی سکو نہ پچھلے دن میں کچھ بھی پی سکو نہ زمین سے کچھ سبزی اکھاڑ کر کھا سکو، اس وقت تم جانور اور مردار کو کھا سکتے ہو۔
Top