Taiseer-ul-Quran - Al-Maaida : 3
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ١۫ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ١ؕ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ١ؕ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ١ؕ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا١ؕ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
حُرِّمَتْ : حرام کردیا گیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَيْتَةُ : مردار وَالدَّمُ : اور خون وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ : اور سور کا گوشت وَمَآ : اور جو۔ جس اُهِلَّ : پکارا گیا لِغَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا بِهٖ : اس پر وَ : اور الْمُنْخَنِقَةُ : گلا گھونٹنے سے مرا ہوا وَالْمَوْقُوْذَةُ : اور چوٹ کھا کر مرا ہوا وَالْمُتَرَدِّيَةُ : اور گر کر مرا ہوا وَالنَّطِيْحَةُ : اور سینگ مارا ہوا وَمَآ : اور جو۔ جس اَ كَلَ : کھایا السَّبُعُ : درندہ اِلَّا مَا : مگر جو ذَكَّيْتُمْ : تم نے ذبح کرلیا وَمَا : اور جو ذُبِحَ : ذبح کیا گیا عَلَي النُّصُبِ : تھانوں پر وَاَنْ : اور یہ کہ تَسْتَقْسِمُوْا : تم تقسیم کرو بِالْاَزْلَامِ : تیروں سے ذٰلِكُمْ : یہ فِسْقٌ : گناہ اَلْيَوْمَ : آج يَئِسَ : مایوس ہوگئے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سے مِنْ : سے دِيْنِكُمْ : تمہارا دین فَلَا تَخْشَوْهُمْ : سو تم ان سے نہ ڈرو وَاخْشَوْنِ : اور مجھ سے ڈرو اَلْيَوْمَ : آج اَكْمَلْتُ : میں نے مکمل کردیا لَكُمْ : تمہارے لیے دِيْنَكُمْ : تمہارا دین وَاَتْمَمْتُ : اور پوری کردی عَلَيْكُمْ : تم پر نِعْمَتِيْ : اپنی نعمت وَرَضِيْتُ : اور میں نے پسند کیا لَكُمُ : تمہارے لیے الْاِسْلَامَ : اسلام دِيْنًا : دین فَمَنِ : پھر جو اضْطُرَّ : لاچار ہوجائے فِيْ : میں مَخْمَصَةٍ : بھوک غَيْرَ : نہ مُتَجَانِفٍ : مائل ہو لِّاِثْمٍ : گناہ کی طرف فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
تم پر (یہ چیزیں) حرام کی گئی ہیں 11 مردار، خون، سؤر کا گوشت اور ہر وہ چیز جو اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام سے مشہور 12 کردی جائے۔ نیز وہ جانور جو گلا گھٹ کر یا چوٹ کھا کر یا بلندی سے گر کر یا سینگ کی ضرب سے مرگیا ہو 13 نیز وہ جانور جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو، الا یہ کہ (ابھی وہ زندہ ہو اور) تم 14 اسے ذبح کرلو۔ نیز وہ جانور بھی جو کسی آستانے 15 پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز ہر وہ چیز بھی حرام ہے جس میں فال کے تیروں سے تم اپنی قسمت 16 معلوم کرو۔ یہ سب گناہ کے کام ہیں۔ آج کافر تمہارے دین سے پوری طرح مایوس 17 ہوگئے ہیں۔ لہذا ان سے مت ڈرو، صرف مجھی سے ڈرو۔ آج کے دن میں نے تمہارا 18 دین تمہارے لیے مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت 19 پوری کردی اور تمہارے لیے بحیثیت دین، اسلام 20 کو پسند کیا ہے۔ پھر اگر کوئی شخص بھوک کے مارے (ان حرام کردہ چیزوں میں سے کسی چیز کو کھانے پر) مجبور ہوجائے 21 بشرطیکہ وہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو اللہ یقینا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے
11 حلت وحرمت کی علت :۔ حلت و حرمت کے قانون میں شریعت نے صرف اس بات کو ملحوظ نہیں رکھا کہ حرام چیزوں کے طبی لحاظ سے جسم انسانی پر کیا مفید یا مضر اثرات پڑتے ہیں۔ اگر ایسی بات ہوتی تو سب سے پہلے سنکھیا اور دوسرے زہروں کا نام لیا جاتا، بلکہ زیادہ تر اس بات کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ ان حرام اشیاء کے انسان کے اخلاق پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور طہارت اور پاکیزگی سے ان کا کس قدر تعلق ہے نیز ایسی تمام چیزیں بھی حرام قرار دی گئیں جنہیں نیت کی گندگی اور عقیدہ کی خباثت حلال سے حرام بنا دیتی ہے۔ لہذا یہ ضروری نہیں کہ جو چیز اللہ نے حرام کی ہے اس کی حکمت بہرحال انسان کی سمجھ میں آجائے۔ 12 اس آیت میں جن حرام کردہ چیزوں کا ذکر ہے۔ ان میں سے پہلی چار چیزوں کا ذکر پہلے سورة بقرہ کی آیت نمبر 173 میں آچکا ہے اس کا حاشیہ ملاحظہ فرما لیا جائے۔ 13 چونکہ خون حرام ہے اس لیے موت کی ہر وہ صورت جس میں خون جسم سے نکل نہ سکے وہ بدرجہ اولیٰ حرام ہوئی۔ ایسی ہی چار صورتوں کا یہاں ذکر ہوا ہے۔ پہلی صورت اختناق یا گلا گھونٹ کر مرنے کی ہے پھر اسی کی آگے کئی صورتیں ہیں جیسے کوئی گلا دبا کر یا مروڑ کر مار ڈالے۔ یا اسی رسی کا پھندا لگ جائے یا گردن کسی درخت کی شاخوں میں پھنس جائے اور جانور مرجائے۔ دوسری صورت چوٹ یا ضرب سے مرنے کی ہے۔ یہ چوٹ کسی پتھر وغیرہ کی بھی ہوسکتی ہے اور لاٹھی وغیرہ کی بھی۔ تیسری صورت گر کر مرنا ہے خواہ کسی پہاڑی یا درخت سے گر کر مرجائے یا کسی کھڈ یا کنوئیں یا ندی نالے میں گر کر مرجائے۔ اور چوتھی صورت یہ ہے کہ سینگ دار جانور اپنے سینگوں سے لڑیں اور ان میں سے کوئی مرجائے ایسے سب مردار حرام ہیں۔ 14 شکار کے احکام :۔ عدی ؓ بن حاتم کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا : یا رسول اللہ ﷺ ! اگر میں بسم اللہ پڑھ کر سکھایا ہوا کتا شکار پر چھوڑوں اور وہ میرے لیے شکار روکے تو آپ نے فرمایا وہ تم کھا سکتے ہو۔ میں نے کہا اگر کتے نے اسے مار ڈالا ہو مگر کھایا نہ ہو تو ؟ آپ نے فرمایا کھا سکتے ہو۔ اور اگر تمہارے کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا بھی ہو اور شکار مرچکا ہو تو مت کھاؤ۔ کیونکہ تمہیں علم نہیں کہ کس کتے نے اسے مارا ہے۔ پھر میں نے پوچھا اگر شکار چوڑائی میں لگنے والی کسی چیز سے مرجائے تو ؟ آپ نے فرمایا۔ اگر پھٹ جائے یعنی خون نکل آئے تو کھا سکتے ہیں ورنہ نہیں۔ نیز آپ نے (ایک دوسری روایت کے مطابق) فرمایا۔ اگر بسم اللہ پڑھ کر سکھائے ہوئے کتے نے شکار سے خود بھی کچھ کھالیا ہو تو پھر مت کھاؤ کیونکہ اس کتے نے یہ شکار اپنے لیے کیا تھا تمہارے لیے نہیں۔ (مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب الصید بالکلاب المعلمۃ) 15 ایسا مقام جسکی نسبت عوام میں مشہور ہو کہ وہاں جا کر قربانی دینے سے یا ایسی نذر ماننے سے انسانوں کی فلاں تکلیف رفع ہوجاتی ہے یا اسے فلاں فائدہ پہنچتا ہے اور لوگ اسے مقدس سمجھتے ہوں خواہ وہاں کوئی بت موجود ہو یا نہ ہو۔ اور اگر کسی درخت یا کسی پتھر سے ایسے ہی فوائد منسوب کیے گئے ہوں تو وہ بھی اسی حکم میں داخل ہوگا چناچہ درج ذیل حدیث اسکی پوری وضاحت کرتی ہے۔ آستانے کی تعریف اور ان پر قربانی کا حکم :۔ سیدنا ثابت بن ضحاک فرماتے ہیں کہ دور نبوی میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ بوانہ کے مقام پر ایک اونٹ قربانی کرے گا پھر وہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ میں نے بوانہ کے مقام پر ایک اونٹ ذبح کرنے کی منت مانی تھی۔ آپ نے پوچھا کیا وہاں دور جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت کی جاتی رہی ہو۔ لوگوں نے کہا نہیں پھر آپ نے پوچھا کیا وہاں مشرکوں کی عیدوں میں سے کوئی عید (میلہ، عرس) تو نہیں لگتا تھا ؟ لوگوں نے کہا نہیں تب آپ نے اس شخص سے کہا، اپنی نذر پوری کرو۔ البتہ اللہ کی نافرمانی میں نذر پوری کرنا جائز نہیں اور نہ ایسی چیز میں جو ابن آدم کی ملکیت میں نہ ہو۔ (ابو داؤد کتاب الایمان والنذور۔ باب۔ مایومر بہ من الوفاء عن النذر) 16 قسمت کے تیروں کے ذریعہ غیب کی خبریں یا اپنی اچھی یا بری قسمت کا حال معلوم کرنا محض توہم پرستی ہے اور ایمان بالجبت میں داخل ہے۔ یہ تیر عموماً کسی بت خانہ میں یا کافروں کے گمان کے مطابق کسی مقدس مقام پر پڑے رہتے تھے۔ جب کوئی اہم کام یا سفر درپیش ہوتا تو پہلے ان تیروں سے حالات معلوم کرتے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ظاہر ہے۔ 1۔ عرب میں فال گیری کا رواج :۔ سیدہ عائشہ ؓ واقعہ ہجرت بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ سراقہ بن مالک بن جعشم نے آپ کا تعاقب کرنا چاہا۔ سراقہ خود کہتے ہیں کہ میں نے اپنا گھوڑا دوڑایا تاکہ جلد از جلد انہیں جا پکڑوں جب میں ان کے قریب پہنچ گیا تو گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور میں گرگیا ۔ میں نے اٹھ کر اپنا ہاتھ اپنے ترکش میں ڈالا۔ اس سے تیر نکال کر یہ فال نکالی کہ میں ان لوگوں کو نقصان پہنچاؤں یا نہ پہنچاؤں۔ مگر فال میں وہ چیز نکلی جو مجھے پسند نہ تھی۔ تاہم میں اپنے گھوڑے پر سوار ہوگیا اور فال کی کوئی پروا نہ کی۔ (بخاری باب بنیان الکعبہ۔ باب ھجرۃ النبی واصحابہ الی المدینۃ) 2۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ (فتح مکہ کے موقع پر) جب آپ نے کعبہ کے اندر تصویریں دیکھیں تو آپ اندر داخل نہیں ہوئے یہاں تک کہ آپ کے حکم سے ساری تصویریں مٹا دی گئیں۔ جب آپ نے ابراہیم اور اسماعیل کی تصویروں کو دیکھا، ان کے ہاتھوں میں تیر تھے تو آپ نے فرمایا اللہ کی قسم انہوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں نکالی تھی۔ (بخاری۔ کتاب الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ و اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا ) 17 یعنی اب اسلام کو اتنا عروج حاصل ہوچکا ہے کہ کافر اب اپنی پوری کوشش کے باوجود اس کی راہ نہیں روک سکتے۔ نہ ہی اب کفر کے غالب آنے کی امید رکھ سکتے ہیں۔ 18 تکمیل دین کا مطلب :۔ دین سے مراد شریعت کے تمام اصول اور جزئی احکام و ہدایات ہیں اور ان احکام پر عمل پیرا ہونے کا وہ طریقہ اور نمونہ بھی جو رسول اللہ ﷺ نے تمام مسلمانوں کے سامنے پیش فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد مسلمانوں کو زندگی کے کسی بھی پہلو میں خواہ وہ معاشرتی پہلو ہو یا معاشی ہو یا سیاسی ہو۔ باہر سے کوئی بھی اصول اسلام میں درآمد کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی اس لحاظ سے اسلام میں موجودہ مغربی جمہوریت، اشتراکیت، کمیونزم، سوشلزم یا اور کسی ازم کو داخل کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ یہی صورت حال بدعات کی ہے۔ 19 اسلام بہت بڑی نعمت ہے :۔ اللہ کی انسان پر اور بالخصوص مسلمانوں پر سب سے بڑی نعمت یہی ہے کہ اس نے مسلمانوں کو ایسی جامع ہدایات و احکام عطا فرما دیئے ہیں۔ جن سے دنیا کی زندگی بھی کامیاب اور خوشگوار ہوجاتی ہے اور اخروی نجات بھی حاصل ہوجاتی ہے اور دوسروں کا دست نگر بھی نہیں بننا پڑتا۔ 20 یعنی جس طرح کائنات کی تمام اشیاء اللہ کے حکم کے سامنے بلا چون و چرا سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں اسی طرح انسان بھی اختیار رکھنے کے باوجود اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور کائنات سے ہم آہنگ ہوجائے اور اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اسی بات کو اپنا ضابطہ حیات بنا لے۔ ان معنوں میں سیدنا آدم سے لے کر نبی آخر الزماں تک تمام انبیاء کا یہی دین یعنی اسلام ہی دین رہا ہے۔ اور اسی کو اللہ نے مسلمانوں کے لیے پسند فرمایا ہے۔ یہ آیت 9 ذی الحجہ 10 ھ کو عرفہ کے دن نازل ہوئی تھی اور اس دن جمعہ کا دن تھا جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ 1۔ تکمیل دین کا دن :۔ یہودی لوگ (کعب احبار) سیدنا عمر ؓ سے کہنے لگے : تم ایک ایسی آیت پڑھتے ہو کہ اگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اسے عید (جشن) کا دن مقرر کرلیتے۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا کہ یہ آیت کب اور کہاں اتری اور اس وقت آپ کہاں تشریف رکھتے تھے۔ یہ آیت عرفہ کے دن اتری اور ہم اس وقت عرفات میں تھے۔ سفیان (ایک راوی) نے کہا۔ مجھے شک ہے اس دن جمعہ تھا یا کوئی اور دن۔ (بخاری کتاب التفسیر) اور بخاری کی دوسری روایات مثلاً کتاب الایمان۔ باب زیادۃ الایمان و نقصانہ) اور کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ۔ نیز مسلم۔ کتاب التفسیر میں وضاحت ہے کہ یہ جمعہ کا دن تھا۔ 2۔ سیدنا ؓ فرماتے ہیں کہ آپ نو سال تک (مدینہ میں) رہے مگر حج نہیں کیا۔ پھر دسویں سال لوگوں میں اعلان کیا گیا کہ آپ حج کرنے جا رہے ہیں۔ چناچہ بہت سے لوگ آپکی ہمراہی کے لئے مدینہ آگئے۔ (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب حجۃ النبی) 21 سورة بقرہ کی آیت 173 میں یہی مضمون آچکا ہے۔ یہاں ( غیر متجانف لاثم) کے الفاظ ہیں اور وہاں غیر باغ ولا عاد کے اور مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے تفصیل مذکورہ آیت میں دیکھ لی جائے۔ سابقہ آیت میں حرام کردہ اشیاء مذکور ہوئی تھیں اس آیت کا یہ جملہ انہیں اشیاء سے متعلق ہے۔
Top