بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - An-Naba : 1
عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَۚ
عَمَّ : کس چیز کے بارے میں يَتَسَآءَلُوْنَ : وہ ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں
(یہ) لوگ کس چیز کی نسبت پوچھتے ہیں ؟
1۔ 5۔ اگرچہ مجاہد 1 ؎ کا قول یہ ہے کہ بڑی خبر سے مراد قرآن شریف ہے لیکن قتادہ 2 ؎ اور اکثر سلف کا قول یہ ہے کہ بڑی خبر سے مراد حشر اور قیامت ہے۔ آگے کی آیتوں میں خود اللہ تعالیٰ نے بھی قیامت کا ہی ذکر فرمایا ہے۔ اس لئے یہی قول قرآن شریف کے مطلب کے موافق معلوم ہوتا ہے۔ اس واسطے حافظ 3 ؎ ابن کثیر نے (اس قول کو ترجیح دی ہے۔ حشر اور قیامت کی بہت سی باتیں انسان کی عقل میں نہیں آتیں اس واسطے اسلام لانے سے پہلے مکہ کے لوگ آنحضرت ﷺ اور صحابہ ؓ سے حشر اور قیامت کی باتوں میں طرح طرح سے جھگڑتے تھے کبھی کہتے تھے کہ مرنے کے بعد انسان کی خاک رواں دواں ہوجائے گی ‘ پھر اس خاک کا پتلا کیوں کر بن جائے گا کبھی کہتے تھے کہ آگ میں زقوم کا پیڑ کیوں کر ہوگا۔ کبھی کچھ کہتے تھے کبھی کچھ ‘ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ ان کے بڑے بوڑھے ان کی آنکھوں کے رو برو دنیا سے اٹھ گئے۔ اس لء یہ تو ان کو معلوم ہے کہ ایک دن یہ بھی مرجائیں گے کیونکہ دنیا ہمیشہ نہیں رہنے والی۔ اور دنیا کے فنا ہونے کے بعد آخرت کی یہ سب باتیں ان منکروں کے سامنے آجائیں گی اور اس وقت ان کو ان باتوں کا یقین آجائے گا جس وقت کا یقین انہیں کچھ فائدہ نہ دے گا۔ رہی یہ بات کہ آخرت کی باتیں ان کی عقل میں نہیں آتیں ‘ ایک بوند پانی سے انسان کا پیدا ہوجانا اور دنیا کے ہزارہا عجائبات ‘ کیا یہ سب انسان کی عقل میں آنے والی باتیں ہیں ؟ پھر جس نے دنیا میں آنکھوں کے سامنے کے عجائبات خلاف عقل کو پیدا کرکے دکھا دیا وہ آخرت میں بھی خلاف عقل عجائبات پیدا کرنے پر قادر ہے اور دنیا کے عجائبات کو آنکھوں سے دیکھنے اور تجربہ کرلینے کے بعد اس کی اس قدرت کا انکار کسی صاحب عقل کا کام نہیں ہے۔ معتبر سند سے ترمذی 4 ؎ اور ابن ماجہ کی روایت سے حضرت شداد بن اوس کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا صاحب عقل وہی شخص ہے جو زندگی میں موت کے بعد کے لئے کچھ سامان کرلے۔ اور کم عقل وہ شخص ہے جو زندگی بھر شیطانی وسوسوں میں لگا رہے اور موت کے بعد اللہ سے راحت کی توقع رکھے یہ حدیث عبد اللہ بن عمر کی روایت سے بھی معتبر سند سے ابن 5 ؎ ماجہ طربانی وغیرہ میں آئی ہے اور یہ تو ایک ظاہر بات ہے کہ موت کے بعد کا کچھ سامان بغیر خالص نیک عمل کے نہیں ہوسکتا۔ اور خالص نیت کا نیک عمل بغیر آخرت کے پورے یقین کے نہیں ہوسکتا اور آخرت کی بہت سی باتیں محض عقل سے سمجھ میں نہیں آسکتیں۔ اس واسطے بغیر اس کے انسان کی نجات کی صورت کوئی نہیں ہے کہ آخرت کی غیب کی باتیں جو بذریعہ وحی کے دنیا میں آئی ہیں۔ ان کو بغیرعقل کے دخل کے انسان تسلیم کرلے ‘ اس تسلیم کے بعد آخرت کا یقین دل میں پیدا ہوجائے گا جس یقین کے سبب سے خالص نیت کا نیک عمل ہونے لگے گا جو آخرت میں نجات کا باعث ہوگا اور جو شخص ان غیب کی باتوں میں عقل کو دخل دے گا عقل تو ان باتوں کے سمجھنے سے عاجز ہے۔ اس لئے اس طرح کا شخص طرح طرح کے شیطانی وسوسوں میں پڑ کر اپنی عاقبت کو ضرور خراب کرلے گا کسی بات کی تاکید منظور ہوتی ہے تو اس کو دو دفعہ کہا جاتا ہے جیسے مثلاً سانپ نکلنے کے وقت سانپ سانپ دو دفعہ کہتے ہیں اور اس واسطے کلاسیعلمون کو دو دفعہ فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ جن باتوں کو خلاف عقل سمجھ کر یہ لوگ طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں قریب ہے مرتے ہی ان باتوں کو ضرور یہ لوگ خوب اچھی طرح سے جان لیں گے۔ کلا کا لفظ عربی میں کلا سے پہلے کے کلام کو غلط اور کلا کے بعد کے کلام کو صحیح قرار دینے کے لئے آتا ہے یہاں حاصل مطلب یہ ہے کہ قیامت کے آنے میں اختلاف ڈالنا غلط اور اس کا آنا ایسا صحیح ہے جو قریب میں آنکھوں سے دیکھ لیا جائے گا۔ (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 462 ج 4۔ ) (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 462 ج 4۔ ) 3 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 462 ج 4۔ ) (4 ؎ جامع ترمذی ابوبا صفۃ القیامۃ ص 82 ج 2۔ ) (5 ؎ الترغیب والترہیب و الترغیب فی ذکر الموت الخ ص 440 ج 4۔ )
Top