بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - An-Naba : 1
عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَۚ
عَمَّ : کس چیز کے بارے میں يَتَسَآءَلُوْنَ : وہ ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں
وہ آپس میں کس چیز کے متعلق پوچھ رہے ہیں۔
لغات القرآن۔ عم۔ کس سے۔ کسی چیز کے متعلق ؟ ۔ یتساء لون (تساول) ۔ وہ پوچھے ہیں۔ النبا العظیم۔ ایک بڑی خبر۔ مھد۔ بچھونا۔ راحت کی چیز۔ اوتاد۔ میخیں۔ سبات۔ راحت و آرام۔ معاش۔ روزی، روز، کمائی۔ بنینا۔ ہم نے بنایا۔ سبع شداد۔ مضبوط سات (آسمان) ۔ سراج۔ چراغ۔ وھاج۔ دھکتا ہوا۔ المعصرات۔ پانی سے بھرپور بادل۔ ثجاج (ثج) ۔ تیز بہنے والی بارش۔ حب۔ غلہ ۔ نبات۔ ہریالی۔ سبزی۔ الفاق۔ گھنے پتوں والے۔ میقات۔ وقت مقرر۔ فتاتون۔ پھر وہ آئیں گے۔ سیرت۔ چلائی گئی۔ سراب۔ چمکتا ریت۔ مرصاد۔ گھات میں بیٹھنے کی جگہ۔ لبثین۔ پڑے ہوئے ہوں گے۔ وہ رہیں گے۔ احقاب۔ بہت طویل عرصہ۔ غساق۔ پیپ۔ وفاق۔ پوراپورا۔ مفاز۔ کامیابی۔ حدائق۔ باغات۔ اعناب۔ انگور۔ کو اعب۔ نوجوان عورتیں۔ اتراب۔ ہم عمر۔ کاس دھاق۔ چھلکتے جام۔ لغو۔ فضول باتیں۔ لا یملکمون۔ مالک نہ ہوں گے۔ لا یتکلمون۔ وہ کلام نہ کریں گے۔ اذن۔ اجازت دی ہوگی۔ صواب۔ ٹھیک ٹھیک ۔ اتخذ۔ بنایا۔ ماب۔ ٹھکانا۔ انذرنا۔ ہم نے آگاہ کردیا۔ ینظر۔ دیکھے گا۔ المرائ۔ آدمی۔ یلیتنی۔ اے کاش کہ میں۔ تراب۔ مٹی۔ تشریح : قریش مکہ میں سے کچھ لوگ بتوں کو اپنا سفارشی ماننے کے باوجود کسی حد تک اللہ کی ذات اور آخرت کا ایک دھندلا سا تصور رکھتے تھے۔ لیکن عقیدہ کی گندگیوں نے انہیں اور ان کی عقلوں کو اس طرح اپاہج بنا کر رکھ دیا تھا کہ جب نبی کریم ﷺ ان کے سامنے ان آیات کی تلاوت کرتے جن میں قیامت کے ہولناک دن کا ذکر ہوتا تو وہ نہ صرف ان کا مذاق اڑاتے بلکہ بڑی ڈھٹائی سے کہتے کہ ہم اور ہماری عقلیں اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ جب ہماری ہڈیاں گل سڑ کر چورہ چورہ ہوجائیں گے اور ہمارے جسم کے ذرات کائنات میں بکھر جائیں گے تو ان ذرات کو کون جمع کرکے پھر سے انسان بنا دے گا ؟ اور سات آسمان، بلند وبالا پہاڑ، زمین اور اس میں بسنے والی مخلوق، چاند ، سورج اور ستارے یہ پورا نظام کائنات کس طرح ختم ہوسکتا ہے ؟ ہمیں قیامت کا گمان تو ہے مگر اس پر یقین نہیں آتا۔ کوئی کہتا کہ اصل میں زندگی تو بس اسی دنیا کی زندگی ہے ہم اسی زمین سے پیدا ہوتے ہیں اور اسی میں مرکھپ جاتے ہیں۔ ہمیں جو موت آتی ہے وہ دراصل گردش زمانہ کا نتیجہ ہے۔ کوئی کہتا کہ قیامت کا آنا ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ تھیں وہ بھانت بھانت کی بولیاں جو ہر وقت بولتے رہتے تھے اور وہ سب کسی ایک بات پر متفق نہیں تھے۔ مکہ کے گلی کوچوں میں اسی بات پر بحثیں ہوتی رہتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا وہ لوگ اسی بڑی اور عظیم الشان خبر یعنی قیامت کے بارے میں باتیں بنا رہے ہیں جو بہت جلد واقعہ ہونے والی ہے جس کا آنا شک و شبہ سے بالا تر ہے جس کی حقیقت بہت جلد ان کے سامنے آنے والی ہے۔ قیامت کے بارے میں طرح طرح کی باتیں اور کسی ایک رائے پر متفق نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ایک شدید کشمکش اور الجھن میں مبتلا ہیں جو بہت جلد دور ہونے والی ہے۔ اگر ایسے لوگ ذرا بھی نظام کائنات پر غور کرتے تو اس حقیقت کو سمجھ لینا بہت آسان ہوجاتا اور ان کی ساری الجھنیں دور ہوجاتیں۔ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے زمین کو راحت کا ذریعہ نہیں بنایا ؟ کیا ہم نے زمین کے اوپر بلند وبالا پہاڑوں کے بوجھ رکھ کر اور میخوں کی طرح گاڑ کر ہلنے اور حرکت کرنے سے محفوط نہیں بنا دیا ہے ؟ کیا ہم نے ہر چیز کو ایک دوسرے کا جوڑا عورت، مرد، مادہ اور نر نہیں بنا دیا ہے جس سے تخلیق اور پیدائش کا نظام قائم ہے ؟ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے نیند کو راحت کا ذریعہ بنا دیا جس سے وہ تازہ دم ہو کر پھر سے کام کاج کے قابل بن جاتے ہیں۔ کیا ہم نے ہی رات کو لباس کی طرح آرام دینے والا اور دن کو روزگار حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بنا دیا ؟ کیا وہ اپنے سروں پر سات آسمانوں کے مضبوط نظام کو نہیں دیکھتے جس کی وجہ سے نظام کائنات قائم ہے۔ کیا وہ اس سورج کو نہیں دیکھتے جس کو ہم نے دھکتا ہوا روشن چراغ بنایا ہے ؟ جس سے حرات اور روشنی حاصل ہوتی ہے۔ کیا وہ ان برسنے والی بارشوں کو نہیں دیکھتے جو برسنے کے بعد غلہ، اناج، سبزہ، سبزی، لہلہاتے کھیت اور باغوں کو ایک نئی رونق اور تازگی دیتی ہیں ؟ فرمایا کہ یہ ہے وہ نظام کائنات جسے اللہ چلا رہا ہے وہ قدر مطلب ہے۔ وہی اللہ جس نے ان تمام چیزوں کو اور انسانوں کو پیدا کیا ہے وہ دوسری مرتبہ ان کو پیدا کیوں نہیں کرسکتا ؟ فرمایا کہ یہ لوگ قیامت کے آنے میں شک کریں یا نہ کریں اللہ نے اس کا ایک دن مقرر کردیا ہے۔ وہ فیصلے کا دن ہوگا جیسے ہی صور میں پھونک ماری جائے گی تمام نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا۔ ہر شخص اور ہر جان دار پر موت طاری ہوجائے گی اور جب دوسری مرتبہ صور میں پھونک ماری جائے گی تو پھر سارے انسان اور جان دار دوبارہ جی اٹھیں گے۔ لوگ اپنے مدفن سے گروھوں کی شکل میں دوڑتے ہوئے اللہ کی طرف آنا شروع ہوجائیں گے۔ آسمانوں کے دروازے کھول دئیے جائیں گے اور بلند وبالا مضبوط پہاڑ چمکتے ریت کی طرح اڑتیپھریں گے۔ فرمایا کہ لوگو ! جہنم اور اس کے فرشتے بھی اسی طرح تمہارے آنے کے منتظر ہیں کہ تمہیں جہنم تک پہنچا دیں جس میں ہر شخص کو ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے۔ وہ جہنم جس میں ٹھنڈک اور راحت کا کوئی سامان نہ ہوگا۔ اس میں کھولتا گرم پانی اور بہتی پیپ کے سوا کچھ بھی نصیب نہ ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اس بات کی امید ہی نہ تھی کہ ایک دن ان سے ان کی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب لیا جائے گا اور وہ ہمیشہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے رہے ہیں۔ فرمایا کہ ہم نے ان کی ایک ایک بات اور عمل کو محفوط رکھا ہوا تھا۔ جس کی ان کو یہ سزا دی جا رہی ہے۔ ان سے کہا جائے گا کہ وہ اپنے کئے ہوئے اعمال کا بدلہ یعنی عذبا کا مزہ چکھیں اور اس طرح ہم عذاب پر عذاب بڑھاتے ہی چلے جائیں گے۔ ان لوگوں کے برخلاف جنہوں نے تقویٰ اور پرہیز گاری کی زندگی گزاری ہوگی ان کو ہر طرح کی کامیابیاں عطا کی جائیں گی۔ خوبصورت ہرے بھرے انگوروں کے باغات، ہم عمر بیویاں، شراب کے لبریز اور چھلکتے جام دئیے جائیں گے۔ وہاں ہر طرف سلامتی ہی سلامتی ہوگی۔ کوئی لغو، فضول، جھوٹ اور بےہودہ بات نہ سنیں گے۔ یہ درحقیقت اللہ کی طرف سے انکے بہترین اعمال کا بدلہ ہوگا۔ قیامت کے دن روح القدس جبرئیل امین اور تمام فرشتے آسمانوں، زمین اور اس کے درمیان کی ہر چیز کے پروردگار کے سامنے صفیں باندھے کھڑے ہوں گے اس دن رب العالمین کی اجازت کے بغیر کسی کو بات تک کرنے کی ہمت نہ ہوگی جو بات بھی کی جائے گی وہ برحق اور سچی بات ہی کی جائے گی اس کے سوا کسی کو کوئی بات کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ یہ ہے وہ سچا اور برحق دن جس کا اللہ نے وعدہ کیا تھا۔ فرمایا کہ ہم نے پہلے ہی اس عذاب سے لوگوں کو آگاہ اور خبردار کردیا تھا کہ ہر انسان اپنے آگے بھیجئے ہوئے ہر عمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھے گا۔ اس دن ہر کافر کی زبان پر یہی ہوگا کہ کاش میں آج کا دن دیکھنے سے پہلے ہی خاک میں مل گیا ہوتا۔
Top