بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Mazhari - An-Naba : 1
عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَۚ
عَمَّ : کس چیز کے بارے میں يَتَسَآءَلُوْنَ : وہ ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں
(یہ) لوگ کس چیز کی نسبت پوچھتے ہیں؟
عم . عَمَّ اصل میں عَنْ مَا تھا۔ مَا استفہامیہ اگر حرف جر کے بعد آتا ہے تو الف کو حذف کردیا جاتا ہے (اور مَا کو م پڑھا جاتا ہے) جیسے : لِمَ ۔ فِیْمَ ۔ عَمَّ ۔ مِمَّ ۔ اس حذف کے دو سبب ہیں : 1 : کثرت استعمال ‘ 2) مَا استفہامیہ کا مَا موصولہ سے فرق۔ (عَنْ مَا کے الف کو حذف کردینے کے بعد نون کو میم میں ادغام کردیا جاتا ہے اور پھر) ع کو م کے ساتھ ملا کر عَمّ لکھا جاتا ہے کیونکہ حذف نون کے بعد ع تنہا رہ جاتا ہے۔ اسی طرح مَا کا الف حذف ہو کر م رہ جاتا ہے۔ اللہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ‘ اس لیے اس کے کلام میں استفہام سوالیہ نہیں ہوتا بلکہ جس چیز کے متعلق سوال کیا جاتا ہے اس کی عظمت اور ہولناکی کو ظاہر کرنا مراد ہوتا ہے۔ یتساء لون . کیسی عظیم الشان ہولناک چیز کے متعلق اہل مکہ باہم سوال کرتے ہیں ‘ رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ کو جب توحید کی دعوت دی اور مرنے کے بعد جی اٹھنے کی خبر بیان کی اور قرآن پڑھ کر سنایا تو وہ باہم پوچھنے اور کہنے لگے کہ کیسے ہیبت ناک واقعہ کی خبر محمد ﷺ دیتے ہیں۔ (بغوی) اسیطرح ابن جریر اور ابن حاتم نے حسن (رح) بصری کا قول نقل کیا ہے یا یہ معنی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے اور مسلمانوں سے قیامت کے متعلق بطور استہزاء دریافت کرتے ہیں (اس وقت یَتَسَآءَ لُوْنَ بمعنی یَسْءَلُوْنَ کے ہوگا) جیسے یَتَدَاعُوْنَ ‘ یَدْعُوْنَ کے معنی میں ہے اور سوال بطور استہزاء ہوگا۔
Top