بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Quran-al-Kareem - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
بیشک ہم نے تجھے فتح دی، ایک کھلی فتح۔
(انا فتحنالک فتحا مبیناً : لفظ ”فتحاً“ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد فتح مکہ اور اس کے قریب ہونے والی فتوحات ہیں اور یقیناً یہ الفاظ فتح مکہ پر بھی صادق آتے ہیں، مگر صحابہ کرام اور محقق اہل علم نے اس کا سبب نزول صلح حدیبیہ بیان فرمایا ہے۔ چناچہ قتادہ بیان کرتے ہیں کہ انس ؓ نے ”انا فتحنا لک فتحا مبیناً“ کے متعلق فرمایا کہ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ (بخاری، التفسیر، سورة الفتح :3833) اور برئا بن عازب ؓ نے فرمایا :”تم فتح مکہ کو فتح سمجھتے ہو اور واقعی فتح مکہ فتح تھی مگر ہم حدیبیہ کے دن بیعت رضوان کو فتح شمار کرتے ہیں۔“ (بخاری، المغازی، باب غزوہ الحدیبۃ :3150) زید بن اسلم اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے ایک سفر میں چل رہے تھے، رات کو عمر بن خطاب ؓ بھی آپ کے ساتھ چل رہے تھے۔ عمر بن خطاب ؓ نے آپ ﷺ سے کسی چیز کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے انہیں جواب نہ دیا، انہوں نے پھر سوال کیا تو آپ ﷺ نے جواب نہ دیا، انہوں نے پھر آپ ﷺ سے سوال کیا تو آپ ﷺ نے جواب نہ دیا۔ عمر بن خطاب ؓ نے کہا :”عمر ! تیری ماں تجھے گم پائے، تو نے اصرار کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے تین مرتبہ سوال کیا، لیکن ہر بار آپ نے جواب نہیں دیا۔“ عمر ؓ فرماتے ہیں، چناچہ میں اپنی اونٹنی کو حرکت دے کر مسلمانوں سے آگے نکل گیا، اس خوف سے کہ کہیں میرے بارے میں قرآن نازل نہ ہوجائے۔ کچھ دیر بعد ہی میں یہی سمجھ رہا تھا کہ میرے بارے میں قرآن نازل ہوا ہے۔ میں نے سلام کہا تو آپ ﷺ نے فرمایا :(لقد انزلت علی اللیلۃ سورة لھی احب الی مما طلعت علیہ الشمس، ثم قراً :(انا فتحنا لک فتحاً مبینا) (بخاری، المغازی، باب غزوۃ الحدیبیۃ :3188)”رات مجھ پر وہ سورت اتری ہے جو مجھے ہر اس چیز سے زیادہ محبوب ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے پڑھا :(انا فتحنا لک فتحاً مبیناً)”بیشک ہم نے تجھے فتح دی، ایک کھلی فتح۔“ سہل بن حنیف ؓ سے مروی ایک لمبی حدیث کے آخر میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر سورة فتح نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے عمر ؓ کی طرف پیغام بھیجا اور انہیں سورة فتح پڑھوائی۔ انہوں نے کہا :(یا رسول اللہ ! اوفتح ھو ؟)”اے اللہ کے رسول ! کیا یہ فتح ہے ؟“ آپ ﷺ نے فرمایا :(نعم)”ہاں !“ تو ان کا دل خوش ہوگیا اور وہ چلے گئے۔ (مسلم، الجھاد والسیر، باب صلح الحدیبیۃ…:1885) (2) حقیقت یہ ہے کہ صلح حدیبیہ اسلام اور مسلمانوں کی عظیم فتح تھی، کیونکہ اس کے ساتھ مسلمانوں کو بیشمار فوائد حاصل ہوئے۔ جن میں سے ایک یہ تھا کہ قریش نے مسلمانوں کا وجود تسلیم کرلیا، جو اس سے پہلے وہ کسی صورت تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ ایک یہ کہ دشمن کی حقیقی قوت کا اندازہ ہوگیا اور یہ کہ وہ کس حد تک مزاحمت کرسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں مخلص ایمان والوں اور منافقین کی پہچان ہوگئی، کیونکہ منافقین رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلنے کی جرأت ہی نہیں کرسکے تھے، جیسا کہ آگے ”سیقول المخلفون“ میں آرہا ہے۔ ایک یہ کہ جزیرہ عرب میں امن قائم ہوجانے سے کفار اور مسلمانوں کا ایک دوسرے سے میل جول شروع ہوگیا۔ کفار نے رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کی بات سنی، ان کے اخلاق دیکھے، آپ س میں بحث و مناظرہ ہوا اور دعوت کا دائرہ وسیع ہوا، جس کے نتیجے میں بہت بڑی تعداد نے اسلام قبول کرلیا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ اس سے پہلے حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چودہ صحابہ آئے تھے، لیکن صرف دو سال بعد فتح مکہ کے سال آپ ﷺ دس ہزار صحابہ کیساتھ فاتحانہ شان سے مکہ میں داخل ہوئے۔ (3) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین طرح کی تاکید کے ساتھ اس فتح کی اہمیت بیان فرمائی، ایک اس کی عظمت کے اظہار کے لئے اس کی نسبت اپنی طرف دو دفعہ جمع متکلم کے صیغے کے ساتھ فرمائی، ایک ”انا“ اور دوسرا ”فتحنا“ اور دوسری یہ کہ ”فتحنا“ کی تاکید مفعول مطلق ”فتحا“ کے ساتھ فرمائی اور تیسری یہ کہ اسے ”فتح مبین“ قرار دیا، یعنی بیشک ہم نے تیرے لئے فتح دی، ایک کھلی فتح۔ (4) ”انا فتحنالک“ میں ”لک ‘(تیرے لئے) کے الفاظ میں رسول اللہ ﷺ کی تکریم و تشریف کا اظہار ہو رہا ہے، جس سے امت کو آپ ﷺ کی قدر پہچاننے اور آپ ﷺ کی اطاعت اور اتباع کی تعلیم دینا مقصود ہے۔
Top