بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Saadi - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
(اے محمد) ﷺ ہم نے تم کو فتح دی فتح بھی صریح و صاف
تفسیر سورة الفتح اس فتح مذکور سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مشرکین مکہ نے رسول اللہ ﷺ کو روکا جبکہ آپ عمرہ کرنے کے لئے مکہ مکرمہ آئے۔ یہ ایک طویل قصہ ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رسول اللہ ﷺ نے مشرکین کے ساتھ دس سال تک جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرلیا، اس شرط پر کہ آپ آئندہ سال عمرہ کریں گے۔ جو کوئی قریش کے معاہدے میں داخل ہو کر حلیف بننا چاہیے ایسا کرسکتا ہے اور جو کوئی رسول اللہ ﷺ کے عہد میں داخل ہو کر آپ کا حلیف بننا چاہیے وہ ایسا کرسکتا ہے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ جب لوگ ایک دوسرے سے مامون ہوں گے تو دعوت دین کا دائرہ وسیع ہوگا، سرزمین کے طول و عرض مومن جہاں کہیں بھی ہوگا، وہ دین کی دعوت دے سکے گا جو شخص حقیقت اسلام سے واقفیت حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے لئے واقفیت حاصل کرنا ممکن ہوجائے گا۔ اس مدت کے دوران لوگ فوج در فوج اللہ تعالیٰ کے دین میں داخل ہوئے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس صلح کو ” فتح “ کے نام سے موسوم کرکے اس کو ” فتح مبین “ کی صفت سے موصوف کیا، یعنی واضح فتح۔ کیونکہ مشرکین کے شہروں کو فتح کرنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کے دین کا اعزاز اور مسلمانوں کی نصرت ہے اور یہ مقصد اس فتح سے حاصل ہوگیا، اس فتح پر اللہ تعالیٰ نے متعدد امور مرتب فرمائے۔ (لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنک وما تاخر) ” تاکہ اللہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ بخشش دے۔ “ واللہ اعلم۔۔۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس کے باعث بہت سے نیکیاں حاصل ہوئیں، لوگ دین میں بہت کثرت سے داخل ہوئے، نیز اس بنا پر کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ شرائط برداشت کیں جن پر اولوالعزم رسولوں کے سوا کوئی صبر نہیں کرسکتا۔ یہ چیز رسول اللہ ﷺ کے عظیم ترین مناقب اور کرامات میں شمار ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے گلے پچھلے گناہ بخش دیے۔ (ویتیم نعمتہ علیک) اور تاکہ آپ کے دین کو اعزاز عطا کرکے، آپ کو آپ کے دشمنوں کے خلاف فتح و نصرت سے بہرہ مند کرکے اور آپ کے کلمہ کو وسعت بخش کر آپ پر اپنی نعمت کا تمام کرے۔ (ویھدیک صراطا مستقیما) ” اور آپ کو سیدھے راستے پر چلائے۔ “ تاکہ آپ سعادت ابدی اور فلاح سرمدی حاصل کرسکیں۔ (وینصرک اللہ نصرا عزیزا) ” اور اللہ آپ کی زبردست مدد کرے۔ “ یعنی انتہائی قوی مدد، جس میں اسلام کمزورنہ ہو، بلکہ اسے مکمل فتح و نصرت حاصل ہوئی، اللہ تعالیٰ کفار کا قلع قمع کرے، ان کو ذلیل اور کمزور کرکے ان میں کمی کرے، مسلمانوں کو زیادہ کرے، ان کی تعداد کو بڑھائے اور ان کے اموال میں اضافہ کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر مرتب ہونے والی اس فتح کا آثار کا ذکر فرمایا :
Top