بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
بیشک ہم نے آپ کو کھلی ہوئی فتح دی
فتح مبین کا تذکرہ، نصر عزیز اور غفران عظیم کا وعدہ یہ سورة الفتح کی ابتدائی آیات کا ترجمہ کیا گیا ہے اس سورت میں فتح مبین کا اور صلح حدیبیہ کا اور فتح خیبر کا تذکرہ ہے اور آخر میں رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ کی توصیف اور تعریف ہے اس سورت کا ابتدائی حصہ سفر میں نازل ہوا۔ حضرت انس ؓ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ صلح حدیبیہ کے بعد واپس مدینہ منورہ کے لیے تشریف لا رہے تھے اور حضرات صحابہ ؓ کے دلوں میں اس بات کا رنج تھا کہ عمرہ نہ کرسکے اس وقت سورة الفتح نازل ہوئی رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھ پر ایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہے۔ جب آپ نے ﴿ اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًاۙ001 لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ ﴾ پڑھ کر سنائی تو صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ مبارک ہو اس میں تو آپ کے بارے میں فرمایا کہ ایسا ایسا ہوگا سوال یہ ہے کہ ہمارا کیا بنے گا اس کا بھی پتہ چلنا چاہیے اس پر آیت کریمہ ﴿ لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ﴾ نازل ہوئی۔ (ذكرہ البغوی فی معالم التنزیل ص 188 ج 4 وھو فی صحیح البخاری مختصرا ص 600 ج 2) حضرت زید بن اسلم (رح) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں تھے حضرت عمر بن خطاب ؓ بھی آپ کے ساتھ چل رہے تھے ایک روز رات کے وقت ایسا ہوا کہ حضرت عمر ؓ نے آپ سے کچھ سوال کیا آپ نے جواب نہ دیا پھر سوال کیا آپ نے پھر خاموشی اختیار فرمائی پھر تیسری بار بھی ایسا ہی ہوا، حضرت عمر ؓ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے نفس سے کہا تیری ماں تجھے گم کردے (پریشانی کے وقت اہل عرب اپنے بارے میں یہ کلمات بول دیا کرتے تھے) تو نے تین بار سوال کرکے رسول اللہ ﷺ کو تکلیف میں ڈالا تین بار سوال کیا آپ نے جواب نہیں دیا یہ سوچتے ہوئے میں جلدی سے اپنے اونٹ کو حرکت دے کر سب مسلمانوں سے آگے بڑھ گیا اور میں اس بات سے ڈرنے لگا کہ میرے بارے میں قرآن مجید کی کوئی آیات نازل نہ ہوجائے تھوڑی دیر میں ایک آواز سنی ایک شخص زور سے پکار کر کہہ رہا ہے کہ اے عمر ! رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوجاؤ میں ڈرا کہ واقعتاً میرے بارے میں قرآن مجید کی کوئی آیت نازل ہوئی ہے میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو سلام کیا آپ نے فرمایا کہ اس رات میں مجھ پر ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے ان سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر سورج نکلتا ہے پھر آپ نے ﴿ اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًاۙ001﴾ تلاوت فرمائی۔ (صحیح البخاری ص 660، 716) صلح حدیبیہ کا مفصل واقعہ رسول اللہ ﷺ کو قریش مکہ نے بہت زیادہ تکلیفیں دی تھیں حتیٰ کہ آپ کو اور آپ ﷺ کے اصحاب کو ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ ذی قعدہ 6 ہجری میں رسول اللہ ﷺ عمرہ کرنے کے لیے اپنے پیچھے نمیلہ بن عبد اللہ لیثی ؓ کو امیر بناکر روانہ ہوگئے، مدینہ منورہ کے رہنے والے اور آس پاس کے دیہات کے باشندوں کو بھی سفر میں ساتھ چلنے کے لیے فرمایا آپ نے عمرہ کا احرام باندھ لیا اور حضرات صحابہ ؓ نے بھی، تاکہ لوگ یہ سمجھ لیں کہ آپ کا مقصد جنگ کرنا نہیں ہے صرف بیت اللہ کی زیارت کرنا مقصود ہے آپ اپنے ساتھ ہدی کے جانور بھی لے گئے تھے (جو حج وعمرہ میں حرم مکہ میں ذبح کیے جاتے تھے) جب آپ مقام عسفان میں پہنچے تو بشر بن سفیان کعبی سے ملاقات ہوئی اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ قریش مکہ کو آپ کی روانگی کا پتہ چل گیا ہے وہ مقام ذی طویٰ میں جمع ہوگئے ہیں اور قسمیں کھا کھا کر یہ عہد کر رہے ہیں کہ آپ کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے اور خالد بن ولید (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) اپنے سواروں کو لے کر کراع الغمیم (ایک مقام کا نام ہے) میں پہنچ چکے ہیں آپ نے یہ سن کر راستہ بدل دیا اور داہنی ہاتھ کی طرف روانہ ہوگئے یہ باقاعدہ راستہ نہیں تھا گھاٹیاں تھیں دشوار گزار مقامات سے گزرنا پڑا یہاں تک کہ نرم زمین میں پہنچ گئے اور مقام حدیبیہ کے راستہ پر پڑگئے، حدیبیہ مکہ اور جدہ کے درمیان ہے حرم کے حدود وہاں ختم ہوجاتے ہیں (عسفان سے مکہ معظمہ جاتے ہوئے حدیبیہ واقع نہیں ہوتا لیکن چونکہ قریش کے آڑے آجانے کا امکان تھا اس لیے آپ راستہ بدل کر حدیبیہ پہنچ گئے۔ ) جب قریش کے سواروں کو پتہ چلا کہ آپ ﷺ نے راستہ بدل دیا ہے تو واپس قریش کے پاس مکہ معظمہ چلے گئے ادھر رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ مقام حدیبیہ میں پہنچ گئے وہاں پہنچے تو آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی صحابہ نے کہا یہ تو آگے بڑھنے سے ہٹ کرنے لگی آپ نے فرمایا ہٹ کرنا اس کی عادت نہیں ہے اسے اسی ذات پاک نے روک دیا جس نے ہاتھی والوں کو مکہ معظمہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا کیونکہ قریش مکہ کے آڑے آجانے اور مکہ معظمہ کے داخلہ میں رکاوٹ ڈالنے کا گمان تھا اس لیے آپ نے فرمایا کہ اگر آج قریش نے مجھ سے کسی ایسی بات کا سوال کیا جو صلہ رحمی کی بنیاد پر ہو تو میں اس میں اس کی موافقت کرلوں گا اور بعض روایات میں یوں بھی ہے کہ اگر مجھے کسی بات کی دعوت دیں گے جس میں ان چیزوں کی حرمت کا مطالبہ ہو جنہیں اللہ تعالیٰ نے معظم قرار دیا ہے تو ان کی بات مان لوں گا۔ حدیبیہ میں قیام تو فرمالیا لیکن وہاں پانی بہت ہی کم تھا حضرات صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہاں تو پانی نہیں ہے نہ وضو کرسکتے ہیں نہ پینے کا انتظام ہے بس یہی تھوڑا سا پانی ہے جو آپ کے پیالہ میں ہے آپ نے اپنا دست مبارک اس پیالہ میں رکھ دیا آپ کی مبارک انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہوگئے، راوی حدیث حضرت جابر ؓ نے بیان کیا کہ ہم نے پانی پیا وضو کیا کسی نے دریافت کیا کہ آپ حضرات کی کتنی تعداد تھی تو حضرت جابر ؓ نے کہا کہ ہم لوگ پندرہ سو تھے اگر ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی سب کے لیے کافی ہوجاتا۔ اور حضرت براء بن عازب ؓ نے فرمایا کہ آیت کریمہ میں جو فتح کا ذکر ہے آپ لوگ اس سے فتح مکہ مراد لیتے ہیں اور ہم بیعت رضوان کو فتح کا مصداق شمار کرتے تھے جو حدیبیہ کے موقعہ پر ہوئی ہم تعداد میں چودہ سو یا کچھ زیادہ تھے، حدیبیہ کے ایک کنوئیں میں تھوڑا سا پانی تھا ہم نے سارا پانی کھینچ کر استعمال کرلیا اور اس میں ایک قطرہ بھی نہ چھوڑا، رسول اللہ ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ تشریف لائے اور اس کنوئیں کے کنارے پر بیٹھ گئے پھر فرمایا کہ اس میں سے نکالا ہوا ایک ڈول پانی لاؤ وہ آپ کی خدمت میں پیش کردیا گیا آپ نے اس میں اپنا لعاب مبارک ڈال دیا اور ایک روایت میں ہے کہ وضو فرمایا اور کلی کی اور اس کنوئیں میں پانی ڈالا پھر فرمایا اسے کچھ دیر چھوڑ دو کچھ دیر کے بعد اس میں سے پانی لینا شروع کیا اور تمام حاضرین اپنی سواریوں سمیت سیراب ہوگئے) اس میں اختلاف کی بات نہیں ہے چودہ سو سے اوپر جو افراد تھے ان کو بعض صحابہ نے پندرہ سو بتادیا اور بعض نے چودہ سو بتادیا کسر کا اعتبار نہیں کیا اور اس میں بھی کوئی تعارض نہیں کہ پیالہ میں دست مبارک رکھنے سے چشمے جاری ہوگئے اور کنوئیں میں بھی آپ نے لعاب مبارک ڈال دیا۔ جب آنحضرت ﷺ نے حدیبیہ میں قیام فرمالیا تو قریش مکہ نے یکے بعد دیگرے بدیل بن ورقاء اور مکر زبن حفص اور حلیس بن علقمہ اور عروہ بن مسعود ثقفی کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھیجا آپ نے ان لوگوں کو جواب دیا کہ ہم عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں لڑائی لڑنا ہمارا مقصد نہیں ہے۔ حضرات صحابہ ؓ کی محبت اور جانثاری عروہ بن مسعود ؓ حاضر خدمت ہوئے تو انہوں نے عجیب منظر دیکھا حضرات صحابہ ؓ کی محبت اور جانثاری دیکھ کر آنکھیں پھٹی رہ گئیں رسول اللہ ﷺ وضو فرماتے تھے جو پانی آپ کے اعضاء سے جدا ہوتا حضرات صحابہ ؓ اسے گرنے نہ دیتے تھے اور فوراً ہی اپنے ہاتھوں میں لے لیتے تھے جب آپ ناک کی ریزش ڈالتے تھے اسے بھی جلدی سے اپنے ہاتھوں میں لے لیتے تھے اور آپ کا اگر کوئی بال گرتا تو اسے بھی گرنے سے پہلے ہی اچک لیتے تھے۔ عروہ بن مسعود ثقفی ؓ نے واپس ہوکر قریش مکہ سے کہا کہ دیکھو میں کئی بار کسریٰ ، قیصر اور نجاشی کے پاس گیا ہوں (یہ تینوں بادشاہ تھے) میں نے کسی بادشاہ کے ایسے فرمانبردار نہیں دیکھے جیسے محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھی ہیں اگر تم نے جنگ کی تو یہ لوگ کبھی بھی انہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے اب دیکھ لو تمہاری کیا رائے ہے ؟ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے فرمایا کہ تم مکہ معظمہ جاؤ وہاں قریش کو بتادو کہ ہم جنگ کرنے کے لیے نہیں آئے حضرت عمر ؓ نے معذرت پیش کردی کہ قریش کو معلوم ہے کہ میں ان کا کتنا بڑا دشمن ہوں اور میرے قبیلہ بنی عدی میں سے وہاں ایسے افراد نہیں ہیں جو میری حفاظت کرسکیں میں آپ کو رائے دیتا ہوں کہ آپ عثمان بن عفان ؓ کو بھیج دیں قریش کے نزدیک وہ مجھ سے زیادہ معزز ہیں چناچہ آپ نے حضرت عثمان بن عفان ؓ کو ابو سفیان اور دیگر اشراف قریش کے پاس بطور نمائندہ بھیج دیا تاکہ وہ قریش کو بتادیں کہ آپ جنگ کے ارادہ سے تشریف نہیں لائے بلکہ صرف بیت اللہ کی زیارت کے لیے تشریف لائے ہیں۔ جب حضرت عثمان ؓ نے قریش مکہ کو پیغام دیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت دیں البتہ تم چاہو تو طواف کرسکتے ہو انہوں نے جواب دیا کہ میں تنہا طواف نہیں کرسکتا رسول اللہ ﷺ طواف کریں گے تو میں بھی کروں گا حضرت عثمان ؓ کو قریش مکہ نے روک لیا اور ادھر رسول اللہ ﷺ کو یہ خبر پہنچ گئی کہ عثمان کو قتل کردیا گیا ہے۔ بیت رضوان کا واقعہ جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ اب ہم تو یہاں سے نہیں ہٹیں گے جب تک قریش سے جنگ نہ کرلی جائے چونکہ بظاہر جنگ لڑنے کی فضاء بن گئی تھی اس لیے رسول اللہ ﷺ نے حضرات صحابہ ؓ سے بیعت لینا شروع کیا اور ایک شخص کے علاوہ آپ کے تمام اصحاب نے اس بات پر بیعت کرلی کہ ہم جم کر جنگ میں ساتھ دیں گے اور راہ فرار اختیار نہ کریں گے۔ حضرت عثمان ؓ چونکہ مکہ معظمہ گئے ہوئے تھے اس لیے آنحضرت ﷺ نے حضرت عثمان ؓ کی طرف سے خود بیعت کرلی اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے ملایا اور فرمایا کہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے یہ بیعت ایک درخت کے نیچے ہوئی تھی جو مقام حدیبیہ میں تھا اور اس کے بارے میں آیت کریمہ ﴿لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ﴾ نازل ہوئی اس لیے اس بیعت کا نام بیعۃ الرضوان معروف ہوگیا اور بیعت کرنے والوں کو اصحاب الشجرہ کہا جانے لگا (شجرہ عربی میں درخت کو کہتے ہیں) اس کے بعد معلوم ہوا کہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کی خبر غلط ہے لیکن اس خبر کی وجہ سے جو حضرات صحابہ ؓ نے بیعت کی اس کا ثواب مل گیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا تمغہ بھی نصیب ہوگیا جس کا قرآن مجید میں اعلان ہوگیا جو رہتی دنیا تک برابر پڑھا جاتا رہے گا۔ اس کے بعد قریش نے سہیل بن عمرو کو گفتگو کرنے کے لیے بھیجا اور یوں کہا کہ محمد ﷺ کے پاس جاؤ اور ان سے صلح کی گفتگو کرو لیکن صلح میں اس سال عمرہ کرنے کی بات نہ آئے اگر ہم اس سال انہیں عمرہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں تو عرب میں ہماری بد نامی ہوگی اور اہل عرب یوں کہیں گے کہ دیکھ لو محمد رسول اللہ ﷺ اپنی قوت اور زور سے مکہ میں داخل ہوگئے۔ سہیل بن عمرو نے خدمت عالیہ میں حاضر ہوکر لمبی گفتگو کی پھر آپس میں صلح کی شرطیں طے ہوگئیں (صحیح بخاری باب الشروط فی الجہاد ص 377 ج اور راجع معالم التنزیل ص 199 ج 4 تا ص 203) جو انشاء اللہ عنقریب ذکر کی جائیں گی۔ صلح حدیبیہ کا متن اور مندرجہ شرائط صحیح بخاری 371، 382 اور صحیح مسلم 104 ج 2 میں ہے کہ حضرت علی ؓ صلح نامہ لکھنے لگے تو اس میں انہوں نے بطور عنوان لکھ دیا ھذا ما قاضی علیہ محمد رسول اللہ، اس پر سہیل بن عمرو اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ ہم تو آپ کے رسول اللہ ہونے کا اقرار ہی نہیں کرتے اگر ہم اس کو مانتے ہوتے تو آپ کو عمرہ کرنے سے کیوں روکتے ؟ آپ محمد بن عبد اللہ لکھیے آپ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ بھی ہوں محمد بن عبد اللہ بھی ہوں پھر حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ لفظ ” رسول اللہ “ کو مٹا دو حضرت علی ؓ نے عرض کیا کہ میں تو کبھی بھی آپ کی اس صفت کو نہیں مٹاؤں گا (یہ نافرمانی کی قسم نہیں ہے نازو انداز کی بات ہے) اس کے بعد صلح نامہ کے شروع میں ھذا ما قاضی علیہ محمد بن عبد اللّٰہ لکھا گیا۔ صحیح مسلم 105 ج 2 یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم اس پر سہل بن عمرو نے کہا کہ یہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کیا ہے ہم اس کو نہیں جانتے بلکہ وہ لکھو جو ہم پہچانتے ہیں اور وہ باسْمِكَ اَللّٰھُمَّ ہے (آپ نے اس کو بھی منظور فرما لیا۔ ) (كما ذکر النوری) البدایہ والنہایہ 168 ج 4 میں صلح نامہ کا متن جو نقل کیا ہے وہ ذیل میں درج ہے : ھذا ما صالح علیہ محمد بن عبد اللّٰہ سھیل بن عمرو، اصطلحا علی وضع الحرب عن الناس عشر سنین یامن فیھن الناس ویکف بعضھم عن بعض، وعلیٰ انہ من اتیٰ محمدًا من قریش بغیر اذن ولیہ ردہ علیھم، ومن جاء قریشًا ممن مع محمد لم یردوہ علیہ، وان بیننا عیبة مکفوفةٗ وانہ لا اسلال ولا اغلال، وانہ من احب ان یدخل فی عقد محمد وعھدہ دخل فیہٗ من احب ان یدخل فی عقد قریش وعھدھم دخل فیہٗ وانک ترجع عامک ھذا فلا تدخل علینا مكة، وانہ اذا کان عام قابل خرجنا عنک فدخل تھا باصحابک فاقمت بھا ثلاثاً معک سلاح الراکب، السیوف فی القرب لا تدخلھا لغیرھا۔ ترجمہ : یہ وہ صلح نامہ ہے جس کی محمد بن عبد اللہ نے سہیل بن عمرو سے صلح کی، ان باتوں پر صلح کی گئی۔ (1) دس سال تک آپس میں جنگ نہیں کریں گے، ان دس سالوں میں لوگ امن وامان سے رہیں گے اور ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے رکے رہیں گے۔ (2) قریش میں سے جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر محمد ﷺ کے پاس آجائے گا اسے واپس کرنا ہوگا۔ (3) اور محمد ﷺ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس آجائے گا وہ اسے واپس نہیں کریں گے۔ (4) اور ایک یہ بات ہے کہ ہمارے درمیان گٹھڑی بند رہے گی (یعنی آپس میں جنگ نہ کریں گے لڑائی والی بات کو گٹھڑی کی طرح باندھ کر ڈال دیں گے اور بعض حضرات نے گٹھڑی بند رکھنے کا یہ معنی بتایا ہے جو کچھ ہم نے صلح کی ہے یہ سچے دل سے ہے دل گٹھڑیوں کی طرح ہیں جن میں راز کی چیزیں رکھتی جاتی ہیں لہٰذا ہماری یہ گٹھڑی نہ کھلے گی) اور کوئی فریق دھوکہ یا خیانت کا کام نہ کرے گا۔ (5) نہ کوئی ظاہری طور پر چوری کرے گا اور نہ خیانت کے طور پر کسی کو تکلیف دے گا (ظاہر اور باطن کے اعتبار سے ہر شرط کی پابندی کی جائے گی) (6) اور جو شخص محمد ﷺ کے ساتھ کوئی معاہدہ اور معاقدہ کرنا چاہیے وہ کرسکتا ہے۔ (7) اور جو جماعت قریش سے کوئی معاہدہ اور معاقدہ کرنا چاہیے اسے اس کا اختیار ہے۔ (8) آپ اس سال واپس ہوجائیں مکہ معظمہ میں داخل نہ ہوں۔ (9) اور آئندہ سال اپنے صحابہ ؓ کے ساتھ عمرہ کے لیے آئیں اس وقت مکہ معظمہ میں داخل ہوں اور صرف تین دن رہیں۔ (10) اس وقت جب عمرہ کے لیے آئیں تو آپ کے ساتھ مختصر سے ہتھیار ہوں جنہیں مسافر ساتھ لے کر چلتا ہے تلواریں نیاموں میں ہوں گی اس کا لحاظ کرتے ہوئے داخل ہوسکیں گے۔ جب یہ شرطیں لکھی گئیں تو شرط نمبر 4 کے مطابق بنو خزاعہ نے اعلان کردیا کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ہیں اور بنوبکر نے اعلان کردیا کہ ہم قریش کے عہد میں ہیں پھر یہی معاہدہ فتح مکہ کا سبب بن گیا کیونکہ قریش مکہ نے بنو بکر کی مدد کردی جب بنو خزاعہ سے ان کی جنگ چھڑی معاہدہ کی جو شرطیں اوپر مذکور ہوئیں ان میں سے بعض صحیح بخاری (صحیح بخاری باب الشروط فی الجہاد ص 337 ج اور راجع معالم التنزیل ص 199 ص 203 ج 4) اور بعض صحیح مسلم میں مذکور ہیں اور بعض سنن ابی داؤد میں بھی مروی ہیں۔ حضرت عمر ؓ کا تردد اور سوال و جواب حضرت عمر ؓ کو بعض شرطوں کا قبول کرنا ناگوار ہوا وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور کیا قریش مکہ باطل پر نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ہم حق پر ہیں اور وہ باطل پر ہیں ! پھر سوال کیا کیا ہمارے مقتولین جنت میں نہیں اور کیا ان کے مقتولین دوزخ میں نہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ہمارے مقتولین جنت میں ہیں اور ان کے مقتولین دوزخ میں ہیں، عرض کیا پھر کیوں ہم اپنے دین میں ذلت گوارا کریں اور ہم کیوں اللہ کے فیصلے کے بغیر جو ہمارے ان کے درمیان (قتال کے ذریعہ) ہو واپس ہوجائیں ؟ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں اس کی نافرمانی نہیں کرتا ہوں وہ میری مدد فرمائے گا، حضرت عمر ؓ نے عرض کیا، کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ جائیں گے اور طواف کریں گے ؟ آپ نے فرمایا کیا میں نے اسی سال کے بارے میں کہا تھا ؟ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ سے بھی ان کا یہی سوال و جواب ہوا جب رسول اللہ ﷺ نے صلح کرلی اور پورا صلح نامہ لکھ دیا گیا ابو جندل نے مسلمانوں سے کہا کہ دیکھو میں مسلمان ہوکر آیا ہوں مشرکین کی طرف واپس کیا جا رہا ہوں مجھے بڑی بڑی تکلیفیں دی گئی ہیں مجھے اپنے ساتھ لے چلو لیکن رسول اللہ ﷺ کے سامنے کچھ نہیں کرسکتے تھے صلح کی جو شرطیں آپ نے منظور فرمالی تھیں سب کے مطابق عمل کرنا لازم تھا بالآخر ابو جندل کو وہیں چھوڑ دیا اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ہمارا بن کر ہم کو چھوڑے گا اللہ تعالیٰ اس کو ہم سے دور فرما دے گا (اس کی ہمیں ضرورت نہیں) اور جو شخص ان میں سے ہوگا اور ہمارا بن کر آئے گا (پھر ہم شرط کے مطابق اسے واپس کردیں گے تو) اللہ تعالیٰ اس کے لیے کوئی راستہ نکال دے گا۔ (صحیح مسلم ص 105 ج 1) حلق رؤس اور ذبح ہدایا جب صلح نامہ لکھا جاچکا تو آنحضرت سرور عالم ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ اپنے ہدایا کو ذبح کرو اور سر منڈالو یہ بات سن کر کوئی بھی کھڑا نہ ہوا کیونکہ حضرت صحابہ ؓ اس امید میں تھے کہ شاید کوئی ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ وقت سے پہلے احرام کھولنا نہ پڑے اور عمرہ کرنے کا موقع مل ہی جائے۔ آپ کے تین بار ارشاد فرمانے کے بعد بھی جب کوئی کھڑا نہ ہوا تو آپ اپنی اہلیہ حضرت ام سلمہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے پوری صورت حال بیان کی (کہ میں ہدایا کے ذبح کرنے کا اور سر مونڈنے کا حکم دے چکا ہوں لیکن صحابہ اس پر عمل نہیں کر رہے ہیں) حضرت ام سلمہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ لوگ ذبح اور حلق والے کام کر گزریں تو آپ باہر تشریف لے جاکر کسی سے بات کیے بغیر اپنے اونٹوں کو ذبح فرما دیں اور بال مونڈنے والے کو بلا کر اپنے سر کے بال منڈوا دیں آپ باہر تشریف لائے اور ایسا ہی کیا جب آپ کو حضرات صحابہ نے دیکھا کہ آپ ہدایا ذبح فرما رہے ہیں اور حلق کروالیا ہے تو سب اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے ہدایا کو ذبح کردیا اور ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے۔ (صحیح بخاری ص 380) حضرت ابو بصیر ؓ اور ان کے ساتھیوں کا واقعہ وہ جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اہل مکہ میں سے جو شخص ہمارے پاس آئے گا اور اسے شرط کے مطابق واپس کردیں گے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے کوئی راستہ نکال دے گا اس کے مطابق اس کا حل یہ نکلا ابو بصیر ؓ ایک صحابی مسلمان ہوکر مکہ سے مدینہ منورہ پہنچ گئے مکہ والوں نے ان کو واپس کرنے کے لیے دو آدمی بھیجے، رسول اللہ ﷺ نے شرط کے مطابق ان کو واپس کردیا واپسی میں جب ذوالحلیفہ پہنچے تو حضرت ابو بصیر ؓ نے ان دو آدمیوں میں سے جو انہیں لینے آئے تھے ایک کو قتل کردیا اور دوسرا بھاگ کر مدینہ منورہ میں آکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ ضرور اسے کوئی خوفناک بات پیش آئی ہے اس نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میرا ساتھی تو قتل کیا جاچکا ہے اور میں بھی قتل ہونے والا ہوں پیچھے سے حضرت ابو بصیر ؓ بھی حاضر خدمت ہوگئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ کی جو ذمہ داری تھی وہ تو اللہ تعالیٰ نے پوری کردی ہے آپ نے مجھے واپس کردیا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے نجات دے دی ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ لڑائی کو بھڑکانے والا ہے کاش اسے کوئی سمجھانے والا ہوتا یہ سن کر ابو بصیر ؓ نے سمجھ لیا کہ آپ مجھے پھر واپس کردیں گے لہٰذا وہ مدینہ منورہ سے نکل گئے اور سمندر کے کنارے پر پڑاؤ ڈال لیا۔ جب ابو جندل ؓ کو اس کا پتہ چلا تو وہ بھی ابو بصیر ؓ کے پاس پہنچ گئے اور اب جو بھی کوئی شخص قریش مکہ میں سے مسلمان ہوتا ابو بصیر ؓ کے پاس پہنچ جاتا یہاں تک کہ وہاں سمندر کے کنارے ایک جماعت اکٹھی ہوگئی قریش کا جو بھی قافلہ شام کی طرف جاتا تھا یہ لوگ اسے روک لیتے اور قافلے کے آدمیوں کو قتل کردیتے اور ان کے اموال چھین لیتے تھے جب یہ صورت حال سامنے آئی تو قریش مکہ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ ان لوگوں کو بلالیں اور اب ہم اس شرط کو واپس لیتے ہیں کہ ہمارا کوئی شخص آپ کے پاس جائے گا تو اسے واپس کرنا ہوگا جو بھی شخص ہم میں سے آپ کے پاس پہنچے گا تو اسے واپس کرنے کی ذمہ داری آپ پر نہ ہوگی اس پر رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کو پیغام بھیج دیا کہ واپس آجائیں۔ (صحیح البخاری ص 380، 381 ج 1) رسول اللہ ﷺ نے ابو بصیر کے نام لکھ دیا کہ مدینہ منورہ آجائیں جب گرامی نامہ پہنچا تو وہ سکرات موت میں تھے ان کی موت اس حالت میں ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ کا مکتوب گرامی ان کے ہاتھ میں تھا، حضرت ابو جندل ؓ نے انہیں دفن کردیا اور وہاں ایک مسجد بنا دی اور پھر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ منورہ میں حاضر ہوگئے اور برابر وہیں رہتے رہے حتی کہ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں شام کی طرف چلے گئے اور وہیں جہاد میں شہید ہوگئے۔ (فتح الباری ص 351 ج 5) صلح حدیبیہ کی مذکورہ تفصیل کے بعد اب آیات بالا کا ترجمہ دوبارہ پڑھ لیجیے ان میں فتح مبین کی خوشخبری ہے اور رسول اللہ ﷺ کی اگلی پچھلی تمام لغزشوں کی معافی کا اور تکمیل نعمت کا اور صراط مستقیم پر چلانے کا اور نصر عزیز کا اعلان ہے۔ اہل ایمان پر انعام کا اعلان، اور اہل نفاق اور اہل شرک کی بدحالی اور تعذیب کا بیان اللہ تعالیٰ نے مومنین کے دل میں سکون و اطمینان نازل فرما دیا تاکہ ان کا ایمان اور زیادہ بڑھ جائے اور یہ بھی فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ ایمان کی برکت سے اہل ایمان کو مرد ہوں یا عورت ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کا کفارہ فرما دے گا اور یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے گا ان کے بارے میں پانچ باتیں بتائیں۔ اول ﴿ الظَّآنِّيْنَ باللّٰهِ ظَنَّ السَّوْءِ ﴾ (کہ یہ لوگ اللہ کے ساتھ برا گمان رکھتے ہیں) اس برے گمان میں یہ بھی داخل ہے یہ لوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے ہیں اور اس کے رسول کی تکذیب کرتے کہ مومنین مغلوب ہوں گے اور کافروں کے حملے سے محفوظ ہوکر واپس مدینہ نہ آئیں گے چونکہ اپنے قلبی جذبات میں اور اعتقادات میں منافق عورتیں اور مشرک عورتیں بھی اپنے مردوں کے ساتھ ہوتیں ہیں اس لیے انہیں بھی وعید میں شریک کرلیا گیا۔ دوسری بات یہ بتائی کہ ﴿ عَلَيْهِمْ دَآىِٕرَةُ السَّوْءِ ﴾ کہ ان پر برائی کی چکی گھومنے والی ہے یعنی دنیا میں مقتول اور ماخوذ ہوں گے اور اسلام کی ترقی ان کے قلبی احساسات کے لیے سوہان روح بنی رہے گی۔ تیسری اور چوتھی بات یہ بتائی ﴿ وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ وَ لَعَنَهُمْ ﴾ اور اللہ ان پر غصہ ہوا اور ان پر لعنت کردی اور پانچویں بات بتائی ﴿ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ ﴾ کہ ان کے لیے جہنم کو تیار کردیا اور آخر میں اس مضمون کو ﴿ وَ سَآءَتْ مَصِيْرًا 006﴾ پر ختم فرمایا کہ جہنم برا ٹھکانہ ہے۔ پھر فرمایا ﴿ وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ 1ؕ﴾ اور اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں کے اور زمینوں کے لشکر۔ ان آیات میں یہ مضمون دو مرتبہ بیان فرمایا ہے اس میں یہ بتادیا کہ آسمان و زمین میں اللہ تعالیٰ کے بہت سے لشکر ہیں وہ جس سے چاہے کام لے سکتا ہے ان میں کافروں کو بھی تنبیہ ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ مسلمان تھوڑے سے ہیں ہم انہیں دبالیں گے چونکہ ان کے علاوہ بھی اللہ کے لشکر ہیں اس لیے ان کی تعداد کو نہ دیکھیں اللہ اپنے دوسرے لشکروں سے بھی کام لے سکتا ہے اور اس میں مسلمانوں کے لیے بھی تذکیر ہے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو اللہ تعالیٰ کے بہت سے لشکر ہیں وہ تمہاری تائید کے لیے اور کافروں کو زک دینے کے لیے اپنی دوسری مخلوق کو بھی استعمال فرما سکتا ہے۔ فائدہ 1 ان آیات میں ایک جگہ ﴿وَكان اللّٰہُ عَلِیْمًا حَكیْمًا﴾ اور ایک جگہ ﴿ وَ كَان اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا 007﴾ فرمایا ہے اس میں یہ بتادیا ہے کہ اللہ تعالیٰ علیم بھی ہے اسے اپنے دوستوں کا بھی علم ہے اور دشمنوں کا بھی وہ سب کے ظاہر و باطن کو جانتا ہے وہ عزیز بھی ہے یعنی وہ زبردست ہے اس کے فیصلے اور ارادے کوئی پلٹ نہیں سکتا اور وہ حکیم بھی ہے اپنی حکمت کے مطابق جسے چاہتا ہے انعام دیتا ہے جسے چاہتا ہے عقاب و عذاب میں مبتلا فرما دیتا ہے۔ فائدہ 2 آیت کریمہ میں جو ﴿لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ ﴾ فرمایا ہے بہ اجماع امت اس سے گناہ حقیقی واقعی مراد نہیں ہے کیونکہ حضرات انبیاء ( علیہ السلام) سے گناہوں کا صدور نہیں ہوسکتا بلکہ بعض وہ امور مراد ہیں جن میں خطاء اجتہادی ہوگئی اور اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو متنبہ فرمایا جیسا کہ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے میں آپ نے فدیہ لینے والوں کی رائے سے موافقت فرمائی اور جیسا کہ بعض منافقین نے جہاد میں نہ جانے کی اجازت مانگی تو آپ نے اجازت فرما دی جسے ﴿عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ 1ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ ﴾ میں بیان فرمایا اور جیسا کہ حضرت ابن ام مکتوم ؓ نابینا صحابی کے آنے پر آپ کو خیال ہوا کہ اس وقت نہ آتے تو اچھا تھا اور اس کا اثر آپ کے چہرہ انور پر ظاہر ہوگیا کیونکہ آپ اس وقت کافروں کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے اس پر ﴿عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤى﴾ نازل ہوئی اس کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آپ کا سب کچھ معاف فرمایا پھر بھی آپ بہت زیادہ عبادت کرتے تھے آپ رات کو نماز تہجد میں لمبا قیام کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کے قدموں مبارک پر ورم آگیا تھا اور ایک روایت میں ہے کہ پاؤں پھٹنے لگے تھے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ آپ یہ کیوں کرتے ہیں حالانکہ اللہ نے آپ کا سب کچھ معاف فرما دیا ؟ آپ نے فرمایا کہ تو کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ (صحیح البخاری ص 150 ج 1 ص 716 جلد دوم) مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اتنا بڑا کرم فرمایا تو اس کا تقاضا یہ تو نہیں ہے کہ عبادت کم کردوں احسان مندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ اور زیادہ عبادت میں لگ جاؤں۔
Top