Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا
: بیشک ہم نے فتح دی
لَكَ
: آپ کو
فَتْحًا
: فتح
مُّبِيْنًا
: کھلی
(اے محمد) ﷺ ہم نے تم کو فتح دی فتح بھی صریح و صاف
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، بیشک ہم نے آپ کو (اے نبی) ایک کھی فتح عطاء کی (یعنی) آپ کے جہاد کے ذریعہ ہم نے بزور شمشیر مستقبل میں مکہ وغیرہ کی فتح کا فیصلہ کردیا، تاکہ آپ کے جہاد کے صلہ میں آپ کی اگلی پچھلی کوتاہیوں کو معاف ریں، تاکہ تیری امت کو جہاد میں رغبت ہو اور مذکورہ آیت مئو ول ہے انبیاء (علیہم السلام) کے گناہوں سے دلیل عقلی قطعی سے معصوم ہونے کی وجہ سے اور لام علت غائیہ کے لئے ہے لہذا اس کا مدخول مسبب ہے نہ کہ سبب اور (تاکہ) فتح مذکور کے ذریعہ اپنی نعمتوں کی آپ پر تکمیل کرے اور اس کے ذریعہ سیدھا راستہ دکھائے (یعنی) آپ کو اس پر ثابت قدم رکھے اور وہ (سیدھا راستہ) دین اسلام ہے اور تاکہ وہ اس فتح کے ذریعہ آپ کو ایک زبردست نصرت بخشے باعزت نصرت، جس میں ذلت نہ ہ، وہی ہے وہ ذات جس نے مومنین کے دل میں سکینت بخشی تاکہ ان کے ایمان کے ساتھ دین کے احکام پر ایمان کا اور اضافہ ہو جب جب بھی ان میں سے کوئی حکم نازل ہو اس پر ایمان لائیں، اور ان ہی احکام میں سے جہاد ہے اور زمین و آسمان کے سب لشکر اللہ ہی کے ہیں، سو اگر وہ تمہارے بغیر اپنے دین کی نصرت کا ارادہ کرتا تو ایسا کرسکتا تھا اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں دانا اور اپنی صنعت کے بارے میں با حکمت ہے یعنی وہ اس صفت کے ساتھ ہمیشہ متصف ہے (اس نے جہاد کا حکم اس لئے دیا ہے) تاکہ وہ لیدخل امر بالجھاد محذوف کے متعلق ہے، مومنین اور مومنات کو ایسی جنت میں داخل کرے کہ جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، جن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور تاکہ ان کے گناہوں کو ان سے دور کرے، اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے اور تاکہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مرد اور مشرک عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے ساتھ برے برے گمان رکھتے ہیں (السوء) تینوں جگہوں پر سین کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ ہے، ان کا گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ محمد ﷺ اور مومنین کی مدد نہ کرے گا، ذلت اور عذاب کے ساتھ برائی کے چکر میں وہ خود ہی آگئے اور واللہ ان پر غضبناک ہوگا اور ان کو (رحمت) سے دور کرے گا، اور ان کے لئے اس نے دوزخ تیار کر رکھی ہے اور (وہ) برا ٹھکانہ ہے اور آسمانوں اور زمین کا سب لشکر اللہ ہی کا ہے اللہ تعالیٰ اپنے ملک میں زبردست اور اپنی صنعت میں حکمت والا ہے اس صفت کے ساتھ ہمیشہ متصف ہے یقینا ہم نے آپ کو قیامت کے دن اپنی امت کے لئے گواہی دینے والا اور ان کو دنیا میں جنت کی خوشخبری سنانے والا (بنا کر بھیجا) اور دنیا میں آگ سے برے اعمال کی وجہ سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا، تاکہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو (لتومنوا) میں یاء اور تاء دونوں ہیں یہاں بھی اور اس کے بعد تینوں جگہوں پر بھی اور اس کی مدد کرو اور تا فوقانیہ کی صورت میں دوزائوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے اور اس کی تعظیم کرو مذکورہ دونوں صیغوں اللہ اور اس کے رسول کی جانب راجع ہے اور اس کی یعنی اللہ کی صبح و شام پاکی بیان کرو بلاشبہ جو لوگ آپ سے حدیبیہ میں بیعت رضوان کر رہے ہیں یقینا وہ اللہ سے بیعت کر رہے ہیں اور یہ من یطع الرسول فقد اطاع اللہ کے مانند ہے، اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر ہے، وہ ہاتھ جس پر مومنین نے آپ ﷺ سے بیعت کی یعنی اللہ تعالیٰ ان کی بیعت کی اس کارروائی سے باخبر ہے، سو وہ ان کو اس پر جزاء دے گا، تو جو شخص عہد شکنی کیر گا یعنی بیعت توڑے گا تو اس کی عہدشکنی کا وبال اسی پر پڑے گا، یعنی اس کی عہد شکنی اس کی طرف لوٹے گی اور جو شخص اس کو پورا کرے گا جس کا اس نے اللہ سے عہد کیا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اجر عظیم عطاء کرے گا (فسنوتیہ) میں یاء اور نون دونوں ہیں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد۔ قولہ :۔ انا فتحنا لک فتحا مبینا، فتحنا کی تفسیر قضینا سے کرنے کا مقصد ایک شبہ کو دفع کرنا ہے۔ شبہ : فتح سے مراد فتح مکہ ہے اور فتح مکہ بالا تفاق 8 ھ میں ہوا ہے اور یہ سورت حدیبیہ سے واپسی کے وقت ضحنان جو مکہ سے 25 کلو میٹر کے مسافت پر ہے یا بقول بعض کراع الغمیم کے مقام پر 6 ھ میں نازل ہئوی تو اب شبہ یہ ہے کہ 8 ھ میں ہونے والے واقعہ کو 6 ھ میں انا فتحنا ماضی کے صیغہ سے کیوں تعبیر فرمایا ؟ دفع : مفسرین نے اس شبہ کے تین جواب دیئے ہیں : ایک تو وہی ہے جس کی طرف علامہ محلی نے فتحنا کی تفسیر قضینا سے کر کے اشارہ کیا ہے، اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ فتح سے مراد قضا فی الازل ہے ای حکمنا فی الازل اور قضا فی الازل یقینا صلح حدیبیہ سے مقدم ہے یعنی 8 ھ میں فتح مکہ کا فیصلہ ازل میں ہوچکا تھا، اس صورت میں ماضی سے تعبیر حقیقتہ ہوگی۔ دوسرا جواب :۔ یہ ہے کہ، فتح کے یقینی الوقوع ہونے کی وجہ سے مضای سے تعبیر کردیا گیا، اس لئے کہ جس کا وقوع یقینی ہوتا ہے اس کو ماضی سے تعبیر کردیتے ہیں، اس صورت میں تعبیر بالماضی مجازاً ہوگی، اور یہ ونفخ فی الصور کی نظیر ہوگی۔ تیسرا جواب :۔ یہ ہے کہ درحقیقت فتح صلح حدیبیہ ہی ہے، اس لئے کہ صلح حدیبیہ ہی فتح مکہ اور دیگر فتوحات کا سبب بنی تھی اور آنحضرت ﷺ نے بھی صلح حدیبیہ کو فتح مبین قرار دیا ہے، جب کراع الغمیم کے مقام پر یہ سورت نازل ہوئی تو آپ نے صحابہ کو پڑھ کر سنائی، تو حضرت عمر ؓ نے اس وقت بھی سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول کیا یہ فتح مبین ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ فتح مبین ہے، اس صورت میں بھی تعبیر بالماضی حقیقتہ ہوگی۔ قولہ :۔ عنوۃ زبردستی لینا بزور شمشیر حاصل کرنا، یہ امام اعظم اور امام مالک کا مذہب ہے امام شافعی کا مذاب یہ ہے کہ مکہ صلح سے فتح ہوا۔ قولہ :۔ بینا، مبینا کی تفسیر بینا سے کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مبین ابان سے بمعنی لازم ہے نہ کہ متعدی۔ قولہ : فی المستقبل، فتح سے متعلق ہے، بعض نسخوں میں (فی) کے بغیر ہے جیسا کہ پیش نظر نسخہ میں ہے تو اس صورت میں المستقبل، بفتح کی صفت ہوگی۔ قولہ :۔ بجھادک اس کا تعلق، فتح مکہ سے ہے، اس کلمہ کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : فتح مکہ باری تعالیٰ کا فعل ہے، اس لئے کہ انا فتحنا میں فتح جو کہ باری تعالیٰ کا فعل ہے یہ علت ہے آپ ﷺ کی مغفرت کی اور یہ درست نہیں ہے اس لئے کہ ایک کا فعل دوسرے کے لئے علت نہیں بن سکتا، لہٰذا فتح مکہ پر آپ کی مغفرت کا مرتب ہونا بھی درست نہیں ہے، اسی سوال کے جواب کے لئے مفسر علام نے بجھادک کا اضافہ فرمایا۔ جواب : جو اب کا ماحصل یہ ہے کہ بجھادک کا تعلق فتح کمہ کے ساتھ ہے، مطلب یہ کہ فتح تو باری تعالیٰ ہی نے عطا فرمائی مگر اس کا ظاہری سبب اور ذریعہ آپ ﷺ کا جہاد بنا، اس طریقہ سے خود آپ کا فعل آپ کی مغفرت کی علت ہوئی نہ کہ فعل باری تعالیٰ اور یہ درست ہے، لہٰذا اب کوئی اعتراض باقی نہیں رہا۔ قولہ :۔ ھو موول یہ بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال :۔ سوال یہ ہے کہ نبی معصوم ہوتا ہے تو پھر آپ ﷺ کے گناہوں کو معاف کرنے کا کیا مطب ہے ؟ جواب : (1) پہلی بات یہ ہے کہ اس آیت میں تاویل ہے اول یہ کہ خطاب اگرچہ آپ کو ہے مگر مراد امت ہے، تاکہ امت کو جہاد میں رغبت ہو (2) دوسرے یہ کہ ذنوب سے مراد حسنات الابرار سیئات المقربین کے قاعدہ سے خلاف اولی ہیں، اور خلاف اولیٰ کا نبی سے صدور ہوسکتا ہے یہ عصمت انبیاء کے منافی نہیں (3) یا مغفرت سے مراد ستر و حجاب ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ کے اور آپ سے صدور ذنب کے درمیان ستر و حجاب حائل کر دے تاکہ آپ سے گناہ کا صدور ہی نہ ہو۔ قولہ :۔ لترغب امتک یہ جہاد پر مغفرت کے مرتب ہونے کی علت ہے، یعنی جہاد پر مغفرت مرتب ہونے کی وجہ سے تیری امت جہاد کی طرف راغب ہوگی۔ قولہ :۔ والسلام للعلۃ الغائیۃ لیغفر، میں لام علت غائیہ کا ہے نہ کہ باعثہ کا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی فعل معلل بالا اغراض نہیں ہوسکتا یعنی کوئی شئی اس کو کسی فعل پر باعث (برانگیختہ، آمادہ) نہیں کرسکتی ہے، البتہ لام مذکور علت غائبیہ کے لئے ہوسکتا ہے، یعنی نتیجہ فعل کے لئے، جب بولتے ہیں، اشتدیت القلم لاکتب میں نے قلم خریدا لکھنے کے لئے، کتابت، اشتراء کی غایت ہے، لہٰذا لام کا مدخول یعنی مغفرت مسبب ہے نہ کہ سبب، سبب فتح ہے اور مسبب مغفرت ہے نہ کہ مغعفرت سبب ہو اور فتح مکہ مسبب، یعنی بذریعہ جہاد فتح مکہ مغفرت کا سبب ہے نہ کہ مغفرت فتح مکہ کا سبب قولہ :۔ ویتم اس کا عطف یغفر پر ہے اور لام کے تحت میں ہے۔ قولہ :۔ ویتم اس کا عطف یغفر پر ہے اور لام کے تحت میں ہے۔ قولہ :۔ یثبتک اس اضافہ کا مقصد ایک اعتراض کا جواب ہے، اعتراض یہ ہے کہ آپ ﷺ تو شروع ہی سے ہدایت یافتہ تھے پھر آپ کے بارے میں ویھدیک صراطا مستقیما فرمانے کا کیا مطلب ہے ؟ جواب :۔ جواب کا ماحصل یہ ہے کہ ہدایت سے مراد ہدایت پر دوام و استقرار ہے۔ قولہ : ذاعز یہ بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : سوال یہ ہے کہ عزیز، منصور کی صفت ہے نہ کہ نصر ٌ کی اور یہاں نصر کی صفت واقع ہو رہی ہے۔ جواب :۔ جواب حاصل یہ ہے کہ عزیز فعیل کے وزن پر ہے اور فعیل کا زن نسبت بیان کرنے کے لئے بھی آتا ہے جیسے فسقتہ میں نے اس کی فسق کی طرف نسبت کی یا اس کو فاسق کہا، اسی طرح یہاں بھی عزیز بمعنی ذوعز ہے اور ذوعز منصور ہی ہوتا ہے۔ قولہ :۔ فی المواضع الثلثۃ یعنی دو یہ اور تیسرا موقع وظننتم ظن السواء (تنبیہ) یہ شارح علیہ الرحمتہ سے سبقت قلم ہے، اس لئے کہ اول اور تیسرے مقام میں بالاتفاق صرف فتحہ ہے، لہٰذا فسقتہ میں نے اس کی فسق کی طرف نسبت کی یا اس کو فاسق کہا، اسی طرح بھی عزیز بمعنی ذوعز ہے اور ذوعز منصور ہی ہوتا ہے۔ قولہ :۔ فی المواضع الثلثۃ یعنی دو یہ اور تیسرا موقع وظننتم ظن السواء (تنبیہ) یہ شارح علیہ الرحمتہ سے سبقت قلم ہے، اس لئے کہ اول اور تیسرے مقام میں بالاتفاق صرف فتحہ ہے، لہٰذا صحیح یہ تھا کہ یوں فرماتے فی الموضع الثانی قولہ :۔ والتاء فیہ یعنی لتومنوا باللہ میں یاء اور تاء دونوں قرائتیں ہیں، مگر تاء کی صورت میں یہ اعتراض ہوگا کہ لتومنوا باللہ، انا ارسلنک کا تتمہ ہے اور انا ارسلنک میں خطاب آپ ﷺ کو ہے اور لتومنوا میں خطاب امت کو ہے کلام واحد میں انتشار مرجع لازم آتا ہے، جبکہ آخر کلام اول کلام کا تتمہ ہی ہے۔ جواب :۔ لتومنوا میں اگرچہ بظاہر خطبا امت کو معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت میں خطاب آپ کو ہے اس لئے کہ آپ اصل امت ہیں لہٰذا اب کلام واحد میں تعدد مرجع لازم نہیں آتا۔ قولہ :۔ ھونحومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک شبہ کا جواب ہے، شبہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کی بیعت کو اللہ کی بیعت قرار دیا گیا ہے، اس سے اللہ کے لئے جوارح یعنی اعضاء کا شبہ ہوتا ہے اس لئے کہ آپ ﷺ نے لوگوں سے اپنے ہاتھ پر بیعت لی تھی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے بھی ہاتھ پر بیعت لی ہوگی، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اس بیعت سے عقد میثاق مراد ہے اور یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے من یطع الرسول فقد اطاع اللہ یعنی جس طرح اطاعت رسول اللہ کی اطاعت ہے اسی طرح رسول اللہ سے بیعت، اللہ سے بیعت ہے۔ تفسیر و تشریح سورت کا نام : سورت کا نام پہلی آیت انا فتحنا لک فتحا مبینا سے ماخوذ ہے۔ صلح حدیبیہ کا واقعہ اجمالا : جمہور صحابہ وتابعین اور ائمہ تفسیر کے نزدیک سورة فتح 6 ھ میں اس وقت نازل ہوئی جبکہ آپ بقصد عمرہ صحابہ کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ مکہ کے لئے روانہ ہوئے اور حرم مکہ کے قریب مقام حدیبیہ تک پہنچ کر قیام فرمایا، مگر قریش مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا، پھر اس بات پر صلح کرنے کے لئے آمادہ ہوئے کہ اس سال تو آپ ﷺ واپس چلے جائیں، اگلے سال اس عمرہ کی قضا کریں، بہت سے صحابہ کرام بالخصوص حضرت عمر ؓ اس طرح کی صلح سے کبیدہ خاطر تھے، مگر آنحضرت نے باشارات ربانی اس صلح کو انجام کار مسلمانوں کے لئے ذریعہ کامیابی سمجھ کر قبول فرما لیا، جس کی تفصیل آئندہ پیش کی جائے گی جب آنحضرت ﷺ نے اپنا احرام عمرہ کھول دیا اور حدیبیہ سے واپس روانہ ہوئے تو راستہ میں یہ سورت نازل ہوئی، جس میں بتلا دیا کہ رسول اللہ ﷺ کا خاب سچا ہے ضرور واقع ہوگا مگر اس کا یہ وقت نہیں اور اس صلح کو فتح مبین سے تعبیر فرمایا اس لئے کہ یہ صلح ہی درحقیقت فتح مکہ کا سبب بنی، چناچہ بہت سے صحابہ اور خود آپ ﷺ صلح حدیبیہ ہی کو فتح مبین قرار دیتے تھے یہ سورت چونکہ واقعہ حدیبیہ میں نازل ہوئی ہے اور اس واقعہ کے بہت سے اجزاء کا خود اس سورت میں تذکرہ بھی ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ پہلے ذکر کردیا جائے، ابن کثیر اور مظہری میں اس کی بڑی تفصیل ہے۔ واقعہ حدیبیہ کی تفصیل اور تاریخی پس منظر : جن واقعات کے سلسلہ میں یہ سورت نازل ہوئی ان کی ابتداء کی عبدین حمید و ابن جریر و بیہقی کی روایت کے مطابق تفصیل اس طرح ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے ہیں اور عمرہ کے احرام سے فارغ ہو کر حلق کرایا اور بعض لوگوں نے قصر کرایا اور یہ کہ آپ بیت اللہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کی چابی آپ کے ہاتھ آئی، اس جزء کا ذکر بھی آگے اسی سورت میں آرہا ہے، انبیاء کا خواب چونکہ وحی ہوتا ہے جس کی رو سے اس خواب کا واقع ہونا ضروری تھا، مگر خواب میں اس واقعہ کے لئے کوئی سال یا مہینہ متعین نہیں کیا گیا تھا مگر درحقیقت یہ خواب فتح مکہ کی صورت میں واقع ہونے والا تھا۔ بظاہر اس واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے بالکل اسباب نہیں تھے اور نہ اس پر عمل کرنے کی بظاہر کوئی صورت نظر آتی تھی، ادھر کفار قریش نے چھ سال سے مسلمانوں کے لئے بیت اللہ کا راستہ بند کر رکھا تھا، رسول اللہ ﷺ نے بلا تامل اپنا خواب صحابہ کرام کو سنایاتو وہ سب کے سب مکہ مکرمہ جانے اور بیت اللہ کا طواف کرنے وغیرہ کے ایسے مشتاق تھے کہ ان حضرات نے فوراً ہی تیاری شروع کردی، جب صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد تیار ہوگئی تو آپ ﷺ نے بھی ارادہ فرما لیا۔ (روح المعانی ملخصاً ) ذوالقعدہ بروز پیر 6 ھ کی ابتدائی تاریخوں میں یہ مبارک قافلہ مدینہ سے روانہ ہوا، ذوالحلیفہ جس کو اب بئر علی کہتے ہیں پہنچ کر سب نے عمرہ کا احرام باندھا، قربانی کے لئے 170 اونٹ ساتھ لئے، بخاری، ابودائود نسائی وغیرہ کی روایت کے مطابق روانگی سے پہلے آپ ﷺ نے غسل فرمایا، نیا لباس زیب تن فرمایا اور اپنی ناقہ قصویٰ پر سوار ہوئے، ام المومنین حضرت ام سلمہ کو ساتھ لیا آپ کے ہمراہ مہاجرین و انصار اور دیہات سے آنے والوں کا ایک بڑا مجمع تھا جن کی تعداد اکثر روایات میں چودہ سو بیان کی گئی ہے۔ (مظھری ملخصاً ) اہل مکہ کی مقابلہ کے لئے تیاری : دوسری جانب اہل مکہ کو رسول اللہ ﷺ کے ایک بڑی جماعت صحابہ کے ساتھ مکہ کے لئے روانہ ہونے کی خبر ملی، تو جمع ہو کر باہم مشرہ کیا کہ محمد ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ کے لئے آرہے ہیں، اگر ہم نے ان کو مکہ میں آنے دیا تو پورے عرب میں یہ شہرت ہوجائے گی کہ وہ ہم پر غلبہ پاکر مکہ مکرمہ پہنچ گئے، حالانکہ ہمارے اور ان کے درمیان کئی جنگیں ہوچکی ہیں، آخر کار بڑی شش و پنج کے بعد ان کی جاہلانہ حمیت ہی ان پر غالب آ کر رہی اور انہوں نے اپنی ناک کی خاطر یہ فیصلہ کرلیا کہ کسی قیمت پر بھی اس قافلہ کو اپنے شوہر میں داخل نہیں ہونے دینا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مخبر کی حیثیت سے بنی کعب کے ایک شخص کو آگے بھیج رکھا تھا کہ وہ قریش کے ارادوں اور ان کی نقل و حرکت سے آپ کو بروقت اطلاع کرتا رہے، جب آپ ﷺ عسفان پہنچے تو اس نے آ کر آپ کو اطلاع دی کہ قریش کے لوگ پوری تیاری کے ساتھ ذی طویٰ کے مقام پر پہنچ گئے ہیں اور خالد بن ولید کو انہوں نے دو سو سواروں کے ساتھ کراع الغمیم کی طرف بھیج دیا ہے، تاکہ وہ آپ کا راستہ روکیں، قریش کا مقصد آپ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا تھا تاکہ جنگ ہوجائے اور لڑائی شروع کرنے کا الزام آپ کے سر آجائے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ اطلاع پاتے ہی فوراً راستہ بدل دیا اور ایک نہایت ہی دشوار گذار راستہ سے سخت مشقت اٹھا کر حدیبیہ کے مقام پر پہنچ گئے جو عین حرم کی رسحد پر واقع ہے، خزاعہ کا سردار بدیل بن ورقاء اپنے قبیلہ کے چند آدمیوں کے ساتھ آپ کے پاس آیا اور آپ سے معلوم کیا کہ آپ کس غرض سے تشریف لائے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے صرف بیت اللہ کی زیارت اور اس کا طواف کرنے کیلئے آئے ہیں، یہی بات ان لوگوں نے جا کر قریش کے سرداروں کو بتادی اور ان کو مشورہ دیا کہ وہ ان زائرین حرم کا راستہ نہ روکیں، مگر وہ اپنی ضد پر اڑے رہے۔ خبر رسانی کا سادہ مگر عجیب طریقہ : ان لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے حالات سے باخبر رہنے کا یہ انتظام کیا کہ مقام بلدح سے لیکر اس مقام تک جہاں آنحضرت ﷺ پہنچ چکے تھے، پہاڑوں کی چوٹیوں پر کچھ آدمی بٹھادیئے تاکہ آپ کے پورے حالات دیکھ کر آپ کے متصل پہاڑ والا با آواز بلند دوسرے پہاڑ والے تک اور وہ تیسرے تک اور وہ چوتھے تک پہنچا دے اس طرح چند منٹوں میں بلدح والوں کو آپ کے حالات کا علم ہوجاتا تھا۔ قریش نے سفارت کاری کے لئے اول آپ ﷺ کے پاس احابیش کے سردار حلیس بن علقمہ کو بھیجا تاکہ وہ آپ کو واپس جانے پر آمادہ کرے، حلیس نے جب آ کر اپنی آکھوں سے دیکھ لیا کہ سارا قافلہ احرام بند ہے اور ہدی کے اونٹ ساتھ ہیں تو سمجھ گیا کہ ان کا مقصد بیت اللہ کا طواف و زیارت کرنا ہے، جنگ کرنا ان کا مقصد نہیں ہے، یہ حالات دیکھ کر آپ سے گفتگو کئے بغیر واپس چلا گیا اور اس نے جا کر قریش کے سرداروں سے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ لوگ بیت اللہ کی زیارت اور طواف کے لئے آئے ہیں، اگر تم ان کو روکو گے تو میں اس کام میں تمہارا ساتھ ہرگز نہ دوں گا، ہم تمہارے حلیف ضرور ہیں مگر اس لئے نہیں کہ تم بیت اللہ کی حرمت کو پامال کرو اور ہم اس میں تمہاری حمایت کریں۔ عروہ بن مسعود سفارت کار کی حیثیت سے آپ ﷺ کی خدمت میں : اس کے بعد قریش کی طرف سے عروہ بن مسعود ثقفی آیا اس نے بڑی اونچ نیچ نشیب و فراز سمجھا کر رسول اللہ ﷺ کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ آپ مکہ میں داخل ہونے کے ارادے سے باز آجائیں مگر آپ نے اس کو بھی وہی جواب دیا جو بنی خزاعہ کے سردار کو دیا تھا کہ ہم لڑائی کے ارادہ سے نہیں آئے ہیں بلکہ بیت اللہ کی زیارت اور طواف کے ارادہ سے آئے ہیں، عروہ نے واپس جا کر قریش سے کہا کہ میں قیصرو کسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں بھی گیا ہوں مگر خدا کی قسم میں نے اصحاب محمد کی فدائیت کا جیسا منظر دیکھا ہے، ایسا منظر کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کے یہاں بھی نہیں دیکھا، ان کا حال تو یہ ہے کہ محمد ﷺ جب وضو کرتے ہیں تو ان کے اصحاب پانی کا ایک قطرہ بھی زمین پر گرنے نہیں دیتے اور اسے اپنے جسم اور کپڑوں پر مل لیتے ہیں، اب تم سوچ لو تمہارا مقابلہ کس سے ہے ؟ اس دوران سفارت کاری کا عمل جاری تھا ایلیچوں کی آمد و رفت ہو رہی تھی اور گفت و شنید کا سلسلہ جاری تھا، قریش کے لوگ بار بار یہ کوشش کر رہے تھے کہ چپکے سے حضور کے کیمپ پر چھاپے مار کر آپ اشتعال دالئیں، اور کسی نہ کسی طرح ان سے ایسا اقدام کرا لیں جس سے لڑائی کا بہانہ ہاتھ آجائے، مگر ہر مرتبہ آپ کی تدبیروں اور صحابہ کے صبر وضبط نے ان کی تدبیروں کو ناکام کردیا، ایک دفعہ ان کے چالیس پچاس آدمی رات کے وقت مسلمانوں کے خیموں پر پتھر اور تیر برسانے لگے، صحابہ نے ان سب کو گرفتار کر کے آپ کی خدمت میں پیش کردیا ایک روز مقام تنعیم کی طرف سے 80 آدمیوں نے عین نماز فجر کے وقت آ کر اچانک چھاپہ مار دیا، یہ لوگ بھی گرفتار کرلئے گئے، مگر آپ ﷺ نے انہیں بھی رہا کردیا۔ حضرت عثمان ؓ کی سفارتی مہم پر روانگی اور آپ ﷺ کا قریش کے نام پیغام : بدیل بن ورقاء اور عروہ بن مسعود ثقفی یکے بعد دیرگے آپ ﷺ سے گفتوگ کر کے واپس چلے گئے اور قریش سے پوری صورت حال بیان کی اور بتایا کہ یہ لوگ لڑائی کے ارداہ سے نہیں بلکہ زیارت بیتا للہ کے ارادہ سے آئے ہیں لہٰذا ان کا راستہ رونا مناسب نہیں ہے مگر قریش پر جنگ کا جنون سوار تھا ان کی ایک نہ سنی اور آمادہ جنگ و پیکار ہوئے۔ امام بیہقی نے عروہ سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ میں پہنچ کر قایم فرمایا تو قریش گھبرا گئے تو آنحضرت ﷺ نے ارادہ کیا کہ ان کے پاس اپنا کوئی آمی بھیج کر بتلا دیں کہ ہم جنگ کرنے نہیں عمرہ کرنے آئے ہیں ہمارا راستہ نہ روک، اس کام کے لئے اول حضرت عمر ؓ کو بلایا، حضرت عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ قریش میرے سخت دشمن ہیں کیونکہ ان کو میری عداوت اور شدت معلوم ہے اور میرے قبیلہ کا کوئی آدمی مکہ میں ایسا نہیں جو میری حمایت کرے اس لئے میں آپ کے سامنے ایک شخص کا نام پیش کرتا ہوں جو مکہ مکرمہ میں اپنے قبیلہ وغیرہ کی وجہ سے خاص قوت و عزت رکھتا ہے یعنی عثمان بن عفان، آپ نے حضرت عثمان کو اس کام کے لئے مامور فرما کر بھیج دیا اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جو ضعفاء مسلمین مکہ سے ہجرت نہیں کرسکے اور مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں ان کے پاس جا کر تسلی دیں کہ پریشان نہ ہوں انشاء اللہ مکہ مکرمہ فتح ہو کر تمہاری مشکلات ختم ہونے کا وقت قریب آگیا ہے، حضرت عثمان غنی ؓ پہلے ان لوگوں کے پاس گئے جو مقام بلدح میں آنحضرت ﷺ کا راستہ روکنے کے لئے جمع ہوئے تھے، ان سے آپ ﷺ کی وہی بات سنا دی جو آپ نے بدیل اور عروہ بن مسعود وغیرہ کے سامنے کہی تھی ان لوگوں نے جواب دیا ہم نے پیغام سن لیا اپنے بزرگوں سے جا کر کہہ دو کہ یہ بات ہرگز نہ ہوگی، ان لوگوں کا جواب سن کر آپ مکہ مکرمہ کے اندر جانے لگے تو ابان بن سعید (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) سے ملاقات ہوئی، انہوں نے حضرت عثمان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور اپنی پناہ میں لیکر ان سے کہا کہ مکہ میں اپنا پیغام لیکر جہاں چاہیں جاسکتے ہیں، پھر اپنے گھوڑے پر حضرت عثمان کو سوار کر کے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، کیونکہ ان کا قبیلہ بنو سعد مکہ مکرمہ میں بہت قوی اور عزت دار تھا، حضرت عثمان ؓ مکہ کے ایک ایک سردار کے پاس تشریف لے گئے اور آپ ﷺ کا پیغام سنایا اس کے بعد حضرت عثمان ضعفاء مسلمین سے ملے ان کو بھی آپ ﷺ کا پیغام پہنچایا وہ بہت خوش ہوئے جب حضرت عثمان پیغامات پہنچانے سے فارغ ہوگئے تو اہل مکہ نے ان سے کہا اگر آپ چاہیں تو طواف کرسکتے ہیں حضرت عثمان غنی نے فرمایا کہ میں اس وقت تک طواف نہیں کروں گا جب تک رسول اللہ ﷺ طواف نہ کریں۔ قریش کے ستر آدمیوں کی گرفتاری اور آپ کی خدمت میں پیشی : اسی درمیان قریش نے اپنے پچاس آدمی اس کام پر لگائے کہ وہ آنحضرت ﷺ کے قریب پہنچ کر موقع کا انتظار کریں اور موقع ملنے پر (معاذ اللہ) آپ ﷺ کا قصہ تمام کردیں، یہ لوگ اسی تاک میں تھے کہ آنحضرت ﷺ کی حفاظت و نگرانی پر مامور حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے ان سب کو گرفتار کرلیا اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا، حضرت عثمان غنی ؓ کے ساتھ تقریباً دس مسلمان اور مکہ میں پہنچ گئے تھے، قریش نے جب اپنے پچاس آدمیوں کی گرفتاری کا حال سنات و حضرت عثمان سمیت ان سب مسلمانوں کو روک لیا اور قریش کی ایک جماعت مسلمانوں کے لشکر کی طرف روانہ ہوئی اور مسلمانوں پر تیر اور پتھر پھینکنے شروع کردیئے، جس سے ایک صحابی ابن زنیم شہید ہوگئے اور مسلمانوں نے قریشیوں کے دس سواروں کو گرفتار کرلیا، ادھر رسول اللہ ﷺ کو کسی نے یہ خبر پہنچا دی کہ حضرت عثمان شہید کردیئے گئے، ان کے واپس نہ آنے سے مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ یہ خبر سچی ہے، اب مزید تحمل کا کوئی موقع نہیں تھا، کیونکہ جب نوبت سفیر کے قتل تک پہنچ گئیت و اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ مسلمان جنگ کے لئے تیار ہوجائیں۔ بیعت رضوان کا واقعہ : حضرت عثمان کے قتل کی خبر سن کر آپ ﷺ نے تمام مسلمانوں کو جمع کیا اور ان سے اس بات پر بیعت لی، بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ بیعت موت پر تھی یعنی مرجائیں گے مگر قدم پیچھے نہ ہٹائیں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بیعت عدم فرار اور کمال ثبات وقرار پر تھی، باوجودیکہ حالات بڑے نازک تھے، ظاہری حالات مسلمانوں کے موافق نہیں تھے، مسلمانوں کی تعداد صرف چودہ سو تھی اور سامان جنگ بھی سوائے تلوار کے پاس نہیں تھا اپنے مرکز سے ڈھائی سو میل دور عین مکہ کی سرحد پر ٹھہرے ہوئے تھے جہاں دشمن پوری طاقت کے ساتھ ان پر حملہ آور ہوسکتا تھا اور گرد و پیش سے اپنے حامی قبیلوں کو لا کر انہیں گھیرے میں لے سکتا تھا اس کے باوجود تمام صحابہ نے سوائے جدبن قیس کے کہ وہ اونٹ کے پیچھے چھپ کر بیٹھا رہا اور اس دولت خدا داد سے محروم رہا بیعت کی (خلاصتہ التفاسیر) سب سے پہلے ابوسنان اسدی نے ہاتھ بڑھایا، اس کے بعد یکے بعد دیگرے جملہ حاضرین نے بیعت کی، یہی وہ بیعت ہے جو ” بیعت رضوان “ کے نام سے تاریخ اسلام میں مشہور ہے، حضرت عثمان ؓ چونکہ موجود نہیں تھے اور وہ آپ ﷺ کے کام میں تھے اس لئے آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر ان کی طرف سے بیعت کی اور اپنے دست مبارک کو حضرت عثمان ؓ تعالیٰ کا ہاتھ قرار دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت عثمان کے قتل کی خبر غلط تھی، حضرت عثمان خود بھی واپس آگئے فائدہ :۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ عالم الغیب نہیں تھے ورنہ غلط خبر پر یقین نہ کرتے اور قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو کی قیادت میں ایک وفد بھی صلح کی بات چیت کرنے کے لئے حضور کی خدمت میں حاضر ہوا، اب قریش اپنی اس ضد سے ہٹ گئے کہ آپ کو مکہ میں سرے سے داخل ہی نہ ہونے دیں گے، البتہ اپنی ناک بچانے کے لئے ان کو صرف یہ اصرار تھا کہ آپ اس سال واپس چلے جائیں، آئندہ سال آپ عمرہ کے لئے آسکتے ہیں۔ قریش کے وفد کی سربراہی سہیل بن عمرو کر رہے تھے آپ نے ان کو دیکھتے ہی فرمایا، اب معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم نے صلح کا ارادہ کرلیا ہے کہ سہیل کو پھر بھیجا ہے، آپ ﷺ چہار زانو بیٹھ گئے اور صحابہ میں سے عبادبن بشر اور سلمہ ؓ ہتھیاروں سے مسلح آنحضرت کے پاس حفاظت کے لئے کھڑے ہوگئے صلح کے مسئلہ پر فریقین میں طویل گفتگو ہوئی گفتگو کے دوران کبھی آوازیں بلند بھی ہوجاتی تھیں ایک مرتبہ سہیل کی آواز بلند ہوگئی تو عباد بن بشر نے سہیل کو ڈانٹا کہ حضو رکے سامنے آواز بلند نہ کر، طویل ردوکد اور بحث و مباحثہ کے بعد آپ صلح پر راضی ہوگئے، سہیل نے کہا لایئے ہم صلح نامہل کھ لیں، رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو بلایا اور فرمایا لکھو، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، سہیل نے یہیں سے بحث شروع کردی کہ لفظ رحمٰن اور رحیم ہمارے محاورات میں نہیں ہے آپ یہاں وہی لفظ لھیں جو پہلے لکھا کرتے تھے، یعنی باسمک اللھم آپ نے اس کو مان لیا اور حضرت علی سے فرمایا ایسا ہی لکھ دو اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا لکھو، یہ وہ عہد نامہ ہے۔ جس کا فیصلہ محمد رسول اللہ نے کیا ہے سہیل نے اس پر بھی اعتراض کیا اور بضد ہوئے اور کہا اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے تو آپ کو ہرگز بیت اللہ سے نہ روکتے (صلح نامہ میں کوئی ایسا لفظ نہ ہونا چاہیے جو کسی فریق کے عقیدہ کے خلاف ہو) آپ صرف محمد بن عبداللہ لکھوائیں، آپ ﷺ نے اس کو بھی منظور فرما کر حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ جو لکھا ہے اس کو مٹا کر محمد بن عبد اللہ لکھ دو ، حضرت علی نے باوجود سراپا اطاعت ہونے کے عرض کیا، میں یہ کام تو نہیں کرسکتا، کہ آپ کے نام کو مٹا دوں، حاضرین میں سے حضرت اسید بن حضیر اور سعد بن عبادہ نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ لیا کہ اس کو نہ مٹائیں اور بجز محمد رسول اللہ کے اور کچھ نہ لکھیں اگر یہ لوگ نہیں مانتے تو ہمارے اور ان کے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی اسی دوران چاروں طرف سے آوازیں بلند ہونے لگیں، تو رسول اللہ ﷺ نے صلح نامہ کا کاغذ خود اپنے دست مبارک میں لے لیا اور باوجود اس کے کہ آپ امی تھے پہلے کبھی لکھا نہیں ت ھا مگر اس وقت خود اپنے قلم سے آپ نے یہ لکھا دیا، ھذا ماقاضی علیہ محمد بن عبداللہ وسہیل بن عمرو صلحا علی وضع الحرب عن الناس عشر سنین یامن فیہ الناس ویکف بعضھم عن بعض یعنی یہ وہ فیصلہ ہے جو محمد بن عبداللہ اور سہیل بن عمرو نے دس سال کے لئے باہم جنگ نہ کرنے کا کیا ہے جس میں سب لوگ مامون رہیں ایک دوسرے پر چڑھائی اور جنگ سے پرہیز کریں۔ (عارف ملخصاً ) گفت و شنید اور بحث مباحثہ کے بعد جو صلح نامہ لکھا گیا اس کی دفعات مندرجہ ذیل تھیں : (1) دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بند رہے گی، اور ایک دوسرے کے خلاف خفیہ یا علانیہ کوئی کارروائی نہ کی جائے گی۔ 2۔ اس دوران قریش کا جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر محمد ﷺ کے پاس جائے گا، اسے آپس واپس کردیں گے اور آپ کے ساتھیوں سے جو شخص قریش کے پاس چلا جائے گا، وہ اسے واپس نہ کریں گے۔ (3) قبائل عرب میں سے جو قبیلہ بھی فریقین میں سے کسی ایک کا حلیف بن کر اس معاہدے میں شامل ہونا چاہے گا اسے اس کا اختیار ہوگا۔ (4) محمد ﷺ اس سال واپس جائیں گے اور آئندہ سال وہ عمرہ کے لئے آ کر تین دن مکہ میں ٹھہر سکتے ہیں بشرطیکہ پر تلوں میں صرف ایک ایک تلوار لے کر آئیں اور کوئی سامان حرب ساتھ نہ لائیں، ان تین دنوں میں اہل مکہ ان کے لئے شہر خالی کردیں گے (تاکہ کسی تصادم کی نوبت نہ آئے) مگر جاتے وقت وہ یہاں کے کسی شخص کو ساتھ لیجانے کے مجاز نہ ہوں گے۔ شرائط صلح سے عام صحابہ کرام ؓ کی ناراضی اور رنج : جس وقت معاہدے کی شرائط طے ہو رہی تھیں تو مسلمانوں کے خیمے میں سخت اضطراب تھا کوئی شخص بھی ان مصلحتوں کو نہیں سمجھ رہا تھا جنہیں نگاہ میں رکھ کر نبی ﷺ شرائط قبول فرما رہے تھے، کسی کی نظراتنی دور رس نہ تھی کہ اس صلح کے نتیجے میں جو خیر عظیم رونما ہونے والی تھی اسے دیکھ سکے، کفار قریش اسے اپنی کامیابی سمجھ رہے تھے اور مسلمان اس پر بےتاب تھے کہ ہم آخر دب کر ذلیل شرائط کیں قبول کریں ؟ حضرت عمر جیسے بالغ نظر مد بر تک کا یہ حال تھا کہ ان سے نہ رہا گیا اور رسول ﷺ سے عرض کیا، یا رسول اللہ کیا آپ اللہ کے نبی برحق نہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں پھر حضرت عمر نے عرض کیا، کیا ہمارے مقتولین جنت میں اور ان کے مقتولین جہنم میں نہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں، اس پر پھر حضرت عمر نے فرمایا پھر ہم اس ذلت کو کیوں قبول کریں کہ بغیر عمرہ کئے واپس چلے جائیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ہرگز اس کے حکم کے خلاف نہ کروں گا اور اللہ تعالیٰ مجھے ضائع نہ فرمائے گا وہ میرا مددگار ہے، حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا آپ نے ہم سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ بیت اللہ کے پاس جائیں گے اور طواف کریں گے ؟ آپ نے فرمایا بیشک یہ کہا تھا مگر کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ کام اسی سال ہوگا، تو حضرت عمر نے فرمایا، آپ نے یہ تو نہیں فرمایا تھا تو پھر آپ نے فرمایا یہ واقعہ جیسا میں نے کہا تھا ہو کر رہے گا، آپ بیت اللہ کے پاس جائیں گے اور طواف کریں گے۔ حضرت عمر خاموش ہوگئے مگر غم و غصہ کم نہیں ہوا، حضرت عمر ؓ آپ ﷺ کے پاس سے اٹھ کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس گئے اور اسی گفتگو کا اعادہ کیا جو حضور کے سامنے کی تھی، حضرت ابوبکر نے فرمایا محد ﷺ خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں، وہ اللہ کے حکم کے خلاف کوئی کام نہ کیں گے اور اللہ ان کا مددگار ہے، اس لئے تم مرتے دم تک آپ کی رکاب تھامے رہو، خدا کی قسم وہ حق پر ہیں، غرض حضرت عمر فاروق کو ان شرائط صلح سے سخت رنج و غم پہنچا، خود انہوں نے فرمایا کہ واللہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا مجھے کبھی شک پیش نہیں آیا بجز اس واقعہ کے۔ (رواہ بخاری، معارف) حضرت ابوعبیدہ نے سمجھایا اور فرمایا شیطان کے شر سے پناہ مانگو، فاروق اعظم نے کہا میں شیطان کے شر سے پناہ مانگتا ہوں، حضرت عمر فرماتے ہیں کہ جب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو میں برابر صدقہ خیرات کرتا اور روزے رکھتا اور غلام آزاد کرتا رہا کہ میری یہ خطاء معاف ہوجائے۔ ایک حادثہ اور پابندی معاہدہ کی بےنظیر مثال : جس واقعہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا وہ یہ تھا کہ عین اسی وقت کہ جب صلح کا معاہدہ لکھا جا رہا تھا اور صحابہ کرام اس معاہدے کی شرئاط سے برہم اور رنجیدہ تھے کہ اچانک سہیل بن عمرو (جو کہ قریش کی جانب سے معاہدہ کے فریق تھے) کے فرزند ابوجندل جو مسلمان ہوچکے تھے اور کفار مکہ نے ان کو قیدکر رکھا تھا کسی نہ کسی طرح بھاگ کر پابز نجیر آپ ﷺ کے کیمپ میں پہنچ گئے، ان کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے ابوجندل نے آپ سے پناہ کی درخواست کی کچھ مسلمان آگے بڑھے اور ابوجندل کو اپنی پناہ میں لے لیا، سہیل چلا اٹھا کہ یہ عہد نامہ کی خلاف ورزی ہے اگر اس کو واپس نہ کیا تو میں صلح کی کسی شرط کو نہ مانوں گا، مسلمانوں نے کہا ابھی صلح نامہ مکمل نہیں ہوا ابھی دستخط نہیں ہوئے، لہٰذا یہ واقعہ صلح نامہ کے تحت نہیں آتا، سہیل نے کہا صلح نامہ کی تحریر خواہ مکمل نہ ہوئی مگر شرائط تو ہمارے اور تمہارے درمیان طے ہوچکی ہیں، اس لئے اس لڑکے کو میرے حوالہ کیا جائے، رسول اللہ ﷺ نے اس کی حجت کو تسلیم فرمایا اور ابوجندل کفار کے حوالہ کردیئے گئے، ابوجندل کو آواز دیکر فرمایا کہ اے ابوجندل تم چند روز اور صبر کرو، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اور ضعفاء مسلمین کے لئے جو مکہ میں محبوس ہیں جلد رہائی اور فراخی کا سامان کرنے والا ہے، مسلمانوں کے دلوں پر ابوجندل کے اس واقعہ نے نمک پاش کی مگر معاہدہ مکمل ہو چکات ھا، اس صلح نامہ پر مسلمان کی طرف سے ابوبکر و عمرو عبدالرحمٰن بن عوف اور عبداللہ بن سہیل بن عمرو، سعد بن ابی وقاص، محمود بن مسلمہ اور علی بن ابی طالب ؓ وغیرہ نے دستطخ کئے، اسی طرح مشرکین کی طرف سے سہیل کے ساتھ چند دوسرے لوگوں نے دستخط کئے۔ احرام کھولنا اور قربانی کے جانور ذبح کرنا : صلح نامہ سے فراغت کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب لوگ اپنی قربانی کے جانور جو ساتھ ہیں ان کی قربانی کردیں اور سر کے بال منڈوا کر احرام کھولدیں، صحابہ کرام کی غم کی وجہ سے یہ حالت ہوگئی تھی کہ آپ کے فرمانے کے باوجود کوئی اس کام کے لئے تیار نہ ہوا، اور غم و شکستگی کی وجہ سے کسی نے حرکت نہ کی، حضور کے پورے دور رسالت میں اس ایک موقع کے سوا کبھی یہ صورت پیش نہیں آئی کہ آپ صحابہ کو حکم دیں اور صحابہ اس کام کے لئے دوڑ نہ پڑیں، آنحضرت کو بھی اس صورتحال سے صدمہ ہوا، آپ نے اپنے خیمہ میں جاکر ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ سے اس کا اظہار فرمایا، انہوں نے عرض کیا آپ خاموشی کے ساتھ تشریف لے جا کر خود اپنا اونٹ ذبح فرما دیں، صحابہ کرام سے اس پر کچھ نہ کہیں ان کو اس وقت سخت صدمہ اور رنج شرائط صلح اور بغیر عمرہ کے واپسی کی وجہ سے ہے، آپ سب کے سامنے حجام کو بلا کر خود اپنا حلق کر کے احرام کھولدیں، آپ نے مشورہ کے مطابق ایسا ہی کیا صحابہ کرام نے جب دیکھا تو سب کھڑ ہوگئے، آپس میں ایک دوسرے کا حلق کرنے لگے اور جانوروں کی قربانی کرنے لگے، آپ نے سب کے لئے دعا فرمائی۔ معجزے کا ظہور : رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر انیس یا بیس دن قیام فرمایا تھا، اب یہاں سے واپسی شروع ہوئی جب آپ صحابہ کے مجمع کے ساتھ پہلے مرالظہر ان پھر عسافن پہنچے، یہاں پہنچ کر مسلمانوں کا زادارہ تقریباً ختم ہوگیا، رسول اللہ ﷺ نے ایک دستر خان بچھایا اور سب کو حکم دیا کہ جس کے پاس جو کچھ ہے لاکر جمع کر دے، اس طرح جو کچھ باقی ماندہ کھانے کا سامانت ھا سب اس دستر خوان پر جمع ہوگیا، چودہ سو حضرات کا مجمع تھا، آپ نے دعاء، فرمائی سب نے شکم سیر ہو کر کھایا اور اپنے اپنے برتنوں میں بھی بھر لیا، اس کے بعد بھی اتنا ہی کھانا باقی تھا۔ صحابہ کے ایمان اور اطاعت رسول کا ایک اور امتحان اور صحابہ کی بےنظیر قوت ایمانی : اس کے بعد جب یہ قافلہ حدیبیہ کی صلح کو اپنی شکست اور ذلت سمجھتا ہوا مدینہ کی طرف واپس جا رہا تھا، تو ضجنان کے مقام پر اور بقول بعض کرام الغمیم کے مقام پر سورة فتح نازل ہوئی، جس نے مسلمانوں کو بتایا کہ یہ صلح جس کو وہ شکست سمجھ رہے ہیں دراصل یہ فتح عظیم ہے، اس کے نازل ہونے کے بعد حضور نے مسلمانوں کو جمع فرمایا، اور فرمایا آج مجھ پر وہ چیز نازل ہوئی ہے جو میرے لئے دنیا ومافیہا سے زیادہ قیمتی ہے، پھر آپ نے یہ سورت تلاوت فرمائی، اور خاص طور سے حضرت عمر ؓ کو بلا کر اسے سنایا کیونکہ وہ سب سے زیادہ رنجیدہ تھے، صحابہ کرام کے قلوب تو اس طرح کی شرائط صلح کی وجہ سے پہلے زخم خوردہ اور غم زدہ تھے، اس سورت نے بتایا کہ یہ فتح مبین حاصل ہوئی ہے، حضرت عمر ؓ پھر سوال کر بیٹھے کہ یا رسول اللہ کیا یہ فتح ہے ؟ آپ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ فتح مبین ہے، صحابہ کرام نے اس پر سرتسلیم خم کیا اور ان سب چیزوں کو ” فتح مبین “ یقین کیا۔ وفاء عہد کا دوسرا بےنظیر واقعہ ابو جندل کے واقعہ کے بعد ابوصیر کا واقعہ پیش آیا، واقعہ یہ ہوا کہ ابو بصیر مسلمان ہو کر مدینہ آگئے ان کے پیچھے دو قریشی بھی ان کو واپس لینے کے لئے مدینہ منورہ آئے، آپ ﷺ نے ابوبصیر کو معاہدے کے مطابق ان کے حوالہ کردیا، ابوبصیر نے بہت آہ و فریاد کی مگر آپ نے فرمایا اے ابوبصیر ہمارے دین میں غدر و بےوفائی نہیں، اللہ تیرے اور تیرے ساتھیوں کے لئے کوئی صورت نکالنے والا ہے، مجبوراً ابو بصیر قریشیوں کے ساتھ چلے گئے، راستہ میں ابوبصیر نے ان میں سے ایک سے کہا تیریت لوار چھی نہیں معلوم ہوتی، دوسرے نے تلوار نکالی اور کہا میری تلوار نہایت عمدہ ہے میں اس کا تجربہ کرچکا ہوں، ابوبصیر نے کہا میں بھی ذرا دیکھوں تلوار ان کو دیدی، قریشی بیخبر غفلت میں تھے، دفعتاً آن واحد میں ابوبصیر نے چابکدستی سے ایک ہی وار میں سرتن سے جدا کردیا، دوسرا بھاگ کھڑا ہوا، یہ اس کے پیچھے لپکے مگر وہ بھاگ کر مدینہ میں داخل ہوگیا اور آپ ﷺ سے فریاد کی، اتنے میں ابوبصیر بھی آگئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ نے حسب معاہدہ مجھے ان کے حوالہ کردیا، اب اللہ نے مجھے چھڑا لیا ہے، آپ نے فرمایا اے ابوبصیر تو لڑائی کی آگ بھڑکانے والا ہے، کاش اس کے ساتھ دوسرا بھی ہوتا، ابو بصیر سمجھ گئے اور مقام سیف البحر میں آ کر قیام کیا، جو لوگ مکہ میں تھے اور اپنا اسلام چھپائے ہوئے یا مشرکین مکہ کے مظالم برداشت کر رہے تھے مثلاً ابوجندل وغیرہ جب انہوں نے سنا کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ کاش ابوبصیر کے ساتھ دوسرا ہوتا تو وہ لوگ بھی ایک ایک کر کے سف البحر پہنچ کر ابو بصیر کے گروہ میں شامل ہوگئے حتی کہ ان کی تعداد ستر تک پہنچ گئی، ادھر مشرکین مکہ کا جو قافلہ اس راستہ سے گذرتا اس سے مزاحمت کرتے آسانی سے مشرکین کا قافلہ نہیں گذر سکتا تھا، مشرکین مکہ اس سے تنگ آگئے، جب نہایت عاجز ہوگئے تو آپ ﷺ کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم اس شرط سے دست بردار ہوتے ہیں، اب آذئندہ جو بھی مسلمان ہو کر آپ کے پاس آئے آپ اس کو پناہ دیجیے اور خدا کے واسطے ابوبصیر کے گروہ کو ہماری مزاحمت سے منع کیجیے، مومنین نے اللہ کی مدد دیکھی اور بہت خوش ہوئے، ابوبصیر کا گروہ بھی مدینہ آگیا اور آئندہ کے لئے راہ کھل گئی، اس واقعہ کا اکثر حصہ بخاری سے ہے اور کچھ دیگر کتب سے ہے۔ (خلاصہ التفاسیر)
Top