بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
(اے محمد) ﷺ ہم نے تم کو فتح دی فتح بھی صریح و صاف
(48:1) انا۔ بیشک ہم۔ حرف مشبہ بالفعل ہے۔ ان اور ضمری جمع متکلم نا سے مرکب ہے۔ تحقیق ہم۔ فتحنا : ماضی جمع متکلم فتح (باب فتح) مصدر۔ ہم نے کھولا۔ ہم نے فتح دی ۔ الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ازالہ دو قسم پر ہے :۔ (1) جس کا آنکھ سے ادراک ہوسکے۔ جیسے فتح الباب : اس نے دروازہ کھولا اور جیسے فلما فتحوا متاعھم (12:65) اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا۔ (2) جس کا ادراک بصیرت سے ہو۔ جیسے فتح الہم (یعنی ازالہ غم، اس کی بھی چند قسمیں ہیں :۔ (ا) ایک وہ جس کا تعلق دنیوی زندگی سے ہو۔ جیسے مال وغیرہ دے کر غم و اندوہ اور فقر و فاقہ و احتیاج کو زائل کرنا جیسے کہ قرآن مجید میں ہے فلما نسوا ما ذکروا بہ فتحنا علیہم ابواب کل شیء (6:44) پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو جو ان کو دی گئی تھی فراموش کردیا۔ تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے۔ یعنی ہر چیز کی فراوانی کردی۔ (ب) علوم و معارف کے دروازے کھولنا۔ جیسا کہ آیۃ زیر مطالعہ کہ بعض نے کہا ہے یہ فتح مکہ اور صلح حدیبیہ کی طرف اشارہ ہے۔ اور بعض نے کہا کہ نہیں بلکہ اس سے علوم و معارف اور ان ہدایات کے دروازے کھولنا مراد ہے جو کہ ثواب اور مقامات محمود تک پہنچنے کا ذریعہ بنتے ہیں الفتح کا استعمال اور کئی معانی میں آتا ہے۔ یہاں اتنا ہی کافی ہے۔ فتحا مبینا : موصوف و صفت مل کر فتحنا کا مفعول۔ ایک ظاہر اور کھلی و صریح فتح۔
Top