بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Madani - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
بیشک ہم نے عطا کردی آپ کو (اے پیغمبر ! ) ایک عظیم الشان کھلی فتح2
[ 1] فتح مبین اور اس سے مقصود و مراد ؟: اگرچہ بعض حضرات نے اس کو فتح مکہ پر محمول فرمایا ہے۔ اور فتح کے نام سے مشہور بھی وہی ہے۔ اور فتح کا لفظ بولنے سے ذہن اسی طرف متوجہ ہوتا ہے مگر صحیح اور راحج قول کے مطابق اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ اور یہی وہ فتح ہے جس نے فتح مکہ کی راہ ہموار کی۔ اور صلح حدیبیہ کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد دوسرے بہت سے اہم فوائد کے علاوہ فتح مکہ کا اعزاز بھی مسلمانوں کو حاصل ہوگیا۔ چناچہ حضرت ابن مسعود ؓ اور حضرت براء بن عازب ؓ وغیرہ صحابہ کرام ؓ سے مروی ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ تم لوگ تو فتح مکہ کو فتح قرار دیتے ہو مگر ہمارے نزدیک اصل فتح صلح حدیبیہ ہے۔ اور قصہ صلح حدیبیہ کا مختصر طور پر اس طرح ہے کہ 6 ھ؁ میں آنحضرت ﷺ نے ایک خواب دیکھا کہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہئِ کرام ؓ امن وامان کے ساتھ مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے ہیں اور عمرہ کرنے کے بعد حلق و قصر فرما رہے ہیں۔ اور طاہر ہے کہ نبی ﷺ کا خواب بھی وحی ہوتا ہے۔ اس لئے اس کے صحیح اور سچا ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہوتا۔ مگر اس میں چونکہ اس کی طرف کوئی اشارہ نہ تھا کہ یہ خواب کب پورا ہوگا۔ ادھر اس امید پر کہ شاید یہ اسی سال پورا ہوجائے نیز اس شدید اشتیاق کی وجہ سے جو کہ آپ ﷺ کے اور آپ ﷺ کے صحابہئِ کرام کے دلوں میں زیارت مکہ کیلئے موجود و موجزن تھا آپ ﷺ نے اسی سال عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کیلئے مکہ مکرمہ کے سفر کا پروگرام بنا لیا۔ اور آپ ﷺ ذیقعدہ 6 ھ؁ کے اوائل میں چودہ سو صحابہ کرام ؓ کے ساتھ عمرہ کیلئے روانہ ہوگئے۔ چناچہ آپ ﷺ کئی دنوں کے سفر کے بعد مدینہ منورہ سے حدیبیہ کے مقام پر پہنچے جو کہ جدہ اور مکہ کے درمیان ایک مقام کا نام ہے۔ اور جو اب " شمیسی " کے نام سے مشہور ہے۔ تو آپ ﷺ کی اونٹنی بیٹھ گئی۔ جس پر آپ ﷺ نے فرمایا " حسبھا حابس الفیل " یعنی یہ اونٹنی یونہی ازخود نہیں بیٹھ گئی بلکہ اسے اس ذات نے روک دیا ہے جس نے ہاتھوں والوں کو روکا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا مکہ والے جو بات مجھ سے کہیں گے میں مانوں گا۔ بشرطیکہ اس میں اللہ پاک کی مقرر کردہ حدوں کی پاسداری کی گئی ہو۔ آخر آپ ﷺ نے حضرت عثمان بن عفان ؓ کو اہل مکہ سے بات کرنے کیلئے مکہ مکرمہ بھیجا۔ اور حضرت عثمان ؓ کا انتخاب آپ ﷺ نے اس لئے فرمایا کہ آپ کے اہل مکہ پر بہت احسانات تھے۔ اور آپ کا احترام ان کے یہاں زیادہ تھا۔ اس لئے آپ کی بات مانے جانے کی توقع زیادہ تھی۔ مگر کفار قریش نے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کو بھی یہ جواب دیا کہ آپ خود چاہیں تو طواف کرلیں باقی کسی کو نہیں کرنے دیا جائے گا۔ مگر حضرت عثمان ؓ نے ان کی پیش کش کو ٹھکرا دیا اور فرمایا کہ جب تک آنحضرت ﷺ کو اجازت نہ ملے میں اکیلا کس طرح طواف کرسکتا ہوں۔ جب کفار کسی بھی طرح آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ کو ادائیگی عمرہ کی اجازت دینے پر راضی نہ ہوئے تو بالآخر فریقین کے درمیان چند شرائط کے ساتھ ایک صلح طے پائی جو کہ صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور و معروف ہے۔ اور یہ شرائط صلح جو کہ حدیث و سیرت اور تاریخ وغیرہ کی کتابوں میں مذکور اور مشہور و معروف ہیں بطاہر یہ سب شرطیں مسلمانوں کے خلاف اور کفار کے حق میں تھیں۔ جس سے مسلمان بڑے شکستہ دل ہو رہے تھے۔ مگر پیغمبر کی نگاہیں جو کچھ دیکھ رہی تھیں وہ اور کسی کی نظر میں نہیں آسکتا تھا۔ آپ ﷺ نے انہیں شرائط پر صلح کو قبول فرما لیا اور قربانی کے جانوروں کو وہیں حدیبیہ میں ذبح کرکے واپس چلنے کا حکم فرما دیا کہ جو صحابہ کرام کے لئے بہت مشکل اور گراں بار معاملہ تھا۔ مگر بادل نخواستہ آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کو دیکھتے ہوئے وہ بھی اس کے لئے تیار ہوگئے اور قربانیاں وہیں کرکے اور عمرے کے احرام کھول کر سب واپس مدینہ منورہ کو چل دئیے واپسی کے موقع پر راستے میں یہ سورة کریمہ نازل ہوئی اور اس میں حدیبیہ کی اسی صلح کو فتح مبین۔ کھلی ہوئی فتح، قرار دیا گیا۔ تو اس پر حضرت عمر ؓ نے عرض کیا۔ " افتح ھو یا رسول اللّٰہ " " اللہ کے رسول کیا یہ فتح ہے ؟ " تو اس کے جواب میں آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا " والذی نفس محمد بیدہ انہ الفتح "۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہء قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے یقینا یہ ایک بڑی فتح ہے "۔ چناچہ تھوڑے ہی عرصہ بعد دنیا نے دیکھا اور اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ واقعۃٗ یہ ایک فتح بلکہ آئندہ کی تمام فتوحات کے لئے ایک دروازہ اور پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ جس پر تفصیلی بحث ہم انشاء اللہ اپنی مفصل تفسیر میں کریں گے۔ وباللہ التوفیق وھو المعین وبہ نستعین۔ سو اس پورے واقعہ سے اہل بدعت کے علم غیب کلی، اختار کلی اور حاضر و ناظر جیسے تمام خود ساختہ اور شرکیہ عقائد کی جڑ نکل جاتی ہے۔ کیونکہ پیغمبر اگر عالم غیب ہوتے اور " ماکان وما یکون " کا علم رکھتے ہوتے۔ جیسا کہ ان لوگوں کا کہنا ہے تو حضور ﷺ اپنے اس خواب مبارک کی بنا پر عمرے کا یہ سفر ہی اس سال نہ فرماتے۔ بلکہ اس وقت اور اس سال فرماتے جو قدرت کی طرف سے اس کیلئے مقرر تھا، اور اگر آپ ﷺ حاضر و ناظر ہوتے، یعنی ہر جگہ موجود ہوتے تو پھر آپ کیلئے سفر کرنے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کی کوئی نوبت ہی پیش نہ آتی۔ کیونکہ جو ہر جگہ حاضر و ناظر اور موجود ہوتا ہے اس کیلئے سفر کرنے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا کوئی معنی و مطلب ہی نہیں بنتا۔ اسی طرح اگر آپ ﷺ مختار کل ہوتے تو اتنا طویل اور پُر مشقت سفر کرنے کے بعد مکہ مکرمہ کے اس قدر قریب پہنچ کر اور حدیبیہ کے اس مقام سے عمرہ کئے بغیر واپس تشریف نے لے جاتے، جس سے آپ ﷺ کے صحابہء کرام کو سخت ناگواری کا سامنا کرنا پڑا، جیسا کہ اس قصے سے متعلق تفصیلات میں موجود ہے۔ بیشک اس سفر میں بڑی حکمتیں موجود تھیں، اور ہیں۔ جن کا پوری طرح سے احاطہ کرنا بھی حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کے سوا کسی کیلئے ممکن نہیں۔ مگر ان حکمتوں میں سے یہ بھی ہے کہ ایسے شرکیہ عقائد کی جڑ کٹ جائے کہ یہ عقل کے بھی خلاف ہیں اور نقل کے بھی۔ سو علم غیب کلی اللہ تعالیٰ ہی کا خاصہ ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور مختار کل ہونا اور ہر جگہ حاضر اور موجود ہونا بھی اسی وحدہٗ لاشریک کی شان ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اور صاف اور صریح طور فرمایا گیا { ھو الذی خلق السموٰت والارض فی ستۃ ایام ثم استوی علی العرش ط یعلم مایلج فی الارض وما یخرج منھا وما ینزل من السماء وما یعرج فیہا ط وھو معکم این ما کنتم ط واللّٰہ بما تعملون بصیر } [ الحدید : 4 پ 27] یعنی " وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی تم ہوگے "۔ سو اس وحدہٗ لاشریک کا علم اور اس کی قدرت سب پر حاوی و محیط ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔
Top