بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
آپ کو کھلم کھلا فتح دی
ترکیب : لیغفر اختلف الاقوال فی اللام۔ قال ابوالعباس المبردہی لام کے معناھا انا فتحنالک فتحًا مبینا لکی یجتمع لک مع المغفرۃ تمام النعمۃ فے الفتح۔ تفسیر : ابن جریر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ہجرت کے چھٹے سال نبی ﷺ عمرہ کرنے مکہ چلے اور مشرکوں نے بمقام حدیبیہ آپ کو روک دیا اور اس بات پر فیصلہ ٹھیرا کہ اگلے سال آپ عمرہ کریں اور آنحضرت ﷺ نے وہیں اپنی قربانی ذبح کردی۔ اس سے صحابہ ؓ کی ایک جماعت کو رنج تھا جن میں عمر بن الخطاب ؓ بھی تھے پھر جب قربانی کر کے مدینہ کو واپس چلے تب یہ سورة مدینہ میں نازل ہوئی جس میں ان شکستہ دل مسلمانوں کو مژدہ ہے کہ یہ صلح تمہارے لیے فتح و ظفر ہے۔ چناچہ بخاری نے براء ؓ سے نقل کیا ہے کہ اے لوگو ! تم مکہ فتح ہوجانے کو فتح سمجھتے ہو وہ بھی سہی۔ ہم تو یوم حدیبیہ میں بیعت الرضوان 2 ؎ کو فتح سمجھتے ہیں ہم چودہ سو آدمی حضرت ﷺ کے ساتھ تھے اور حدیبیہ جو ایک کنواں ہے اس میں جس قدر تھوڑا سا پانی تھا سب کھینچ لیا ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا۔ آنحضرت ﷺ نے کسی قدر پانی مانگا وضو کر کے کلی اس میں ڈال دی پھر اس میں اس قدر پانی ہوگیا کہ سب آدمیوں اور اونٹوں نے سیر ہو کر پیا۔ اور بھی صحیحین و سنن ابی دائود وجامع ترمذی وغیرہ کتابوں میں روایات صحیحہ ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سورة صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اگلی سورة میں فرمایا تھا ومن یبخل فانما عن نفسہ کہ تم جہاد میں خرچ کرنے سے کس لیے بخل کرتے ہو ہم نے تمہارے لیے ایک فتح مقرر کردی۔ جس میں اپنے خرچ کئے سے دگنا بلکہ دہ گنا پالوگے۔ اس لیے فرماتا ہے انافتحنالک فتحامبینا کہ اے محمد ﷺ ! ہم نے تیرے لیے فتح ظاہر کا حکم لگا دیا۔ فتح مبین میں علماء کے چند اقوال ہیں بعض کہتے ہیں فتح مکہ گو اس وقت تک نہ ہوئی تھی مگر یقینی چیز کو بلفظ ماضی تعبیر کرنا قرآن کا محاورہ ہے۔ بعض کہتے ہیں فتح روم وغیرہ جو اہل اسلام کو یکے بعد دیگرے اس سورة کے بعد سے ہونی شروع ہوئیں خیبر فتح ہوا اور علاقہ عرب کے زیر حکومت ہوئے یمن میں تسلط ہو ‘ اخراج بھی آئے۔ بعض کہتے ہیں براہین و حج اسلامیہ بعض کہتے ہیں 2 ؎ بیعت رضوان کا قصہ آگے آتا ہے حدیبیہ مکہ کے قریب ایک کنواں تھا بعض نے اس کو حل میں بعض نے حرم میں شمار کیا ہے اب ایک قریہ ہے مکہ سے ایک مرحلہ یا کم اس جگہ آنحضرت ﷺ نے ڈیرہ کیا مکہ تک لوگوں نے آنے نہ دیا یہیں صلح ہوئی اور دیگر باتیں کہ جن کا اس سورة میں ذکر آتا ہے یہیں واقع ہوئی ہیں۔ یہ اقوال باہم متعارض نہیں ہر ایک درست ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صلح حدیبیہ سے مسلمانوں کو ایک رنج تھا کہ کفار قریش نے مکہ کے قریب سے مسلمانوں کو اور حضرت ﷺ کو مکہ میں آنے نہ دیا اور اگلے سال پر ٹال دیا گویا مسلمان دب گئے آنحضرت ﷺ نے اس جگہ فروتنی کو اختیار کیا جنگ و جدل کرنا مناسب نہ جانا اس کے صلہ میں اللہ تعالیٰ نے فتوحات کے دروازے حضرت ﷺ پر اور آپ کے پیروئوں پر کھول دیے تھوڑے دن گزرے تھے کہ خیبر فتح ہوا۔ جس سے مدینہ کے مسلمانوں کا فقروفاقہ ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد مکہ فتح ہوا اور بہت سی فتوحات ظاہر ہوتی گئیں جن کی مفصل کیفیت کتب تواریخ میں موجود ہے اور اسلام کو جو یوماً فیوماً غلبہ ہوتا گیا۔ یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام پسند ہے اور آنحضرت ﷺ برگزیدہ بارگاہ ہیں کیونکہ جھوٹے ہوتے تو بموجب بشارت توریت سفر استثناء کے فروغ نہ پاتے۔ اس بات کو ان آیات میں ظاہر فرماتا ہے لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وما تاخرویتم نعمۃ علیک ویہدیک صراطا مستقیما وینصرک اللہ نصرًا عزیزًا گو فتح سبب مغفرت نہیں مگر دلیل مغفرت ہے یہاں خدا تعالیٰ نے چار باتیں فرمائیں (1) یہ کہ آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے۔ یہ مسلم ہے کہ حضرت نے عمر بھر کوئی گناہ نہیں کیا نہ چھوٹا نہ بڑا مگر پھر بھی بشر تھے وہ خواص بشر یہ جو کبھی ملکیت پر غالب آکر قدرے غفلات و جذبات پیدا کردیتے تھے آنحضرت ﷺ کے گناہ ہیں جن سے کوئی آدمی زاد پاک نہیں۔ ان کے واسطے مغفرت کا وعدہ حضرت ﷺ کی کوششوں کے بدلہ میں اس بات کا اعلان ہے کہ آپ شافع روز محشر ہیں اور نبی معصوم۔ بعض نصاریٰ نے معمولی گناہ سمجھ کر آنحضرت ﷺ پر گناہگاری کا الزام قائم کردیا اور اس پر طرح طرح کے برے نتائج پیدا کر لئے۔ (2) یہ کہ اپنی نعمت آپ کو پوری پوری عطا کرے کیونکہ نبوت کی نعمت تو آپ کو عطا ہوئی تھی مگر بغیر شوکت اسلام و شیوع دین پاک کے یہ نعمت پوری نہ ہوئی تھی سو پوری ہوگئی۔ (3) ویہدیک صراطا مستقیما اور ان کو سیدھا رستہ چلاوے کس لیے کہ سیدھے رستے پر چلنے میں جو لوگ حارج و مانع تھے جب ان پر آپ کو فتح نصیب ہوئی تو اب صراط مستقیم صاف ہوگیا۔ اور یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ لوگوں کو بتلا دے کہ تو سیدھے رستے پر ہے کس لیے کہ اگر یہ دین منشائِ الٰہی کے موافق نہ ہوتا تو دنیا میں اس قدر جلد رواج نہ پاتا۔ (4) یہ کہ اللہ آپ کو دشمنوں پر زبردست فتح دے گا نصرًا عزیزًا قال الزمخشری معناہ نصراذاعزکقولہ فی عیشۃ راضیۃ ای ذات رضا۔ اس کے بعد فتح و مدد کا سبب بیان فرماتا ہے کہ وہ کس طرح سے ہوگی فقال وھوالذی انزل السکینۃ فی قلوب المؤمنین لیزدادوا ایمانامع ایمانہم 1 ؎ کہ اس نے مسلمانوں کے دلوں میں اطمینان وقرار نازل کیا جس سے ان کا اور بھی ایمان قوی ہوگیا۔ حقیقت میں فتح و شکست کا باعث دل کی استقامت اور بےثباتی پر ہوتا ہے بہت سے لشکر جن کے دل ہل جاتے ہیں تھوڑے سے آدمیوں سے جو قوی دل اور ثابت قدم ہوتے ہیں شکست کھایا کرتے ہیں۔ قلت و کثرت ‘ سامان و اسلحہ حرب و ضرب بالائی باتیں ہیں۔ اللہ پاک نے اس ارشاد کے بموجب صحابہ ؓ کے دل میں وہ قوت اثبات پیدا کردیا تھا کہ قیصر و کسریٰ کی عظیم الشان سلطنتیں تھوڑے سے دنوں میں اکھیڑ کر پھینک دیں اور چھوٹے موٹوں کا کیا ذکر ہے۔ اور یہ کیوں کیا۔ وللہ جنود السموات والارض اللہ کی فوجیں آسمانوں میں بھی ہیں اور زمین میں بھی اگر وہ چاہتا تو آسمانی لشکر یعنی ملائکہ سے ان قدیمی گمراہوں سرکشوں متکبروں کو پامال کردیتا مگر اس نے زمین کے لشکر سے کام لیا۔ صحابہ ؓ کے دل میں قوۃ و اطمینان دے کر ان کو زمین میں خدائی لشکر کردیا پھر خدا کے لشکر سے کون مقابلہ کرسکتا تھا ؟ اور زمینی لشکر سے کیوں کام لیا وکان اللہ علیما حکیما اللہ علم والا ہے ہر ایک بات جانتا ہے اور حکمت والا بھی ہے اس کی حکمت بھی اسی کو معلوم ہے۔ منجملہ اس کے ایک یہ ہے کہ ان میں ان نیک بندوں کا بھی امتحان مقصود تھا کہ دیکھیں کیسے ثابت قدم رہتے ہیں۔ فائدہ : صحابہ ؓ کو گو حدیبیہ کے واقعہ سے پہلے ہی حضرت نبی ﷺ کے فرمانے سے اس بات پر ایمان تھا کہ ایک روز اسلام غالب ہوگا مگر اس واقعہ کے بعد جبکہ ان کے دل میں اطمینان و ثابت قدمی نازل کی اور بھی یقین 1 ؎ کامل ہوگیا۔
Top