بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-al-Kitaab - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
(اے پیغمبر، ) بلاشبہ ہم نے تم کو ایک کھلی (واضح) فتح عطا فرمائی
[1] 6 ھ میں رسول اللہ ﷺ کو ایک خواب کی بناء پر کعبہ کی زیارت وعمرہ کا خیال پیدا ہوا اور آپ ﷺ تقریباً 1400 احرام پوش صحابہ کرام کے ساتھ مکہ روانہ ہوگئے۔ مکہ سے تین میل شمال میں ایک مقام حدیبیہ ہے۔ ابھی یہ قافلہ وہیں پہنچا تھا کہ اہل مکہ کی طرف سے مزاحمت کی اطلاع ملی۔ آپ ﷺ نے آگے بڑھنے کی بجائے وہیں قیام فرمایا اور ایک قاصد کے ہاتھ اہل مکہ کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم لڑنے کے لئے نہیں بلکہ عمرہ ادا کرنے کے لئے آئے ہیں۔ جواب نہ آیا تو آپ ﷺ نے سیّدنا عثمان ؓ کو اپنا سفیر بنا کر بھیجا۔ ان کی واپسی میں بھی تاخیر ہوئی اور یہ خبر مشہور ہوگئی کہ سفیر رسول ﷺ شہید کر دئیے گئے ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر تمام صحابہ سے جہاد کی بیعت لی جو بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔ مشرکین مکہ نے یہ سن کر سیّدنا عثمان ؓ کو واپس بھیج دیا۔ مکہ کے چند سردار بھی آپ کی خدمت میں آئے اور گفتگو کے بعد ایک صلح نامہ مرتب ہوا جس کی اکثر دفعات سے بظاہر مسلمانوں کی سبکی ہوتی تھی۔ اس لئے بعض صحابہ کو بہت جوش بھی آگیا، رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اب یہیں قربانی کر کے سر منڈواؤ اور احرام کھول دو مگر کوئی اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ حکم دیا مگر صحابہ پر رنج و غم اور دلی شکستگی کا ایسا شدید غلبہ تھا کہ انہوں نے اپنی جگہ سے حرکت نہ کی۔ رسول اللہ ﷺ کو اس پر سخت صدمہ ہوا اور اپنے خیمہ میں جا کر ام المومنین ام سلمہ ؓ سے اپنی کبیدہ خاطری کا اظہار فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا بس خاموشی کے ساتھ تشریف لے جاکر خود اپنا اونٹ ذبح فرمائیں اور حجام کو بلا کر اپنا سر منڈوا لیں اس کے بعد لوگ خود بخود آپ کے عمل کی پیروی کریں گے اور سمجھ لینگے کہ جو فیصلہ ہوچکا ہے وہ اب بدلنے والا نہیں ہے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا آپ ﷺ کے فعل کو دیکھ کر لوگوں نے قربانیاں کرلیں، سر منڈوائے، بال ترشوائے اور احرام کھول دئیے۔ اور بالآخر مشرکین ہی کی شرائط پر صلح نامہ مرتب ہوا اور آپ ﷺ مع صحابہ کرام کے احرام اتار کر حدیبیہ سے ہی مدینہ واپس آگئے۔ اس ظاہری شکست کو فتح ہی سے نہیں بلکہ '' فتح مبین '' سے تعبیر کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا کام تھا۔ کوئی بندہ تو ایسی خلاف ظاہر پیش خبری کی جرأت کر نہیں سکتا تھا۔ مؤرخین متفق ہیں کہ فتح مکہ، فتح خیبر، بلکہ آئندہ کی ساری اسلامی فتوحات کا سنگ بنیاد یہی صلح حدیبیہ ہے۔ اس صلح کے بعد کافروں اور مسلمانوں کے باہم اختلاط اور بےتکلف ملنے جلنے کا موقع ہاتھ آیا۔ کفار مسلمانوں سے اسلام کی باتیں سنتے اور مسلمانوں کے طور طریقے دیکھتے تو خود بخود ایک کشش اسلام کی طرف ہوتی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صلح حدیبیہ سے فتح مکہ تک یعنی تقریباً دو سال کی مدت میں اتنی کثرت سے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے کہ کبھی اس قدر نہ ہوئے تھے۔ یہ جسموں کو نہیں دلوں کو فتح کرلینا اسی صلح حدیبیہ کی عظیم ترین برکت تھی۔
Top