بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Dure-Mansoor - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
بیشک ہم آپ کو کھلی ہوئی فتح دی
1:۔ احمد والبخاری الترمذی والنسائی وابن ماجہ وابن مردویہ (رح) نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے میں نے آپ سے ایک چیز کے بارے میں تین مرتبہ پوچھا آپ نے مجھے کوئی جواب نہ دیا میں نے تین مرتبہ اصرار کیا مگر آپ نے مجھے کوئی جواب نہ دیا۔ (یہ سوچ) کر میں نے اپنے اونٹ کو حرکت دی اور تمام لوگوں سے آگے نکل گیا اور میں ڈرا کہ میرے بارے میں کوئی قرآن نازل نہ ہوجائے میں نے دیر نہیں کی کہ ایک چیخنے والے نے مجھے چیخ کربلایا میں واپس آیا اور میں نے گمان کیا کہ میرے میں کوئی چیز نازل ہوگئی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مجھ پر آج رات ایک ایسی سورة نازل ہوئی ہے جو میرے نزدیک دنیا ومافیھا سے بہتر ہے۔ پھر آپ ﷺ نے (آیت ) ” انا فتحنا لک فتح مبینا (1) لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وما تاخر “ (بیشک ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی تاکہ آُ کی سب اگلی پچھلی فردوگزاشتیں معاف فرمادے) کی تلاوت فرمائی۔ 2:۔ ابن ابی شیبہ (رح) واحمد و ابوداؤد (رح) اور ابن المنذر (رح) والحاکم (رح) (وصححہ) وابن مردویہ والبیہقی (رح) نے دلائل میں مجمع بن جاریہ انصاری ؓ سے روایت کیا کہ ہم حدیبیہ میں حاضر تھے جب ہم وہاں سے ہٹے کراع الغمیم کی طرف واپس پھرے تو اچانک لوگ اونٹوں کو تیز دوڑانے لگے تو بعض لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا لوگوں کو کیا ہوا ؟ تو انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ پر کوئی وحی نازل ہوئی ہے تو ہم لوگوں کے ساتھ سواریوں کو تیز حرکت دیتے ہوئے چلے اچانک رسول اللہ ﷺ اپنی سواری پر کراع الغمیم پر تھے لوگ آپ کے اردگرد جمع ہوگئے آپ نے ان پر یہ (آیت ) ” انا فتحنا لک فتح مبینا “ پڑھی ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا یہ فتح ہے ؟ فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے بلاشبہ یہ فتح ہے پھر آپ نے اہل حدیبیہ پر خیبر کا مال تقسیم فرمایا اس میں ان کے سات کسی کو شریک نہیں فرمایا مگر جو حدیبیہ میں حاضر ہوا، رسول اللہ ﷺ نے اٹھارہ حصوں میں اس کو تقسیم فرمایا اور لشکر میں پندرہ سو آدمی تھے ان میں سے تین سو گھوڑ سوار تھے گھوڑ سوار کو دو حصے اور پیدل والے کو ایک حصہ عطا فرمایا۔ 3:۔ ابن ابی شیبہ (رح) واحمد (رح) والبخاری (رح) نے فی تاریخہ و ابوداؤد والنسائی وابن جریر (رح) والطبرانی وابن مردویہ والبیہقی (رح) نے دلائل میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حدیبیہ سے واپس آئے اس درمیان کہ ہم چل رہے تھے اچانک آپ پر وحی نازل ہوئی اور جب آپ کے پاس وحی آتی تھی تو آپ پہ بہت سخت ہوئی تھی جب یہ کیفیت جاتی رہی تو آپ اس کے ذریعہ خوش ہورہے تھے جتنا اللہ نے چاہا آپ نے ہم کو بتایا کہ آپ پر (یہ سورة ) نازل ہوئی (آیت ) ” انا فتحنا لک فتح مبینا “ 4:۔ ابن ابی شیبہ (رح) والبخاری وابن مردویہ (رح) والبیہقی (رح) نے انس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” انا فتحنا لک فتح مبینا “ سے صلح حدیبیہ مراد ہے۔ 5:۔ ابن ابی شیبہ وابن المنذر (رح) والحاکم وابن مردویہ (رح) نے انس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” انا فتحنا لک فتح مبینا “ سے خیبر کی فتح مراد ہے۔ اصل فتح بیت الرضوان ہے : 6:۔ البخاری وابن جریر (رح) وابن مردویہ نے براء ؓ سے روایت کیا کہ تم فتح مکہ کو فتح شمار کرتے ہو حالانکہ مکہ کی فتح بھی ایک فتح تھی اور ہم بیعۃ الرضوان کو فتح شمار کرتے ہیں حدیبیہ کے دن ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چودہ سو آدمی تھے، اور حدیبیہ ایک کنواں تھا ہم نے اس میں سے پانی کو کھینچا اور ہم نے اس میں ایک قطرہ بھی نہ چھوڑا یہ بات رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپ تشریف لائے اور اس کے منڈھیر پر بیٹھ گئے پھ آپ نے اک برتن پانی منگوایا وضو فرمایا پھر کلی فرمائی اور دعا کی پھر وہ پانی اس کنویں میں ڈال دیا ہم اس کو چھوڑ کر تھوڑی ہی دور گئے پھر اس کنویں نے ہماری اور ہماری سواریوں کی ضرورت کے مطابق پانی میہا کردیا۔ 7:۔ البیہقی (رح) نے عروہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ حدیبیہ سے واپس تشریف لائے تو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے ایک آدمی نے کہا اللہ کی قسم یہ فتح نہیں ہے ہم کو بیت اللہ سے روک دیا گیا اور ہماری قربانیوں کے جانوروں کو بھی روک دیا گیا۔ اور رسول اللہ ﷺ حدیبیہ میں ٹھہرے رہے اس نے اس طرح مسلمانوں میں سے دور نکلنے والوں کو واپس لوٹادیا۔ جنانچہ رسول اللہ ﷺ تک آپ کے ان اصحاب کی خبر پہنچ گئی کہ بلاشبہ یہ فتح نہیں ہے (یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ بری بات ہے یہ تو فتح عظیم ہے یقینی بات ہے کہ مشرکین اس پر راضی ہوئے ہیں کہ تمہارا دفاع اپنے شہروں سے نکل کر کریں اور وہ تم سے اس واقعہ کا سوال کریں اور وہ تمہارے واپس لوٹنے کو پسند کرتے ہیں اور انہوں نے تم سے کچھ چیزیں ناپسند کی ہیں اور یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر تم کو فتح دے دی ہے اور تم کو صحیح سلامت اجر پاتے ہوئے لشکروں کی صورت میں واپس لوٹادیا ہے اور یہ بڑی فتح ہے کیا تم احد کے دن کو بھول گئے جس وقت تم اوپر چڑھ جاتے تھے اور کسی جانب مڑکرنہ دیکھتے تھے اور میں تم کو تمہارے پیچھے سے پکار رہا تھا، اور تم احزاب کے دن کو بھول گئے جب وہ لشکر تمہاری اوپر کی جانب سے اور تمہارے نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے اور جب آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اور تم اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کررہے تھے (یہ سن کر) مسلمانوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا یہ بڑی فتح ہے اللہ کی قسم اے اللہ کے نبی آپ یقیناً اللہ تعالیٰ اور ہمارے متعلق سب کاموں کے بارے میں بہتر اور زیادہ جانتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے سورة فتح نازل فرمائی۔ 8:۔ سعید بن منصور (رح) وابن جریر (رح) وابنالمنذر (رح) اور امام بیہقی (رح) نے بعث میں ذکر کیا کہ (آیت ) ” انا فتحنا لک فتح مبینا “ (پوری سورة ) حدیبیہ کے بارے میں نازل ہوئی اور جو کچھ اس غزوہ میں حاصل ہوا وہ کسی غزوہ میں حاصل نہیں ہوتا۔ اور اس میں یہ خیر بھی پہنچی ہے جو بیت رضوان کی گئی وہ حدیبیہ کی فتح اور آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیئے گئے اور صحابہ ؓ نے بیعت رضوان میں آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کو خیبر کی کھجوریں کھلائی گئیں اور قربانی کے جانور اپنی قربانی کی جگہ کو پہنچ گئے اور رومی فارسی پر غالب آئے اور مؤمنین خو ش ہوئے اللہ کی کتاب کی تصدیق اور اہل کتاب کا مجوسیوں پر غلبہ پانے کی وجہ سے۔ 9:۔ البیہقی (رح) نے مسور اور مروان رحمہما اللہ سے روایت کیا کہ حدیبیہ کی فتح کے بارے میں ان دونوں نے کہا پھر رسول اللہ ﷺ واپس لوٹے جب مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے تو سورة فتح اس کے اول سے لیکر آخر تک نازل ہوئی۔ جب لوگ امن میں ہوں گئے تو ایک دوسرے کے ساتھ معاملات میں شریک ہونے لگے تو جس نے بھی اسلام کے بارے میں بات کی وہ اس میں داخل ہوگیا ان دوسالوں میں جتنے پہلے مسلمان تھے اس سے زیادہ اسلام میں داخل ہوئے اور یہ صلح حدیبیہ بڑی فتح تھی۔ 10:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) نے مجاہد (رح) سے (آیت ) ” انا فتحنا لک فتح مبینا “ ہم نے آپ کے لئے واضح فیصلہ فرمایا کے بارے میں روایت کیا کہ یہ سورت حدیبیہ کے سال اس قربانی کے بارے میں نازل ہوئی جو حدیبیہ کے مقام پر کی گئیں اور آپ ﷺ نے اپنے سرمبارک کا حلق کرایا۔ 11:۔ عبد بن حمید (رح) وعبد الرزاق (رح) وابن جریر (رح) نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” انا فتحنا لک فتح مبینا “ یعنی ہم نے آپ کے لئے واضح فیصلہ فرمادیا۔ 12:۔ عبد بن حمید (رح) نے عامر شعبی ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ سے حدیبیہ کے دن سوال کیا کیا یہ فتح ہے ؟ تو آپ نے یہ (آیت ) ” انا فتحنا لک فتح مبینا “ تلاوت فرمائی اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہاں یہ عظیم فتح ہے اور فرمایا دوہجرتوں کے درمیان بطور حد فاصل فتح حدیبیہ ہے (اور فرمایا) (آیت ) ” لا یستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل “ (تم میں سے برابر نہیں ہوسکتا جس نے فتح سے پہلے خرچ کیا اور کافروں سے لڑا) 13:۔ ابن مردویہ (رح) نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (آیت ) ” انا فتحنا لک فتح مبینا “ مکہ کی فتح مراد ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا خواب : 14:۔ ابن عساکر (رح) نے ابی خالد الواسطی کے طریق سے عن زید بن علی بن الحسین عن ابیہ عن جدہ حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہم کو صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھائی حالانکہ کبھی اندھیرا اور کبھی روشنی ہوتی تھی اور فرماتے تھے کہ ان دو وقتوں کے درمیان (فجر) کی نماز کا وقت ہے۔ تاکہ ایمان والے اختلاف نہ کرنے لگ جائیں۔ ایک دن آپ نے ہم کو اندھیرے میں نماز پڑھائی جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہوئے گویا کہ آپ کا چہر مبارک گوایا مصحف کا ایک ورق تھا آپ نے فرمایا کیا تم میں ایسا آدمی ہے جس نے آج رات کچھ دیکھا ہو، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ نہیں دیکھا پھر فرمایا لیکن میں دیکھا کہ آج رات دو فرشتے میرے پاس آئے۔ میرے دونوں بازؤں کو پکڑا۔ اور مجھے آسمان دنیا کی طرف لے گئے ہم ایک فرشتے کے پاس سے گزرے اور اس کے آگے ایک آدمی تھا اس کے ہاتھ میں بھاری پتھر تھا۔ وہ آدمی کی کھوپڑی کو مارتا تھا تو اس کا دماغ ایک طرف کو گرجاتا تھا اور وہ پتھر دوسری طرف کو گرجاتا تھا۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ دونوں فرشتوں نے مجھے کہا آگے چلئے میں آگے چلا اچانک میں ایک اور فرشتے کے پاس تھا اور اس کے آگے ایک آدمی تھا اور فرشتے کے ہاتھ میں لوہے کی سلاخیں تھیں جن کا سرمڑا ہوا تھا وہ اس کے دائیں جبڑے میں رکھتا تھا اور اس کے کان کی انتہا تک چیر دیتا تھا۔ پھر اسے بائیں جانب میں پکڑتا تھا۔ اتنے میں دائیں جانب جڑ جاتی تھی۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ دونوں فرشتوں نے کہا آگے چلئے۔ میں آگے چلا وہاں خون کی ایک نہر تھی اور وہ اس میں طرح جوش مار رہا تھا جیسے ہنڈیا ابلتی ہے۔ اس میں آیا ننگی قوم تھی نہ کے کنارے پر فرشتے تھے ان کے ہاتھوں میں مٹی کے ڈھیلے تھے جب کوئی اوپر آنے والا اوپر آتا تو وہ فرشتے مٹی کا ڈھیلا اس کو مارتے جو اس کے منہ میں داخل ہوجاتا پھر وہ اس نہر کے نیچے کی طرف جاگرتا میں نے پوچھا یہ کیا ہے۔ دونوں فرشتوں نے کہا آگے چلئے میں آگے چلا، تو وہاں ایک کمرہ تھا اس کا نچلا حصہ اس کے اوپر والے حصے سے تنگ تھا اس میں بھی ننگے بدن لوگ تھے ان کے نیچے سے آگ بھڑک رہی تھی میں نے ان کی بدبو سے اپنی ناک کو بند کرلیا میں نے پوچھا یہ کون ہے۔ دونوں نے کہا آگے چلئے تو میں آگے چلا اچانک میں ایک کالے ٹیلے پر تھا جس پر ایک مجنون قوم تھی کہ ان کے پچھلے حصے سے آگ نکل رہی تھی اور وہ آگ ان کے مونہوں سے اور ان کی ناک کے سوراخوں سے اور ان کے کانوں سے اور ان کی آنکھوں سے (وہ آگ) نکل رہی تھی۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے (دونوں نے کہا آگے چلئے) میں آگے چلا اور وہاں میں نے بڑی شدید آگ دیکھی جس پر فرشتہ مقرر تھا ان میں سے جو چیز باہر نکلی تھی یہاں وہ فرشتہ اس کے پیچھے لگ جاتا تھا اور اسے دوبارہ آگ میں لوٹا دیتا تھا میں نے پوچھا یہ کیا ہے۔ دونوں نے مجھے کہا آگے چلئے تو میں آگے چلا تو وہاں ایک باغ تھا اور اس میں اتنے خوبصورت بزرگ تھے اس سے (بڑھ کر) کوئی اور حسین و جمیل نہ تھا اس کے اردگرد بچے تھے اور وہاں ایک درخت تھا جس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے میں اس درخت پر چڑھا جتنا اللہ نے چاہا میں نے وہاں ایسے گھر دیکھے کہ ان سے زیادہ خوبصورت گھر نہیں تھے جو کھوکھلے زمرد اور سبز زبرجد اور سرخ یاقوت کے بنے ہوئے تھے میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ دونوں فرشتوں نے کہا آپ نیچے اتریئے تو میں نیچے اترا میں نے اس میں سے ایک برتن کی طرف ہاتھ بڑھایا میں نے اس کو بھر پھر اس کو پیا تو وہ شہد سے زیادہ میٹھا تھا اور دودھ سے زیادہ سفید تھا اور مکھن سے زیادہ نرم تھا پھر ان دونوں نے مجھے بتایا وہ پتھروں والا جو آپ نے دیکھا کہ وہ اس سے اس کی کھوپڑی کو مارتا ہے تو اس کا دماغ ایک طرف کو گرجاتا ہے اور پتھر بھی ایک طرف کو گرجاتا ہے یہ وہ لوگ تھے جو عشاء کی نماز کے وقت سوجاتے تھے اور تمام کو بےوقت میں پڑھتے تھے ان کو اس پتھر سے مارا جاتا رہے گا یہاں تک کہ وہ آگ کی طرف پہنچ جائیں اور لوہے کے سلاخوں والے پر آپ نے ایک مقرر کردہ فرشتے کو دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں لوہے کی سلاخیں ہیں وہ اس کے دائیں جبڑے تک چیر رہا تھا یہاں تک کہ اس کے کان تک پہنچ جاتا ہے پھر اس کو بائیں طرف میں پکڑتا ہے اتنے میں دائیں جانب جڑ جاتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان والوں کے درمیان چغلی کرتے تھے اور ان کے درمیان فساد برپا کرتے تھے اور وہ ان کو یہی عذاب دیا جاتا رہے گا یہاں تک کہ آگ کی طرف پہنچ جائیں گے اور وہ فرشتے جن کے ہاتھوں میں مٹی کے ڈھیلے تھے نہر میں سے جب کوئی باہر آنے کی کوشش کرتا اس پر وہ ڈھیلا مارتے وہ اس کے منہ میں جا پڑتا اور وہ اس نہر میں نیچے تک جا گرتا۔ یہ لوگ سود کھاتے تھے انکو بھی عذاب دیا جاتا رہے گا یہاں تک کہ آگ کی طرف جاپہنچیں گے اور وہ گھر جس کو آپ نے دیکھا کہ اس کے نیچے کا حصہ تنگ ہے اس کے اوپر کے حصہ سے اس میں ایک ننگی قوم ہے انکے نیچے آگ جلائی گئی ہے۔ آپ نے ان کی بدبو کی وجہ سے ناک کو ڈھانک لیا تھا یہ زنا کار لوگ ہیں اور یہ بدبوان کی شرم گاہوں کی ہے۔ یہ عذاب ان کو دیا جاتا رہے گا یہاں تک کہ آگ کی طرف پہنچائے جائیں گے اور وہ کالا ٹیلہ جس پر آپ نے مجنون قوم کو دیکھا تھا۔ کہ ان کے پچھلے حصہ میں آگ پھونکی جارہی تھی اور وہ آگ ان کے مونہوں سے انکی ناک کے سوراخوں سے ان کی آنکھوں سے اور ان کے کانوں سے نکل رہی ہے۔ یہ لوگ قوم لوط والا عمل کرتے تھے فاعل اور مفعول بن کر ان کو عذاب دیا جاتا رہے گا یہاں تک کہ آگ کی طرف پہنچائے جائیں گے وہ شدید آگ جس پر آپ نے ایک فرشتے کو اس پر مقرر کیا ہوا دیکھا جب اس میں کوئی چیز باہر نکلتی ہے تو وہ اس کے پیچھے لگ جاتا ہے یہاں تک کہ اس کو اس آگ میں لوٹا دیتا ہے یہ جہنم ہے جو جنت والوں اور جہنم والوں کے درمیان فرق کرتی ہے لیکن وہ باغ جو آپ نے دیکھا وہ جنت الماوی ہے اور شیخ جس کو آپ نے دیکھا اور اس کے اردگرد بچے تھے وہ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے بیٹے تھے اور وہ درخت جس کو آپ نے دیکھا آپ اس پر چڑھے اس میں ایسے گھر تھے کہ ان سے زیادہ خوبصورت گھر نہیں جو کھوکھلے زمرد اور سبززہر جد اور سرخ یاقوت کے تھے یہ علیین والے انبیاء صدیقین شہداء اور صالحین اور (آیت ) ” حسن اولئیک رفیقا “ کے محلات تھے اور وہ نہر جو آپ نے دیکھی آپ کی نہر ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو کوثر کی نہر عطا فرمائی اور یہ گھر آپ کے اور آپ کے گھروالوں کے ہیں، پھر فرمایا مجھے اوپر سے آواز دی گئی اے محمد ﷺ سوال کیجئے آپ کو دیا جائے گا میں بہت گھبرایا میرے شانے کانپنے لگا اور میرا دل بےقرار اور میرا ہر عضو ہلنے لگا اور میں نے جواب دینے کی طاقت نہ رکھی پھر دو فرشتوں میں سے ایک نے اپنے داہنے ہاتھ کو اٹھایا اور اس کو میرے ہاتھ پر رکھ اور دوسرے نے اپنے داہنے ہاتھ کو میرے کندھوں کے درمیان رکھا تو اس نے مجھے سکون پہنچایا اور اضطراب جاتا رہا پھر میرے اوپر سے آواز دی گئی اے محمد ﷺ سوال کیجئے آپ کو دیا جائے گا میں نے کہا اے اللہ ! میری شفاعت کو ثابت کردیجئے اور میرے ساتھ میرے گھر والوں کو ملادیجئے اور میں آپ سے اس حال میں ملاقات کروں کے مجھ پر کوئی گناہ نہ ہو پھر مجھے واپس لایا گیا اور مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت ) ” انا فتحنا لک فتح مبینا (1) لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وما تاخر ویتم نعمتہ علیک ویھدیک صراط مستقیما (2) “ (بےشک ہم نے آپ کو کھلم کھلا فتح عطا فرمائی کہ اللہ آپ کی سب اگلی پچھلی فروگزاشتیں معاف فرمادے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جیسے مجھے یہ (فتح) عطا کی گئی اسی طرح انشاء اللہ ان سب چیزوں کو بھی دیاجاؤں گا۔ 15:۔ السلفی نے الطیوریات میں یزید بن ہارون (رح) سے روایت کیا کہ میں نے مسعودی کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ جو رمضان کی پہلی رات میں (آیت ) ” انا فتحنا لک فتح مبینا “ پڑھے نفل نماز میں تو اس سال اس کی حفاظت کی جائے گی۔
Top