بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
اے پیغمبر ! بیشک ہم نے آپ کو ایک کھلی ہوئی فتح عطا فرمائی
اِنَّا فَتَحْنَالَـکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا۔ (الفتح : 1) (اے پیغمبر ! بیشک ہم نے آپ کو ایک کھلی ہوئی فتح عطا فرمائی۔ ) فتح مبین سے مراد معاہدہ حدیبیہ ہے اور اس معاہدے کی تفصیل نبی کریم ﷺ اور آپ کے ساتھ صحابہ کرام صلح حدیبیہ کے بعد جب مدینہ منور واپس جارہے تھے تو سجنان یا کراع الغمیم کے مقام پر یہ سورة نازل ہوئی۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس میں جس فتح مبین کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ معاہدہ حدیبیہ کے سوا اور کوئی نہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مسلمان جب معاہدہ ٔ حدیبیہ سے واپس لوٹے ہیں تو ان کے دل رنج و غم سے معمور تھے اور وہ اس معاہدے کو مسلمانوں کی شکست سمجھ رہے تھے۔ چناچہ جب اس سورة کی پہلی ہی آیت میں اس معاہدے کو فتحِ مبین قرار دیا گیا تو آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ آج مجھ پر وہ چیز نازل ہوئی ہے جو میرے لیے دنیا ومافیہا سے زیادہ قیمتی ہے۔ پھر یہ سورة آپ نے تلاوت فرمائی۔ حضرت عمر ( رض) نے جب یہ آیت سنی تو حیران ہو کر کہا کہ یارسول اللہ ! کیا یہ فتح ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا، ہاں۔ ایک اور صحابی حاضر ہوئے اور انھوں نے بھی یہی سوال کیا، تو آپ نے فرمایا، ای والذی نفس محمد بیدہ انہ لفتح ” قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، یقینا یہ فتح ہے۔ “ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں پر اس وقت تک معاہدہ ٔ حدیبیہ کے وہ پہلو آشکارا نہ ہوسکے تھے جس سے اس کے فتح ہونے کا گمان ہوتا۔ بلکہ مسلمان اس معاہدے کو ایک طرح سے مسلمانوں کی شکست کی دستاویز سمجھتے تھے کیونکہ بظاہر اس کی بعض دفعات میں یکطرفہ بات کہی گئی تھی جو مسلمانوں کے لیے سراسر نقصان کا باعث تھی۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس معاہدہ کی نقل بھی قارئین کی خدمت میں پیش کردیں۔ اس کی مندرجہ ذیل دفعات تھیں۔ 1 دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بند رہے گی اور ایک دوسرے کیخلاف خفیہ یا علانیہ کوئی کارروائی نہ کی جائے گی۔ 2 اس دوران قریش کا کوئی شخص اپنی ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر نبی کریم ﷺ کے پاس جائے گا، تو اسے آپ واپس کردیں گے۔ اور آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی شخص قریش کے پاس چلا جائے گا تو اسے وہ واپس نہ کریں گے۔ 3 قبائلِ عرب میں سے جو قبیلہ بھی فریقین میں سے کسی ایک کا حلیف بن کر اس معاہدے میں شامل ہونا چاہے گا اسے اس کا اختیار ہوگا۔ 4 محمد ﷺ اس سال واپس جائیں اور آئندہ سال وہ عمرے کے لیے آکر تین دن مکہ میں ٹھہر سکتے ہیں بشرطیکہ پر تلوں میں صرف ایک ایک تلوار لے کر آئیں اور کوئی سامانِ حرب ساتھ نہ لائیں۔ ان تین دنوں میں اہل مکہ ان کے لیے شہر خالی کردیں گے مگر واپس جاتے ہوئے وہ یہاں کے کسی شخص کو اپنے ساتھ لے جانے کے مجاز نہ ہوں گے۔ اس معاہدے میں سب سے زیادہ دو باتیں مسلمانوں کو کھل رہی تھیں۔ ایک شرط نمبر 2 اور دوسرا شرط نمبر 4۔ کیونکہ شرط نمبر 2 سراسر یکطرفہ تھی۔ اور شرط نمبر 4 مسلمانوں کے لیے نہایت ندامت کا باعث تھی۔ کیونکہ عمرہ کے بغیر واپس جانا اور احرام کھولنا ایک طرح کی جگ ہنسائی بھی تھی اور ناکامی بھی۔ لیکن سب سے بڑی بات یہ تھی کہ مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات بری طرح کھٹک رہی تھی کہ آنحضرت ﷺ نے تو خواب میں دیکھا تھا کہ ہم مکہ میں طواف کررہے ہیں، مگر یہاں تو ہم طواف کیے بغیر واپس جانے کی شرط مان رہے ہیں۔ اور شرط نمبر 2 کے معاملے کو ایک واقعہ نے جذباتی شکل دے دی۔ وہ یہ کہ سہیل بن عمرو کے اپنے صاحبزادے ابوجندل جو مسلمان ہوچکے تھے اور کفارِمکہ نے ان کو قید کر رکھا تھا کسی نہ کسی طرح بھاگ کر حضور ﷺ کے کیمپ میں پہنچ گئے۔ ان کے پائوں میں بیڑیاں تھیں اور جسم پر تشدد کے نشانات۔ انھوں نے حضور ﷺ سے فریاد کی کہ مجھے اس حبس بیجا سے نجات دلائی جائے۔ صحابہ کرام کے لیے یہ حالت دیکھ کر صبر کرنا مشکل ہوگیا۔ مگر سہیل بن عمرو نے کہا کہ صلح نامہ کی تحریر چاہے مکمل نہ ہوئی ہو، شرائط تو طے ہوچکی ہیں، اس لیے اس لڑکے کو میرے حوالے کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے بجھے ہوئے دل کے ساتھ اس کی حجت تسلیم کرلی اور ابوجندل ظالموں کے حوالے کردیئے گئے۔ یہ حالات تھے جن کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے اس معاہدے کو فتح قرار دینا مشکل ہورہا تھا۔ لیکن اس سورة کے نزول کے بعد اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات سے ان پر اس معاہدے کے مضمرات واضح ہونے لگے۔ اور پھر حالات نے یہ ثابت کردیا کہ واقعی اصل فتح کا مقدمہ یہی معاہدہ ہے۔ اور اسی نے آگے چل کر مکہ کو سرنگوں ہونے اور پورے عرب کو اسلام کے زیرنگیں آنے کے حالات تیار کیے۔ اگر اس معاہدے پر غور کیا جائے تو بعض باتیں بالکل واضح ہیں۔ 1 اس میں پہلی مرتبہ قریش نے اسلامی ریاست کا وجود تسلیم کیا۔ اور بیت اللہ پر مسلمانوں کے حق کو مانا۔ اب تک عربوں کی نگاہ میں نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کی حیثیت بھگوڑوں سے زیادہ نہ تھی۔ لیکن اب انھیں تسلیم کرنا پڑا کہ وہ ایک اسلامی ریاست سے معاہدہ کررہے ہیں اور مسلمانوں کا دین دوسرے ادیان جیسی حیثیت رکھتا ہے، وہ کوئی بےدینی نہیں اور اس دین کے ماننے والوں کا اللہ تعالیٰ کے گھر پر وہی حق ہے جو دوسروں کا ہے۔ 2 اس معاہدے سے قریش نے مسلمانوں کو اپنے برابر کی ایک حریف قوت عرب میں تسلیم کرلیا۔ اسی لیے انھوں نے تمام قبائل کو اس بات کا حق دے دیا کہ وہ جس سے چاہیں حلیفانہ تعلقات قائم کرلیں۔ 3 قریش نے مسلمانوں کی جنگی صلاحیت کو اس حد تک تسلیم کیا کہ خود اصرار کرکے معاہدے میں دس سال کے لیے جنگ بندی کی شرط رکھوائی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف قبائل نے مسلمانوں سے حلیفانہ معاہدے کیے اور تمام قبائل میں مسلمانوں کے لیے آنے جانے کا راستہ کھل گیا۔ اس سے پہلے عرب صرف اسلام کے نام سے واقف تھے۔ وہ اسے اپنے دین کے خلاف ایک بغاوت کی حیثیت سے دیکھتے تھے۔ لیکن اب جب مسلمانوں کو موقع ملا کہ وہ اسلام کی صحیح تصویر انھیں دکھائیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ انیس سال میں آنحضرت ﷺ کے رفقاء کی تعداد حدیبیہ کے موقع پر چودہ سو تھی۔ لیکن دو ہی سال بعد اس حد تک پہنچ گئی کہ جب مسلمان فتح مکہ کے لیے نکلے تو آپ ﷺ کی رکاب میں دس ہزار کا لشکر تھا اور ان میں ساڑھے آٹھ ہزار دو سال میں مسلمانوں کی تبلیغ و دعوت کا نتیجہ تھا۔ 4 آنحضرت ﷺ کا قریش سے جنگ کرنے کی بجائے دب کا معاہدہ کرلینا ایک طرح کی کمزوری پر دلالت کرتا تھا۔ لیکن اس سورة سے معلوم ہوا کہ یہ کمزوری نہیں تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا۔ کیونکہ پروردگار جانتا تھا کہ مکہ میں بہت سے ظاہر اور مخفی مسلمان تھے جو وہاں سے ابھی ہجرت نہیں کرسکے تھے۔ اندیشہ تھا کہ جنگ کی صورت میں ان کو خود مسلمانوں کے ہاتھوں نقصان پہنچ جائے گا۔ 5 وہ دفعہ جو مسلمانوں کو بہت کھل رہی تھی کہ اگر کوئی شخص مکہ سے مسلمان ہو کر مدینہ طیبہ آجائے تو ہم اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے، اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا فرمائے کہ قریش خود آنحضرت ﷺ سے درخواست کرنے پر مجبور ہوئے کہ ہم اس دفعہ کو واپس لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ابوبصیر ایمان لانے کے بعد مدینہ طیبہ پہنچے۔ قریش نے دو آدمی ان کو واپس لانے کے لیے بھیج دیئے۔ آنحضرت ﷺ نے معاہدہ کی پابندی کرتے ہوئے ابوبصیر کو ان کے ساتھ جانے کا حکم دیا اور ساتھ ہی یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کوئی راستہ نکالے گا۔ وہ مکہ جاتے ہوئے راستے میں ان کی گرفت سے بچ نکلے اور ساحل بحراحمر کے اس راستے پر جا بیٹھے جس سے قریش کے تجارتی قافلے گزرتے تھے۔ اس کے بعد جس مسلمان کو بھی قریش کی قید سے بھاگ نکلنے کا موقع ملتا وہ ابوبصیر کے ٹھکانے پر پہنچ جاتا۔ یہاں تک کہ ان کے پاس ستر آدمی جمع ہوگئے اور انھوں نے قریش کے قافلوں پر چھاپے مار مار کر ان کا ناطقہ تنگ کردیا۔ مجبوراً قریش کو آنحضرت ﷺ سے اس شق کو ختم کرنے کی درخواست کرنا پڑی۔ 6 آنحضرت ﷺ کو قریش کی طرف سے کسی حد تک اطمینان ہونے کے بعد موقع ملا کہ وہ اپنے مقبوضات میں اسلامی حکومت کو اچھی طرح مستحکم کرلیں۔ چناچہ آپ نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شمال عرب اور وسط عرب کی تمام مخالف قوتوں کو یکے بعد دیگرے مسخر کرلیا۔ یہودی جو ایک بہت بڑا فتنہ تھے ان کے تمام مراکز پر فوج کشی کی اور انھیں زیرنگیں کرلیا۔ اور وسط عرب کے تمام قبیلے جو یہود اور قریش کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھتے تھے ایک ایک کرکے تابع فرمان ہوگئے۔ اور مملکت کے اندر اسلامی قانون کے اجرا سے اسلامی تہذیب اور تمدن کو برپا کرنے کا موقع ملا۔ اور یہی درحقیقت وہ مقصد تھا جس کے لیے آنحضرت ﷺ تشریف لائے تھے۔ اور یہی وہ فتحِ مبین ہے جس کا اس سورة میں ذکر فرمایا گیا ہے۔
Top