بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
اے محمد ﷺ ہم نے آپ کو فتح دی ایک واضح فتح
بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ تشریح : یہ آیات بھی اللہ کی شان نبی ﷺ کی استقامت اور مسلمانوں کی فرمانبرداری اتحاد یقین اور تنظیم کی بہترین مثال پیش کرتی ہیں۔ وہ اس طرح کہ صلح حدیبیہ بظاہر مسلمانوں کے دب کر رہتے ہوئے معاہدہ کرنے کی صورت پیش کرتی ہے مگر درحقیقت حالات اس صورت سے پیش آئے کہ وہی دبنا اور کفار کے کہنے کے مطابق مان لینا، مسلمانوں کے لیے آئندہ کامیابی و کامرانی کا بہت بڑا ذریعہ بنے مثلاً ۔ 1 ۔ اہل مکہ نے مسلمانوں کی آزاد خود مختار قوم ہونے کا اقرار کیا۔ 2 ۔ کفار نے جب مسلمانوں کا جوش و جذبہ دیکھا تو ڈر گئے اور خود جنگ نہ کرنے اور صلح کرنے پر راضی ہوگئے۔ 3 ۔ مکہ مدینہ کے بند راستے کھل گئے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کے راستے کھل گئے جس کا ثبوت یہ ہے کہ طویل عرصہ میں 1400 مسلمان ہوئے جب کہ اس معاہدہ کے بعد صرف 2 سال میں دس ہزار ہوگئے۔ عام بدو قبائل بھی اس آزادی سے ملنے جلنے کی وجہ سے دھڑا دھڑ مسلمان ہونے لگے۔ 4 ۔ مسلمانوں کو امن سکون سے اشاعت دین کا موقعہ مل گیا۔ غرض یہ معاہدہ مسلمانوں کے حق میں جس قدر کمزور لگتا تھا یہ اتناہی زیادہ مسلمانوں کے حق میں سود مند اور بہترین ثابت ہوا۔ یہی مصلحت تھی جو اللہ کو معلوم تھی نبی ﷺ کو یقین تھا مگر عام مسلمانوں کو معلوم نہ تھی۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ سیدناعمر ؓ بھی اس معاہدہ کی گہرائی سے واقف نہ تھے تو جب انہوں نے اپنی پریشانی کا اظہار رسول کریم ﷺ سے کیا تو انہوں نے جواب میں یوں کہا۔ ” میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اور اس کا رسول ہوں میں اس کے حکم کی ہرگز مخالفت نہیں کروں گا اور وہ مجھے ہرگز ضائع نہیں ہونے دے گا ”۔ یہ خوشخبری پوری ہوگئی وہ اس طرح کہ آپ کو مسلسل کامیابیاں حاصل ہوئیں دین مکمل ہوگیا اور اسلام کی عظمت دنیا کے کونے کونے میں دکھائی دینے لگی۔ اور اسلام کے غلبہ سے دنیا واقف ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ ﷺ کو آخری نبی ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ یہی وہ تمام نعمتیں ہیں جن کا ذکر اللہ نے کیا ہے۔ اور پھر اگلے پچھلے گناہوں کی معافی کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آپ ﷺ تو معصوم ہیں آپ ﷺ سے گناہوں کا ہونا نہ پہلے ممکن تھا، اور نہ اب بعد میں امکان ہوسکتا ہے۔ تو یہاں ذنب کا لفظ الزام کے معنی میں آیا ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے کہا جب اللہ نے ان کو فرعون کے پاس دعوت توحید کے لیے جانے کو کہا۔ آپ (علیہ السلام) نے جواب میں کہا۔ ” انہوں نے مجھ پر الزام قتل لگا رکھا ہے پس مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے قتل کردیں گے ”۔ یہاں ذنب کا معنی الزام کیا گیا ہے۔ اس آیت میں ان تمام الزامات سے آپ ﷺ کو نجات کی خوشخبری دی گئی ہے جو ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد آپ ﷺ پر کفار نے لگائے تھے۔ جو اس طرح بتائے جا رہے ہیں۔ ہجرت سے پہلے اعلان نبوت کے بعد کفار مکہ آپ ﷺ کو شاعر، مجنوں، جادوگر، کاہن اور یہودیوں کے علماء سے علم حاصل کر کے لوگوں کو بیوقوف بنانے والا کہتے تھے۔ اور ہجرت کے بعد یوں کہتے تھے۔ مکہ کو برباد کرنے والا خاندانوں کو منتشر کرنے والا اور شرو فساد پھیلانے والاملک کو غیر منظم اور راستوں کو غیر محفوظ کرنے والا وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام الزامات صلح حدیبیہ کے بعد بالکل ختم ہوگئے کیونکہ پہلے تو مسلمان مدینہ میں محصور ہو کر رہ گئے تھے مگر اب وہ آزادی سے گھوم پھر کر مل جل کر اپنا دین اور دین کی خوبیاں لوگوں کو بتانے کے قابل ہوگئے تھے اور یہ مسلمانوں کی کامیابی اور فتح کی بہت بڑی نشانی اور واضح دلیل تھی۔ یہی وہ تمام نعمتیں ہیں جن کا ذکر اللہ نے آیت نمبر 2 میں کیا ہے۔ اور پھر تبلیغ و اشاعت میں اپنی خاص مدد کا ذکر بھی فرمایا ہے کہ زندگی کے کسی بھی مشکل مرحلے میں آپ خود کو تنہا نہ سمجھیں ہماری مدد آپ کے شامل حال ہمیشہ رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی یہ بھی آپ ﷺ کے لیے بہت بڑی نعمت اور برکت ہے۔ پھر سکینہ کا ذکر کیا گیا یہ وہ اطمینان سکون صبر اور نظم و ضبط ہے جو اس قافلے کے ہر فرد کے دل میں اللہ نے ڈال دیا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان کی شان اور کامیابی صرف اسی میں ہے کہ اللہ و رسول ﷺ کا سچا فرمانبردار، مخلص، نیک نیت، عزم کا پکا اللہ پر پورا بھروسہ کرنے والا ہو۔ اور یہ تمام باتیں کامیابی اور ایمان کی مزید پختگی کا باعث ہوتی ہیں۔ اور پھر یہی ایمان کی مضبوطی دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات کا باعث بنتی ہے۔ یہ دنیا یہاں کی زندگی اور کفر و ایمان کی جنگ یہی تو انسان کے لیے ایمان کی پختگی کو جانچنے کی کسوٹی ہیں۔ ورنہ اللہ قادر مطلق زمین و آسمان کا مالک اور بیشمار مخلوقات کا مالک وہ جو چاہے کر دے اس کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں کہ بدی کو سرے سے ختم ہی کردے اور ہر طرف نیکی ہی نیکی دکھائی دے مگر اللہ کی حکمت ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو نیکی اور برائی کا اختیار دیا ہے۔ یہی وہ امتحان ہے جس میں سے یہ قافلہ گزرا جو 6 ہجری کو معاہدہ حدیبیہ کے امتحان سے گزرا۔ اگر اس وقت مسلمان ذرا برابر بھی ڈر جاتے فرمان رسول ﷺ کو نہ مانتے اور اللہ پر یقین نہ رکھتے تو بد دلی خوف و ہراس مایوسی اور اشتعال انگیزی کی لپیٹ میں آ کر وہ ان تمام نعمتوں اور برکتوں سے بالکل محروم ہو کر رہ جاتے جن کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے۔ یہ تمام مضامین اللہ کی حکمت دانائی اختیارات کا ثبوت ہیں اور اسی لیے تو کہتے ہیں۔” اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور دانا ہے۔ (آیت 4) ہم اللہ کی خاص مہربانی سے ایمان کی دولت سے مالامال ہیں ہمیں اس دولت میں اضافہ کرنے کے لیے اللہ کی محبت اور رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔” اور ایمان والے اللہ سے شدید محبت رکھتے ہیں ”۔ ایک اور جگہ فرمایا۔ ” ایمان والوں کے لیے اللہ کے رسول ﷺ ان کی اپنی جانوں سے بھی مقدم ہیں۔ (الاحزاب 6)
Top