بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Madarik-ut-Tanzil - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
(اے محمد) ﷺ ہم نے تم کو فتح دی فتح بھی صریح و صاف
فتح مبین کی خوشخبری : آیت 1 : اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا الفتح۔ کسی شہر پر زبردستی کامیابی نمبر 2۔ لڑائی کے ساتھ صلح۔ نمبر 3۔ صلح بغیر لڑائی کیونکہ وہ بند ہوتی ہے جب تک کامیابی نہ پائی جائے جب کامیابی پالی تو گویا اس نے اس کو کھول لیا۔ پھر ایک قول یہ ہے : کہ اس سے مراد فتح مکہ ہے۔ : یہ سورت اس وقت اتری جب رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ سے حدیبیہ والے سال مدینہ منورہ کی طرف لوٹ رہے تھے۔ آپ سے فتح کا وعدہ کیا گیا اور اس میں لفظ ماضی کا لایا گیا کیونکہ وہ اپنے یقینی وقوع میں ہوچکی ہوئی بات کی طرح تھی۔ اس سے خبر دینے والے کی عظمت و شان ٹپک رہی ہے۔ کہ زمانہ کی لگام کے قبضہ قدرت میں ٹھیک اسی طرح ہے جیسا ماضی کی زنجیر اس کے ہاتھ میں ہے۔ ایک قول : اس سے فتح حدیبیہ مراد ہے۔ اس میں شدید لڑائی تو پیش نہ آئی البتہ باہمی تھوڑا بہت تیروں اور پتھروں کا تبادلہ ضرور ہوا۔ مسلمانوں نے تیر اندازی سے کفار کو واپس گھروں کی طرف لوٹا دیا۔ کفار نے صلح کا مطالبہ پیش کیا۔ پس یہ کھلی فتح تھی۔ قولِ زجاج (رح) : حدیبیہ کے موقعہ پر ایک عظیم معجزہ ظاہر ہوا۔ حدیبیہ کے کنوئیں کا تمام پانی ختم ہوگیا۔ ایک قطرہ تک باقی نہ رہا۔ آپ ﷺ نے کلی کر کے اس کو کنوئیں میں ڈال دیا۔ پانی کے سوتے پھوٹ پڑے اور تمام لشکر سیراب ہوگیا۔ ایک قول : اس سے فتح خیبر مراد ہے۔ ایک اور قول ہے : کہ فتح کا لفظ الفتاحۃ سے لیا گیا جس کا معنی فیصلہ کرنا ہے۔ اب آیت کا مطلب یہ ہوگا۔ ہم نے آپ کے لئے اہل مکہ کے خلاف واضح فیصلہ دیا۔ کہ تم اور تمہارے اصحاب مکہ میں آئندہ سال داخل ہو تاکہ تم بیت اللہ کا طواف کرو۔
Top