بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mazhar-ul-Quran - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
بیشک1 (اے محبوب) ہم نے تمہارے لیے ظاہر فتح فرمائی۔
حدیبیہ کی لڑائی۔ (ف 1) شان نزول :” انا فتحنا “ حدیبیہ سے واپس ہوتے ہوئے حضور ﷺ پر نازل ہوئی حضور اس کے نازل ہونے سے بہت خوشی ہوئی اور صحابہ نے حضور کو مبارک بادیں دیں۔ بخاری ومسلم۔ حدیبیہ ایک کنواں ہے مکہ کے نزدیک ، مختصر واقعہ یہ ہے کہ نبی حضور ﷺ نے خواب دیکھا کہ حضور حضور ﷺ اپنے مع اصحاب کے امن کے ساتھ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے کوئی حلق کیے، کوئی قصر کیے اور کعبہ میں داخل ہوئے کعبہ کی کنجی لی اور طواف فرمایا عمرہ کیا، اصحاب کو اس خواب کی خبردی سب خوش ہوئے ، پھر حضور ﷺ نے عمرہ کا قصد فرمایا اور ایک ہزار چارسو اصحاب کے ساتھ یکم ذی قعدہ چھ ہجری کو روانہ ہوئے ، ذوالحلیفہ پہنچ کر وہاں مسجد میں دورکعتیں پڑھ کر عمرہ کا احرام باندھا اور حضور کے ساتھ اکثر اصحاب نے بھی، بعض اصحاب نے حجفہ سے احرام باندھا اور راہ میں پانی ختم ہوگیا اصحاب نے عرض کیا کہ پانی لشکر میں بالکل باقی نہیں ہے سوائے حضور حضور ﷺ کے آفتابہ کے اس میں تھوڑا سا ہے حضور حضور ﷺ نے آفتابہ میں دست مبارک ڈالا تو انگشت ہائے مبارک سے چشمے جوش مارنے لگے تمام لشکر نے پیا وضو کیا جب مقام عسفان میں پہنچتے تو خبرآئی کہ کفار قریش بڑے سروسامان کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہیں جب حدیبیہ پر پہنچے تو اس کا پانی ختم ہوگیا ایک قطرہ نہ رہا، گرمی بہت شدید تھی ۔ حضور سید عالم نے کنوئیں میں کلی فرمائی اس کی برکت سے کنواں پانی سے بھرگیا سب نے پیا اونٹوں کو پلایا، یہاں کفار قریش کی طرف سے حال معلوم کرنے کے لیے کئی شخص بھیجے گئے سب نے جاکریہی بیان کیا کہ حضور عمرہ کے لیے تشریف لائے ہیں جنگ کا ارادہ نہیں ہے لیکن انہیں یقین نہیں ایا آخرکار انہوں نے عروہ بن مسعود ثقفی کو جو طائف کے بڑے سردار اور عرب کے نہایت متمول شخص تھے تحقیق حال کے لیے بھیجا۔ انہوں نے آکر دیکھا کہ حضور دست مبارک دھوتے ہیں تو صحابہ تبرک کے لیے غسالہ شریف حاصل کرنے کے لیے ٹوٹے پڑتے ہیں اگر کبھی تھوکتے ہیں تو لوگ اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جس کو وہ حاصل ہوجاتا ہے وہ اپنے چہرہ اور بدن پر برکت کے لیے ملتا ہے۔ کوئی بال جسم اقدس کا گرنے نہیں دیتے، اگر احیانا جدا ہو تو صحابہ اس کو بہت ادب کے ساتھ لیتے اور جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ جب حضور کلام فرماتے ہیں تو سب ساکت ہوجاتے ہیں حضور حضور ﷺ کے ادب وتعظیم سے کوئی شخص نظر اوپر کو نہیں اٹھاسکتا، عروہ نے قریش سے جاکریہ سب حال بیان کیا اور کہا میں بادشاہاں فارس وروم ومصر کے درباروں میں گیا ہوں میں نے کسی بادشاہ کی یہ عظمت نہیں دیکھی جو محمد حضور ﷺ کی ان کے اصحاب میں ہے مجھے اندیشہ ہے کہ تم ان کے مقابل کامیاب نہ ہوسکوگے ، قریش نے کہا ایسی بات مت کہو ہم اس سال انہیں واپس کردیں گے وہ اگلے سال آئیں ، عروہ نے کہا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ تمہیں کو مصیبت پہنچے یہ کہہ کر وہ مع اپنے ہمراہیوں کے طائف واپس چلے گئے اور اس واقعہ کے بعد اللہ نے انہیں مشرف باسلام کیا، یہیں حضور حضور ﷺ نے اپنے اصحاب سے بیعت لی کہ اس کو بیعت رضوان کہتے ہیں بیعت کی خبر سے کفار خوف زدہ ہوئے اور ان کے اہل رائے نے یہی مناسب سمجھا کہ صلح کرلیں۔ چناچہ صلح نامہ لکھا گیا اور آئندہ سال حضور حضور ﷺ کا تشریف لانا قرار پایا اور یہ صلح مسلمانوں کے حق میں بہت نافع ہوئی بلکہ نتائج کے اعتبار سے فتح ثابت ہوئی (تفسیر خازن وروح البیان) ۔
Top