بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
بیشک ہم نے آپ کو کھل کھلا فتح دی
آیات 1 تا 10۔ اسرار ومعارف۔ ہم نے آپ کو کھلم کھلافتح دی مختصرواقعہ حدیبیہ۔ یہ واقعہ حدیبیہ آپ کی فتح ہے یہ واقعہ سن 6 ہجری میں پیش آیا اور رسول اللہ نے خواب دیکھا کہ آپ مع صحابہ کرام مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور احرام سے فارغ ہوکر کسی نے بال کٹائے کسی نے حلق کرایا اور آپ بیت اللہ میں داخل ہوئے اور اس کی چابی آپ کے ہاتھ آئی آپ نے واقعہ بیان فرمایا تو سب کو جانے کا شوق پیدا ہوا کہ انبیاء کو خواب تو وحی ہوتا ہے جب سب صحابہ جانے لگے تو آپ بھی تیار ہوگئے وقت کی تعین تو تھی نہیں امکان ہوسکتا تھا کہ اس کا ظہور فورا ہو مگر اس کی تکمیل فتح مکہ کے روز ہوئی لیکن آپ کا یہ سفر بھی فتح کہ لایا کہ اکثر صحابہ فرمایا کرتے تھے کہ لوگ فتح مکہ کا دن وہ سمجھتے ہیں جب وہاں مسلمانوں کا قبضہ ہوا جب کہ ہم یوم حدیبیہ کو فتح مکہ کا دن سمجھتے ہیں آپ کے ہم رکاب اکثر روایات کے مطابق چودہ سو صحابہ کرام تھے اور تلواروں کے علاوہ کوئی اسلحہ وغیرہ نہ تھا قربانی کے جانور بھی تھے اور ذوالحلیفہ سے احرام باند لیے گئے وہاں آج کل ایک خوبصورت مسجد ہے جب اہل مکہ کو خبر ہوئی تو انہوں نے یہ مشورہ کیا کہ اگر آپ نے صحابہ کرام کے ہمراہ عمرہ ادا فرمایا تو اہل عرب می ہماری سبکی ہوگی اور لوگ جانیں گے وہ ہم پر غالب آگئے لہذا نہیں روکنا چاہیے ، انہوں نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور حد حرم سے باہر پڑاؤ ڈال دیے کہ حد حرم میں داخل نہیں ہونے دیں گے ۔ طائف کا قبیلہ بنوثقیف بھی ساتھ مل گیا اور اہل مکہ کے سالار حضرت خالد تھے جو اس وقت تک اسلام نہ لائے تھے چناچہ جب آپ مقام حدیبیہ پر پہنچے تو روکا گیا آپ نے عباد بن بشیر کو ایک دستہ دے کر کفار کے مقابلے میں صف بندی کا حکم دیا۔ صلوۃ الخوف۔ دریں اثنا ظہر کا وقت ہوگیا آپ نے امامت فرمائی اور تمام صحابہ نے ظہر ادا کی اہل مکہ دیکھتے رہے جب فارغ ہوگئے تو حضرت خالد نے کہا ہم نے موقع کھودیا مگر خیرا بھی ان کی دوسری نماز کا وقت ہوجائے گا جب یہ سارے سجدے میں ہوں تو ٹوٹ پڑنا چاہیے مگر اسی آن صلوۃ الخوف کا حکم نازل ہوگیا ایسی صورت میں لشکر کو دوحصوں میں بانٹ کرہرحصہ کو دودورکعت پڑھنے کو مل جایا کرے ۔ معجزہ۔ وہاں پر آپ کا یہ معجزہ بھی صادر ہوا کہ پانی پر کفار قابض تھے اور جہاں مسلمان تھے وہاں ایک ایسا کنواں تھا جس میں بہت معمولی ساپانی رستا تھا آپ نے اس میں کلی کرکے ڈال دی اور فرمایا میرایہ تیر اس میں گاڑ دو ۔ اس قدر پانی آیا کہ لبالب بھرگیا اور لوگوں نے اوپر بیٹھ کر برتن بھرے یہاں بات چیت شروع ہوئی اہل مکہ کا وفد بیل بن ورقاء جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے کی سرگردتی میں حاضر ہوا کہ قریش آپ کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے لہذا آپ واپس ہوجائیں تو یہ جنگ ٹل سکتی ہے آپ نے فرمایا ہم جنگ کے ارادے سے تو نہیں آئے عمرہ ادا کرنے آئے ہیں اب اگر کوئی زبردستی روکے گا توجنگ ہوگی کہ حرم کا داخلہ تو سب کے لیے ہے اور قریش کو تو ان جنگوں نے کمزور کردیا ہے وہ چاہیں تو ایک مدت تک ہمارے ساتھ صلح کرلیں اور ہمیں اہل عرب کے لیے چھوڑ دیں اگر وہ ہم پر غالب آگئے تو ان کا مقصد پورا ہوا اور اگر ہم اہل عرب پر غالب آگئے تو انہیں تیاری کا وقت مل جائے گا پھر جو چا ہیں کریں اسلام لائیں یا جنگ کریں۔ انہوں نے واپس جاکر بات کی تو لوگ سننے کو تیار نہ تھے تب بنوثقیف کے سردار عمروہ بن مسعود ثقفی نے سنا توکہایہ بات درست ہے مجھے جانے دو میں بات کرکے آتا ہوں آپ بھی آئے اور عرض کیا کہ آپ نے قریش کو تباہ ہی کردیا تو یہ اچھی بات نہ ہوگی کبھی دنیا میں کسی نے اپنی قوم کو تباہ نہیں کیا ، صحابہ کرام سے گرمی سردی بھی ہوئی دریں اثنا وہ حالات کا مشاہدہ کرتے رہے کہ آپ تھوکیں تو بھی صحابہ ہاتھ پر لیتے اور منہ پر مل لیتے ہیں آپ نے وضو کیا تو لوگوں نے پانی نیچے گرنے نہ دیا اور پانی لے کرچہروں پر ملتے رہے آپ بولتے رہے تو سب خاموش ہوجاتے تو انہوں نے بھی پلٹ کر اہل مکہ سے کہا کہ میں نے روم اور زنجبار کے شاہنشاہوں کے دربار دیکھے مگر ایسی عزت محبت اور جان نثاری وہاں نظر نہیں آئی وہ لوگ احرام میں ہیں قربانی کے جانور ساتھ ہیں انہیں عمرہ کرلینے دو مگر قریش نہ مانے تو وہ الگ ہوکرچلے گئے اس طرح سے سفارت چلتی رہی دریں اثنا نبی (علیہ السلام) نے حضرت عثمان کو مکہ مکرمہ میں سرداروں کے پاس بات کرنے کو روانہ فرمایا اور ساتھ ان مسلمانوں کو تسلی دینے کا حکم دیا جو مجبوری ومعذوری کے باعث ہجرت نہ کرسکتے تھے آپ لشکر کفار کے پاس پہنچے توبنوسعید کے امان بن سعید نے جو بعد میں مسلمان ہوئے پناہ میں لے کر مکہ مکرمہ پہنچایا آپ ایک ایک سردار سے ملے اور وہی بات دہرائی مسلمان سے ملاقات کرکے تسلی آپ تین رات مکہ مکرمہ میں رہے قریش نے کہا آپ طواف کرسکتے ہیں مگر انہوں نے فرمایا رسول اللہ نہ کریں تو عثمان طواف نہ کرے گا۔ دریں اثنا قریش نے ستر کے قریب آدمی گھات لگانے کو بھیجے جنہیں صحابہ کرام نے گرفتار کرلیا اور اس کے بعد ایک چھوٹی سی جھڑپ بھی ہوئی اہل مکہ نے حضرت عثمان کو اور چند مسلمانوں کو جو وہاں پہنچ گئے تھے روک لیا اور مشہور ہوگیا کہ حضرت عثمان شہید کردیے گئے تو آپ نے صحابہ کرام کو جمع فرما کر موت پر بیعت لی کہ جنگ کی صورت میں موت تک سب لڑیں گے اگر ایک آدمی رہ گیا تو وہ بھی ہتھیار نہ ڈالے گا۔ اور حضرت عثمان کو اس میں شامل فرمایا کہ اپناہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا یہ عثمان کی طرف سے بیعت ہے اہل مکہ مرعوب ہوگئے اور مشورہ کیا کہ اگر آپ اس حال میں واپس جائیں کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ ہمارے روکے نہ رکے تو اگلے سال تشریف لاکرعمرہ کریں اور تین روز مکہ میں گزار دیں چناچہ سہیل بن عمرویہ پیغام لے کر حاضر ہوئے اور کافی بات چیت کے بعد اپ نے معاہدہ منظور فرمالیا اور لکھاجانے لگا کہ حضرت علی لکھنے لگے آپ نے فرمایا لکھو ، بسم اللہ الرحمن الرحیم ، توسہیل نے عرض کیا کہ ہم ان کلمات کو نہیں جانتے آپ وہی لکھیں جو پہلے لکھاجاتا تھا ، باسمک اللھم۔ آپ نے مان لیا تو آپ نے فرمایا لکھو یہ وہ معاہدہ ہے جو محمدرسول اللہ نے کیا اس پر بھی وہ کہنے لگے آپ محمد بن عبداللہ لکھیں کہ ہم آپ کو رسول مان لیں تو جھگڑا کس بات کا آپ نے فرمایا مٹا کر اس طرح لکھ دو تو حضرت علی سراپا احتجاج بن گئے کہ میں آپ کا نام نامی کیسے مٹاسکتا ہوں۔ تو ایک اور معجزہ ظاہر ہوا۔ دوانصاری جوانوں نے بھی حضرت علی کا ہاتھ پکڑ لیا کہ آپ ﷺ امی تھے ، کچھ لکھنا پڑھان نہ جانتے تھے مگر کاغذ لے لیا اور اس پر لکھ دیا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ یہ معاہدہ محمد بن عبداللہ اور سہیل بن عمرو کے درمیان ہے دس سال باہم جنگ نہ کریں گے اور سب لوگ مامون رہیں گے اور ایک دوسرے پر چڑھائی اور جنگ سے رک جائیں گے ۔ پھر مزید شرائط رکھیں گئی کہ آپ یہاں سے واپس جائیں اگلے سال تشریف لائیں نیز ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر کوئی کفار میں سے ولی کی اجازت کے بغیر مسلمانوں کے پاس جائے خواہ مسلمان ہوکر بھی تو واپس کیا جائے گا جبکہ اگر کوئی مسلمان اہل مکہ کے پاس آگیا تو یہ واپس نہ کریں گے۔ نیز اہل مکہ کے علاوہ سب عرب آزاد ہیں جس کا جی چاہے اہل مکہ کے عہد میں داخل ہو اور جو چاہے وہ مسلمانوں اور نبی کریم کے عہد میں داخل ہو۔ شرائط صلح بظاہر ایسی تھی کہ جیسے مسلمانوں نے بہت دب کر صلح کی ہو صحابہ کرام اور خصوصا حضرت عمر کو بہت رنج ہوا آپ سے گذارش کی کہ آپ اللہ کے رسول ہیں پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے آپ نے خواب بھی دیکھا اور وہ پورا نہ ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا بیشک میں اللہ کا رسول ہوں میرا خواب بھی ضرور پورا ہوگا اس کا یہ وقت تو میں نے نہیں فرمایا تھا نیز اللہ مجھے ضائع نہیں فرمائے گا میں نے اسی کے حکم پر کیا ہے۔ آپ ﷺ کی طرف سے پابندی کا اظہار۔ دریں اثنا ابوجندل جو اسی سہیل کے بیٹے تھے اور مسلمان ہوچکے تھے مگر اس نے قید کر رکھے تھے اور ایذادیتا تھا بھاگ کر وہاں پہنچ گئے مسلمانوں نے پناہ میں لے لیے مگر آپ نے فرمایا ابوجندل چندے صبر کرو اللہ تمہارے لیے اور دوسرے مسلمانوں کے لیے بہت جلد راستہ کھولنے والے ہیں اور واپس کردیا۔ معاہدہ پر دستخط ہوگئے حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، عبدالرحمن بن عوف ، عبداللہ بن سہیل بن عمر ، سعد بن ابی وقاص ، محمد بن مسلمہ ، اور حضرت علی بن ابی طالب وغیرہ ؓ اجمعین نے دستخط کیے آپ نے اپناحلق کر ایاقربانی دی اور احرام کھول دیا چناچہ سب صحابہ نے ایسا ہی کیا اور واپسی شروع ہوئی راستے میں مسلمانوں کا کھانا ختم ہوگیا۔ ایک اور معجزے کا ظہور۔ مقام عسفان پر قیام ہوا آپ نے ایک دستر خوان بچھا کر حکم دیا کہ جو کچھ جس کے پاس بچا ہوا ہویہاں ڈال دے آپ نے دعا فرمائی اور سب کو کھانے کا حکم دیا تمام لشکر نے پیٹ بھر کر کھایا اور سارے برتن پھر سے بھرلیے مگر کھانا جوں کا توں موجود تھا ، اسی واپسی کے سفر میں سورة فتح نازل ہوئی ، آپ اس وقت کراع غمیم کے مقام پر تھے چناچہ صلح نامہ کی برکات کا ظہور ہوا آپ نے خیبر کے یہود سے نبٹ لیا جہاں سے غنیمت کے ساتھ بہترین اسلحہ بھی ہاتھ لگا اور کفر کی طاقت ٹوٹی ۔ بادشاہوں کو خطوط لکھے ۔ مسلمانوں کو کام کرنے کا موقع ملا اور لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہوئے اور دو سال کے اندراندر بہت زیادہ لوگ مسلمان ہوگئے نیز قریش سے اس کی خلاف ورزی ہوگئی جس کا واقعہ معروف ہے یہاں طوالت کے خوف سے نہیں دیاجارہا جو فتح مکہ کا سبب بن گئی اس روز آپ کے ہم رکاب دس ہزار کا لشکر جرار تھا جس کے ساتھ اہل مکہ لڑنے کا سوچ بھی نہ سکے اور یوں اس آیہ مبر کہ کی تعبیر پوری ہوئی کہ ارشاد ہوا ہم نے آپ کو بہت بڑی فتح سے سرفراز فرمایا اس لیے بھی کہ یہ صبر آزما لمحے آپ کے حوالہ سے مسلمانوں کی اگلی پچھلی لغزشوں کی معافی کا سبب بن گئے کہ انبیاء (علیہ السلام) تو معصوم ہوتے ہیں ہاں ترک اولی کو ان کی عظمت شان کے سبب خطا کہہ دیا جاتا ہے جس کی معافی کا اعلان فرمایا گیا۔ اتمام نعمت ریاست اسلامی کا قیام۔ نیز آپ کے طفیل یہ انعام مسلمانوں پر بھی ہوانیز تاکہ آپ ﷺ پر اپنی نعمت تمام کردے کہ آپ ﷺ کو نبوت و رسالت تو پہلے سے عطا ہوئی اب آپ ﷺ کے تابع اسلامی ریاست اور مضبوط ریاست جس میں آپ کی اور اسلام کی عزت ہی ہو قائم کردی جائے ۔ اور اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون و اطمینان نازل فرمایا تاکہ ان کے ایمانوں میں اور زیادتی ہو یعنی وہ اطاعت پیغمبر پر جم گئے۔ جنگ کا حکم ہوا تو بیعت کے لیے حاضر ہونے کا حکم ہواتوسرتسلیم خم کردیا اور یہ اطاعت ان کے لیے ایمان کی زیادتی کا سبب بن گئی ، ورنہ اللہ کو محض اہل مکہ کو تباہ کرنا ہی مقصود ہوتا تو آسمانوں اور زمینوں کے سب لشکر اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں کوئی عذاب بھی مسلط کردیتا مگر یہاں اہل ایمان پر کرم کرنا مطلوب تھا کہ اللہ ہر شے کا علم رکھنے والا ہے اور زبردست حکمت والا ہے۔ یہ اس کی حکمت تھی کہ اہل کفر خسارے میں رہے اور اہل ایمان پر جنت کے دروازے وا ہوئے تاکہ اہل ایمان مرد خواتین کو جنت میں داخل کرے جہاں نہریں جاری ہیں اور سدا بہار رہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان خطاؤں کو معاف فرما کر دور کردے درحقیقت اللہ کی بارگاہ میں یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور منافقین ومشرکین مردوزن کو رسوا کرے جو اللہ پر بری بری باتوں کا گمان رکھتے ہیں ان کی اس برائی کا عذاب ان ہی پر پڑے کہ ان پر اللہ کا غضب ہے اور انہیں اپنی رحمت سے محروم فرمادیا ہے اور ان کے لیے دوزخ کو بھڑکا رکھا ہے جو بہت ہی بری جگہ ہے۔ اللہ کے قبضہ قدرت میں تو آسمانوں اور زمین کے لشکر ہیں انہیں جب چاہے جیسے چاہے تباہ کردے مگر یہ اس کی حکمت ہے کہ مہلت دے رکھی ہے اور ہم نے آپ کو گواہ بناکربھیجا ہے کہ وہی عمل مقبول ہوگا جس کی آپ گواہی دیں گے یہ آپ ہی کا ارشاد تھا نیز آپ کی ذات خوش خبری سنانے والی ذات ہے۔ نیک اعمال پر نیک نتیجے کی اور گناہوں کے سخت نتائج سے بروقت آگاہ کرنے والی ہے۔ نیز آپ کا وجود باوجود اللہ کا وہ انعام ہے جس کے طفیل دوست ایمان تقسیم ہوتی ہے لہذا ایمان لاؤ اللہ پر کہ اللہ پر ایمان کا تقاضا رسول اللہ پر ایمان لانا ہے جو ایمان بااللہ کی بنیاد ہے کہ کسی نے اللہ کو کمانا بھی مگر رسول اللہ کو نہ مانا تو اس نے اللہ ہی کی بات کو جھٹلادیا تو پھر کیا مانا نیز خدمت میں کمربستہ رہو اور بہت زیادہ عظمت دو اللہ کو اس کے رسول کی خدمت وطاعت اور رسول اللہ کی عظمت ہی اس کی عظمت کا اظہار ہے۔ توفیق ذکر۔ نیز ہمہ وقت اس کا ذکر کرتے رہو اور اس کی پاکی بیان کرتے رہو ، ترتیب قرآن سے ظاہر ہے کہ مضبوط ایمان ویقین اور رسول اللہ کی خدمت میں جان ومال سے مدد کے لیے حاضر رہنا ، اور آپ کی عظمت کا دل میں موجود ہونا توفیق ذکر تسبیحات عطا کرتا ہے نیز جن لوگوں نے مقام حدیبیہ میں ایک درخت کے نیچے آپ سے بیعت کی انہوں نے گویا اللہ سے بیعت کی اور ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے ۔ بیعت رضوان۔ یہ پہلے گذرچکا ہے کہ جہاں ذات باری تعالیٰ کے لیے ایسا وصف بیان ہو وہاں معنی بعید مراد ہوتا ہے یعنی جو اس کام کا نتیجہ ہو کہ ہاتھ میں ہاتھ ہونے سے واصل بااللہ ہونا اور ہمیشہ اللہ کی طرف سے مدد اور راہنمائی نصیب ہونا اور اس کی رضامندی کا حصول مراد ہے اسی لیے اس کو بیعت رضوان کا نام دیا گیا ہے ۔ بیعت ایک عہد ہے تعاون اور اتباع کا جس کے لیے ہاتھ میں ہاتھ دے کر عہد کیا جاتا ہے جو مسنون ہے مگر ضروری بھی نہیں کہ اس کے بغیر بھی عہد کرلیاجائے تو اس کی پاسداری ضروری ہے کہ اگر کوئی بیعت کرنے کے بعد اسے توڑے گا تو اس کا نقصان اس کی اپنی تباہی کی صورت میں ظاہر ہوگا رسول اللہ کا معاملہ میں توہرحال میں ظاہر ہے اور امیر یاشیخ سے بھی بیعت توڑنا آسان نہیں کوئی معقول شرعی وجہ چاہیے جو لوگ محض سنی سنائی باتوں پر بیعت توڑ لیتے ہیں یا دنیاوی لالچ یا اپنی بڑائی کی خاطر ایسا کرتے ہیں وہ ان کی روحانی تباہی کا سبب تو بن ہی جاتا ہے آخر دنیا میں بھی رسوا ہوتے ہیں اور جنہوں نے یہ عہد نبھایا اللہ انہیں بہت بڑے انعامات اور اجر عظیم عطا فرمائے گا۔
Top