بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Quran-al-Kareem - Al-Hujuraat : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا تُقَدِّمُوْا : نہ آگے بڑھو بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ : اللہ کے آگے وَرَسُوْلِهٖ : اور اسکے رسول کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : سننے والا جاننے والا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
(1) یا یھا الذین امنوا : رازی نے فرمایا :”اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو مکارم اخلاق کا سبق دیا ہے، ان کا تعلق یا تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملے میں ہوگا یا اس کے رسول کے ساتھ یا فاسق لوگوں کے ساتھ یا ان ایمان والوں کے ساتھ جو حاضر ہوں یا ان ایمان والوں کے ساتھ جو غائب ہوں اور پانچوں قسموں میں سے ہر ایک کی ابتداء ”یا یھا الذین امنوا“ کے ساتھ کی ہے۔“ (2) لاتقدموا بین یدی اللہ و رسولہ :”لاتقدموا“ باب تفعیل ہے، جس کا مجرد ”قدم یقدم“ (ن) آتا ہے، جس کا معنی ”’ دوسرے کے آگے چلنا“ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے متعلق فرمایا :(یقدم قومہ یوم القیمۃ) (ھود : 98)”وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے ہوگا۔“ (تقدم یتقدم“ (تفعل) کا معنی بھی ”آگے بڑھنا“ ہے۔ باب تفعیل کے لحاظ سے اس کا معنی ”آگے کرنا“ ہوگا، یعنی اپنی کوئی بات یا کوئی فعل اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ کرو۔ بعض اوقات ”قدم“ ”تقدم“ کے معنی میں بھی آجاتا ہے، یعنی وہ آگے بڑھا، جیسے ”کانہ قدم نفسہ“ ”گویا اس نے اپنے آپ کو آگے بڑھا لیا۔“ اس صورت میں آیت کا معنی ہوگا :”اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو۔“ اور یہاں یہی معنی راجح ہے۔ اسی سے ”مقدمۃ الجیش“ (لشکر کا سب سے اگلا حصہ) ہے۔ باب تفعیل باب تفعل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، جیسے ”وجہ ای توجہ“ اور ”بین ای تبین“ آیت میں اس شخص کو جو اللہ اور اس کے رسول کی اجازت یا حکم کے بغیر کوئی کام یا بات کرتا ہے اس شخص کی حالت کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو کسی دوسرے کو پیچھے چھوڑ کر اس سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ (ابن عاشور) (3)”لاتقدموا بین یدی اللہ و رسولہ“ میں اللہ اور اس کے رسول کو اکٹھا ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ رسول سے آگے بڑھنا درحقیقت اللہ تعالیٰ سے آگے بڑھنا ہے، کیونکہ رسول وہی کہتا اور کرتا ہے جس کی وحی اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے، فرمایا :(وما ینطق عن الھوی، ان ھو الا وحی یوحی) (النجم : 3، 3)”اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔ وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔“ (4) اس آیت میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا بنیادی تقاضا بیان کیا گیا ہے کہ جب تم اللہ کو اپنا رب اور رسول کو اپنا ہادی اور رہبر مانتے ہو تو پھر ان کے پیچھے چلو، آگے مت بڑھو ! اپنے فیصلے خود ہی نہ کرلو، بلکہ پہلے یہ دیکھو کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم کیا ہے۔ یہ حکم سورة احزاب میں م وجود حکم سے بھی ایک قدم آگے ہے، فرمایا :(وما کان لمومن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ و رسولہ امراً ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم ومن یعص اللہ و رسولہ فقد ضل ضلاً مبیناً (الاحزاب : 36)”اور کبھی بھی نہ کسی مومن مرد کا حق ہے اور نہ کسی مومت عورت کا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں کہ ان کے لئے ان کے معاملے میں اختیار ہو اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو یقیناً وہ گمراہ ہوگیا ، واضح گمراہ ہونا۔“ یعنی سورة احزاب میں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو کسی ایمان والے مرد یا ایمان والی عورت کو خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار بقای نہیں رہتا اور یہاں فرمایا کہ ایمان والوں کو پہل کرتے ہوئے اپنے فیصلے خود نہیں کرلینے چاہئیں، بلکہ پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ ان کے متعلق اللہ اور اس کے رسول کا حکم کیا ہے۔ یہ حکم مسلمانوں کے انفرادی معاملات میں بھی ہے اور اجتماعی معاملات میں بھی۔ کسی بھی شخص کو خواہ وہ کوئی عالم ہو یا امام یا پیر فقیر، یہ حق حاصل نہیں اور نہ ہی کسی جماعت یا پارلیمنٹ کا حق ہے کہ وہ اپنی طرف سے شریعت بنائے، کسی کام کو حلال یا حرام کہے، یا باعث ثواب یا گناہ قرار دے۔ اگر کوئی کسی کو یہ حق دیتا ہے تو وہ اسے اپنا رب بناتا ہے۔ مزید دیکھیے سورة توبہ کی آیت (31): (واتخذوا احبارھم و رھبانھم ارباباً من دون اللہ) کی تفسیر۔ (5) اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت سے آگے مت بڑھو، ان کے پیچھے پیچھے چلو۔ چناچہ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس ؓ کی تفسیر نقل فرمائی ہے :(لاتقدموا بین یدی اللہ ورستولہ) یقول لاتقولوا خلاف الکتاب والسنۃ) (طبری :31928) یعنی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت کے خلاف کوئی بات نہ کہو۔ بعض مفسرین نے اس آیتل کی شان نزول رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ رکھنا بیان کی ہے اور بعض نے عید الاضحیٰ کی نماز سے پہلے قربانی کرنا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے تمام کام اس آیت کے مضمون میں شامل ہیں البتہ یہ بات ثابت نہیں کہ یہ آیت خاص ان کے بارے میں اتری ہے۔ (8) واثقوا للہ ان اللہ سمیع :”ان“ تعلیل یعنی پہلی بات کی وجہ بیان کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ یعنی اللہ سے ڈرتے ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر بات کو سننے والا اور ہر کام ک جاننے والا ہے، خواہ وہ سب کے سامنے کیا جائے یا چھپ کر عمل، میں آچکا ہو یا دل میں اس کا ارادہ ہو ، اگر تم اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھو گے تو اس سے تمہارا جرم چھپا نہیں رہے گا اور وہ تمہیں اس کی سزا دے گا۔
Top