بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Hujuraat : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا تُقَدِّمُوْا : نہ آگے بڑھو بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ : اللہ کے آگے وَرَسُوْلِهٖ : اور اسکے رسول کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : سننے والا جاننے والا
اے ایمان والو ! آگے نہ بڑھو اللہ سے اور اس کے رسول سے اور ڈرتے رہو اللہ سے اللہ سنتا ہے جانتا ہے
خلاصہ تفسیر
ربط سورت و شان نزول
اس سے پہلی دو سورتوں میں جہاد کے احکام تھے جس سے اصلاح عام و آفاق مقصود ہے۔ اس سورت میں اصلاح نفس کے احکام و آداب مذکور ہیں، خصوصاً وہ احکام جو آداب معاشرت سے تعلق رکھتے ہیں اور قصہ ان آیتوں کے نزول کا یہ ہے کہ ایک مرتبہ قبیلہ بنو تمیم کے لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے یہ بات زیر غور تھی کہ اس قبیلہ پر حاکم کس کو بنایا جائے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے قعقاع ابن معبد کی نسبت رائے دی اور حضرت عمر نے اقرع بن حابس کے متعلق رائے دی، اس معاملہ میں حضرت ابوبکر و عمر ؓ کے مابین آپ کی مجلس میں گفتگو ہوگئی اور گفتگو بڑھ کر دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ (رواہ البخاری)
اے ایمان والو ! اللہ اور رسول ﷺ (کی اجازت) سے پہلے تم (کسی قول یا فعل میں) سبقت نہ کیا کرو (یعنی جب تک قرائن قویہ سے یا بالتصریح گفتگو کی اجازت نہ ہو گفتگو مت کرو جیسا کہ واقعہ مذکورہ جو سبب نزول ان آیات کا ہوا اس میں انتظار کرنا چاہئے تھا کہ یا تو آپ خود کچھ فرماتے یا آپ حاضرین مجلس سے پوچھتے بدون انتظار کے از خود گفتگو شروع کردینا درست نہیں تھا کیونکہ گفتگو کا جواز اذن شرعی پر موقوف تھا خواہ یہ اذن قطعی ہو یعنی صریح طور پر یا ظنی قرائن قویہ کے ذریعہ غلطی یہ ہوئی انتظار نہیں کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی) اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ تعالیٰ (تمہارے سب اقوال کو) سننے والا (اور تمہارے افعال کو) جاننے والا ہے (اور) اے ایمان والو ! تم اپنی آوازیں پیغمبر ﷺ کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور نہ ان سے ایسے کھل کر بولا کرو جیسے آپس میں کھل کر ایک دوسرے سے بولا کرتے ہو (یعنی نہ بلند آواز سے بولو جبکہ آپ کے سامنے آپس میں کوئی بات کرنا ہو اور نہ برابر کی آواز سے بولو جبکہ خود آپ سے خطاب کرنا ہو) کبھی تمہارے اعمال برباد ہوجاویں اور تم کو خبر بھی نہ ہو (اس کا مطلب یہ ہے کہ آواز کا بلند کرنا جو صورةً بےباکی اور بےپروائی ہے اور بلند آواز سے اس طرح باتیں کرنا جیسے آپس میں ایک دوسرے سے بےتکلف باتیں کرتے ہیں یہ ایک قسم کی گستاخی ہے اپنے تابع اور خادم سے اس طرح کی گفتگو ناگوار اور ایذادہ ہو سکتی ہے اور اللہ کے رسول کو ایذا پہنچانا تمام اعمال خیر کو برباد کردینے والا ہے۔ البتہ بعض اوقات جبکہ طبیعت میں زیادہ انبساط ہو یہ امور ناگوار نہیں ہوتے اس وقت عدم ایذا رسول کی وجہ سے یہ گفتگو حبط اعمال کا موجب نہیں ہوگی، لیکن متکلم کو یہ معلوم کرنا کہ اس وقت ہماری ایسی گفتگو ناگوار خاطر اور موجب ایذا نہیں ہوگی آسان نہیں ہوسکتا ہے کہ متکلم تو یہ سمجھ کر کلام کرے کہ اس سے آنحضرت ﷺ کو ایذا نہیں ہوگی مگر واقع میں اس سے ایذا پہنچ جائے تو گفتگو اس کے اعمال کو حبط اور برباد کر دے گی اگرچہ اس کو گمان بھی نہ ہوگا کہ میری اس گفتگو سے مجھے کتنا بڑا خسارہ ہوگیا، اس لئے آواز بلند کرنے اور جہربالقول کو مطلقاً ممنوع کردیا گیا کیونکہ ایسی گفتگو کے بعض افراد اگرچہ موجب ایذا و حبط اعمال نہیں ہوں گے مگر اس کی تعیین کیسے ہوگی اس لئے مطلقاً جہر بالقول کے تمام افراد کو ترک کردینا چاہئے یہاں تک تو آواز بلند کرنے سے ڈرایا گیا ہے آگے آواز پست کرنے کی ترغیب ہے
بیشک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے پست رکھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لئے خالص کردیا ہے (یعنی ان کے قلوب میں تقویٰ کے خلاف کوئی چیز آتی ہی نہیں، مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس خاص معاملہ میں یہ حضرات کمال تقویٰ کے ساتھ متصف ہیں کیونکہ ترمذی کی حدیث مرفوع میں کمال تقویٰ کا بیان ان الفاظ میں آیا ہے لایبلغ العبد ان یکون من المتقین حتی یدع ما لا باس بہ حذراً لما بہ باس، یعنی بندہ کمال تقویٰ کو اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ کچھ ایسی چیزوں کو بھی جن میں کوئی گناہ نہیں اس احتیاط کی بناء پر چھوڑ دے کہ یہ جائز کام کہیں مجھے کسی ناجائز کام میں مبتلا نہ کردے۔ مراد وہ مشتبہ امور ہیں جن میں گناہ کا خطرہ اور شبھہ ہو، جیسا کہ آواز بلند کرنے کی ایک فرد ایسی ہے جس میں گناہ نہیں، یعنی وہ جس میں مخاطب کو ایذا نہ ہو اور ایک فرد وہ ہے جس میں گناہ ہے یعنی جس سے ایذا پہنچے، تو کمال تقویٰ اس میں ہے کہ آدمی مطلقاً آواز بلند کرنے کو چھوڑ دے، آگے ان کے عمل کے اخروی فائدہ کا بیان ہے) ان لوگوں کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے اور اگلی آیتوں کا قصہ یہ ہے کہ وہ ہی بنو تمیم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ باہر تشریف فرما نہ تھے بلکہ ازواج مطہرات کے حجرات میں سے کسی مکان میں تھے۔ یہ لوگ غیر مہذب گاؤں والے تھے باہر ہی سے کھڑے ہو کر آپ کا نام لے کر پکارنے لگے کہ یا محمد اخرج الینا، یعنی اے محمد ہمارے لئے باہر آئیے، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں (کذافی الدرا لمنثور بروایتہ ابن اسحاق عن ابن عباس) جو لوگ حجروں کے باہر سے آپ کو پکارتے ہیں ان میں اکثروں کو عقل نہیں ہے (کہ عقل ہوتی تو آپ کا ادب کرتے اس طرح نام لے کر باہر سے پکارنے کی جرات نہ کرتے اور اکثرہم فرمانے کی وجہ یا تو یہ ہے کہ بعض پکارنے والے فی نفسہ جری نہ ہوں گے، دوسروں کے ساتھ دیکھا دیکھی لگ گئے اس طرح ان سے بھی یہ غلطی ہوگئی اور یا اگرچہ سب ایک ہی طرح کے ہوں مگر اکثرہم کا لفظ فرمانے سے کسی کو اشتعال نہیں ہوگا کیونکہ ہر شخص یہ خیال کرسکتا ہے کہ شاید مجھ کو کہنا مقصود نہ ہو وعظ و نصیحت کا یہی طریقہ ہے کہ ایسے کلمات سے احتیاط کی جائے جن سے مخاطب کو اشتعال پیدا ہو) اور اگر یہ لوگ (ذرا) صبر (اور انتظار) کرتے یہاں تک کہ آپ خود باہر ان کے پاس آجاتے تو یہ ان کے لئے بہتر ہوتا (کیونکہ یہ ادب کی بات تھی) اور (اگر اب بھی توبہ کرلیں تو معاف ہوجاوے کیونکہ) اللہ غفور رحیم ہے۔
معارف و مسائل
ان آیات کے نزول کے متعلق روایات حدیث میں بقول قرطبی چھ واقعات منقول ہیں اور قاضی ابوبکر بن عربی نے فرمایا کہ سب واقعات صحیح ہیں کیونکہ وہ سب واقعات مفہوم آیات کے عموم میں داخل ہیں ان میں سے ایک واقعہ وہ ہے جو خلاصہ تفسیر میں بروایت بخاری ذکر کیا گیا ہے۔
(آیت) يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ، بین الیدین کے اصل معنے دو ہاتھوں کے درمیان کے ہیں مراد اس سے سامنے کی جہت ہے یعنی رسول اللہ ﷺ کے سامنے تقدم اور پیش قدمی نہ کرو کس چیز میں پیش قدمی کو منع فرمایا ہے قرآن کریم نے اس کو ذکر نہیں کیا جس میں اشارہ عموم کی طرف ہے کہ کسی قول یا فعل میں آنحضرت ﷺ سے پیش قدمی نہ کرو بلکہ انتظار کرو کہ رسول اللہ ﷺ کیا جواب دیتے ہیں، ہاں آپ ہی کسی کو جواب کے لئے مامور فرما دیں تو وہ جواب دے سکتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ چل رہے ہیں تو کوئی آپ سے آگے نہ بڑھے، کھانے کی مجلس ہے تو آپ سے پہلے کھانا شروع نہ کرے مگر یہ کہ آپ تصریح یا قرائن قویہ سے یہ ثابت ہوجائے کہ آپ خود ہی کسی کو آگے بھیجنا چاہتے ہیں جیسے سفر اور جنگ میں کچھ لوگوں کو آگے چلنے پر مامور کیا جاتا تھا۔
علمائے دین اور دینی مقتداؤں کے ساتھ بھی یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہئے
بعض علماء نے فرمایا ہے کہ علماء و مشائخ دین کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ وہ وارث انبیاء ہیں اور دلیل اس کی یہ واقعہ ہے کہ ایک دن حضرت ابوالدردا کو رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر کے آگے چل رہے ہیں تو آپ نے تنبیہ فرمائی اور فرمایا کہ کیا تم ایسے شخص کے آگے چلتے ہو جو دنیا و آخرت میں تم سے بہتر ہے اور فرمایا کہ دنیا میں آفتاب کا طلوع و غروب کسی ایسے شخص پر نہیں ہوا جو انبیاء کے بعد ابوبکر سے بہتر و افضل ہو (روح البیان ازکشف الاسرار) اس لئے علماء نے فرمایا کہ اپنے استاد اور مرشد کے ساتھ بھی یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہئے۔
Top