بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے اتَّقُوا : ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَابْتَغُوْٓا : اور تلاش کرو اِلَيْهِ : اس کی طرف الْوَسِيْلَةَ : قرب وَجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو فِيْ : میں سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو، تم ہمیشہ ڈرتے رہا کرو اللہ سے، اور قرب ڈھونڈتے رہا کرو اس کے حضور رسائی کے لئے3 اور جہاد کرو تم لوگ اس کی راہ میں تاکہ تم فلاح پاسکو
90 تقویٰ و پرہیزگاری کی عظمت شان : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ تقویٰ و پرہیزگاری دارین کی سعادت و سرخروئی اور فوزو فلاح کی اصل اور اساس ہے۔ پس تم لوگ بچتے رہا کرو اپنے اس خالق ومالک کی ہر نافرمانی سے کہ اتقاء کا اصل معنیٰ بچنا ہی ہے۔ اور اس کی نافرمانی و ناراضگی سے بچ گئے تو ہر ظلم و فساد سے بچ گئے۔ اور اس کے نتیجے میں تم لوگ اپنے رب کی گرفت و پکڑ اور اس کے عذاب سے بچ گئے۔ سو تقویٰ اصل و اساس ہے ہر خیر اور حقیقی فوزو فلاح کی ۔ فَوَفِّقْنَا اللَّھُمَّ تَقْواکَ وَخُذُ بِنَواصِیْنَا اِلٰی مَا فِیْہِ حُبُّک وَرِضَاک۔ بہرکیف تقویٰ و پرہیزگاری ایک اہم مقصد اور دارین کی سعادت و سرخروئی کی اصل و اساس ہے اور تقوی کا مفہوم اور خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر واحکام کو صدق و اخلاص سے اپنایا جائے اور اس وحدہ لا شریک کی ناراضگی سے بچنے کی حتی المقدور کوشش کی جائے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل ۔ سبحانہ وتعالی - 91 وسیلہ کا مفہوم اور اس سے مراد ؟ : سو ارشاد فرمایا گیا اور اپنے اس خالق ومالک کا قرب ڈھونڈتے رہو۔ یعنی نیک اعمال کے ذریعے کہ جتنے تم نیکیوں اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں آگے بڑھتے جاؤ گے اتنے ہی اس کے قرب اور رضائے خداوندی کے شرف سے مشرف وسرفراز ہوتے جاؤ گے۔ سو نماز و روزہ، حج و زکوٰۃ، صدقہ و خیرات، جہاد و قتال اور اقامت حدود وغیرہ جملہ عبادات و طاعات اور افعال وصفات خیر اس میں داخل ہیں کہ ان سب کے ذریعے انسان اس وحدہ لاشریک کی رضا و خوشنودی اور اسکے قرب و نزدیکی کے شرف سے مشرف ہوتا اور اس راہ میں آگے بڑھتا اور ترقی کرتا جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس، مجاہد، قتادہ، حسن، زید، عطائ، ثوری اور سدی، ابو وائل وغیرہ جیسے اکابر مفسرین کرام اور ثقہ اہل علم اور اصحاب فضل سے یہاں پر وسیلہ کے یہی معنیٰ مروی و منقول ہیں۔ اس لئے یہ حضرات وسیلہ کا مفہوم عام طور پر اسی طرح کے الفاظ سے بیان کرتے ۔ " ای اطلبوا ما یقربکم الیہ من طاعتہ و عبادتہ " ۔ (روح، قرطبی، مدارک، جامع البیان، محاسن التاویل اور ابن کثیر وغیرہ) ۔ پس اہل بدعت کا اس کلمہ کو اپنے من پسند معانی پہنانا اور اس پر آگے طرح طرح کے قیاسات کی عمارات استوار کرنا سب کچھ بےاصل اور ان لوگوں کی اپنی اختراعات کے ذیل میں آتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ کیونکہ وسیلہ کے معنیٰ ہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے اس کا قرب ڈھونڈنا۔ نہ کہ کسی شخصیت کا وسیلہ پکڑنا۔ جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ چناچہ قتادہ اس کا معنیٰ اس طرح بیان کرتے ۔ " ای تقربوا الیہ بطاعتہ والعمل بما یُرْضِیْہِ " ۔ (صفوۃ التفاسیر، محاسن التاویل، مدارک التنزیل اور ابن کثیر وغیرہ) ۔ وبِاللّٰہِ التوفیق لما یُحِبُّ وَیُرِیْدُ- 92 جہادفی سبیل اللہ ذریعہ فوز و فلاح : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پا سکو اور اس کے ذریعے تم ان قوتوں کو زیر کرسکو جو حصول قرب و رضائے خداوندی کی اس راہ میں تمہارے لئے رکاوٹ اور سدِّ راہ بنتی ہوں، خواہ وہ نفس و شیطان کی پوشیدہ قوتیں ہوں یا دوسرے دشمنوں کی کھلی اور ظاہری قوتیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو جہاد سے اصل مقصود دفع شر و فساد، اِعلاء ِکلمۃ اللہ اور رضائے خداوندی کیلئے کوشش اور محنت کرنا ہے۔ تاکہ باطل قوتیں دب جائیں اور وہ راہ حق میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ سو جہاد میں ہر وہ محنت و کوشش داخل و شامل ہے جو احکام خداوندی کی تعمیل و پابندی اور دین حق کی اقامت و سربلندی کے لئے کی جائے۔ خواہ اس کا تعلق جان و مال سے ہو یا تیغ وسنان اور زبان وبیان سے۔ چناچہ سنن ابوداؤد میں حضرت امام الانبیاء ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرو اپنے مالوں اپنی جانوں اور اپنی زبانوں کے ساتھ ۔ " جَاہِدُوْا الْکُفَارَ وَالْمُشْرِکِیْنَ بَامْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَ اَلْسِنَتِکُمْ " ۔ بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ اپنے مالوں اور زبانوں سے جہاد کی اہمیت جہاد بالنفس سے بھی اس لحاظ سے بڑھ کر ہے کہ جہاد بالنفس کا موقع کبھی کبھی آتا ہے اور وہ بھی ان لوگوں کے لئے جو جسمانی طور پر اس کے اہل ہوں۔ جبکہ مال اور زبان سے جہاد کا موقع ہمیشہ اور ہر حال میں رہتا ہے ۔ وبِاللّٰہِ التوفیق لما یُحِبُ وَیُرِیَد وعلی ما یحب ویرید -
Top