بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mutaliya-e-Quran - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
اے نبیؐ، ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کر دی
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ [ بیشک ہم نے فیصلہ کیا آپ کے لیے ] فَتْحًا مُّبِيْنًا [ ایک کھلا فیصلہ ] نوٹ۔ ا : اس سورة میں متعدد واقعات کی طرف اشارے ہیں ۔ ان کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس سورة کے نزول کے وقت کے سیاسی حالات ذہن میں واضح ہوں ۔ اس لیے پہلے ان حالات کو سمجھ لیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ مکہ معظمہ تشریف لے گئے ہیں اور وہاں عمرہ ادا فرمایا ہے۔ نبی کا خواب وحی کی اقسام میں سے ایک قسم ہے اور آگے چل کر آیت ۔ 27 ۔ میں اللہ تعالیٰ نے خود توثیق کردی ہے کہ یہ خواب ہم نے دیکھایا تھا ۔ اس لیے یہ ایک الہی اشارہ تھا جس کی پیروی کرنا ضروری تھا ۔ جبکہ بظاہر اسباب اس ہدایت پر عمل کرنا ممکن نظر نہیں آتا تھا ۔ قریش نے چھ سال سے مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا راستہ بند کر رکھا تھا ۔ اب یہ توقع کیسے کی جاسکتی تھی ۔ کہ وہ آپ اور صحابہ کرام ؓ اجمعین ، کو مکہ میں داخل ہونے دیں گے ۔ عمرے کے احرام باندھ کر جنگی سازوسامان کیساتھ نکلنا خود لڑائی کو دعوت دینا تھا ۔ اور غیر مسلح جانے کا مطلب اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنا تھا ۔ ان حالات میں کوئی شخص یہ نہ سمجھ سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس اشارے پر کیسے عمل کیا جائے ۔ مگر رسول اللہ ﷺ نے اپنا خواب صحابہ کرام ؓ اجمعین کو سنا کر سفر کی تیاری شروع کردی اور آس پاس کے قبائل میں اعلان کرا دیا کہ جو ہمارے ساتھ چلنا چاہے وہ آجائے ۔ جن لوگوں کی نگاہ ظاہری اسباب پر تھی انہوں نے سمجھا کہ یہ لوگ موت کے منہ میں جارہے ہیں ۔ ان میں سے کوئی آپ کے ساتھ چلنے پر آمادہ نہ ہوا ۔ البتہ چودہ سو صحابہ کرام آپ کیساتھ اس نہایت خطرناک سفر پر جانے کے لیے تیار ہوگئے ۔ ذی القعدہ 6 ھ کے آغاز میں یہ قافلہ مدینہ سے روانہ ہوا قربانی کے لیے ستر اونٹ ساتھ لیے جن کی گردنوں میں ھدی کی علامت کے طور پر قلادے پڑے ہوئے تھے ۔ صرف ایک ایک تلوار رکھ رلی جس کی تمام زائریں حرم کو عرب کے معروف قاعدے کے مطابق اجازت تھی ۔ قریش کے لوگوں کو آپ کے اس اقدام نے سخت پریشانی میں ڈال دیا ، ذی القعدہ کا مہینہ ان مہینوں میں سے تھا جو حج و زیارت کے لیے محترم سمجھے جاتے تھے ، قریش کے لوگ اس الجھن میں پڑگئے کہ اگر ہم اس قافلے پر حملہ کرکے اسے مکہ میں داخل ہونے سے روکتے ہیں تو یہ ایسی غلطی ہوگئی جس سے سارا عرب ہم سے منحرف ہوجائے گا کہ ہم جس سے بھی ناراض ہوں گے اسے بیت اللہ کی زیارت سے اسی طرح روک دیں گے ۔ لیکن اگر ہم اس قافلہ کو اپنے شہر میں داخل ہونے دیتے ہیں تو ہماری ہوا اکھڑ جائے گی ، آخرکار بڑی شش وپنج کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ کسی قیمت پر بھی اس قافلے کو اس شہر میں داخل ہونے نہیں دیں گے ۔ رسول اللہ ﷺ کو اطلاع ملی کہ قریش نے آپ کا راستہ روکنے کے لیے خالد بن ولید کو دو سو سواروں کا دستہ دے کر آگے بھیج دیا ہے۔ قریش کی چال یہ تھی کہ کسی نہ کسی طرح چھیڑ چھاڑ کرکے صحابہ کو اشتعال دلایا جائے۔ پھر اگر لڑائی ہوجائے تو مشہور کردیں کہ یہ لوگ دراصل لڑنے کے لیے آئے تھے اور احرام دھوکہ دینے کے لیے باندھ رکھا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ اطلاع پاتے ہی راستہ بدل دیا اور ایک نہایت دشوار گزار راستہ سے حدبیہ کے مقام پر پہنچ گئے جو عین حرم کی سرحد پر واقع ہے ۔ قریش نے یکے بعد دیگرے تین سرداروں کو بھیجا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو واپس جانے پر آمادہ کریں تینوں نے دیکھ لیا کہ یہ لوگ لڑنے کے لیے نہیں بلکہ بیت اللہ کا طواف کرنے کے لیے آئے ہیں تو ان تینوں نے قریش کے سرداروں کو مشورہ دیا کہ وہ ان زائرین حرم کا راستہ نہ روکیں ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنی طرف سے حضرت عثمان ؓ کو ایلچی بنا کر مکہ بھیجا کہ ہم جنگ کے لیے نہیں بلکہ زیارت کے طواف اور قربانی کرکے واپس چلے جائیں گے ، مگر وہ لوگ نہ مانے اور حضرت عثمان کو مکہ ہی میں روک لیا ، اس دوران یہ خبر اڑ گئی کہ حضرت عثمان قتل کردئیے گئے ہیں ۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہا کہ مسلمان جنگ کے لیے تیار ہوجائیں چناچہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے تمام ساتھیوں کو جمع کیا اور ان سے اس بات پر بیعت لی کہ اب یہاں سے ہم مرتے دم تک پیچھے نہ ہٹیں گے ۔ یہی وہ بیعت ہے جو بیعت رضوان کے نام سے تاریخ اسلام میں مشہور ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ خبر غلط تھی، حضرت عثمان خود بھی واپس آگئے اور قریش کی طرف سے ایک وفد صلح کی بات چیت کرنے کے لیے آیا ۔ طویل گفت و شنید کے بعد جن شرائط پر صلح نامہ لکھا گیا وہ یہ تھیں ۔ (1) دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بند رہے گی ۔ (2) اس دوران جو شخص بھاگ رسول اللہ ﷺ کے پاس جائے گا اسے وہ واپس کردیں گے اور آپ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس چلا جائے گا اسے وہ واپس نہ کریں گے ۔ (3) قبائل عرب میں سے جو قبیلہ بھی فریقین میں سے کسی ایک کا بھی حلیف بن کر اس معاہدے میں شامل ہونا چاہے گا اسے اس کا اختیار ہوگا ۔ (4) محمد اللہ ﷺ اس سال واپس جائیں گے اور آئندہ سال وہ عمرے کے لیے آکر تین دن مکہ میں ٹھہر سکتے ہیں ۔ جس وقت اس معاہدے کی شرائط طے ہورہی تھیں ، مسلمانوں کا پورا لشکر سخت مضطرب تھا ، اس معاہدہ میں سب سے زیادہ دو باتیں لوگوں کو بری طرح کھل رہی تھیں ۔ ایک شرط نمبر 2 ۔ تھی اس کے لیے آپ نے فرمایا کہ جو ہمارے پاس سے بھاگ کر ان کے پاس چلا جائے وہ ہمارے کس کام کا ہے ۔ اللہ اسے ہم سے دور ہی رکھے ، اور جسے ہم واپس کریں گے تو اللہ اس کے لیے خلاصی کی کوئی دوسری صورت پیدا فرما دے گا ۔ دوسری چیز جو لوگوں کے دلوں میں کھٹک رہی تھی وہ چوتھی شرط تھی ، دلوں میں خلش تھی کہ ہم طواف کرنے لیے آئے تھے لیکن اب طواف کے بغیر واپس جانے کی شرط مان رہے ہیں ۔ گویا ہم ناکام واپس جارہے ہیں ۔ آپ نے لوگوں کو سمجھایا کہ خواب میں اسی سال طواف کرنے کی صراحت تو نہ تھی ۔ ان شاء اللہ اگلے سال طواف ہوگا ۔ اس کے بعد جب یہ قافلہ صلح حدیبیہ کو اپنی شکست اور ذلت سمجھتا ہوا مدینہ کی طرف واپس جارہا تھا تو راستہ میں یہ سورة نازل ہوئی جس نے مسلمانوں کو بتایا کہ یہ صلح جس کو وہ شکست سمجھ رہے ہیں دراصل فتح عظیم ہے۔ آپ نے سب کو جمع کرکے یہ سورة تلاوت فرمائی ، اگرچہ اہل ایمان اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سن کر ہی مطمئن ہوگئے تھے، مگر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ اس صلح کے فوائد ایک ایک کرکے کھلتے چلے گئے وہ فوائد یہ تھے، (1) اب تک عربوں کی نگاہ میں مسلمانوں کی حیثیت قبائل عرب کے خلاف خروج کرنے والے ایک گروہ کی تھی اور وہ ان کو برادری سے باہر سمجھتے تھے، قریش نے یہ معاہدہ کرکے اسلامی ریاست کے وجود کو باقاعدہ تسلیم کرلیا اور قبائل عرب کے لیے یہ دروازہ بھی کھول دیا کہ ان دونوں سیاسی طاقتوں میں سے جس کیساتھ چاہیں حلیفانہ معاہدہ کرلیں ۔ مسلمانوں کے لیے زیارت بیت اللہ کا حق تسلیم کرکے قریش نے گویا یہ بھی مان لیا کہ اسلام کوئی بےدینی نہیں ہے اور دوسرے عربوں کی طرح اس کے پیرو بھی حج و عمرہ کے مناسک ادا کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔ اس سے اہل عرب کے دلوں میں وہ نفرت کم ہوگئی جو قریش کے پروپیگنڈا سے اسلام کے خلاف پیدا ہوئی تھی، (3) دس سال کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ ہوجانے سے مسلمانوں کو امن میسر آگیا اور انہوں نے عرب میں چاروں طرف پھیل کر تیزی سے اسلام کی اشاعت کی ، صلح حدیبیہ سے پہلے ۔ 19 ۔ سال میں اتنے آدمی مسلمان نہ ہوئے تھے جتنے اس کے بعد دو سال کے اندر ہوگئے ۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور ﷺ کے ساتھ صرف چودہ سو آدمی تھے اور دو سال بعد جب حضور ﷺ نے مکہ پر چڑھائی کی تو دس ہزار کا لشکر آپ کے ساتھ تھا ۔ (4) جنگ بندی کے بعد رسول اللہ ﷺ کو یہ موقع مل گیا کہ اپنے مقبوضات میں اسلامی قوانین کے اجراء سے مسلم معاشرے کو ایک مکمل تہذیب و تمدن بنادیں (5) قریش سے صلح کے بعد جنوب کی طرف سے اطمینان نصیب ہوجانے کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ مسلمانوں نے شمال عرب اور وسط عرب کی تمام مخالف طاقتوں کو بآسانی مسخر کرلیا صلح حدیبیہ کے تین ماہ بعد یہودیوں کا سب سے بڑا گڑھ خیبر فتح ہوگیا ۔ اور اس کے بعد تبوک تک کی متعدد یہودی بستیاں اسلام کے زیر نگین آتی چلی گئیں پھر وسط عرب کے وہ تمام قبلیے بھی ، جو قریش اور یہود کے ساتھ گٹھ جوڑ ررکھتے تھے ، ایک ایک کرکے تابع فرمان ہوگئے ۔ اس طرح حدیبیہ کی صلح نے دو ہی سال کے اندر عرب میں قوت کا توازن اتنا بدل دیا کہ اسلام کا غلبہ یقینی ہوگیا اس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر اس سورة کو پڑھا جائے تو اسے اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ (تفیہم القرآن ۔ ج 5 ۔ ص 34 تا 41 سے ماخوذ) نوٹ ۔ 2 صلح حدیبیہ کے سفر میں شامل چودہ سو صحابہ کرام وہ لوگ تھے جن کو سمجھانے والے سمجھاتے رہے کہ موت کے منہ میں مت جاؤ پھر بھی یہ لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر موت کے منہ میں جانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں کے جوش وجذبہ کا کیا عالم تھا، پھر ان کا یہ جوش وجذبہ اپنی آخری انتہا کو پہنچ گیا ۔ جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی کہ مرتے دم تک پیچھے نہیں ہٹیں گے ، اس کے فورا بعد صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوتا ہے ۔ اس ذہنی اور جذباتی کیفیت میں ان ہتک آمیز شرائط کو تسلیم کرنا اور عمرہ کیے بغیر مدینہ کی طرف واپسی کا سفر اختیار کرنا ایک معجزہ نظر آتا ہے اور بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ اللہ کی خصوصی توفیق کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 4 ۔ میں اسی کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ نے مومنوں کے دلوں میں سکینہ نازل کی ۔ (حافظ احمد یار صاحب کی کیسٹ سے ماخوذ ) اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں فیضان محبت عام تو ہے عرفان محبت عام نہیں ۔
Top