Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Kahf : 9
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ١ۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا
اَمْ حَسِبْتَ : کیا تم نے گمان کیا اَنَّ : کہ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ : اصحاب کہف (غار والے) وَالرَّقِيْمِ : اور رقیم كَانُوْا : وہ تھے مِنْ : سے اٰيٰتِنَا عَجَبًا : ہماری نشانیاں عجب
کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ہماری نشانیوں میں سے عجیب تھے ؟
9۔ 12:۔ ان آیتوں میں اصحاب کہف کے قصہ کی بابت پیغمبر ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ کھوہ والوں کا قصہ ہماری قدرت کے روبرو عجیب بات نہیں ہے کس لیے کہ آسمان و زمین کی پیدائش رات دن کا بدلنا چاند سورج اور اس کے سوا بڑی بڑی نشانیاں ہماری قدرت کی ہیں جو اصحاب کہف کے قصہ سے بھی عجیب ہیں سیرۃ محمد بن اسحاق تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں ان آیتوں کی تفسیر کے متعلق جس قدر قصہ مجاہد سے ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ کہف کے معنے غار کے ہیں اور جو لوگ غار میں پہنچے عیسائی تھے روم کے بت پرست دقیانوس بادشاہ نے ان لوگوں کو عیسائی مذہب کی حفاظت کے لیے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے وہ دعا مانگی جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے ان کی یہ دعا قبول ہوئی اور وہ باوجود تلاشی کے دقیانوس کے سپاہیوں کو نظر نہ آئے اور اللہ کے حکم سے ان اصحاب کہف کو اس غار میں ایسی نیند آئی کہ تین سو برس تک ان کی آنکھ نہ کھلی جب یہ اصحاب کہف اس وقت کے لوگوں کو نظر نہ آئے تو ان لوگوں نے اصحاب کہف کے نام اور ان کے غائب ہوجانے کی تاریخ یہ سب حال ایک پتھر پر کندہ کرا کے اس غار میں وہ پتھر رکھ دیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے صحیح قول کے موافق اسی پتھر کے کندہ کو رقیم فرمایا ہے کیونکہ جس طرح قتیل مقتول کی جگہ بولا جاتا ہے اسی طرح رقیم مرقوم کی جگہ بولا جاتا ہے ان کے غائب ہوجانے کے زمانہ کا تو کوئی شخص اس تین سو برس کے عرصہ میں زندہ نہیں رہا کہ ان کے غائب ہوجانے کی صحیح تاریخ اس کو یاد ہوتی اس لیے اصحاب کہف کی قوم کے نئے لوگوں میں دو گروہ ہوگئے ایک گروہ ان کے غائب ہوجانے کی مدت کچھ بتلاتا تھا اور دوسرا کچھ اختلاف کے رفع ہوجانے کے لیے اللہ کے حکم سے اتنے عرصہ میں ان کی آنکھ کھلی باقی کا قصہ آگے کی آیتوں میں آتا ہے لنعلم ای الحزبین اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق دنیا میں اس گروہ کا حال ظاہر ہوجائے جس نے اس پتھر کے کندے کے موافق اس قصہ کی صحیح تاریخ یاد رکھی ورنہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب سے کوئی چیز باہر نہیں ہے ‘ چناچہ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے 1 ؎۔ کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ 1 ؎ مثلا تفسیر ہذاص 30 ج 3۔
Top