Jawahir-ul-Quran - Al-Kahf : 9
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ١ۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا
اَمْ حَسِبْتَ : کیا تم نے گمان کیا اَنَّ : کہ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ : اصحاب کہف (غار والے) وَالرَّقِيْمِ : اور رقیم كَانُوْا : وہ تھے مِنْ : سے اٰيٰتِنَا عَجَبًا : ہماری نشانیاں عجب
کیا تو خیال کرتا ہے11 کہ غار اور کھوہ کے رہنے والے12 ہماری قدرتوں میں عجب اچنبھا تھے
11:۔ پہلے شبہ کا جواب :۔ یہاں سے لے کر احصی لما لبثوا امدا تک پہلے شبہ کا اجمالی رد ہے۔ شبہہ یہ تھا کہ اصحاب کہف عرصہ دراز تک غار میں سوئے رہے اس دوران میں انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچی۔ یہاں تک کہ اس عرصہ میں دھوپ بھی ان پر نہیں پڑی۔ سورج جب غار کے سامنے آتا تو رخ بدل لیتا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ متصرف فی الامور اور مختار تھے۔ اس بنا پر لوگوں نے ان کو کارساز اور غیب داں سمجھ کر پکارنا اور ان کے نام کی نذریں نیازیں دینا شروع کردیا۔ چناچہ وہ سات روٹیاں ان کے نام پر اور ایک ان کے کتے کے نام پر دیتے ہیں۔ ان آیتوں میں کئی طریقوں سے مذکورہ شبہہ کا جواب دیا گیا ہے۔ اول و دوم ” کانوا من ایتنا عجبا “۔” ام حسبت “ میں استفہام انکار کے لیے ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ آپ نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہماری قدرت کی نشانیوں میں سے اصحاب کہف کا واقعہ بہت ہی عجیب اس لیے کہ کافروں نے اس واقعہ کو آپ کی صداقت کا معیار قرار دیا ہے ایسا نہیں ہے بلکہ ہماری قدرت کی بہت سی نشانیاں اس سے کہیں زیادہ عجیب ہیں۔ قال الطبری تقریر لہ (علیہ السلام) علی حسبانہ ان اصحب الکہف کانوا عجبا بمعنی انکار ذلک علیہ ان لا یعظ ذلک بحسب ماعظم علیک السائلون من الکفرۃ فان سار ایات اللہ اعظم من قصتھم (بحر ج 6 ص 101) ۔ استفہام انکار سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بہت سی نشانیاں تو اصحاب کہف کے قصہ سے کہیں زیادہ عجیب اور عظیم الشان ہیں نادان لوگ اسی واقعہ کو دیکھ کر اصحاب کہف کو غیب داں اور کارساز سمجھ بیٹھے نیز اس سے معلوم ہوا کہ اصحاب کہف کا واقعہ قدرت خداوندی کی ایک نشانی تھی۔ ان کا غار میں سینکڑوں برس خیر و عافیت سے سوئے رہنا، دھوپ کا ان پر نہ پڑنا اور ھر عرصہ دراز کے بعد ان کا بیدار ہونا یہ سب کچھ محض اللہ کی قدرت اور اس کے تصرف سے ہوا تھا اس میں اصحاب کہف کا کوئی دخل یا اختیار نہیں تھا۔ سوم :۔ ” اذ اوی الفتیۃ الخ “۔ جب اصحاب کہف اپنا دین و ایمان بچا کر شہر سے نکل بھاگے تو ایک غار میں ناہ گزین ہوئے۔ یہ ان کے عجز و بیچارگی کی واضح دلیل ہے اگر وہ متصرف و کارساز ہوتے تو انہیں بھاگ کر غار میں پناہ لینے کی کیا ضرورت تھی۔ چہارم :۔ ” فقالوا ربنا اتنا الخ “ جب وہ غار میں پناہ گزین ہوچکے تو اللہ سے بصد عجز و نیاز دعا کی ” ربنا اتنا من لدنک رحمۃ “ رحمۃ میں میں تنوین تعظم کے لیے ہے۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں اپنی طرف سے اپنی خاص رحمت سے نوا۔ رحمت سے مراد عام ہے۔ یعنی معرفت حق، توحید پر ثبات، استقلال، رزق اور دشمنوں سے حفاظت وغیرہ۔ وھی الھدایۃ بالمعرفۃ والصبر والرزق والامن من الاعداء (کبیر ج 5 ص 681) ۔ ” وھیئ لنا من امرنا رشدا “ اور ہمارے اس معاملہ ہجرت میں ہماری صحیح راہنمائی فرما۔ اصحاب کہب تو خود اللہ تعالیٰ کو عالم الغیب متصرف و کارساز اور خزائن رحمت کا مالک سمجھ کر اس سے دعائیں مانگ رہے ہیں اور اس کے سامنے اپنی بےکسی اور بےبسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ بھلا وہ کس طرح الہ (معبود) بننے کے لائق ہوسکتے ہیں۔ پنجم :۔ ” فضربنا علی اذانھم الخ “ جب وہ غار میں داخل ہوئے اور سستانے کی غرض سے لیت گئے تو ہم نے ان پر نیند طاری کردی اور ان کو سینکڑوں برس اسی حالت میں پڑا رہنے دیا۔ اصحاب کہف کو اس بات کا خیال تک نہیں تھا کہ ان کے ساتھ ایسا عجیب و غریب واقعہ پیش آنے والا ہے اور انہیں تین سو سال تک حالت خواب میں رہنا ہوگا اس سے بھی ان کے متصرف و کارساز ہونے کی نفی ہوتی ہے۔ ششم :۔ ” ثم بعثنھم الخ “ عرصہ دراز کے بعد ہم نے ان کو بیدار کیا۔ انہیں بیدار ہونے کا اختیار نہیں تھا۔ ہفتم :۔ ” لنعلم ای الحزبین الخ “ اللہ تعالیٰ کا علم چونکہ محیط کل ہے اور ماضی، حال اور مستقبل کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں اس لیے علم سے یہاں اظہار مراد ہے تسمیۃ للسبب باسم المسبب۔ ” الحزبین “ سے اصحاب کہف کی دو جماعتیں مراد ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے کہا تھا کہ ہم تو ایک دن سے بھی کم سوئے ہیں دوم وہ جنہوں نے کہا تھا کہ اللہ ہی جانتا ہے ہم کتنا عرصہ سوئے ہیں۔ وھم القائلون لبثنا یوما او بعض یوم۔ والقائلون (ربکم اعلم بما لبثتم) (روح ج 5 ص 213) ۔ ہم نے کئی سو سال بعد ان کو بیدار کیا۔ تاکہ ہم ظاہر کریں کہ ان میں سے کس کو ٹھہرنے کی صحیح مدت یاد رہی۔ اصحاب کہف تو خود اپنے حال سے بیخبر تھے اور انہیں حالت خواب کی صحیح مدت بھی یاد نہ رہی تو وہ غیب داں کیونکر ہوسکتے ہیں۔ 12:۔ ” اصحب الکہف والرقیم “ کہف پہاڑ میں اس غار یا کھوہ کہ کہتے ہیں جو فراخ ہو۔ الکہف النقب المتسع فی الجبل (قرطبی ج 1 ص 356) ۔ ” الرقیم “ میں مفسرین کے اقول بہت مختلف ہیں۔ دو قول زیادہ مشہور ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ الرقیم سے مراد وہ پتھر کی تختی ہے جو ان کے غار پر نصب کردی گئی تھی جس پر ان کے نام کندہ تھے۔ قیل نسبو الی حجر رقم فیہ اسماءھم (مفردات راغب ص 301) ۔ قال الفراء الرقیم لوح کان فیہ اسماءھم وصفاتھم (کبیر ج 5 ص 280) اس صورت میں الرقیم بمعنی المرقوم فیہ ہوگا۔ بعض کہتے ہیں الرقیم اصحاب کہف کے گاؤں کا نام تھا۔ زعم کعب انھا قریۃ خرجوا منھا (قرطبی ) ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ایک مشرک بادشاہ دقیانوس نامی تھا جو خود بھی بت پرست تھا اور رعیت کو بھی بت پرستی پر مجبور کرتا تھا۔ اصحاب کہف کا واقعہ اسی دور میں پیش آیا۔ چند نوجوان جو خوشحال اور میر گھروں کے چشم و چراغ تھے۔ انھم اولاد عظماء تلک المدینہ (قرطبی ص 365) ۔ بلکہ دقیانوسکے درباریوں اور خواص امراء کی اولاد تھے۔ وکانوا من خواص دقیانوس (مدارک ج 3 ص 4) ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نور بصیرت عطا فرمایا وہ شرک سے بیزار ہوگئے اور صرف خدائے واحد کی عبادت کرنے لگے۔ اگرچہ انہوں نے اخفاء حال سے کام لیا مگر پھر بھی کسی نہ کسی طرح کچھ لوگوں کو ان کا حال معلوم ہوگیا۔ اور انہوں نے بادشاہ سے ان کی شکایت کردی۔ بادشاہ نے ان موحد نوجوانوں کو دربار میں طلب کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اس کے دین کا اتباع کریں۔ اس کے معبودوں کی عبادت کریں، اور ان کے ناموں کی نذریں نیازیں دیا کریں۔ اور ساتھ ہی انہیں دھمکی دی کہ اگر انہوں نے اس کے دین سے سرتابی کی تو انہیں قتل کردیا جائیگا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان نوجوانوں کو دولت استقامت سے مالا مال فرمادیا۔ اور وہ سر دربار بول اٹھے ” ربنا رب السموت والرض الایۃ “ ہمارا رب اور معبود تو وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ومالک ہے۔ ہم تو اس کے سوا کسی اور کو ہرگز نہیں پکاریں گے یہ سن کر بادشاہ نے ان نوجوانوں کو مہلت دی اور کہا ابھی تم عقل کے خام ہو۔ اس لیے اپنے معاملہ میں غور وفکر کرلو۔ نوجوانوں نے اس مہلت کو گنیمت سمجھا اور اپنا دین و ایماب چانے کیلئے شہر سے نکل کر کہیں چل دئیے۔ راستے میں انہیں ایک چرواہا ملا جو ان کی طرح موحد تھھا۔ وہ بھی ان کے ساتھ ہولیا۔ چرواہے کا کتا بھی ان کے پیچھے چل دیا۔ یہاں تک کہ وہ ایک غار میں پناہ گزین ہوگئے جب وہ سستانے کیلئے لیٹے تو اللہ تعالیٰ نے عرصہ دراز کے لیے ان پر نیند کو مسلط فرما دیا۔ کئی سو سال کے بعد وہ بیدار ہوئے تو ایساتھی کو کھانا لانے کیلئے بازار بھیجا۔ جب دکاندار کو رقم ادا کی تو وہ پرانے سکے دیکھ کر حیران ہوا اور خود اس آدمی کی شکل و صورت بھی ایسی اجنبی سی معلوم ہوئی۔ چناچہ بادشاہ وقت بیدروس کے سامنے پیش کردیا گیا جو مومن اور موحد تھا۔ جب اس نوجوان کے بتانے سے بادشاہ کو معلوم ہوا کہ یہ انہیں نوجوانوں میں سے ہے جو دقیانوس کے زمانے میں روپوش ہوگئے تھے تو وہ بہت خوش ہوا اور بہت سے شہریوں کو ساتھ لے کر اس نوجوان کے ہمراہ غار پر پہنچا اور باقی نوجوانوں سے ملاقات کی جب نوجوانوں کو معلوم ہوا کہ بادشاہ اور بہت سی رعایا توحید قبول کرچکے ہیں تو بہت مسرور ہوئے۔ اس کے بعد اصحاب کہف اسی غار میں خلوت گزیں ہوگئے اور وہیں ان کا انتقال ہوگیا۔ من القرطبی وغیرہ۔
Top