Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 9
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ١ۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا
اَمْ حَسِبْتَ : کیا تم نے گمان کیا اَنَّ : کہ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ : اصحاب کہف (غار والے) وَالرَّقِيْمِ : اور رقیم كَانُوْا : وہ تھے مِنْ : سے اٰيٰتِنَا عَجَبًا : ہماری نشانیاں عجب
کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ بیشک اصحاب کہف اور رقیم تھے ہماری آیتوں میں سے عجیب ۔
ربط آیات : سورة کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حقانیت وصداقت کو بیان کیا اور پھر اس کے ذریعے لوگوں کو ڈرانے کا حکم دیا ، ایک عام تخویف ہے کہ سارے کے سارے لوگ اللہ کے آنے والے عذاب سے ڈر جائیں اور دوسری تخویف ان لوگوں کے لیے خاص ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرتے ہیں اور عقیدہ تثلیث کے قائل ہیں ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر کو تسلی دی کہ جو لوگ گمراہی کو ترک کرکے ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ، آپ ان کے لیے زیادہ فکر مند نہ ہوں ، بلکہ فریضہ تبلیغ ادا کرتے رہیں باقی معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں اس کے بعد اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ اس نے زمین بھر کی چیزوں کو باعث رونق اور زینت بنایا ہے تاکہ انسانوں کو آزمایا جاسکے کہ کون ان میں سے اچھی فکر اور اچھے اعمال اختیار کرتا ہے ، فرمایا ایک دن آنیوالا ہے ، جب زمین پر موجود درخت ، پہاڑ ، ندی ، نالے ، پھول ، پھل کچھ بھی نہیں رہے گا اور زمین محض ایک چٹیل میدان بن کر رہ جائے گی ۔ (بعض علمی مسائل) یہاں پر (آیت) ” صعیدا جرزا “۔ کے الفاظ آتے ہیں جس کا معنی ہم نے چٹیل میدان کیا ہے ، صعید دراصل مٹی کو کہتے ہیں جیسا کہ تیمم کے مسئلہ میں سورة المائدہ میں موجود ہے (آیت) ” فتیمموا صعیدا طیبا “۔ پس تیمم کرو پاک مٹی ہے یعنی جب پانی نایاب ہو یا کوئی شخص پانی کے استعمال پر قادر نہ ہو تو وہ مسنون طریقہ کے مطابق پاک مٹی سے طہارت حاصل کرکے نماز ادا کرسکتا ہے ، مفسر قرآن امام ابوبکر جصاص (رح) نے اس سے بعض علمی مسائل اخذ کیے ہیں فرماتے ہیں کہ مٹی تو فطرۃ پاک چیز ہے اور جب روئے زمین کی ہر چیز فنا ہو کر مٹی کا حصہ بن جائے گی تو وہ ہر چیز بھی پاکیزگی کے حکم میں داخل ہوجائے گی ، اسی لیے زمین کی جنس سے متعلقہ تمام اشیاء مثلا گرد و غبار ، پتھر ، اینٹ روڑا ، چونا ، ہڑتال ، ریت وغیرہ پر ہاتھ مار کر تیمم کیا جاسکتا ہے فرماتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوا کہ کسی چیز کی جنس کی تبدیلی کے ساتھ اس کا حکم بھی بدل جاتا ہے ۔ مثلا نجاست ایک ناپاک چیز ہے اور اگر یہی نجاست جل کر راکھ بن جائے تو جنس کی اس تبدیلی کے ساتھ ہی اس کا حکم بھی بدل جائے گا اب اگر نجاست کی راکھ کپڑے کو لکھ جائے یا پانی میں مل جائے تو کپڑے یا پانی پر پلیدی کا حکم نہیں لگے گا ، اسی طرح حرام جانور کی چربی بھی حرام ہے اور اس کی خریدو فروخت اور اس کا استعمال حرام ہے لیکن اگر ماسوائے خنزیر اسی چربی سے صابن بنا لیا جائے تو جنس کی تبدیلی سے صابن پلید نہیں ہوگا بلکہ قابل استعمال ہوگا شراب بھی قطعا حرام ہے اس کی کشیدگی ، خریدو فروخت اور پینا پلانا سب حرام ہے اور اگر اسی شراب کو سرکہ میں تبدیل کرلیا جائے تو حرمت کا حکم ساقط ہوجائے گا اور سرکہ استعمال کیا جاسکے گا ، (عجیب و غریب واقعہ) جیسا کہ پہلے درس میں بیان ہوچکا ہے کہ مشرکین مکہ نے یہودیوں کے ایما پر حضور ﷺ سے تین سوال کیے تھے ان کا خیال تھا کہ آپ ان سوالوں کے جواب نہیں دے سکیں گے تو دین اسلام کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کا بہانہ مل جائے گا ، مگر اللہ تعالیٰ نے تینوں سوالوں کے جوابات دے یہود اور مشرکین کے منہ بند کردیے ، پہلا سوال روح کے متعلق تھا جس کا جواب گذشتہ سورة بنی اسرائیل میں گزر چکا ہے ۔ دوسرا سوال اصحاب کہف اور تیسرا ذوالقرنین کے متعلق تھا ان دونوں سوالوں کے جوابات اس سورة میں تفصیل کے ساتھ دے دیے گئے ہیں اب بعض تمہیدی باتوں کے بعد آج کی آیات میں اصحاب کہف کا واقعہ پہلے اجمالا بیان کیا جا رہا ہے جس کی تفصیل اگلے دو رکوع میں آرہی ہے ، تو اس عجیب و غریب واقعہ کے متعلق ارشاد ہوتا ہے ۔ (آیت) ” ام حسبت “ کیا آپ خیال کرتے ہیں (آیت) ” ان اصحب الکھف والرقیم “۔ کہ بیشک اصحاب کہف وارقیم (آیت) ” کانوا من ایتنا عجبا “۔ ہماری آیتوں میں سے بڑے عجیب تھے ، واقعہ اصحاب کہف شروع کرنے سے پہلے اللہ نے اشارۃ بتلا دیا ہے کہ یہ واقعہ تمہیں بڑا عجیب و غریب معلوم ہوگا ، حالانکہ اچنبھے کا یہ کوئی واحد واقعہ نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی لاکھوں واقعات ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانی کے طور پر ظاہر کیا ہے ، گذشتہ سورة میں واقعہ معراج بھی گزر چکا ہے جیسے کوئی انسان عقل کی کسوٹی پر نہیں جانچ سکتا ، اسی طرح اصحاب کہف کا واقعہ بھی ایسا ہی ہے جو عام معمولات سے ہٹ کر ہے اور پھر اسی نوعیت کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) کا واقعہ بھی آرہا ہے اس قسم کے تمام واقعات اللہ تعالیٰ اس لیے ظاہر فرماتے ہیں کہ لوگ ان پر غور وفکر کر کے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے دلائل کو سمجھ سکیں ، اور اس پر ایمان لاسکیں ۔ (اصحاب کہف والرقیم) کہف اور رقیم دو مختلف الفاظ ہیں ، کہف غار (CAVE کیو) کو کہتے ہیں ، چونکہ یہ چند نوجوان کسی پہاڑ کی غار میں پناہ گزیں ہوگئے تھے اس لیے انہیں اصحاب کہف کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے ، البتہ لفظ رقیم کے معانی کے تعین میں مفسرین میں اختلاف پایا جاتا ہے ، امام بخاری نے اپنی کتاب ” صحیح بخاری “ میں اس آیت کے ضمن میں ان تین آدمیوں کا حال بیان کیا ہے جن کو دوراں سفر بارش کی وجہ سے ایک غار میں پناہ لینا پڑی ، اسی دوران پہاڑ کے اوپر سے ایک بڑا سرک کر غار کے منہ پر آگیا جس سے غار کا منہ کلیتا بند ہوگیا ، اور اندر پناہ حاصل کرنے والوں کے لیے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ رہا ، پریشانی کے اس عالم میں ان تین آدمیوں نے فیصلہ کیا کہ ان میں سے ہر شخص اپنی زندگی میں کیے گئے کسی نیک عمل کا واسطہ دیکر اللہ تعالیٰ سے رہائی کی دعا کرے ، چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا پہلے آدمی کی دعا پر اللہ نے وہ پتھر غار کے منہ سے تھوڑا سا سرکا دیا پھر دوسرے نے دعا کی تو پتھر کچھ مزید ہٹ گیا ، حتی کہ تیسرے آدمی کی دعا کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ان محصورین کا راستہ کھول دیا اور وہ غار سے باہر آگئے ، امام صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ رقیم سے یہ اشخاص مراد ہیں گویا آپ کے نزدیک اصحاب کہف اور اصحاب رقیم دو مختلف گروہ ہیں اصحاب کہف وہ چھ آدمی تھے جو اپنے ایمان کو بچانے کے لیے غار میں چھپ گئے تھے اور جنہیں اللہ نے تین سو سال تک سلائے رکھا اور اصحاب رقیم یہ تین آدمی تھے جو غار میں پھنس کر رہ گئے تھے مگر اللہ نے انہیں رہائی دے دی ، تاہم اکثر مفسرین فرماتے ہیں کہ اصحاب کہف والرقیم ایک ہی گروہ ہے ان کو اصحاب کہف غار میں پناہ گزیں ہونے کی وجہ سے کہتے ہیں اور رقیم انکی بستی کا نام تھا اس لیے اصحاب رقیم بھی کہلاتے ہیں بعض فرماتے ہیں کہ رقیم اس پہاڑ کا نام ہے جس کی غار میں یہ لوگ اتنا لمبا عرصہ سوئے رہے ، بعض کہتے ہیں کہ رقیم اس کتے کا نام تھا جو ان لوگوں کی پناہ گزینی کے دوران غار کے منہ پر بیٹھا رہا ۔ بعض فرماتے ہیں کہ رقیم بروزن فعیل ہے مگر مفعول کے معنی دیتا ہے ، اس طرح رقیم دراصل مرقوم ہے ، گویا اصحاب کہف کے نام کتبے پر مرقوم یعنی لکھے ہوئے تھے ، اس لیے انہیں اصحاب رقیم بھی کہا جاتا ہے کہتے ہیں کہ اصحاب کہف بڑی حیثیت کے لوگ تھے ، ا ن کا تعلق شاہی خاندان سے تھا یا حکومت وقت کے اعلی عہدیداروں کی اولاد تھے جب یہ لوگ اچانک لاپتہ ہوگئے تو ان کی تلاش کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر تمام سرکاری اور نجی ذرائع کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ، چناچہ ان افراد کی نمایاں حیثیت اور واقعہ کی عجیب و غریب نوعیت کے پیش نظر حکومتی سطح پر ان لوگوں کے نام اور دیگر کوائف کسی کتبے پر لکھ کر سرکاری محافظ خانے میں محفوظ کردیے گئے ، اس طرح یہ لوگ اپنے نام مرقوم ہونے کی وجہ سے اصحاب رقیم کہلائے ۔ بعض فرماتے ہیں کہ اصحاب کہف کے نام اور کوائف ان کی گمشدگی کے وقت لکھ کر محفوظ نہیں کیے گئے تھے بلکہ تین سو سال کے بعد جب یہ لوگ نیند سے بیدار ہوئے تو زمانہ بدل چکا تھا کئی سلطنتیں تبدیل ہوچکی تھیں جب اس عجیب و غریب واقعہ کا انکشاف ہوا تو اس وقت ان کے نام وغیرہ ایک کتبے پر لکھ کر اس غار کے دہانے پر رکھ دیے گئے جس میں وہ سوئے رہے ، اس لحاظ سے ان کو اصحاب رقیم کہا جاتا ہے بعد میں وہاں پر مسجد بھی تعمیر کردی گئی ، تو گویا اصحاب کہف والرقیم کا معنی ہے غار اور تختی والے ۔ (چند نوجوان) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کا واقعہ اجمالی طور پر اس طرح بیان فرمایا ہے (آیت) ” اذ اوی الفتیۃ الی الکھف “۔ جب کہ پناہ پکڑی چند نوجوانوں نے غار کے اندر ، یہ نوجوان تعداد میں چھ تھے اور ساتواں وہ چرواہا تھا جو راستہ چلتے انکے ساتھ شریک ہوگیا تھا اور آٹھواں اس چرواہے کا کتا تھا ، جب دوران سفر ان لوگوں کو چرواہے سے ملاقات ہوئی تو اس نے انکے حالات اور سفر کا مقصد معلوم کرنا چاہا ، پہلے تو وہ اپنے متعلق حقیقت حال واضح کرنے سے ہچکچائے مگر بعد میں چرواہے کے اصرار پر انہوں نے پوری بات کہہ دی ، چرواہے نے کہا کہ میں بھی تمہاری طرح صحیح عقیدے پر ہوں ، لہذا مجھے بھی اپنے ساتھ شامل کرلو ، چناچہ وہ بھی ساتھ چل دیا ، وہ لوگ چرواہے کے اس کتے کو بھگانا چاہتے تھے مگر کتا ان کا ساتھ چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھا جب ان لوگوں نے کتے کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیا تو اللہ نے اسے قوت گویائی عطا فرمائی اور وہ کہنے لگا ، مجھے بھگاؤ نہیں ، میں بھی تم جیسے نیک لوگوں کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہوں ، مجھے ہمراہ لے چلو جب تم آرام کیا کرو گے تو میں تمہاری پہریداری کیا کروں گا ، چناچہ سات وہ تھے اور آٹھواں یہ کتا بھی ان کے ہمراہ ہو لیا ، اس کا ذکر بھی آگے آرہا ہے ۔ ان نوجوانوں کی طرح بعض دیگر بڑے بوڑھے بھی دین حق پر قائم تھے مگر بادشاہ وقت کے ظلم وستم کو مد نظر رکھتے ہوئے نہ اس کے خلاف آواز بلند کرسکتے تھے اور نہ ہی وہاں سے ہجرت کرنے کی طاقت پاتے تھے ، بدعقیدگی اور ظلم وجور کی گندگی سے نکل جانے گا انقلابی قدم ان چند نوجوانوں کے ذریعے ہی آتا ہے پوری زندگی میں جوانی کا زمانہ ہی ایک قیمتی سرمایہ ہوتا ہے اور دنیا میں بڑے بڑے انقلاب نوجوانوں کے ہاتھوں ہی برپا ہوتے ہیں خود حضور ﷺ کے اولین جان نثاراں بھی زیادہ تر نوجوان لوگ ہی تھے بوڑھے لوگ خال خال ہی تھے جو اسلام کے ابتدائی دور میں آپ پر ایمان لائے تو یہی نوجوان قرآن پاک کے پروگرام کو لے آگے بڑھے ، اور دین کا پیغام دنیا بھر میں پھیلا دیا ۔ قرآن میں بہت سی جگہوں پر جوانی اور شباب کا ذکر ہے اگر نوجوانوں کی صحیح تربیت کی جائے اور انہیں صحیح لائن پر لگا دیا جائے تو یہ لوگ ملک وملت کا بہترین سرمایہ ثابت ہوتے ہیں مگر افسوس کا مقام ہے کہ موجودہ دور میں نوجوانوں کے معاملہ میں بالکل بےاعتنائی برتی جا رہی ہے انہیں صحیح تربیت دینے کی بجائے کھیل تماشے ، عریانی ، فحاشی اور فلم بینی پر لگایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ان کی انقلابی صلاحیت آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے ۔ (اصحاب کہف کا زمانہ) واقعہ اصحاب کہف کی تفصیلات بیان کرنے کے باوجود قرآن پاک نے اس واقعہ کے زمانہ کا تعین نہیں کیا ظاہر ہے کہ قرآن کوئی تاریخ کی کتاب تو نہیں ہے جو ہر واقعہ کی جزئیات بھی بیان کرے ، پورے قرآن حکیم میں یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ کے علاوہ کسی بھی نبی کا واقعہ یا کوئی دیگر تاریخی واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کیا گیا ، البتہ صرف وہ واقعات بیان کیے گئے ہیں جو بنی نوع انسان کے لیے عبرت اور بصیرت کا سامان پیدا کرسکیں ، بایں ہمہ بعض فرماتے ہیں کہ چونکہ یہود کو اس واقعہ کے ساتھ خاص لگاؤ ہے ، اس لیے یہ واقعہ مسیح (علیہ السلام) کے دور سے پہلے پیش آیا ہے ، اس واقعہ کے زمانہ کے متعلق بھی کہتے ہیں کہ یہ انتوکس بادشاہ کا زمانہ تھا جو مسیح (علیہ السلام) سے 161 برس پہلے گزرا ہے یہ بڑا ظالم بادشاہ تھا اس نے بیت المقدس کو گرا کر یہاں مندر تعمیر کروایا ، جہاں پر بت پرستی ہوتی تھی ، یہ شخص خود بھی کفر وشرک میں ڈوبا ہوا تھا ، بعض کہتے ہیں کہ اصحاب کہف کا واقعہ روم کے بادشاہ قیصر (DECIOS ڈیسس) کے دور میں پیش آیا جو مسیح (علیہ السلام) سے 251 برس بعد گزرا ہے ، یہ بھی بڑا ظالم بادشاہ مشہور تھا ، خاص طور پر مسیح (علیہ السلام) کے پیروکاروں پر ظلم وستم ڈھاتا تھا ، عربی زبان میں اس بادشاہ کا نام دقیانوس بتایا جاتا ہے ، اسی زمانے میں یہ چند نوجوان کہیں سفر پر گئے تو کسی مقام پر انہوں نے کسی نیک آدمی کا وعظ سنا تو اس سے متاثر ہو کر دین حق کو قبول کرلیا ، پہلے تو اپنے دین کو چھپاتے رہے مگر جب بادشاہ کا ظلم وستم حد سے بڑھ گیا تو یہ مجبور ہوگئے ، وہ بادشاہ لوگوں کو غیر اللہ کے سامنے سجدہ کرنے پر مجبور کرتا تھا اور غیر اللہ کے نام کی قربانیاں بھی کرواتا تھا ، چونکہ یہ چند نوجوان ایسا کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہذا انہوں نے بستی سے بھاگ جانے کا پروگرام بنایا اور اس طرح اس غار میں آکر چھپ گئے ان کو غار میں سوئے سوئے 309 سال گزر گئے اور اس طرح مسیح (علیہ السلام) کے بعد 560 سال کا عرصہ گزر چکا تھا حضور ﷺ کی ولادت باسعادت 571 ء میں ہوئی اور اس طرح اصحاب کہف آپ کی ولادت سے بیس سال پہلے نیند سے بیدار ہوئے مختلف زمانوں کا تعین مؤرخین کی ذاتی کاوشوں کا نتیجہ ہے مگر یقینی طور پر کسی زمانے کا تعین نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس ضمن میں وحی الہی خاموش ہے اس ضمن میں امام جلال الدین سیوطی (رح) اپنی اصول تفسیر کی کتاب میں فرماتے ہیں ” ابھموا ما ابھم اللہ “ جس بات کو اللہ نے پردے میں رکھا ہے اسے پردے میں ہی رہنے دو ، اس کی تفصیل میں مت پڑو ، ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے جتنا اللہ نے اس واقعہ سے پردہ اٹھایا ہے ۔ (اصحاب کہف کا مقام) اس واقعہ کے مقام کے متعلق بھی مؤرخین اور مفسرین میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض کہتے ہیں کہ یہ واقعہ شام کے علاقے میں پیش آیا ، مولانا الکلام آزاد (رح) نے پیٹرا (بطرا) کا نام لکھا ہے کہ اس مقام پر یہ واقعہ پیش آیا ، سید سلیمان ندوی نے بھی ایسا ہی اشارہ کیا ہے یہ خلیج عقبہ کے پاس کوئی جگہ تھی ، بعض مفسرین اسے اندلس کا واقعہ بیان کرتے ہیں کیونکہ وہاں کی تاریخ میں اس قسم کے واقعات ملتے ہیں ، بعض کہتے ہیں ایشائے کوچک میں افسوس کے مقام پر یہ واقعہ پیش آیا ، تاہم زیادہ گمان یہی ہے کہ یہ شام یا اس کے اطراف میں کوئی مقام ہے ، قرآن وحدیث میں اس کی کوئی تصریح موجود نہیں ہے ، البتہ دمشق سے بیس پچیس میل کی مسافت پر ایک غار ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہی اصحاب کہف کا مقام ہے لوگ اس غار کی زیارت کے لیے جاتے ہیں ، حضرت شیخ الحدیث بھی جب حج کر کے واپس آ رہے تھے تو دمشق پہنچ کر آپ نے بھی اس غار کی زیارت کی تھی ، وہاں پر کچھ قبریں ہیں ، کتبے بھی لگے ہوئے ہیں مسجد بھی ہے ، کہتے ہیں کہ یہ اصحاب کہف کی غار ہے ۔ واللہ اعلم ۔ (اصحاب کہف کی دعا) بہرحال اللہ نے فرمایا کہ جب پناہ پکڑی چند نوجوانوں نے پہاڑ کی غار میں (آیت) ” فقالوا “ تو انہوں نے یہ دعا کی ” ربنا من لدنک رحمۃ “ اے ہمارے پروردگار ، دے دے ہمین اپنی طرف سے مہربانی (آیت) ” وھی لنا من امرنا رشدا “ اور مہیا کر دے ہمارے لیے ہمارے معاملہ میں درستگی کی بات ، دراصل یہ تعلق باللہ کی درستگی کی بات ہے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ مدار فوز و فلاح تعلق باللہ کی استواری پر ہی ہے ان لوگوں کا تعلق اللہ کے ساتھ صحیح تھا جبھی تو یہ محض دین حق کی حفاظت کے لیے گھر بار چھوڑ کر غار میں پناہ گزیں ہوگئے تھے تو انہوں نے انتہائی بےکسی کی حالت میں اپنے مالک الملک کے حضور دعا کی ، ان کی بےبسی اور مجبوری کا حال اگلے رکوع میں بیان کیا جا رہا ہے ۔ (نیند اور بیداری) اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ ہم نے ان کی دعا اس طرح قبول کی (آیت) ” فضربنا علی اذانھم فی الکھف سنین عددا “۔ ہم نے انکے کانوں پر تھپکی دیدی غار کے اندر سال ہاسال گنے ہوئے جس ماں بچے کو سلانے کے لیے تھپکی دیتی ہے اس طرح اللہ نے ان اصحاب کہف کو میٹھی نیند سلا دیا اور اس نیند کو اتنا طویل کردیا کہ جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی بعض لوگ کئی کئی دن تک بیہوش رہتے ہیں ، یہ بیہوشی ماہ دو ماہ یا سال دو سال تک بھی ہو سکتی ہے مگر تین سو نوسال تک سلائے رکھنا اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ہے ۔ فرمایا (آیت) ” ثم بعثنھم “ پھر ہم نے ان کو اٹھایا یعنی نیند سے بیدار کیا (آیت) ” لنعلم ای الحزبین احصی لما لبثوا امدا “ تاکہ ہم آشکارا کردیں کہ دونوں گروہوں میں سے مدت قیام کو زیادہ یاد رکھنے والا کون سا گروہ ہے ، اصحاب کہف کے قیام کی مدت میں بہت زیادہ اختلاف تھا حتی کہ خود ان کے اندر بھی دو گروہ بن گئے ، کسی نے کہا کہ ایک دن یا اس کا کم وبیش حصہ ٹھہرے ہیں اور کسی نے کچھ اور مدت بتائی ، بہرحال اللہ نے فرمایا کہ سلانے کے بعد ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ قیام کی مدت کے متعلق زیادہ صحیح گروہ کو واضح کریں ۔
Top