Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 9
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ١ۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا
اَمْ حَسِبْتَ : کیا تم نے گمان کیا اَنَّ : کہ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ : اصحاب کہف (غار والے) وَالرَّقِيْمِ : اور رقیم كَانُوْا : وہ تھے مِنْ : سے اٰيٰتِنَا عَجَبًا : ہماری نشانیاں عجب
کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ہماری نشانیوں میں سے عجیب تھے ؟
ذکر اجمالی قصہ اصحاب کہف قال اللہ تعالیٰ ام حسبت ان اصحب الکھف والرقیم .... الیٰ .... لما لبثوا امدا۔ (ربط) اوپر آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت کا ذکر تھا اب اصحاب کہف کا قصہ بیان کرتے ہیں جو آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کی بھی دلیل ہے اور قیامت کی بھی دلیل ہے۔ چنون کہ قریش نے یہود کے سکھلانے سے آپ ﷺ کی آزمائش کے لیے آپ سے تین سوال کئے تھے ایک روح کے متعلق جس کا جواب پہلی سورت میں گزر چکا ہے اب دوسرے سوال کے جواب میں اصحاب کہف کا قصہ کر کرتے ہیں کہ صدہا سال کے ماقبل کے واقعات کا صحیح صحیح علم بدون اللہ کے وحی کے ناممکن ہے اور ظاہر ہے کہ آپ ﷺ نے اصحاب کہف اور ذوالقرنین کا واقعہ نہ کسی سے سنا اور نہ کسی کتاب میں دیکھا اور نہ پڑھا یہ آپ ﷺ کے نبی ہونے کی دلیل ہے۔ اور اصحاب کہف کا واقعہ قیامت کی دلیل اس اعتبار سے ہے کہ جو خدا صدہا سال سلانے کے بعد بیدار کرسکتا ہے وہ صدہا اور ہزارہا سال کی موت کے بعد زندہ بھی کرسکتا ہے۔ کیونکہ النوم اخو الموت نیند اور خواب موت کا بھائی ہے دونوں بھائیوں کا حکم یکساں ہے حق جل شانہ نے اصحاب کہف کے قصہ کو اولا اجمالا اور پھر تفصیلا ذکر فرمایا۔ چناچہ فرماتے ہیں اے گمان کرنے والے کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ اصحاب کہف اور رقیم ہماری قدرت کی نشانیوں میں سے کوئی عجیب چیز تھے کیونکہ یہود نے جب قریش مکہ کو اصحاب کہف کا قصہ پوچھنے کی تلقین کی تو ان کی زبان سے یہ غلط نکلا تھا فانہ کان لہم امر عجیب (یعنی ان کا قصہ عجیب ہے) تو ان کے اس قول سے معلوم ہوا کہ وہ اس قصہ کو بہت ہی عجیب خیال کرتے تھے اور اسی خیال سے اس کو سوال کیلئے منتخب کیا اس لیے ارشاد فرماتے ہیں کہ کسی کا گمان ہے کہ یہ قصہ عجیب ہے بیشک عجیب ہے مگر ہماری آیات قدرت کے سامنے کوئی چیز عجیب نہیں آسمان اور زمین اور چاند اور سورج کی پیدائش کے عجائبات کہف کے حال سے کہیں زیادہ عجیب ہیں اور غارثور میں آنحضرت ﷺ اور آپ کے یار غار ابوبکر ؓ کی حفاظت کرنا اور دشمنوں کو اندھا بنا دینا کہ غار ثور کے منہ پر کھڑے ہو کر بھی آنحضرت ﷺ کو نہ دیکھ سکیں یہ اصحاف کہف کے قصہ سے کم عجیب نہیں اور اگر نزول سکینت و معیت خداوندی کی نعمت اور ملائکہ کی حراست اور حفاظت پر نظر کیجئے تو غار ثور کا واقعہ اصحاب کہف کے واقعہ سے بہت زیادہ عجیب ہے۔ اصحاب کہف و رقیم : کہف اس وسیع غار کو کہتے ہیں جو پہاڑ کے اندر ہو اور رقیم کے معنی لکھی ہوئی چیز کے ہیں لوگوں کے اصحاب کہف کے نام اور ان کا قصہ ایک پتھر یا رانگ کی تختی پر کندہ کرکے اس غار کے منہ پر نصب کردیا تھا اس وجہ سے ان کو اصحاب کہف و رقیم کہتے ہیں۔ اصحاب کہف اور اصحاب رقیم ایک ہی جماعت کے دو لقب ہیں غار میں ہونے کی وجہ سے اصحاب کہف کہلاتے ہیں اور چونکہ ان کے نام اور قصہ کی تختی لکھ کر وہاں لگا دی تھی اس لیے اصحاب رقیم کہلاتے ہیں بہر صورت اصحاب کہف اور اصحاب رقیم ایک ہی جماعت کے دو نام ہیں اور فی الحقیقت دونوں ایک ہیں اور بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ اصحاب رقیم اور اصحاب کہف دو علیحدہ علیحدہ جماعتیں ہیں اور رقیم کے معنی پہاڑ کی کھوہ کے ہیں اور قرآن کریم میں اصحاب کہف کا قصہ تو ذکر کیا گیا مگر اصحاب رقیم کا قصہ قرآن مجید میں ذکر نہیں کیا گیا محض عجیب ہونے کے لحاظ سے اصحاب کہف کے تذکرہ میں اس کا بھی ذکر کردیا گیا اور فی الحقیقت اصحاب رقیم (کھوہ والے) سے وہ تین اشخاص مراد ہیں جو بارش سے بھاگ کر ایک غار میں پناہ گزیں ہوئے تھے اور اوپر سے ایک پتھر آپڑا تھا جس نے غار کا منہ بند کردیا تھا اس وقت ہر شخص نے اپنی عمر کے نیک اور مقبول ترین عمل کا واسطہ دیکر اللہ تعالیٰ سے فریاد کی جس سے بتدریج غار کا منہ کھل گیا۔ امام بخاری (رح) نے اصحاب کہف کا ترجمہ منعقد کرنے کے بعد حدیث الغار کے عنوان سے ایک مستقل باب منعقد فرمایا اور اس کے ذیل میں بنی اسرائیل کے ان تین شخصوں کا قصہ ذکر فرمایا جو غار میں بند ہوگئے تھے اس لیے بعض لوگوں کو یہ گمان ہوگیا کہ اصحاب رقیم دوسری جماعت ہے اور راجح اور صحیح قول یہی ہے کہ رقیم کے معنی کھوہ کے نہیں بلکہ رقیم کے معنی کتاب مرقوم کے ہیں۔ جیسا کہ فراء سے منقول ہے کہ رقیم سے وہ لوح مراد ہے جس پر اصحاب کہف کے نام اور ان کے نسب اور ان کا دین اور مذہب مرقوم تھا اور اسی کو ابن جریر اور ابن کثیر (رح) علیہم نے اختیار کیا کہ صحیح یہ ہے کہ اصحاب کہف اور اصحا رقیم دونوں ایک ہی ہیں اور دوسرے قول کی بناء پر دو علیحدہ علیحدہ قصے ہیں۔ (دیکھو زاد المسیر لابن الجوزی ص 108 جلد 5) اب ان آیات میں حق جل شانہ اصحاب کہف کا قصہ ذکر فرماتے ہیں پہلے تو اللہ تعالیٰ نے مجمل اور مختصر ذکر فرمایا پھر ضروری تفصیل فرمائی۔ چناچہ فرماتے ہیں یاد کرو اس وقت کو جب ان نوجوانوں نے دنیا کی زینت اور آزمائش سے منہ موڑ لیا اور کفر اور شرک کے فتنہ سے بھاگ کر ایک غار میں جاکر پناہ لی اور اپنے عالی شان مکانوں کو چھوڑ کر غار کو اپنا مأوی اور ملجا بنایا کیونکہ یہ جوان سب شاہی خاندان کے تھے بڑے دولت مند تھے اور محلوں کے رہنے والے تھے۔ چونکہ عزیر و اقارب کافر تھے اور بادشاہ وقت بت پرست ظالم تھا لوگوں کو کفر و شرک پر مجبور کرتا تھا اس لئے یہ چند جو انان ہمت اور مردان آخرت اپنے دین اور ایمان کو لے کر شہر سے بھاگے اور شہر کے قریب پہاڑ کے ایک غار میں جا چھپے کہا جاتا ہے کہ اس پہاڑ کا نام بنجلوس تھا اور اس غار کا نام جیرون تھا۔ واللہ اعلم۔ پس جب غار پر پہنچے تو دعا کی اور یہ کہا اے ہمارے پروردگار ہم کو اپنے پاس سے خاص رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں ہمارے لیے کامیابی اور راہ بالی مہیا فرماتا کہ ہمارا انجام نیک ہو رحمت سے مراد حق اور ہدایت پر استقامت اور دشمنوں سے امن اور حفاظت ہے۔ سو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور اس کا سامان یہ کیا کہ اس غار میں گنتی کے چند سالوں تک ان کے کانوں پر پردہ ڈال دیا۔ یعنی غار میں ان کو ایسی گہری نیند سلا دیا کہ گویا کہ ان کے کانوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں کہ کوئی آواز ان کے کانوں تک نہ پہنچ سکے مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان کو تمام زحمتوں اور پریشانیوں سے بےخوف و خطر آرام سے سلا دیا اور ہم نے ان پر ایسی نیند غالب کردی کہ برسوں تک بےفکر سوتے رہے اور اللہ تعالیٰ نے گنتی کے سال ان تین سو برسوں کو اس لئے فرمایا کہ حق تعالیٰ کے یہاں تو ایک دن ہزار سال کا ہے وان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون : اس اعتبار سے تو وہ گویا چند گھنٹے سوئے اور چند گھنٹے سونا کوئی عجیب بات نہیں یہ نادان کیوں تعجب کرتے ہیں۔ حق تعالیٰ نے اپنی کمال قدرت کے ظاہر کرنے کے لئے سنین عددا کا لفظ استعمال فرمایا۔ پھر ان گنتی کے سالوں کے بعد ہم نے ان کو نیند سے اٹھایا جیسے موت کے سالہا سال بعد لوگوں کو قیامت میں اٹھا ویں گے تاکہ ہم دیکھ لیں اور دکھلا دیں کہ اس قصہ میں دو فریقوں میں سے کون سے فریق نے ان کے غار میں رہنے کی مدت کو خوب یاد رکھا ہے۔ اور کس کا شمار بہت صحیح ہے جب وہ جاگے تو آپس میں گفتگو ہوئی کہ کس قدر سوئے کسی نے کہا کہ ایک دن یا ایک دن سے بھی کچھ کم۔ لبثنا یوما او بعض یوم اور کسی نے کہا کہ تمہارا پروردگار ہی خوب جانتا ہے کہ تم کتنی مدت سوئے قالوا ربکم اعلم بما لبثتم انہیں کا قول ٹھیک تھا کیونکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ تم طویل مدت سوئے یہ کلام اجمالی طور پر صحیح ہے اگرچہ اس میں مدت کا تعین نہیں۔ یہاں تک اللہ تعالیٰ نے ان کے حال کو اجمالی طور پر بیان فرمایا اور آئندہ آیات میں اس کی ضروری تفصیل فرمائی اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ آیات کی تفسیر سے پہلے اصحاب کہف کے قصہ کی کچھ تفصیل کردی جائے تاکہ ناظرین کو آیات کے سمجھنے میں سہولت ہو۔ اصحاب کہف کا قصہ محمد بن اسحاق (رح) اور دوسرے اہل سیر نے نقل کیا ہے کہ ملک روم میں دقیانوس نامی ایک بت پرست بادشاہ تھا جو بڑا ظالم اور جبار تھا۔ اپنی رعایا کو بت پرستی پر مجبور کرتا تھا اور زبردستی ان سے بتوں کو سجدہ کراتا تھا جس شخص کی نسبت سنتا کہ وہ توحید پر قائم ہے اور بت پرستی سے متنفر ہے اس کو پکڑو ا بلاتا اور بت کے آگے سجدہ کرنے یا قتل ہوجانے کے درمیان اس کو اختیار دیتا جو بت کو سجدہ کرتا وہ نجات پاتا اور جو انکار کرتا اس کو سنگسار کرتا اور عبرت ناک سزا دیتا جہاں جہاں اس کی حکومت تھی سب جگہ یہی آفت برپا تھی۔ روم کے شہروں میں ایک شہر ” افسوس “ تھا۔ جس کو عرب ” طرطوس “ کہتے ہیں وہاں چند نوجوان تھے جو شاہی خاندان سے تھے ایک اللہ کی عبادت کرتے تھے اور توحید پر قائم تھے اور دین مسیحی کے پیرو تھے اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے گزرے ہیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع الی السماء کے بعد خواب سے بیدار ہوئے ہیں۔ (دیکھو روح البیان ص 221 جلد 5) امام طبری (رح) فرماتے ہیں کہ اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ یہ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد گزرے ہیں اور ان کا قصہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے کا ہے ابن کثیر (رح) نے اسی قول کو ترجیح دی ہے کہ یہ واقعہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے کا ہے۔ اس ظالم بادشاہ کو جب ان نوجوانوں کا حال معلوم ہوا تو اپنے پیادے بھیج کر ان کو پکڑوا بلوا لیا اور کہا کہ تم میرے معبودوں کو کیوں نہیں پوجتے اور ان کے لئے قربانی کیوں نہیں کرتے تم کو چاہئے کہ عقیدہ توحید سے باز آجاؤ ورنہ میں تم کو قتل کر دوں گا اس کے جواب میں مکسلمینا نے جو ان میں سب سے بڑا تھا کہا کہ ہمارا معبود وہ ہے جس کی عظمت اور جلال سے آسمان و زمین پر ہیں ہم اس کے سوا کسی کو نہیں پوجیں گے تجھ سے جو ہوسکتا ہے کر گزر اس کے بعد دوسرے ساتھیوں نے بھی یہی کہا اس ظالم نے جب انکا یہ قول سنا تو ان کے کپڑے اور سونے چاندی کا جو زیور وہ پہنے ہوئے تھے سب اتروا لئے اور کہا کہ جس سزا کا میں نے تم سے وعدہ کیا ہے وہ میں تم کو ضرور دوں گا مگر میں تمہاری نو عمری کا خیال کرکے تم کو مہلت دیتا ہوں تاکہ تم اپنے معاملے میں غور و فکر کرلو اچھا اب تم جاؤ اگر تم نے عقل سے کام لیا تو بہتر ورنہ تمہاری سزا قتل ہے یہ کہہ کر وہ ظالم کام سے دوسرے شہر میں چلا گیا جب یہ نوجوان اس سے جدا ہوئے تو آپس میں مشورہ کرکے یہ طے کیا کہ سب اپنے اپنے باپ کے گھر سے کافی مقدار میں خرچ لے لیں پھر اس میں سے کچھ خیرات کریں اور باقی کو بطور توشہ اپنے ساتھ رکھیں اور شہر کے قریب جو پہاڑ ہے اس کے غار میں جاکر چھپ جائیں اور وہیں رہ کر اپنے خدا وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کرتے رہیں۔ چناچہ وہ سب اس رائے پر متفق ہوگئے تو ان میں سے ہر ایک نے اپنے باپ کے گھر سے خرچ لیا کچھ اس میں سے خیرات کیا اور باقی کو اپنے ساتھ لے کر غار کی طرف روانہ ہوئے راستہ میں سے ایک چرواہا اور چروا ہے کا کتا بھی ان کے پیچھے پیچھے ہو لیا ہرچند اس کو دفع کیا لیکن وہ دفع نہ ہوا اور اس نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ خدائے تعالیٰ نے اس کتے کو بولنے کی قوت دی تو بولا کہ تم جھ سے نہ ڈرو میں خدا کے دوستوں کو دوست رکھتا ہوں میں تمہاری حفاظت اور پاسبانی کروں گا۔ جب پہاڑ کے پاس پہنچے تو وہ چرواہا بولا کہ میں اس پہاڑ کے ایک غار کو جانتا ہوں کہ ہم اس میں پناہ لے سکتے ہیں۔ متفق ہو کر سب اس غار کی طرف روانہ ہوئے اور غار میں پہنچ کر نماز اور تسبیح اور تحمید میں مشغول ہوگئے ان میں سے ایک کا نام تملیخا تھا اس کے پاس سب نے اپنا خرچ جمع کروا دیا وہ رات کو چھپ کر اور بھیس بدل کر شہر میں جاتا اور ان کے لئے کھانا لاتا اور شہر کی خبریں ان تک پہنچاتا۔ جب دقیانوس اپنے کام سے فارغ ہو کر پھر شہر افسوس (طرطوس) واپس آیا تو اس نے ان سات جوانوں کی تفتیش کا حکم دیا تملیخا کو جب یہ معلوم ہوا کہ سرکاری طور پر ہماری تلاش ہو رہی ہے اور ہمارے اعزاء و اقارب کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ ہمارا پتہ بتلائیں تو تملیخا یہ معلوم کرکے تھوڑا کھانا اپنے ساتھ لے کر روتا ہوا اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور سارا حال بیان کیا اور بتلایا کہ وہ ظالم پھر شہر میں آگیا ہے۔ اور اس نے ہماری تلاش کا حکم دیا ہے یہ سنتے ہی سب گھبرا کر سجدہ میں گر پڑے اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ اے اللہ اس ظالم کے فتنے سے ہم کو پناہ دے اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ دعا سے فارغ ہو کر وہ آپس میں باتیں کرنے لگے اور ایک دوسرے کو تسلی دینے لگے اللہ تعالیٰ نے دفعۃً ان سب پر نیند طاری کردی اور سب پڑ کر سو گئے اور کتا غار کے منہ پر اپنی با ہیں پسار کر پڑگیا۔ اگلے روز دقیانوس نے ان کو تلاش کیا مگر کہیں ان کا پتہ نہ چلا شہر کے سرداروں سے پوچھا اور کہا کہ مجھ کو ان نوجوانوں کے لاپتہ ہونے کا بڑا رنج ہے اگر وہ توبہ کرلیتے اور میرے معبودوں کو پوجنے لگتے تو میں ان کو معاف کردیتا سرداروں نے کہا کہ حضور نے حدو درجہ مہربانی کی کہ ان سرکشوں پر رحم فرمایا اور ان کو مہلت دی وہ چاہتے تو اس مدت میں توبہ کرلیتے مگر انہوں نے توبہ نہ کی بڑے ہی سرکش اور نافرمان ہیں بادشاہ یہ سن کر اور غضب ناک ہوا اور ان کے باپوں کو پکڑوا بلایا اور پوچھا کہ بتلاؤ کہ تمہارے وہ سرکش بیٹے جنہوں نے میرے حکم کو نہیں مانا کہاں گئے انہوں نے کہا حضور واقعی سرکش ہیں۔ ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کہاں روپوش ہوگئے ہیں باقی ہم نے حضور کی کوئی نافرمانی نہیں کی ان کے جرم میں ہم کو قتل نہ کیجئے۔ بادشاہ نے یہ سن کر ان کو تو چھوڑ دیا اور جوانوں کی تلاش میں پڑگیا۔ بادشاہ کو بڑی تحقیق و تفتیش کے بعد کسی ذریعے سے یہ معلوم ہوا کہ وہ نوجوان شہر کے قریبی پہاڑ کے کسی غار میں جا چھپے ہیں بادشاہ کو یہ علم ان جوانوں کے باپوں کے ذریعے سے ہوا کہ انہوں نے بادشاہ کے ڈر سے بتلا دیا کہ وہ غار میں جاچھپے ہیں یا کسی اور ذریعے سے علم ہوا واللہ اعلم۔ غرض یہ کہ بادشاہ نے ان کے باپوں کو تو چھوڑ دیا اور اگلے روز خود دقیانوس ارکان دولت کو ساتھ لے کر ان کی تلاش میں نکلا اور اس غار کے منہ تک پہنچ گیا۔ مگر اس پر کچھ ایسا رعب اور دہشت طاری ہوئی کہ بادشاہ اور اس کے ہمراہیوں میں سے کوئی اندر داخل نہ ہوسکا اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو اس ظالم سے مخفی رکھا جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے یار غار کو جب وہ غار میں چھپے تھے کافروں سے پوشیدہ رکھا اور محفوظ رکھا اور ان کی نظروں کو ایسا خیرہ کردیا کہ آنحضرت ﷺ اور ابوبکر صدیق ؓ کو نہ دیکھ سکے حالانکہ وہ غار ثور کے کنارے پر تھے ذرا بھی اگر اپنے قدموں پر نظر کرتے تو آنحضرت ﷺ اور ابوبکر ؓ کو دیکھ لیتے۔ دقیانوس کو جب ان کا کچھ پتہ نہ چلا تو خدا تعالیٰ نے اس کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اس غار کے منہ کو بند کر ادیا جائے تاکہ بھوک پیاس سے تڑپ تڑپ کر اسی کے اندر مرجائیں اور یہی غار جس میں انہوں نے پناہ لی ہے وہی انکی قبر بن جائے۔ (تفسیر نمبر 1 درمنشورص 215 جلد 4) دقیانوس کا یہ خیال تھا کہ وہ اندر جاگ رہے ہیں اور جو کچھ ان کے ساتھ کیا جا رہا ہے اس کا ان کو علم ہے مگر اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ اندر میٹھی نیند سو رہے ہیں اور وہ کروٹیں بدل رہے ہیں اور ان کو کتا غار کے دروازے پر اپنی با ہیں پسارے پڑا ہے۔ دقیانوس کے حاشیہ نشینوں میں دو شخص تھے جو درپردہ مسلمان تھے اور اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھے ان میں سے ایک کا نام بیدروس اور دوسرے کا نام رون اس تھا۔ انہوں نے رانگ کی دو تختیوں پر ان نوجوانوں کے نام اور نسب اور مفصل واقعہ لکھ کر یا کندہ کرا کر ایک تانبے کے تابوت میں رکھا اور پھر اس تابوت کو غار میں رکھ دیا یا شاید اللہ تعالیٰ قیامت سے پہلے کسی مومن قوم کو ان جوانوں کے حال پر مطلع کرے۔ حافظ عسقلانی (رح) فرماتے ہیں کہ جب باوجود تلاس کے اصحاب کہف کا پتہ نہ چلا تو بادشاہ ہی نے حکم دیا کہ ان سب کے نام رانگ کی ایک تختی پر لکھ کر خزانہ میں محفوظ کر دئیے جائیں۔ (دیکھو فتح الباری ص 366 جلد 6 باب قولہ تعالیٰ ام حسبت ان اصحاب الکھف والرقیم۔ غرض یہ کہ وہ ساتوں جو ان غار میں جاکر چھپ گئے اور کسی کو ان کا پتہ نہ چلا اللہ تعالیٰ نے ان جوانوں کو ایسا سلایا کہ مسلسل تین سو سال تک سوتے رہے اس زمانہ میں دقیانوس بھی مرگیا اور اس کا قرن بھی گزر گیا اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے بہت سے بادشاہ ہوئے اور دنیا سے رخصت ہوئے مگر اصحاب کہف تین سو نو برس تک راحت و آرام سے اسی غار میں پڑے سوتے رہے جب ان کی بیداری کا وقت قریب آیا تو من جانب اللہ ایک ایسا بادشاہ آیا کہ جو عابد و موحد بھی تھا اور عادل بھی تھا اور بتوں کو توڑتا تھا اس کے دور حکومت میں اصحاب کہف تین سو سال کی طویل نیند سے بیدار ہوئے یہ فرماں روا نہایت نیک بخت اور خدا پرست تھا اور اس کا نام بید روس تھا اڑسٹھ سال اس نے سلطنت کی اس کے زمانے میں قیامت کے بارے میں بڑا اختلاف ہو رہا تھا بعض تو بالکل ہی قیامت اور حشر و نشر کے منکر تھے اور کہتے تھے کہ مرنے کے بعد دوبارہ جینا نہیں اور بعض کہتے تھے کہ قیامت حق ہے مگر روحانی ہے جسمانی نہیں یعنی حشر صرف روحوں کا ہوگا جسموں کا نہیں ہوگا مرنے کے بعد زمین جسم کو کھا جاتی ہے فقط روح باقی رہ جاتی ہے اس لئے فقط روح کا بعث ہوگا اور بعض کہتے تھے کہ روحانی اور جسمانی دونوں ہوگا کہ حسب سابق روحوں اور جسموں دونوں ہی کا حشر ہوگا۔ بادشاہ حق پرست اور نیک دل تھا لوگوں کا یہ اختلاف اس پر بڑا گراں تھا جب اس نے اہل باطل کو یہ کہتے سنا کہ زندگی کے سوا اور کوئی زندگی نہیں اور اگر حشر ہوگا تو صرف روحوں کا ہوگا جسموں کا نہیں ہوگا اس کو رنج ہوا کہ اہل باطل اہل حق پر غالب آنے کی کوشش کر رہے ہیں بادشاہ نے لوگوں کو نصیحت بھی کہ مگر لوگوں نے اس کی نصیحت کو قبول نہ کیا۔ جب بید روس نے یہ دیکھا تو اپنے گھر میں داخل ہوا اور دروازہ بند کرلیا اور دن رات اللہ کے سامنے رونے اور گڑ گڑانے لگا اور یہ دعا کرنے لگا کہ اے پروردگار تو ان لوگوں کے اختلاف کو دیکھ رہا ہے تو غیب سے ایسی نشانی بھیج کہ جس سے حق کا حق اور باطل کا باطل ہونا ظاہر ہوجائے اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کی اور اس شہر کے ایک شخص اولیاس نامی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ کوہ بنجلوس کے غار پر جو عمارت ہے اس کو گرا کر اپنی بکریوں کے لیے ایک باڑہ بنائے آخر مزدوروں کو لے کر اس عمارت کے پتھر اکھاڑنے شروع کئے جب غار کے منہ پر کے تمام پتھر اکھڑ چکے اور اس کا منہ کھل گیا تو حق تعالیٰ نے ان جوانوں کو بیدار کرکے اس میں بٹھا دیا۔ غار والے جب بیدار ہوئے تو ان کو یہ معلوم ہوا کہ ہم معمولی نیند سے بیدار ہوئے ہیں اور سمجھے کہ شاید ایک دن یا آدھے دن مصروف خواب رہے حالانکہ اس عرصہ دراز میں ملک کی کایا پلٹ چکی تھی نہ وہ حکومت رہی تھی نہ وہ بادشاہ رہا۔ خواب سے بیدار ہوتے ہی نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے جب نماز سے فارغ ہوء تو بھوک محسوس ہوئی۔ تملیخا سے کہا کہ شہر میں جاؤ وہاں سے کھانا مول لے کر آؤ اور دقیانوس اور اہل شہر کا حال معلوم کرکے آؤ۔ تملیخا نے کہا کہ کل شہر میں تمہاری تلاش ہوئی ہے اور بادشاہ کا ارادہ یہ ہے کہ وہ تم کو پکڑوا کر تم سے بتوں کو سجدہ کرائے یا تم کو قتل کر دے مکسلمینا نے ان سے کہا بھائیو ! تم کو معلوم ہے کہ ایک روز تم ضرور اپنے پروردگار سے ملنے والے ہو یہ دشمن خدا جب تم کو بلائے تو ہرگز ہرگز کفر نہ کرنا۔ پھر تملیخا سے کہا کہ تو شہر جا اور معلوم کر کہ ہمارے بارے میں دقیانوس کی کیا رائے ہے اور چپکے چپکے جا کہ کسی کو خبر نہ ہو اور کھانا لے کر جلد ہمارے پاس واپس آجا ہم بھوکے ہیں۔ تملیخا نے اپنے کپڑے اتارے اور مزدوروں جیسے میلے کپڑے پہنے اور بھیس بدل کر دقیانوس کے سکہ کے روپے اپنے ساتھ لے کر شہر کو چلا۔ جب غار کے منہ پر پہنچا تو وہاں کھڑے ہوئے پتھر دیکھے ان کو دیکھ کر سخت متعجب ہوا مگر اس کی پرواہ نہ کی اور سیدھا شہر کو چلا گیا۔ چونکہ دل پر دقیانوس کا خوف سوار تھا یہ معلوم نہ تھا کہ دقیانوس کو مرے ہوئے تین سو برس گزر چکے ہیں اور اس عرصہ میں کتنی سلطنتیں بدل چکی ہیں چھپتا چھپتا اور ڈرتا ڈرتا سہر میں داخل ہوا۔ دیکھا کہ شہر کا رنگ بدلا ہوا ہے جابجا اہل ایمان پر نظر پڑے یہ منظر دیکھ کر خیال ہوا کہ شاید یہ وہ شہر نہیں ہے اسی طرح حیران و ششدر گھومتا رہا بالآخر ایک جوان سے پوچھا کہ اے جوان اس شہر کا کیا نام ہے اس نے کہا افسوس (طرطوس) یہ سن کر تملیخا کو اور بھی حیرانی ہوئی کہ یہ ماجرا کیا ہے بالآخر پھرتا پھراتا نانبائیوں کی دکان کی طرف گیا اور کھانا خریدنے کے لیے روپیہ نکالا اور دکاندار سے کہا کہ مجھ کو اس روپیہ کا کھانا دیدو۔ دکاندار نے جب اس روپیہ کو اور اس کی ضرب کو دیکھا تو سخت متعجب ہوا اور کہنے لگا کہ یہ سکہ تو اس وقت کا نہیں اور اپنے پاس والوں کو دکھایا اور بولا کہ یہ سکہ تو دقیانوسی سکہ ہے۔ (جیسے آج کل کا محاورہ ہے کہ جو چیز پرانی ہوتی ہے) اس کو دقیانوسی کہتے ہیں۔ وہ غالبا اسی واقعہ سے ماخوذ ہے۔ اس دقیانوسی سکہ کو دیکھ کر لوگ تعجب میں پڑگئے اور آپس میں یہ کہنے لگے کہ شاید اس شخص کو پرانے وقتوں کا زمین میں گڑا ہوا خزانہ مل گیا ہے اور یہ شخص اپنا راز کسی پر ظاہر کرنا نہیں چاہتا لوگوں نے اس سے پوچھا کہ سچ بتاؤ کہ یہ روپیہ تم کو کہاں سے ملا ہے۔ شاید تم کو اگلے زمانہ کا کوئی خزنیہ یا دفینہ مل گیا ہے۔ تملیخا نے جب ان لوگوں کی یہ باتیں سنیں تو خوف کے مارے کانپنے لگا اور خیال کیا کہ شاید ان لوگوں نے پہچان لیا ہے اور اب یہ لوگ مجھ کو اپنے بادشاہ دقیانوس کے پاس لیجائیں گے۔ تمام شہر میں اس کا چرچا ہوگیا ہر شخص کی زبان پر یہی تھا کہ اس شخص کو پرانے زمانے کا خزانہ مل گیا ہے۔ اہل شہر اس کے اردگرد جمع ہوگئے اس کو دیکھتے اور یہ کہتے کہ بخدا یہ جوان اس شہر کا باشندہ نہیں۔ مگر اس کو دل میں یقین تھا کہ اس کا باپ اور اس کے بھائی اسی شہر کے ہیں وہ خبر سن کر ضرور چھڑانے آئیں گے۔ لیکن کوئی نہ آیا۔ اہل شہر تملیخا کو شہر کے دو بڑے افسروں کے پاس لے گئے جو بڑے نیک بخت تھے ایک کا نام آریوس اور دوسرے کا نام طنطیوس تھا۔ بڑے سوال و جواب کے بعد وہ دونوں افسر بولے کہ اس شخص کو بادشاہ کے پاس لے چلو۔ تملیخا کو یہ گمان ہوا کہ اب مجھ کو اس ظالم دقیانوس کے پاس لے جائیں گے۔ دائیں بائیں دیکھتا تھا اور روتا تھا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ظالم بادشاہ مرچکا ہے جسے مرے ہوئے صدیاں گزر چکی ہیں۔ تب تملیخا کو ہوش آیا اور اس کا رونا موقوف ہوا اس وقت اس نے بتایا کہ ہم چند جوان دقیانوس کے ڈر سے غار میں جا چھپے تھے وہاں کا کر ہم سوگئے آج ہم کھانا لینے آئے ہیں اور میں نے کوئی خزانہ نہیں پایا یہ روپیہ میرے باپ کا دیا ہوا ہے اس پر اسی شہر کا نقش ہے اور یہ سکہ اسی شہر میں ڈھلا ہے اور اپنے ساتھیوں کے نام بتلائے اور کہا کہ اگر آپ کو میری بات میں شک ہے تو وہ غار قریب ہے آپ دونوں حاکم میرے ساتھ چلیں اور جا کر خود تصدیق کرلیں اس گفتگو کے بعد آریوس اور طنطیوس اور اہل شہر غار کی طرف روانہ ہوئے تاکہ اصحاب کہف کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ ادھر تو یہ معاملہ گزرا اور ادھر اصحاب کہف پریشان تھے کہ تملیخا کو کھانا لانے میں دیر ہوگئی ہے خدانخواستہ کہیں پکڑا تو نہیں گیا یہ خیال کرکے نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے اور نماز سے فارغ ہو کر ایک دوسرے کو وصیت کرنے لگے۔ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں آریوس اور اس کے ساتھ غار کے منہ پر جا کھڑے ہوئے۔ تملیخا ان سے آگے غار میں داخل ہوا اور سار حال ان سے بیان کیا اس وقت ان کو یہ معلوم ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تین نو برس سوتے رہے اور صرف اس لئے جگائے گئے ہیں کہ لوگوں کے لیے قیامت کی نشانی اور حشر جسمانی کا نمونہ بنیں اور ان کے اس قدر طویل مدت تک پڑے سوتے رہنے اور پھر جاگ اٹھنے سے لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ قیامت اور حشر جسمانی بلاشبہ حق ہے۔ غرض یہ کہ غار میں اول تملیخا داخل ہوا اس کے پیچھے آریوس داخل ہوا جب وہ پہنچا تو اس نے وہاں تانبے کا ایک تابوت دیکھا جس پر چاندی کی مہر لگی ہوئی تھی دروازے پر کھڑے ہو کر رؤساء شہر کی ایک جماعت کو بلایا اور سب کے سامنے اس تابوت کو کھولنے کا حکم دیا اس میں رانگ کی دو تختیاں نکلیں جب پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی۔ ” مکسملینا، مخشلمینا، تملیخا، مرطونس، کشطونس، بیرونس، ویتمونس، لطبیوس، قابوس، والکلب اسمہ قطمیر۔ یہ چند نوجوان تھے جو اپنے بادشاہ دقیانوس سے اس خوف کو بناء پر کہ کہیں وہ ان کو دین سے نہ بچلا دے۔ بھاگ ہر اس غار میں جا مجھے جب بادشاہ کو ان کے غار میں چھپنے کی خبر ملی تو اس نے پتھروں سے اس غار کا منہ بند کرا دیا ہم نے ان کا کل حال اور قصہ لکھ دیا ہے تاکہ بعد کے لوگوں میں جو کوئی اس غار پر اطلاع پائے ان کا حال معلوم کرے۔ جب یہ لوح پڑھی گئی تو اس میں تملیخا کا نام نکلا اس وقت تملیخا نے کہا کہ میں تملیخا ہوں اور باقی میرے ساتھی ہیں جب آریوس اور اس کے ساتھیوں نے اس تحریر کو پڑھا تو حقیقت حال ان پر منکشف ہوئی اور بڑا تعجب ہوا کہ عجیب ماجرا ہے۔ تین سو سال کے بعد بیدار ہوئے اللہ کا شکر کیا اور اس کی حمد وثناء کی کہ اس نے قیامت کے دن مردوں کے زندہ ہونے کا نمونہ دکھلایا پھر آریوس نے اپنے نیک بخت نیک سیرت اور خوش بخت بادشاہ کے پاس قاصد بھیجا۔ جس کا نام بیدروس تھا کہ جلد آئے تاکہ آپ بھی اللہ کی شانیوں میں سے ایک نشانی دیکھ لیں آپ کے دور حکومت میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے حشر کا ایک نمونہ ظاہر کیا تاکہ لوگوں کو نور اور ضیاء حاصل ہو اور وہ حشر جسمانی کی تصدیق کریں وہ نشانی یہ ہے کہ اللہ نے چند نوجوانوں کو تین سو برس تک سلایا اور پھر ان کو صحیح سالم اٹھایا اسی طرح قیامت کے دن روح اور بدن اٹھائے جائیں گے اللہ نے اپنی قدرت کی ایک نشانی دکھلادی تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ معاد جسمانی حق ہے۔ شاہ بیدروس یہ خبر سنتے ہی شاداں وفرحاں وہاں پہنچا اور غار میں داخل ہو کر جوانوں کو دیکھا تو بکمال مسرت سجدہ میں گر پڑا پھر اس نے معانقہ کیا اصحاب کہف زمین پر بیٹھے اللہ کی تسبیح وتحمید کر رہے تھے ملاقات کے بعد اصحاب کہف نے شاہ بید روس سے کہا کہ ہم تم کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں اللہ تیری اور تیرے ملک کی حفاظت کرے اور جن وانس کے شر سے تجھ کو پناہ میں رکھے تم پر اللہ کا سلام ہو۔ یہ کہہ کر ان کو کپڑے اڑھائے اور حکم دیا کہ ان سے ہر ایک کو سونے کے تابوت میں رکھ دیا جائے رات کو جب سویا تو خواب میں آئے اور کہا ہم سونے کے نہیں ہم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں اور مٹی ہی میں مل جائیں گے جیسے پہلے تھے ویسے ہی ہم کو غار کے اندر مٹی پر رہنے دیا جائے۔ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ ہم کو اٹھائے تب بادشاہ نے ان کو ساج (سال) کے تابوت میں رکھوا دیا اور جب وہ لوگ وہاں سے نکلے تو دہشت کے مارے دوبارہ پھر اس مقام میں داخل نہ وہ سکے اور غار کے منہ پر بادشاہ نے ایک مسجد بنوا دی یہ اصحاب کہف کا واقعہ قیامت کا نمونہ ہے اور اس سے یقین ہوتا ہے کہ بیشک قیامت حق ہے جس خدا نے اصحاب کہف کو تین سو سال تک خواب کی حالت میں صحیح سالم پڑے رہنے کے بعد جگایا اسے مردوں کا زندہ کرنا کیا مشکل ہے ؟ اصحاب کہف کے قصہ کی یہ تفصیل جو ہم نے ہدیہ ناظرین کی ہے تفسیر سراج منیر ص 393 جلد 2 میں مذکور ہے اور ابتدائی قصہ کے اجزاء تفسیر قرطبی میں 357 جلد 10 سے لئے گئے ہیں اور اس کے علاوہ دیگر کتب سیرت سے بھی کچھ اجزاء اس میں شامل کر دئیے ہیں تاکہ پورا قصہ بیک نظر قارئین کے سامنے آجائے۔ آخر میں شاہ بیدروس کا واقعہ نقل کیا اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ نیک بخت بادشاہ غار میں داخل ہوا اور اصحاب کہف سے ملا اور وہ زندہ تھے اور اصحاب کہف نے اس کے لیے دعا کی لیکن بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب کہف بادشاہ کے غار میں داخل ہونے سے پہلے ہی وفات پاگئے اور بادشاہ نے ان کو غار میں مردہ پایا زندگی کی حالت میں ان کو نہیں دیکھ سکا اور نہ ان سے مل سکا۔ (دیکھو تفسیر در منثور ص 215 جلد 4) حافظ ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں کہ بادشاہ اور ارکان دولت جب غار کے دروازے پر پہنچے تو تملیخا نے کہا کہ آپ حضرات ذرا یہیں ٹھہریں پہلے میں اندر جاتا ہوں کہ اندر جاکر اپنے اصحاب کو خبر دوں تاکہ وہ اس ناگہانی آمد کو دیکھ کر گھبرا نہ جائیں چناچہ اول تملیخا غار میں داخل ہوا اس کے بعد علماء کے دو قول ہیں ایک قول تو یہ ہے کہ تملیخا کے اندر داخل ہوجانے کے بعد بادشاہ اور ارکان دولت سب ششدر اور حیران رہ گئے اور ان کو پتہ نہ چلا کہ تملیخا کہاں گیا (کیونکہ وہ غار بہت وسیع تھا) اور سب پر ایسا رعب اور ایسی ہیبت طارہ ہوئی کہ کوئی بھی اندر داخل نہ ہوسکا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے حال کو لوگوں سے پوشیدہ رکھا اور دوسرا قول یہ ہے کہ بادشاہ اور ارکان دولت غار میں داخل ہوئے اصحاب کہف سے ملے ان کو سلام کیا اور ان سے معانقہ کیا پھر اصحاب کہف نے اس مسلمان بادشاہ کو دعا دیکر رخصت کیا اور اپنی خواب گاہوں کی طرف لوٹ گئے اور اللہ نے ان کو وفات دی۔ (دیکھو تفسیر ابن کثیر ص 77 جلد 3) بادشاہ مع ارکان دولت ان سے مل کر غار سے باہر آیا اور غار کا منہ بند کرا دیا حافظ عسقلانی (رح) نے فتح الباری ص 367 جلد 6 میں جو روایت نقل کی ہے وہ پہلے قول کی تائید کرتی ہے وہ روایت یہ ہے : فاجتمع الناس فرفعوہ الی الملک فسالہ فقال علی باللوح وکان قد سمع بہ فسمی اصحابہ فعرفھم من اللوج فکبر الناس وانطلقوا الی الکھف وسبق الفتی لئلا یخافوا من الجیش فلما دخل علیہم عملی اللہ علی الملک ومن معہ المکان فلم یدر این ذھب الفتی فاتفق رایہم علی ان یبنوا علیہم مسجدا فجعلوا یستغفرون لہم منھم (کذا فی فتح الباری ص 367 جلد 6 باب قول اللہ تعالیٰ ام حسبت ان اصحب الکھف والرقیم من کتاب الانبیاء) (ترجمہ) جب تملیخا بازار میں کھانا لینے گیا تو اس کو اور اس کے سکہ کو دیکھ کر لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے اور پکڑ کر اس کو بادشاہ کے پاس لے گئے بادشاہ نے اس سے حقیقت حال دریافت کی اس نے اپنا اور اپنے ساتھیوں کا نام بتایا بادشاہ نے یہ خبر پہلے بھی سنی تھی۔ بادشاہ نے خزانہ سے وہ لوح رصاصی منگائی جس پر اصحاب کہف کے نام کندہ تھے وہ تختی خزانہ شاہی میں محفوظ تھی تملیخا نے جو نام بتائے وہ اس تختی کے مطابق تھے یہ سن کر اور یہ دیکھ کر بادشاہ نے پہچان لیا اور جان لیا کہ یہ جواب جو کہہ رہا ہے وہ سب حق اور صدق ہے سب نے اللہ اکبر کہا بعد ازاں بادشاہ اور لوگ غار کی طرف چلے جب غار پر پہلنچے تو اس جوان نے کہا کہ ذرا ٹھہرو ! میں پہلے اندر جا کر اپنے ساتھیوں کو خبر کر دوں کہ وہ ایکبارگی اس لشکر کو دیکھ کر ڈر نہ جائیں۔ چناچہ تملیخا اول غار میں داخل ہوا اور اندر چلا گیا بعد میں بادشاہ کو اور اس کے رفقاء کو پتا نہ چلا کہ وہ جوان کہاں چلا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مکان کو ان پر مخفی اور پوشیدہ کردیا مجبور ہو کر واپس آئے اس کے بعد سب کی متفقہ رائے یہ ہوئی کہ یہاں بطور یادگار ایک مسجد بنوا دی جائے اور پھر سب اصحاب کہف کے لیے دعا اور استغفار کرکے واپس ہوئے۔ اور بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ اصحاب کہف سے مل کر واپس ہوا اور اصحاب کہف اسی غار میں اپنی جگہوں پر لیٹ گئے اور بدستور ان پر نیند طاری ہوگئی اب وہ قیامت کے دن جاگیں گے جیسا کہ عنقریب امام قرطبی (رح) کے کلام سے اس کی تفصیل معلوم ہوگی۔
Top