Anwar-ul-Bayan - Al-Kahf : 9
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ١ۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا
اَمْ حَسِبْتَ : کیا تم نے گمان کیا اَنَّ : کہ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ : اصحاب کہف (غار والے) وَالرَّقِيْمِ : اور رقیم كَانُوْا : وہ تھے مِنْ : سے اٰيٰتِنَا عَجَبًا : ہماری نشانیاں عجب
کیا آپ نے یہ خیال کیا ہے کہ کہف اور رقیم والے ہماری نشانیوں میں سے عجیب چیز تھے،
اصحاب کہف اور اصحاب رقیم کون تھے یہاں سے اصحاب کہف کا قصہ شروع ہو رہا ہے کہف غار کو کہتے ہیں جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، چند نوجوان اپنے زمانہ کے بادشاہ اور دیگر کافرین سے اپنی جان اور دین و ایمان بچانے کے لیے ایک غار میں پناہ گزین ہوگئے تھے اس لیے انہیں اصحاب کہف کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ان کا واقعہ انشاء اللہ آئندہ آنے والے دو رکوع میں بیان کیا جائے گا لیکن چونکہ مذکورہ آیت میں (اَصْحَابُ الْکَھْفِ وَالرَّقِیْمِ ) فرمایا ہے اس لیے رقیم کا معنی بھی جاننا چاہیے اس کے بارے میں بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ یہ اصحاب کہف کے کتے کا نام ہے یہ حضرت انس صحابی ؓ اور حضرت شعبی تابعی ؓ سے منقول ہے اور حضرت سعید بن جبیر ؓ نے فرمایا کہ یہ ایک تختی تھی جو پتھروں سے تراشی ہوئی تھی اس میں اصحاب کہف کا قصہ لکھا ہوا تھا جو غار کے دروازہ پر رکھی ہوئی تھی اور حضرت ابن عباس ؓ کا دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ایلہ اور فلسطین کے درمیان وادی کا نام ہے اور اسی وادی میں وہ غار تھا جس میں اصحاب کہف نے پناہ لی تھی، حضرت ابن عباس سے یہ مروی ہے کہ جب ان سے رقیم کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں پھر فرمایا کہ میں نے کعب سے پوچھا (جو یہودیوں کے عالم تھے انہوں نے حضرات صحابہ کرام ؓ کے زمانہ میں اسلام قبول کیا) کیا رقیم اس بستی کا نام ہے جس میں سے یہ حضرات نکلے تھے۔ صاحب روح المعانی (ص 409 ج 15) فرماتے ہیں کہ ان سب اقوال کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوا کہ اصحاب الکہف والرقیم کا مصداق ایک ہی جماعت ہے پھر ایک قول نقل کیا ہے کہ اصحاب کہف اور اصحاب رقیم الگ الگ دو جماعتیں تھیں لیکن اس قول کی انہوں نے تائید نہیں کی اور اصحاب رقیم کے بارے میں احادیث صحیحہ ملتی بھی نہیں ہیں واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ اصحاب کہف کا زمانہ اصحاب کہف کے بارے میں حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ (صفحہ 114 ج 2) میں لکھا ہے کہ یہ لوگ دقیانوس بادشاہ کے زمانہ میں تھے اور بادشاہوں کی اولاد سے تھے ایک دن ایسا ہوا کہ عید کے موقع پر اپنی قوم کے ساتھ جمع ہونے کا اتفاق پڑگیا انہوں نے دیکھا کہ ان کی قوم بتوں کو سجدہ کر رہی ہے اور بتوں کی تعظیم میں مشغول ہے ان کا یہ حال دیکھ کر ان سے نفرت ہوگئی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کے پردے اٹھا دئیے اور ان کے دلوں میں ہدایت ڈال دی۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ لوگ صحیح دین پر نہیں ہیں لہٰذا انہیں چھوڑ کر چلے گئے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو اپنا دین بنالیا چونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم ان لوگوں میں رہیں گے تو یہ ہمیں دین توحید پر نہیں رہنے دیں گے اس لیے انہوں نے غار میں پناہ لے لی، ان کے ساتھ ایک کتا بھی تھا وہ ان کے دروازہ پر بیٹھا رہتا تھا۔ اللہ جل شانہ نے پہلے تو رسول اللہ ﷺ کا تعجب دور فرمایا اور فرمایا کیا آپ نے یہ خیال کیا ہے کہ کہف اور رقیم والے ہماری نشانیوں میں سے عجیب چیز تھے یہ کوئی عجیب چیز نہیں ہے کیونکہ اس سے بڑھ کر دوسری عجائبات اور آیات موجود ہیں مثلاً آسمان و زمین کو پیدا فرمانا وغیرہ ذلک یہ چیزیں بالکل معدوم تھیں ان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرما دیا اصحاب کہف کے قصہ میں اتنی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مدت دراز تک سلا دیا ان کے جسم نہیں گلے۔ مخالفین ان کے واقعہ کو تو تعجب کی چیز سمجھتے ہیں اور اسی لیے آپ سے سوال کر رہے ہیں اور اس سے بڑھ کر جو تعجب کی چیزیں ہیں ان میں غور نہیں کرتے اللہ تعالیٰ شانہ نے (اَمْ حَسِبْتَ ) فرما کر آپ کو مخاطب فرمایا اور اسی کے ذیل میں دوسروں سے بھی خطاب ہوگیا اور ان کو بھی بتادیا کہ یہ قصہ گو عجیب ہے لیکن اس سے بڑھ کر جو عجیب چیزیں ہیں ان کے مقابلہ میں یہ کچھ بھی عجیب نہیں ہے۔ اصحاب کہف کا غار میں داخل ہونا اس کے بعد اصحاب کہف کے واقعہ کا بیان شروع فرمایا ارشاد فرمایا کہ اس وقت کو یاد کرو جبکہ نوجوانوں کی جماعت نے کہف میں ٹھکانہ پکڑا اور ٹھکانہ پکڑتے ہوئے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں یوں دعا کی (رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً ) (اے رب ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما) (وَھَیِّءْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا) (اور ہمارے لیے ہمارے کام میں اچھی صورت حال مہیا کردیجیے) سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ سے ہوتا ہے اور وہ جس پر فضل فرمانا چاہے ہر جگہ فضل فرما سکتا ہے کوئی شخص جہاں بھی ہو، جس حال میں ہو، تنہا ہو، باجماعت ہو، آبادی میں ہو یا جنگل میں، پہاڑ میں ہو یا غار میں، اللہ تعالیٰ اسے دشمنوں سے بھی محفوظ رکھ سکتا ہے اس کے دین و ایمان کو بھی سالم رکھ سکتا ہے اور اس کے تمام حالات کو بھی درست فرما سکتا ہے، چونکہ اصحاب کہف اپنی قوم کو کفر و شرک میں مبتلا دیکھ کر فرار ہوئے تھے اور اس علاقہ میں غلبہ کافروں ہی کا تھا اس لیے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رحمت کی اور خیر و خوبی کی اور اچھی صورت حال کی دعا کی، اللہ تعالیٰ شانہ نے ان کی دعا قبول فرمائی کافروں سے محفوظ فرما دیا اور اسی غار میں انہیں سلا دیا جس میں انہوں نے پناہ لی تھی اور وہ اس میں اتنی مدت دراز تک سوئے اور سو کر اٹھنے کے بعد آپس میں یوں سوال کرنے لگے کہ بھئی اس غار میں آپ لوگ کتنے دن ٹھہرے ہیں ؟ اسی کو فرمایا (ثُمَّ بَعَثْنٰھُمْ لِنَعْلَمَ اَیُّ الْحِزْبَیْنِ اَحْصٰی لِمَا لَبِثُوْٓا اَمَدًا) (پھر ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ ہم جان لیں کہ دونوں گروہ میں سے کونسا گروہ ان کے ٹھہرنے کی مدت کو ٹھیک طرح شمار کرنے والا ہے۔ ) بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ پہلے گروہ سے انہیں میں سے وہ جماعت مراد ہے جنہوں نے سوال کیا کہ کتنے دن رہے اور دوسرے گروہ سے ان کی وہ جماعت مراد ہے جنہوں نے جواب میں یوں کہا (رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ ) (تمہارا رب ہی زیادہ جانتا ہے کہ تم کتنے دن ٹھہرے۔ ) حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ ایک گروہ سے اصحاب کہف اور دوسرے گروہ سے بادشاہ مراد ہیں جو اس طویل مدت میں (جس میں یہ حضرات سوتے رہے) یکے بعد دیگرے بادشاہ بنے (ذکرہ صاحب الروح صفحہ 212 ج 15) اللہ جل شانہ نے اصحاب کہف پر جو نیند مسلط فرما دی تھی اسے (فَضَرَبْنَا عَلیٰٓ اٰذَانِھِمْ ) سے تعبیر فرمایا انسان سوتا تو ہے آنکھوں سے لیکن گہری نیند وہ ہوتی ہے جبکہ سونے والا آواز سن کر بھی بیدار نہ ہوسکے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں : والمراد انمناھم انامۃ ثقیلۃ لا تنبھھم فیھا الاصوات بان یجعل الضراب علی الاذان کنایۃ عن الانامۃ الثقیلۃ۔
Top