Mufradat-ul-Quran - Al-Kahf : 9
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ١ۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا
اَمْ حَسِبْتَ : کیا تم نے گمان کیا اَنَّ : کہ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ : اصحاب کہف (غار والے) وَالرَّقِيْمِ : اور رقیم كَانُوْا : وہ تھے مِنْ : سے اٰيٰتِنَا عَجَبًا : ہماری نشانیاں عجب
کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ہماری نشانیوں میں سے عجیب تھے ؟
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَہْفِ وَالرَّقِيْمِ۝ 0ۙ كَانُوْا مِنْ اٰيٰتِنَا عَجَــبًا۝ 9 حسب ( گمان) والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت/ 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] ( ح س ب ) الحساب اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ كهف الْكَهْفُ : الغار في الجبل، وجمعه كُهُوفٌ. قال تعالی: أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ الآية [ الكهف/ 9] . ( ک ہ) الکھف کے معنی پہاڑ میں غار کے ہیں اس کو جمع کھوف آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ الآية [ الكهف/ 9] کہ غار اور لوح والے ۔ رقم الرَّقْمُ : الخطّ الغلیظ، وقیل : هو تعجیم الکتاب . وقوله تعالی: كِتابٌ مَرْقُومٌ [ المطففین/ 9] ، حمل علی الوجهين، وفلان يَرْقُمُ في الماء «2» ، يضرب مثلا للحذق في الأمور، وأصحاب الرَّقِيمِ «3» ، قيل : اسم مکان، وقیل : نسبوا إلى حجر رُقِمَ فيه أسماؤهم، ورَقْمَتَا الحمار : للأثر الذي علی عضديه، وأرض مَرْقُومَةٌ: بها أثر نبات، تشبيها بما عليه أثر الکتاب، والرُّقْمِيَّاتُ : سهام منسوبة إلى موضع بالمدینة . ( ر ق م ) الرقم کے معنی گاڑھے خط کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ رقم کے معنی کتاب پر اعراب اور نقطے لگانے کے ہیں ۔ اور آیت ؛كِتابٌ مَرْقُومٌ [ المطففین/ 9] وہ ایک کتاب ہے ( وقتا فوقتا ) اس کی خانہ پری ہوتی رہتی ہے ۔ میں مرقوم کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں یعنی گاڑھے اور جلی خط میں لکھی ہوئی یا نقطے لگائی ہوئی ۔ اور جو شخص کسی کام کا ماہر اور حاذق ہو اس کے متعلق ضرب المثل کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ فلان یرقم فی الماء یعنی وہ ماہر ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ [ الكهف/ 9] کہ غار اور لوح والے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ رقیم ایک مقام کا نام ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ اس پتھر کی طرف نسبت ہے جس میں ان کے نام کنندہ تھے اور گدھے کے دونوں بازؤوں پر جو نشان ہوتے ہیں انہیں رقمتا الحمار کہا جاتا ہے اور ارض مرقومۃ تھوڑی گھاس والی زمین کو کہتے ہیں گو یا وہ کتابت کے نشانات کی طرح ہے ۔ الرقمیات تیروں کو کہتے ہیں جو مدینہ کے ایک مقام کی طرف منسوب ہیں ۔ عجب العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا [يونس/ 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] ، ( ع ج ب ) العجب اور التعجب اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس/ 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔
Top