Mafhoom-ul-Quran - Al-Kahf : 9
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ١ۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا
اَمْ حَسِبْتَ : کیا تم نے گمان کیا اَنَّ : کہ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ : اصحاب کہف (غار والے) وَالرَّقِيْمِ : اور رقیم كَانُوْا : وہ تھے مِنْ : سے اٰيٰتِنَا عَجَبًا : ہماری نشانیاں عجب
کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ غار اور لوح والے ہماری نشانیوں سے عجیب تھے ؟
اصحاب کہف کا قصہ تشریح : قرآن پاک قصہ کہانیوں کی کتاب نہیں بلکہ اس کے ایک ایک لفظ سے حکمت و دانش، دانائی اور ہدایت کا سبق ملتا ہے اسی طرح اصحاب کہف کا واقعہ توحید، ایمان، توکل اور اللہ کی قدرت کاملہ کا اظہار کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ نے فرمایا ” کیا تم خیال کرتے ہو کہ اصحاب کہف ہماری نشانیوں میں سے عجیب تھے، ، ؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ لوگ صبر، دعا اور ایمان کی مضبوطی کی مثال پیش کر رہے ہیں۔ ہوا اس طرح کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تبلیغ کی وجہ سے یہودی علماء ان کے دشمن ہوگئے۔ یہاں تک کہ ان کو سولی پر چڑھانے کا منصوبہ تیار ہوگیا مگر اللہ نے ان کو زندہ اوپر اٹھا لیا۔ قرآن میں اسی طرح بتایا گیا ہے۔ تو اس طرح دین مسیح تقریباً ختم ہوگیا۔ مگر کچھ ان کو ماننے والے لوگ باقی موجود تھے جو اندر ہی اندر اپنے دین کی تبلیغ کرتے رہتے تھے ان کی وجہ سے کچھ گروہ ایسے بن گئے جو اللہ کی توحید، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت اور قیامت پر یقین رکھتے تھے، مگر ملک میں رومی حکمران تھے اور وہ بت پرست تھے، اس لیے بڑی تعداد بت پرستوں کی ہی تھی، لیکن 248 ء کے آخر میں جب ڈیسیس روما کے تخت کا مالک بنا تو اس نے مکمل طور پر مسیحی دین کو ختم کرنے کا ارادہ کرلیا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا جلد 7 صفحہ 120 پر لکھا گیا ہے کہ اس بادشاہ نے مسیحیت کو جڑ سے نکال پھینکنے کی پوری کوشش کی۔ ایشیائے کوچک بھی اسی ظلم و ستم اور عیسائیوں کے قتل و غارت گری کی زد میں آگیا۔ ڈیسیس کا گزر ایک دفعہ ایشیائے کوچک کی بستی افیسس پر ہوا۔ تو اس نے عیسائیوں کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا تو اس وقت کچھ عیسائی نوجوان اپنے ایمان کو بچانے کے لیے قریب ہی ایک وسیع غار میں جا چھپے اور اللہ رب العزت سے اپنی اور اپنے ایمان کی سلامتی اور حفاظت کے لیے گڑ گڑا کر دعائیں کرنے لگے۔ اللہ نے ان کی فریاد سنی اور ان پر نیند طاری کردی۔ اس غار کا منہ شمال کی طرف تھا، اس لیے اس میں دھوپ تو داخل نہ ہوتی مگر ہوا اور روشنی کا گزر بہت اچھی طرح ہوجاتا۔ اللہ کی قدرت سے وہ بغیر جسمانی نقصان اٹھائے قدرتی نیند میں پڑے رہے بلکہ وہ ایسے پہلو بدلتے جیسے سویا ہوا انسان پہلو بدلتا ہے۔ ان کے ساتھ ایک کتا بھی ہو لیا جو اللہ کی حکمت کی نشانی ہے۔ اس سارے راز سے تو اللہ ہی واقف ہے۔ قرآن پاک میں اصحاب کہف کے زمانے، تاریخ اور جگہ کے بارے میں بالکل کوئی وضاحت موجود نہیں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ کہف ایک وسیع غار کو کہتے ہیں اور الرقیم کے بارے میں بہت کچھ اختلاف ہے سب سے مناسب اس کا مطلب یہی لگتا ہے کہ وہ تانبہ کی تختی جس پر ان اصحاب کے نام لکھے ہوئے ہیں اور وہ محفوظ کردی گئی ہے ایک مناسب وقت تک کے لیے۔ ایک خاص جملہ ” بس ہم نے ان کے کان بند کردیے۔ “ یہ نیند کی اس کیفیت کا اظہار ہے جو گہری نیند میں ہوتی ہے۔ ہلکی نیند میں آنکھیں بند ہوجاتی ہیں لیکن کان اپنا کام جاری رکھتے ہیں، یعنی آواز کا سگنل اپنے متعلقہ محکمے کو پہنچاتے رہتے ہیں، پھر نیند کا غلبہ اس حد تک بڑھتا ہے کہ ہلکی پھلکی آواز کان رسیو نہیں کرتے بہت زور کی آواز ہو تو پھر کان کام کرتے ہیں، مگر یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” ہم نے ان کے کان بند کردیے۔ “ یعنی وہ مرے نہیں لیکن اتنی زبردست گہری نیند میں ہیں کہ ان کے کان بھی کام نہیں کر رہے۔ انسان کا یہ سارا سسٹم اسی کا بنایا ہوا ہے۔ وہ اپنی حکمت سے اگر اس میں کوئی تبدیلی کرنا چاہے تو وہ مالک ہے وہی اس پر قدرت رکھتا ہے۔ اس نے ان جوانوں، یعنی اصحاب کہف کو اس حالت میں کیوں رکھا ؟ یہ سب کچھ انسان کے علم سے بالکل باہر ہے، اس لیے اس کی تحقیق میں زیادہ جانے کی ضرورت نہیں، بس اتنا جان لینا کافی ہے کہ اگر اس وقت کے مسلمانوں پر یا آج کے مسلمانوں پر کوئی مصیبت ایمان کی وجہ سے پڑتی ہے تو انہیں گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ ایمان کی سلامتی اور حفاظت کے لیے اصحاب کہف کی طرح قربانی دینی چاہیے، جیسے انہوں نے ایمان کی حفاظت اور سلامتی کے لیے زندگی کی تمام آسائشیں آرام اور رشتہ داریوں، یعنی عزیز و اقارب سب کو چھوڑ کر صرف ایک غار کو اپنا ٹھکانا بنا لیا اور پھر اس حال میں ایمان کی سلامتی کے لیے اللہ سے دعا کی تو ان کی دعا اللہ نے اس طرح قبول فرمائی کہ وہ عام فطری زندگی کے برعکس ایک عجیب و غریب زندگی گزارنے لگے۔ تو یہ صلہ ہے ان کے اس عقیدے اور بےخوفی اور اللہ پر توکل کا جو انہوں نے بڑی دلیری سے تمام بااثر لوگوں کے سامنے اعلان کیا۔ اور کہا کہ اللہ ایک ہے، پوری دنیا اسی کی ملکیت ہے بلکہ ساری کائنات اسی کے حکم سے چل رہی ہے۔ وہی مالک ہے وہی خالق ہے رازق ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور جو لوگ اس کے سوا کسی اور کی عبادت کرتے ہیں وہ بالکل غلط لوگ ہیں گنہگار ہیں اور اللہ کے ناپسندیدہ لوگ ہیں۔ اصحاب کہف کی اسی حق پرستی اور اللہ سے محبت کے بدلہ میں اللہ نے فرمایا :” تو اب اس غار میں جا بیٹھو، تمہارا رب تم پر اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے کاموں میں تمہارے واسطے آرام بنا دے گا۔ “ (سورۃ کہف آیت : 16) جیسا کہ اگلی آیات میں بتایا گیا ہے۔ یہاں تک کا حال مختصراً دوبارہ بیان ہوجائے تو اچھا ہے۔ اصحاب کہف بادشاہ کے ملازم تھے بادشاہ مشرک تھا بلکہ اپنے آپ کو سجدہ کرواتا تھا جبکہ یہ نوجوان اللہ کی وحدانیت حضرت عیسیٰ کی رسالت اور آخرت پر ایمان رکھتے تھے۔ تو اس لیے انہوں نے شرک و کفر کی دنیا سے اپنے آپ کو علیحدہ رکھنا چاہا تو پھر انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ایمان کی سلامتی یہاں ان لوگوں کے ساتھ رہ کر ممکن نہیں، لہٰذا کہیں دور کسی غار میں چھپ کر زندگی گزاری جائے ایمان کی سلامتی کے ساتھ۔ غار میں گئے تو اللہ نے ان کو دنیاوی ضروریات سے بےنیاز کرتے ہوئے گہری ترین نیند سلا دیا پھر بڑے طویل عرصہ کے بعد وہ جاگے تو بھوک مٹانے کے لیے بازار کا رخ کیا۔ ان اصحاب کہف نے آپس میں پوچھا کہ کتنی دیر سوئے ہوں گے تو انہوں نے کہا کہ شاید ایک دن یا دن کا کچھ حصہ سوئے ہوں گے۔ بہرحال بازار میں ان کا اتنا پرانا سکہ اور لباس دیکھ کر شور مچ گیا۔
Top