بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
(اے نبی ﷺ بیشک ہم نے آپ کو ایک کھلی فتح عنایت کی ہے
لغات القرآن : آیت نمبر 1 تا 3 : فتحنا (ہم نے فتح دی۔ ہم نے کھول دیا) ‘ فتحامبینا (کھلی فتح) یغفر ( وہ معاف کردیتا ہے) تقدم ( آگے بھیجا) ذنب (گناہ ۔ خطا) تاخر (پیچھے ہوا) ‘ یتم (وہ پورا کرتا ہے) ینصر ( وہ مدد کرتا ہے) ‘ نصرا عزیزا ( زبردست مدد ) ۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 3 : نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ میں یہ خواب دیکھا کہ آپ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ آپ نے بیت اللہ کی کنجی لی اور صحابہ کرام ؓ سمیت آپ نے بیت اللہ شریف کا طواف کیا یعنی عمرہ ادا کیا۔ پھر کچھ انہوں نے اپنے سرمنڈوائے اور کچھ نے تھوڑے سے با کٹوائے۔ صحابہ کرام ؓ جانتے تھے کہ انبیاکرام (علیہ السلام) کے خواب وحی کا درجہ رکھتے ہیں لہٰذا وہ اللہ کا اشارہ سمجھتے ہوئے بیت اللہ کی زیارت کے لئے بےتاب ہوگئے۔ تب آپ ﷺ نے بھی اسی سال عمرہ ادا کرنے کا فیصلہ فرمالیا۔ آس پاس کی بستیوں میں جب اہل ایمان کو اطلاع ہوئی تو وہ بھی اس سفر عبادت میں شرکت کیلئے تیارہو گئے۔ تقریباً ڈیڑھ ہزار صحابہ کرام کی اس جماعت نے تیاریاں شروع کردیں۔ روانگی سے پہلے نبی کریم ﷺ نے غسل فرمایا۔ احرام پہن کر اپنی جگہ حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم ؓ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ آپ ہر سفر میں کسی نہ کسی ام المومنین کو ساتھ لے لیا کرتے تھے چناچہ اس سفر میں حضرت ام سلمہ ؓ کو آپ نے ساتھ لے جانے کا فیصلہ فرمایا۔ اس طرح آ پمسافر انہ ہتھیار یعنی میان کے اندر بند تلواریں لے کر ” قصوائ “ اونٹنی پر سوار ہو کر یکم ذی قعدہ 6 ھ بروز پیر اپنے جان نثار صحابہ کرام ؓ کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کے رخ پر چند میل کے فاصلے پر ذوالحلیفہ ہے وہاں آپ نے عرب کے اس وقت کے دستور کے مطابق ہدی (قربانی) کے جانوروں کو قلادے پہنائے۔ اونٹ کے کوہان چیر کر نشان بنائے اور عمرہ کا احرام باندھ کر روانہ ہوگئے جو اس بات کا عملی اعلان تھا کہ آپ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ صرف بیت اللہ کی زیارت یعنی عمرہ کا احرام باندھ کر روانہ ہوگئے جو اس بات کا عملی اعلان تھا کہ آپ اور آپکے صحابہ کرام ؓ صرف بیت اللہ کی زیارت یعنی عمرہ کے لئے جارہے ہیں جنگ یا کسی پر حملہ کرنے کا ارادہ نہیں ہے ۔ مکہ مکرمہ چاروں طرف پہاڑوں سے گھرا ہوا ایک شہر ہے۔ جب آپ نے اور صحابہ کرام ؓ نے حدود حرم کے بالکل قریب حدیبیہ کے مقام پر جس کو آج کل شمیسہ کہا جاتا ہے قیام فرمایا تو بعض روایات میں آتا ہے کہ کفار کو پتہ ہی نہیں چلا ۔ جب صبح کو کچھ چرواہوں نے مکہ مکرمہ کے قریب اتنے بڑے لشکر کو دیکھا تو وہ حیران رہ گئے اور انہوں نے کفار کو پتہ ہی نہیں چلا۔ جب صبح کو کچھ چرواہوں نے مکہ مکرمہ کے قریب اتنے بڑے لشکر کو دیکھا تو وہ حیران رہ گئے اور انہوں نے کفار مکہ کو اطلاع کی۔ کفار قریش اس صورتحال کو دیکھ کر بوکھلا گئے اور اس بدحواسی میں یہ سوچنے لگے کہ اب کیا کیا جائے کیونکہ کسی دوست یا دشمن کو بیت اللہ میں آنے سے روکنے کو گناہ سمجھا جاتا تھا۔ اگر روکتے تو ساری دنیا میں یہ بات پھیل جاتی کہ مکہ والوں نے مسلمانوں کو بیت اللہ کی زیارت سے روک کر ایک انتہائی غلط اور گناہ کی بات کی بات کی ہے اور اگر مسلمانوں کو اندر آنے دیتے ہیں تو اس سے کفار کا رعب ختم ہوجانے کا اندیشہ تھا اور دنیا بھر کے اور پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ جاتی کہ مسلمان مکہ میں داخل ہو کر واپس چلے گئے ہیں۔ اس کشمکش سے نکلنے کے لئے قریش مکہ نے ایک مجلس شوری منعقد کی۔ بعث و مباحثہ کے بعد یہ طے کیا گیا کہ جیسے بھی ممکن ہو مسلمانوں کو بیت اللہ سے دوررکھا جائے اور ایسے حالات پیدا کئے جائیں جن سے یہ ثابت ہوجائے کہ مسلمان چونکہ مکہ مکرمہ پر حملہ کی نیت سے آئے تھے اس لئے ان کو بیت اللہ کی زیارت سے روکا گیا۔ اس کے لئے انہوں نے متعدد حملے ‘ خفیہ سازشیں اور تدبیریں کیں لیکن رسول اللہ ﷺ کی بر وقت تدبیروں اور اقدامات نے ان کی ہر سازش کو ناکام کر کے رکھ دیا۔ جب کفار مکہ کی ہر تدبیر فیل ہوگئی اور انہوں نے حالات کی نزاکت کو اچھی طرح محسوس کرلیا تب انہوں نے یہ طے کیا کہ کسی طرح صلح کرلی جائے۔ چناچہ کفار قریش نے سہیل بن عمر و جو بہت تیز طرار اور ذہین آدمی تھے ان کو صلح کرنے پر مقرر کیا۔ کفار قریش نے سہیل بن عمرو کو اس بات کی تاکید کردی کہ صلح نامے میں ہر حال میں یے طے کیا جائے کہ حضرت محمد ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ اس سال مدینہ منورہ واپس چلے جائیں اور آئندہ سال آکر عمرہ ادا کریں۔ اس وقت تین دین کے لئے مکہ کو خالی کردیا جائے گا تاکہ مسلمان سہولت سے عمرہ ادا کرسکیں۔ سہیل بن عمرو سے طویل گفتگو کے بعد آخر کار صلح کی شرائط کو طے کر لیا گیا۔ اس صلح کے معاہدے کی زیادہ ترشرائط وہ تھیں جو کفار قریش کی طرف سے پیش کی گئی تھیں آپ ان کی ہر شرظ کو مانتے چلے گئے۔ اس معاہدہ سے صحابہ کرام بہت حیران و پریشان اور دل برداشتہ ہوگئے۔ وہ اس تصور سے زیادہ پریشان تھے کہ جب ہم حق پر ہیں تو کفار سے اس قدر دب کر صلح کیوں کی جائے۔ اور بیت اللہ کے اس قدر قریب پہنچ کر بھی اس کی زیارت سے محروم کیوں رہیں لیکن صحابہ کرام جو مکمل اطاعت و فرماں برداری کا پیکر تھے وہ ان سب ناگواریوں کے باوجود خاموش تھے اور کوئی کسی قسم کا اجتماعی اختلاف نہ کیا البتہ انفرادی طور پر حضرت عمر فاروق ؓ کو خطاب کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ ” اے خطاب کے بیٹے ! میں اللہ کا رسول ہوں اور میں اس کی نافرمانی نہیں کرسکتا۔ وہ میری مدد فرمائے گا اور مجھے ہرگز ضائع نہ کرے گا “۔ یہ سن کر حضرت عمر فاروق ؓ اور تمام صحابہ کرام ؓ سمجھ گئے کہ آپ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ اللہ کو منظور تھا۔ لیکن ہر ایک کے دل میں یہ حسرت ضرور تھی کہ ہم بیت اللہ کے قریب پہنچ کر بھی بیت اللہ کی زیارت سے محروم رہے اور صلح اگر آبرو مندانہ طریقے پر ہوتی تو ہمارے حق میں بہت اچھا ہوتا۔ جب نبی کریم ﷺ نے اس وقت کے دستور میں کے مطابق اپنے ہدی (قربانی) کے جانور ذبح کئے اور احرام کھول دیا تو صحابہ کرام ؓ نے بھی آپ کے عمل اور حکم کی تعمیل کی اور اس طرح بیت اللہ کی زیارت نہ کرنے کا غم لئے صحابہ کرام حدیبیہ سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ انہوں نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ واپس جاتے ہوئے ابھی زیادہ فاصلہ طے نہ کیا تھا کہ نبی کریم ﷺ پر سورة فتح کی یہ آیات نازل ہوئیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اس صلح اور معاہدہ کو فتح مبین یعنی ایسی کھلی فتح قرار دیا جس میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں ہے ۔ اس رنج وغم کی حالت میں جب صحابہ کرام ؓ نے یہ سنا کہ اللہ نے اس کو فتح مبین قرار دیا ہے تو وہ یقین کے باوجود حیرت سے ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے کہ یہ کیسی فتح مبین ہے جس میں کفار کے حصے میں تو بہت کچھ آگیا ہے اور زبردست جنگوں کے فاتیح صحابہ کرام ؓ کے حصے میں ایک ایسی صلح کا پروانہ آیا ہے جو انکے نزدیک آبرو مندانہ معاہدہ نہ تھا۔ لیکن بعد کے حالات نے یہ ثابت کردکھایا کہ صلح حدیبیہ درحقیقت اسلام اور اہل ایمان کی زبردست فتح اور کامیابی تھی کیونکہ اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ دس سال تک مسلمانوں اور کفار قریش کے درمیان کوئی جنگ نہ ہوگی۔ اس ایک شرط سے دین اسلام کی تحریک کو زبردست فائدہ پہنچا اور اس جنگ بندی سے دین اسلام کے فروغ کے دروازے کھل گئے تھے کیونکہ ہجرت کے بعد مسلسل جنگی حالات ہونے کی وجہ سے دعوت کا عمل رک سا گیا تھا۔ اس جنگ بندی کے نتیجے میں فریقین کے درمیان تبادلہ خیال کی کھلی فضا میسر آگئی تھی۔ اس طرح اس معاہدہ نے مقابلے کے میدان کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ چونکہ دین اسلام ایک نظریاتی تحریک اور انقلاب کا نام ہے جس کے لئے امن و سلامتی کی فضا کا ہونا ضروری ہے اس لئے اس معاہدہ کی وجہ سے توحید کے نظریئے کو برتری حاصل ہوگئی تھی جس کو اللہ نے صراط مستقیم (سیدھاراستہ) فرمایا ہے۔ درحقیقت صلح حدیبیہ نے توحید کے علم برداروں کے لئے آئندہ کی فتوحات اور نظریاتی کامیابی کے دروازوں کو کھول دیا تھا اور یہی فتح مبین۔ اسی لئے صحابہ کرام ؓ نے فتح مکہ کے بجائے صلح حدیبیہ کو مسلمانوں کی زبردست فتح قراردیا ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ اور بعض دوسرے جلیل القدر صحابہ کرام ؓ نے فرمایا ہے کہ تم لوگ فتح مکہ کو فتح کہتے ہو لیکن ہم صلح حدیبیہ کو فتح سمجھتے ہیں۔ (ابن کثیر) صلح حدیبیہ دین اسلام کے فروغ اور ترقی کا سنگ میل ثابت ہوا چنانچہ (1) ۔ حضرت عمرو ابن العاص اور حضرت خالد بن ولید جیسے ماہر سپہ سالاروں کو ایمان لانے کی توفیق نصیب ہوئی جس سے اہل ایمان کے اندر زبردست اعتماد کی فضا پیداہوئی۔ (2) یہی وہ معاہدہ تھا جس کی برکت سے خیبر ‘ وادی القریٰ اور مکہ مکرمہ فتح ہوا۔ (3) اس معاہدہ کی وجہ سے کفار کی صفوں میں پھوٹ پڑگئی کیونکہ کفار قریش کے معاہدہ کی وجہ سے قبیلہ غطفان اور یہودیوں کے جذبات سرد پڑگئے اور اس طرح کفار کی طاقت بکھر کر رہ گئی۔ (4) مختصر سے عرصے میں نہ صرف مسلمان ریاست کی حدود مدینہ منورہ سے آگے بڑھ کر ملک شام تک پہنچ گئی تھیں بلکہ مسلمانوں کی تعداد اس قدر تیزی سے بڑھنا شروع ہوئی کہ اگر صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار تھی تو ڈیڑھ سال کے بعد فتح مکہ کے موقع پر صحابہ کرام ؓ کی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ (5) آپ نے صلح حدیبیہ کے بعد دنیا بھرکے بادشاہوں ‘ امراء اور سربراہوں کو دین اسلام کی دعوت پیش کی جس کے عالمی سطح پر زبردست اثرات مرتب ہوئے۔ (6) اللہ نے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی تمام اگلی پچھلی کوتاہیوں کی معافی کا اعلان فرمادیا۔ نہ صرف اللہ نے ان کی کوتاہیوں اور لغزشوں سے در گذر فرمایا ہے بلکہ جو کچھ ظاہری ‘ باطنی ‘ جسمانی اور روحانی انعامات و احسانات ہیں ان کی تکمیل کا وعدہ فرمایا۔ (7) ساری دنیا کو بتادیا گیا کہ آپ ﷺ ہدایت و استقامت (صراط مستقیم) کے راستے پر گامزن ہیں۔ اب ہدایت و رہنمائی صرف آپ کے دامن سے وابستگی ہی میں مل سکتی ہے۔ (8) اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ کی طرف سے اہل ایمان کی ایسی مدد کی جائے گی جس کو نہ تو کوئی روک سکے گا اور نہ دباسکے گا۔ اللہ ان کو وہ طاقت و غلبہ عطا فرمائے گا جس سے ہر جگہ ان کو عزت ہی عزت ملے گی۔ یہ ہے وہ فتح مبین جو دین اسلام کے فروغ ‘ ترقی اور اہل ایمان کی عزت و سربلندی کا باعث بن گئی۔
Top