Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 3
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ١۫ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ١ؕ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ١ؕ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ١ؕ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا١ؕ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
حُرِّمَتْ
: حرام کردیا گیا
عَلَيْكُمُ
: تم پر
الْمَيْتَةُ
: مردار
وَالدَّمُ
: اور خون
وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ
: اور سور کا گوشت
وَمَآ
: اور جو۔ جس
اُهِلَّ
: پکارا گیا
لِغَيْرِ اللّٰهِ
: اللہ کے سوا
بِهٖ
: اس پر
وَ
: اور
الْمُنْخَنِقَةُ
: گلا گھونٹنے سے مرا ہوا
وَالْمَوْقُوْذَةُ
: اور چوٹ کھا کر مرا ہوا
وَالْمُتَرَدِّيَةُ
: اور گر کر مرا ہوا
وَالنَّطِيْحَةُ
: اور سینگ مارا ہوا
وَمَآ
: اور جو۔ جس
اَ كَلَ
: کھایا
السَّبُعُ
: درندہ
اِلَّا مَا
: مگر جو
ذَكَّيْتُمْ
: تم نے ذبح کرلیا
وَمَا
: اور جو
ذُبِحَ
: ذبح کیا گیا
عَلَي النُّصُبِ
: تھانوں پر
وَاَنْ
: اور یہ کہ
تَسْتَقْسِمُوْا
: تم تقسیم کرو
بِالْاَزْلَامِ
: تیروں سے
ذٰلِكُمْ
: یہ
فِسْقٌ
: گناہ
اَلْيَوْمَ
: آج
يَئِسَ
: مایوس ہوگئے
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سے
مِنْ
: سے
دِيْنِكُمْ
: تمہارا دین
فَلَا تَخْشَوْهُمْ
: سو تم ان سے نہ ڈرو
وَاخْشَوْنِ
: اور مجھ سے ڈرو
اَلْيَوْمَ
: آج
اَكْمَلْتُ
: میں نے مکمل کردیا
لَكُمْ
: تمہارے لیے
دِيْنَكُمْ
: تمہارا دین
وَاَتْمَمْتُ
: اور پوری کردی
عَلَيْكُمْ
: تم پر
نِعْمَتِيْ
: اپنی نعمت
وَرَضِيْتُ
: اور میں نے پسند کیا
لَكُمُ
: تمہارے لیے
الْاِسْلَامَ
: اسلام
دِيْنًا
: دین
فَمَنِ
: پھر جو
اضْطُرَّ
: لاچار ہوجائے
فِيْ
: میں
مَخْمَصَةٍ
: بھوک
غَيْرَ
: نہ
مُتَجَانِفٍ
: مائل ہو
لِّاِثْمٍ
: گناہ کی طرف
فَاِنَّ اللّٰهَ
: تو بیشک اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: مہربان
اے مسلمانو ! تم پر حرام [ کردیئے گئے ہیں مردار جانور ، خون ، سور کا گوشت ، وہ جانور جو غیر اللہ کے نام سے پکارا جائے ، گلا گھونٹ کر مارا ہوا ، چوٹ لگا کر مارا ہوا ، وہ جو بلندی سے گر کر مر جائے ، وہ جانور جو کسی کے سینگ مارنے سے مر جائے ، وہ جسے درندہ پھاڑ جائے مگر ہاں ! وہ جسے تم ذبح کرلو ، وہ جانور جو کسی تھان پر چڑھا کر ذبح کیا جائے اور یہ بات بھی کہ تیروں اور پانسوں سے آپس میں تقسیم کرو تو یہ گناہ کی بات ہے ، جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی وہ آج تمہارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے ہیں پس ان سے نہ ڈرو بلکہ صرف مجھ ہی سے ڈرو ، آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لیے پسند کرلیا کہ دین { الاسلام } ہو ، پس دیکھو جو کوئی بھوک سے بےتاب ہوجائے یہ بات نہ ہو کہ دانستہ گناہ کرنا چاہے تو اللہ بخشنے والا اور رحمت رکھنے والا ہے
حلال جانور اگر طبعی موت مر گیا تو مردار ہے جس کا کھانا حرام ہے : 16: مردار کیا ہے ؟ وہ حلال جانور جیسے اونٹ ، گائے ، بھیڑ ، بکری وغیرہ اگر بلاذبح کئے طبعی موت مر جائیں تو ان کو مردار کہتے ہیں جن کا کھانا حرام ہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اسلام نے ان جانوروں اور ان کی مثل دوسرے حلال جانوروں کا مسنوح خون طریقہ اسلامی کے مطابق نکالنا ضروری قرار دیا ہے اور ظاہر ہے کہ طبعی موت مرجانے سے وہ دم مسفوح نہیں نکلتا اس لئے اس کو مردار کہا گیا ہے کہ مردار حرام ہے اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ دم مسفوح کیا ہے ؟ وہ بہنے والاخون ہے اور یہی وجہ ہے کہ جن جانوروں میں فطری طور پر بہنے والا خون نہں۔ ہوتا اگر وہ حلال ہیں تو بھی ان کا ذبح کرنا ضروری قرار نہیں دیا بلکہ وضاحت کردی کہ وہ پکڑ کر رکھنے سے مربی گئے تو بھی کھائے جاسکتے ہیں اس لئے کہ ان میں وہ خون موجود ہی نہیں ہے جس کا نکالنا اسلام نے ضروری قرار دیا ہے۔ ان میں مچھلی کی ساری اقسام داخل ہیں اور علاوہ ازیں بھی جانور پائے جاتے ہیں جنکی تفصیل حلت و حرمت کی کتب میں موجود ہے۔ مردار جانور کو صرف قرآن کریم ہی نے حرام نہیں کہا بلکہ اس سے پہلی کتب سماوی میں بھی اس کو حرام بتایا گیا تھا اگرچہ ان کتابوں کی حامل قومیں بعد میں اس کو کھاتی رہیں بلکہ توراۃ میں باوجود تحریف ہونے کے یہ حکم آج بھی موجود ہے۔ چناچہ تورات میں ہے کہ : ” جو کوئی کسی حیوان کو جواز خود مرگیا ہو یا اس کو کسی درندے نے پھاڑا ہو اور وہ مرگیا اس کو کھائے وہ شخص خواہ تمہارے دیس کا ہو خواہ پر دیس کا وہ اپنے کپڑے دھوئے اور پانی سے غسل کرے اور شام تک ناپاک رہے تب وہ پاک ہوگا۔ “ (احبار 17 : 5) تفصیل کے لیئے عروۃ الوثقیٰ جلد اول آیت 173 کی تفسیر ملاحظہ کریں۔ جانور کو ذبح کرنے سے خون نکلے یا زندہ جانور کے جسم سے خون نکال لیا جائے وہ بھی حرام ہے : 17: جن حلال جانوروں میں بہہ کر خون نکلتا ہے ان کے ذبح کرنے سے وہ خون بہ کر نکل گیا یا زندہ جانور کا خون کسی آلج وغیرہ کا نکال لیا گیا وہ بھی ناپاک و حرام ہے اس کو بھی کھایا نہیں جاسکتا۔ ہاں ! قدرت الٰہی سے جانور کے جسم میں جو پہلے ہی جمار ہوا خون ہے جیسے کلیوی ، جگر اور تلی وغیرہ اس قسم سے مستثنیٰ ہے۔ اس لئے کہ وہ دم مسفوح نہیں ہے اس لئے ان کا کھانا حلال و جائز ہے ۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے خود اس کو دم مسفوح سے خارج فرما دیا ہے اور یہ استثناء کتب حدیث کے اندر واضح الفاظ میں موجود ہے اس حکم کی ضرورت جب کہ علمی طور پر کوئی بھی انسان خون نہیں پیتا ’ ضروریات اس لئے ہوئی کہ قرآن کریم کر نزول کے وقت عربوں میں بلکہ علاوہ عربوں کے بھی دوسری کئی ایک قوموں میں ایسا خون پینے کا رواج موجود تھا ۔ اس لئے قرآن کریم نے اس کی وضاحت فرما دی اور آج علمی طور پر یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جن چیزوں کے استعمال سے اسلام نے منع فرمایا ہے وہ فی الواقع جسم انسانی کے لئے زبردست مضر ہیں جن میں خون بھی ہے جو اسلام نے حرام قرار دیا ہے اور یہ بات بھی اپنی جگہ حق ہے کہ اس طرح خون کا استعمال پہلے کی کتب سماوی میں بھی حرام اور ممنوع قرار دیا گیا۔ چناچہ تحریر ہے کہ : ” تم کسی پرندے اور چرندے کا کچھ لہو اپنے سب مکانوں میں نہ کھائیو اور جو انسان کسی خون سے کھائے گا وہ اپنی قوم سے کٹ جائے گا۔ “ (احبار 72 : 26 ، 27) خنزیر نجس العین ہے اس کا گوشت بھی حرام ہے : 18: پیچھے اس سورة کی پہلی آیت میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ ” تمہارے لئے مویشی جانور حلال کردیئے گئے مگر وہ جن کی نسبت آگے حکم سنا یا جائے گا۔ اس آیت نمبر تین میں چونکہ ان کا ذکر سنایا جارہا ہے جس میں سر فہرست خزیر ہے جس کو سور کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں انعام کا لفظ اونٹ ، گائے ، بھیڑ اور بکری پر بولا جاتا ہے اور بیمہ کا اطلاق ہر چرنے والے چوپائے پر ہوتا ہے اور حکم میں چونکہ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ فرمایا تھا جس سے مخصوص الانعام میں وسعت پیدا ہوگئی اور پھر اس وسعت سے الامایتلی علیکم کہہ کر کھ جانوروں کے مستثنیٰ کر کے ان کو حرام بتایا گیا ۔ اب اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے نام لے کر اس نامراد اور خبیث جانور کو الگ کر کے بیان کیا جا رہا ہے کہ اس کی حرمت سرفہرست ہے یعنی باوجود اس کے کہ اس کی غذا زیادہ تر نباتاتی ہے اس لیے یہ بھی بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ سے مشابہت رکھتا ہے تاہم اس کی حرمت یقینی ہے اس مشابہت سے کوئی اس کو حلال سمجھ کر کھانا شروع نہ کرے۔ یاد رہے کہ یہ جانور بھی پہلی کتب سماوی میں حرام قرار دیا گیا تھا جس کی حرمت آج بھی تورات میں واضح طور پر موجود ہے۔ چناچہ تحریر ہے کہ : ” اور سور کو تم نہ کھاؤ اگرچہ اس کے پاؤں الگ اور چرے ہوئے ہیں پر وہ جگالی نہیں کرتا وہ بھی تمہارے لئے ناپاک ہے تم اس کا گوشت نہ کھانا اس کی لاش کو چھونا وہ تمہارے لئے ناپاک ہے۔ “ (احبار 11 : 7 ، 8) اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ وہ جانور جو ہماری زبان سے درندہ کے لفظ سے پکارے جاتے ہیں یعنی چیز پھاڑ دوسرے جانداروں کو کھا جانے والے مثلاً شیر ، بھیڑیا ، چیتا ، تیندوا ، لومڑی ، کتا ، بلی ، ریچھ اور گیدڑ وغیرہ پر ” بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ “ کا لفظ اطلاق نہیں کرتا۔ ہماری زبان میں درندے اور عربی زبان میں ان کو ” السباع “ کے لفظ سے پکارا جاتا ہے یعنی چیز پھاڑ کر کھاجانے والے جانور یا درندے اور سور کا شمار ان درندوں میں نہیں بلکہ ” بہائم “ میں ہے اسلئے اس جگہ اس کا نام لے کر اس کی حرمت کو واضح طور پر بیان کردیا گیا ہے تاکہ کسی قسم کا ابہام پیدا نہ ہو۔ وہ جانور جو غیر اللہ کے نام پر پکارا جائے وہ بھی باوجود حلال ہونے کے حرام ہوجاتا ہے : 19 : غیر اللہ پر پکارے جانے کا مطلب کیا ہے ؟ بعض لوگ اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ حلال جانور کو ذبح کرنے کے وقت غیر اللہ کے نام سے ذبح کرنا مراد ہے ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ مشرکین کا طریقہ یہ تھا کہ وہ جانور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینے کی بجائے باسم الات والعزی کہتے تھے یعنی ” لات وعزی کے نام سے ذبح کرتا ہوں “ کہا کرتے تھے چناچہ بیضاوی میں ہے کہ : ای رفع الصوت لغیر اللہ بج لقوم لھم باسم اللات والغری عندذبحہ اور بعض کا خیال ہے کہ ” ما “ سے وہ چوپایہ ہے جو غیر اللہ کو متصرف ، کارساز ، غیب دان اور مافوق الاسباب حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر اس کی تعظیم کے پیش نظر اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے نذر و منت کے طور پر متعین و نامزد کردیا جائے یہ نذر غیر اللہ ہے اور حرام ہے اس طرح وہ جانور حرام ہوجاتا ہے اگر اسے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے تو وہ حرام ہی رہتا ہے اور حلال نہیں ہوتا۔ اس کا حکم بالکل وہی ہے جو مردار کا ہے ۔ پہلا نظریہ متفق علیہ ہے جس میں کسی اسلام مکتب فکر کا کوئی اختلاف نہیں ہوتا دوسرا نظریہ اختلافی ہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ پہلی تشریح صدراول سے ہونے لگی اور ہوتی آئی ہے اور دوسری تشریح بعد میں ہونے لگی جب بعض لوگوں نے دوسری قوموں کی دیکھا دیکھی غیر اللہ کی نذر و دنیاز کا سلسلہ شروع کردیا جس کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش موجود نہ تھی۔ زیر نظر آیت قرآن کریم میں مختلف مقامات میں چار جگہوں پر بیان کی گئی ہے 1۔ سورة بقرہ۔ 2 : 173۔ 2 سورة المائدہ کی آیت زیر نظر 3 سورة الانعام 6 : 145۔ 4 سورة النحل 16 : 115۔ ان چاروں جگہوں میں الفاظ کے آگے پیچھے ہونے کے سوا مطلب و مفہوم میں کوئی فرق نہیں ہے اور اس کی مزید تشریح کے لئے تصریف آیات کے تحت اس کا مطلب واضح ہوجاتا ہے اگر سورة النساء 3 کی آیت 118 ، سورة الانعام 6 کی آیت نمبر 137 ، سورة الانعام 6 : آیت نمبر 141 اور سورة النحل آیت 56 کو ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ ہر طرح کی نذر ونیاز جو غیر اللہ کے لئے مانی جائے وہ اس آیت کے تحت آتی ہے یہ آیت صرف کسی جانور یا اس کے گوشت تک محدود نہیں بلکہ اس میں ہر وہ چیز داخل ہے جو نذر و نیاز غیر اللہ کی صورت میں دی جائے وہ جانور ہو ، غل ، کپڑا ہو یا نقد روپیہ سب ہی اس میں داخل ہیں اور سب ہی مراد لئے گئے ہیں ۔ اس جگہ ” لجم “ گوشت کا ذکر کیا گیا ہے جو نظم قرآن کے لئے ہے جس طرح ” لحم خنزیر “ ہے حالانکہ سور نجس العین ہے اور اسکی ہرچیز ہی ازروئے شریعت حرام ہے وہ چمڑا ہو یا ہڈی اور بال ہوں یا کوئی چیز لیکن اس کے باوجود اس جگہ ” لحم “ گوشت خصوصاً ذکر کیا گیا حالانکہ اس کا کوئی بھی یہ مطلب نہیں سمجھتا کہ سور کا گوشت تو حرام ہے لیکن باقی چیزیں حلال ہیں۔ نہیں بلکہ باقی چیزیں بدرجہ اتم حرام ہیں۔ انسان ذرا گہرائی میں جا کر مطالعہ کرے تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ آخر یہ منت اور نذر و نیاز کیوں مانی یا دی جاتی ہے ؟ یہ پیروں ، نبیوں اور فرشتوں کے نام ان ساری چیزوں کو آخر کیوں منسوب کیا جاتا ہے ؟ کیا وجہ ہے کہ ایک گائے ، چھترا کسی خاص جگہ ، خاص قبر و مقبرہ اور خانقاہ کی طرف لے جایا جاتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ ان بزرگوں کی تعظیم کی خاطر یا ان کا تقرب حاصل کرنے کے لئے اس ذہن کے ساتھ کہ اس طرح وہ بزرگ خوش ہو کر ہمارا کام سنوار دیں گے یا اللہ سے سفارش کر کے سنو وا دیں گے اس طرح ایک طرف تو ہماری غلطیوں کا ازالہ ہوگا اور دوسری طرف خوش ہو کرو بزرگ ہماری بگڑی بنا دیں گے اور یہ وہ چیز ہے جس کو شرک قرار دیا گیا ہے اور اس وجہ سے اس طرح کی نذرونیاز یا منت و چڑھاوا کی ممانعت کی گئی ہے نبی اعظم و آخر ﷺ کے وقت بلکہ آپ (علیہ السلام) کے خاندان اور قبیلہ کے مشرک بھی اس نیت سے یہ کچھ کیا کرتے تھے اور آج کل مشرک بھی اس نسبت سے نذر ونیاز اور منت و چڑھاوا پیش کرتے ہیں ۔ ہاں ! فرق ہے تو صرف ناموں کا ہو سکتا ہے کہ وہ اس وقت کے بزرگوں اور اللہ کے نیک بندوں کی طرف ان کی نسبت کرتے تھے جو ان سے صدیوں پہلے گزر چکے تھے اور آج کا مشرک اللہ کے ان ولیوں ، بزرگوں اور نیک بندوں کی طرف نسبت کرتا ہے جو آج سے صدیوں پہلے گذر چکے ہیں اور اس طرح یہ ناموں کا فرق حقیقت کو مطلق تبدیل نہیں کرسکتا صرف اتنی بات ہے کہ وہ ان کے بزرگ ہوتے تھے اور آج یہ ہمارے بزرگ ہوتے ہیں وہ لوگ اپنے رواج کے مطابق ان بزرگوں کے بت ان بزرگوں کی یاد کو تازہ رکھنے کے لئے سامنے رکھتے تھے اور آج کے مشرکوں نے اپنے رواج کے مطابق وہی کام قبروں ، تصویروں اور شبیوں سے لے لیا ہے۔ لیکن فی نفسہ نہ وہ ان بتوں کی عبادت کرتے تھے اور نہ آج کے مشرک ان قبروں ، تصویروں اور شیوں کی عبادت کرتے ہیں وہ بھی ان بزرہ ہستیوں کو خوش کرنے کی خاطر ان کے بت تراشتے تھے اور آج کے مشرک بھی اپنے بزرگوں کو خوش کرنے کے لئے ان قبروں کو چونا کچ کرتے ان پر خلاف چڑھاتے اور ان کو غرق سے غسل دیتے ہیں۔ نظریاتی طور پر نظریہ دونوں جگہ ایک ہی ہے صرف نام میں ذرا تبدیلی رکھ دی گئی ہے اور پھر مزید اگر کوئی فرق ہے تو وہ یہ ہے کہ ان ایسا کرنے والوں کو جاہل سمجھا گیا اور وہ خود بھی ان پڑھ کہلانے میں خوشی محسوس کرتے تھے اور آج کل جاہلوں کو رہنمائی کے لیے اپنے آپ کو عالم کہلانے والے جاہل ، عالم کہلا کر جہالت کے یہ کام سر انجام دیتے ہیں تاکہ قوم کو وہ جہالت پر قائم رکھ کر اپنا الو سیدھا کرسکیں۔ اس طرح سے آج وہ دوہرا فائدہ حاصل کر رہے ہیں اور آنے والے کل کو یقینا وہ دوہری سزا پائیں گے ۔ ہم یہ دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو سیدھی سمجھ دے دے تو وہ اپنے آپ کو دوزخ کا ایندھن بنانے سے باز آجائیں ۔ مزید تفصیل آپ کو سورة الانعام کی تفسیر میں مل جائے گی ۔ انشاء اللہ گلا گھونٹ کر مارا ہوا جانور بھی مردار کے حکم میں ہے اس لئے بھی حرام ہے : 20: جانوروں کے گوشت کھانے کی اجازت اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا احسان ہے کہ انسان کو اپنی خوارک کے لئے ان کی جانوں کو تلف کرلینے کی اجازت فرما دی اور یہ اس لئے بھی کہ دنیا کی ہرچیز دراصل انسان ہی کے فائدہ کے لئے بنائی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ ساری مخلوقات میں سے صرف اور صرف انسان ہی کو مکلف بنایا گیا ہے کہ یہی مکلف ہونے کا اہل تھا اور اس میں ایسی صلاحتیں ودیعت کی گئی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہرچیز سے استفادہ کا طریقہ بھی خود ہی بتلادیا ہے تاکہ وہ استفادہ کرنے کے باوجود ظالم اور تسی القلب قرار نہ دیا جاسکے جس چیز سے استفادہ کرے اس حال میں کرے کہ وہ منکسر المزاج اور رقیق القلب گردانا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ جو استفادہ اس نے کیا ہے اس استفادہ کا اس کو حق تھا اور اپنا حق وصول کرنے والا کبھی ظالم و فاسق نہیں ہوتا ۔ اس لئے اس کو جانوروں سے غذائی استفادہ کرنے کا حق دیا تو اس کے لئے طریقہ ایسا مقرر فرمایا جو نہایت ہی شستہ اور شائستہ تھا کہ جانور کا احترام بھی قائم رہے اور انسانوں کو اپنا مطلب بھی حاصل ہوجائے چناچہ اس کے لئے ذبح کا طریقہ رواج دیا اور اپنی ضرورت کی ہرچیز کو اپنے کنڑول میں رکھ کر اللہ کا نام ذکر کرنے کی اجازت دی اور بسم اللہ ، اللہ اکبر کے الفاظ ادا کرتے ہوئے تیز دھار آلہ کے ساتھ اس کی رگ گلو کو کاٹنے کا حکم دیا جس سے ” دم مسفوح “ جو انسانی صحت کے لئے ایک نہایت مضر چیز تھی مکمل طور پر نکل جائے اور رسول اللہ ﷺ نے مسلمان کا ذبیحہ حلال ہونے کا حکم دیا خواہ ذابح مرد ہو یا عورت لیکن رواج ایسی چیز ہے جس کے اختیار کرنے سے رواج کے تحت ہو ناکردہ کام کرلینے میں آدمی ذرا شرم یا جھجک محسوس نہیں کرتا۔ اس لئے کہ اکثر یت اس کو کر رہی ہوتی ہے اور اکثریت کا کرلینا ہی اس کے جواز کے لئے کافی و وافی ہوتا ہے اور یہی وہ راستہ ہے جو ساری سندات سے آج بھی افضل واعلیٰ ہے حالانکہ گلا گھونٹا ہوا جانور پہلی شرائع میں بھی حرام تھا چناچہ تحریر ہے کہ ” تم بتوں کی قربانیوں کے گوشت اور لہو اور گلا گھونٹے ہوئے جانوروں اور حرام کاری سے پرہیز کرو۔ “ (اعمال 15 : 29) عربوں کے ہاں یہ رواج تھا کہ وہ چوپائے کا گلا گھونٹ کر اس کو مار دیتے اور گلا گھونٹ کر مارنے والا شجاع اور بہادر کہلاتا۔ اس خوشی میں وہ اس جانور کو بڑے شوق و ذوق سے کھاتے اور اس پر شجاع و بہادر کو داد دیتے جس نے اس جانور کو لوگوں کے دیکھتے ہی دیکھتے گلے سے ایسا دبایا کہ اس کی جان ہوا ہوگئی۔ قال ابن عباس ؓ کان اھل الجاھلیۃ یخنقون الھیمۃ ونا کلونھا فحرم ذلک علی المومنین ۔ (روح المعانی ج 6 ص 57) لاٹھیوں سے مار مار کر ہلاک کردیا گیا جانور بھی مردار ہی کے حکم میں داخل ہے : 21: انسان جب بربریت پر اترتا ہے تو وہ یا سے ایسے کام کرجاتا ہے کہ ایک عقل وفکر والا دیکھتا ہی رہ جاتا ہے کہ یہ آدم زادہ کیا بن گیا ہے ؟ جانور پر غصہ آگیا تو لاٹھیاں برسانا شروع کردیں اور تب چھوڑا جب وہ ہلاک ہوگیا۔ اسلام نے چونکہ ایک طریقہ مقرر کیا تھا اس طریقہ کو ایک جاہل اور اکھڑ آدمی بھلا پسند کرسکتا ہے کہ پہلے تیز دھار آلہ تلاش کرے پھر جانور کو پکڑے اور ایک خاص طریقہ سے لٹا کر اس کا ذبیحہ کرے۔ لاٹھی اس کے پاس ہے اور اندھا زور بھی اس کے اندر موجود ہے کیوں نہ ایسی برسائے کہ اس کی جان ہوا ہوجائے ۔ فرمایا اس طرح سے مارا گیا جانور بھی مسلمان کی شان نہیں ہے کہ اس کو غذا استعمال کرے اگر اس طریقہ سے مارا جائے جانور کھانے کی اجازت دے دجائے تو گویا اس نے مردار کھانے کی اجازت دے دی جب کہ اس نے مردار کھانے سے پہلے ہی روک دیا ہے تو وہ اب کیسے اجازت دے گا پھر جو جانور ذبحہا کا مقصد تھا وہ بھی اس سے حاصل نہ ہوا کہ چوٹیں آئیں ، ہڈیاں ٹوٹ گئیں ، اذیت پہنچی لیکن وہ دم مسفوح جس کا تعلق خاص جروح سے تھا وہ بھی حاصل نہ ہوا اور جانور چوٹوں کی تاب نہ لا کر مر گیا۔ ایسا مردہ جانور کھانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہ دی گئی۔ اونچی جگہ سے گرا کر ماردیا گیا جانور بھی حرام ہے اس کے کھانے کی بھی اجازت نہیں : 22: بھیڑ بکریوں کے ریوڑ چرانے والے پہاڑی علاقوں میں پہاڑوں پر چراتے چراتے کہاں کے کہاں نکل جاتے ہیں اور اتنی اتنی بلندی پر پہنچ جاتے ہیں کہ اگر ان چوپایوں کے ساتھ پیٹ نہ ہوتا تو ان کا اتنی بلندی پر چڑھنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ بہر حال کوئی جانور ایسی جگہ سے لڑھکا دیا جائے تو نتیجہ کیا رہے گا کہ وہ لڑھک کر گرے گا اور انجام کار مر جائے گا فرمایا وہ لڑھک گیا یا لڑھکا دیا گیا ہے اس بحث میں الجھے بغیر اس بات کو سمجھ لو کہ مسلمان اس طرح سے مرے ہوئے جانوروں کو غذائی طور پر استعمال نہیں کرسکتا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ سیدھی بات ہے کہ وہ مردار ہے اور مردار کھانے سے تم کو پہلے ہی روک دیا گیا ہے۔ ایک جانور کو دوسرے نے ایسا سینگ مارا کہ اس کی جان نکل گئی تو وہ بھی مردار ہے : 23: ایک جانور نے دوسرے کو ضرب دی اور اس طرح اس کو ایسی چوٹ آئی کہ وہ اس سے مر گیا تو وہ بھی مردار میں داخل ہے اس عذر کی وجہ سے کہ اس کو ایک چوپایہ نے ٹکر مار دی سینہ سے خواہ سر سے تو اس عذر کی وجہ سے اس کے مردار ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جائے گا اور اس کو کسی حال میں بھی کھایا نہیں جاسکتا کیونکہ وہ بھی مردار کے حکم میں ہے۔ عربوں میں اسلام سے پہلے مردار کو کھانے کا رواج تھا اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ جو طبعی موت مرا اس کو تو گویا خود اللہ نے مارا یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ جس کو انسان مارے (ذبح کرے) وہ تو حلال ٹھہرے اور جس کو اللہ مار دے وہ حرام ہوجائے۔ بلکہ وہ پھبتیاں کستے کہ محمد ﷺ کا دین بھی بڑا عجیب ہے کہ جس چیز کو محمد ﷺ خود مارتا ہے اس کو حلال کہتا ہے اور جس کو اللہ مارتا ہے اس کو حرام قرار دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ذبیحہ سے وہ خون جو انسانی غذا کے لئے نہایت مضر چیز ہے جسمانی طور پر بھی اور روحانی طور پر بھی اس جانور کو ذبح سے پاک کردیا گیا ہے اور ذبیحہ نہ ہو تو وہ دم مسفوح نہیں نکلتا اس لئے وہ جانور پاک نہیں ہوتا اور یہ بات ظاہر ہے کہ ہرچیز پاک کرنے سے پاک ہوتی ہے اسی طرح یہ جانور بھی ذبیحہ کرنے سے ہی پاک ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ ذبیحہ کرنا تمہارے کھاتے کا کام ہے جو اللہ کے حکم سے تم سر انجام دینا ہے اور جب تک تم اس کو حکم الٰہی کے مطابق سر انجام نہیں دو گے وہ پاک نہیں ہوگا۔ تم اپنی کٹ حجتوں سے باز آجاؤ اور سیدھی طرح ان سارے طریقوں کی موت کو مردار کے حکم میں تسلیم کر کے ایسے جانوروں کو جو ان طریقوں سے کسی طریقہ پر بھی مارا گیا ہو یا مر جائے اس کو مردار سمجھو ورنہ پردہ اٹھے تو تمہارا سارا کیا دھرا معلوم ہوجائے گا کہ اس طرح ان جانوروں کو غذائی طور پر استعمال کرنے کے لئے تم نے کیا کیا حیلے بہانے تراشے ہیں۔ ہم نے تمہاری انسانیت کے احترام میں جو حکم تم کو دے دیا ہے اس کے مطابق عمل کرکے اپنی انسانیت کو بحال رہنے دو اسی میں تمہاری روحای اور جسمانی بھلائی ہے۔ وہ جانور جس کو کوئی درندہ پھاڑ جائے اور وہ مر جائے وہ بھی حرام ہے : 24: چرنے ، پھاڑنے والے بہام میں جن کو درندے کہا جاتا ہے کسی حلال جانور پر حملہ کرکے اس کو اتنا شدید زخمی کردیں کہ وہ ان زخموں کی تاب نہ لا کر مر جائے تو اس طرح مرا ہوا جانور بھی مردار میں داخل ہے اس کو بھی کھایا نہیں جاسکتا ۔ نبی رحمت ﷺ سے پہلے عربوں میں چونکہ مردار کو کھانے کا رواج تھا اور لوگ عام طور پر مردار کھاتے تھے اسلام نے جب اس کو ممنوع قرار دیا تو ان لوگوں کے چہرے بگڑنے شروع ہوگئے اس طرح سے جتنے طریقوں سے ایک زندہ جانور کے مرجانے یا اس کو ماردینے کا احتمال تھا ان سب کو ایک ایک کر کے اس آیت نے واضح کردیا اور سب طرح کے مرے یا مارے ہوئے جانور کو مردہ قرار دیا تاکہ وہ جو حرمت بیان کی گئی تھی اس میں کسی طرح کی میخ لگا کر اس کو حلال بنانے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ حرام جس منہ کو لگتا ہے اس کا پچھا مشکل ہی سے چھونٹا ہے اور پھر جب پوری قوم ایک حرام چیز کے کھانے کی عادی ہو اس کی اس عادت کو چھڑوانا تو مزید مشکل ہوجاتا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ اس فعل کی مرتکب پوری قوم ہوتی ہے ہے اور ” اکثریت کا کیا ہوا کام کبھی غلط نہیں ہوتا “ ایسی من گھڑت دلیل میں بڑا زور پیدا ہوجاتا ہے بلکہ التا اس سے منع کرنے والوں کو ٹیڑھی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔ آج آپ نے مساہدہ کرنا ہو تو سود کی لعنت سے کیا جاسکتا ہے جس میں پوری قوم کی قوم غرق ہے۔ ” السَّبُعُ “ سبع ہی سے ہے جس کے معنی درندے کے کئے گئے ہیں ۔ گویا یہ نام اس کا قوت کے کمال لحاظ سے رکھا گیا ہے ویسے بھی سات کا عد تامہ اعداد سے ہے جس کی قوت علم ہندسہ میں تسلیم شدہ ہے اس لئے اعداد کا علم رکھنے والوں نے اس سے اپنے علم میں بڑا کام لیا ہے تاہم یہ علم ظنی ہے حقیقی اور اصلی نہیں اس لئے ایمانیات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ حضرت ابو الطفیل فرماتے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے وقت سے لے کر آج تک یہ چارو چیزیں حرام ہی رہی ہیں کسی وقت ان میں سے کوئی بھی حلال نہیں ہوئی یعنی مردار ، خون ، سور کا گوشت اور اللہ تعالیٰ کے نام کے سوا پکارا ہوا جانور یا کوئی دوسری چیز البتہ بنی اسرائیل نے خود اپنے اوپر کچھ چیزیں حرام کرلیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو اس بغاوت کی سزا میں مبتلا رکھ کر ان سے پورا پورا انتقام لیا۔ پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ ان کو ان کی اس زیادتی سے متنبہ کردیا لیکن کوئی قوم جب کوئی نظریہ وہ عقیدہ من حیث القوم اختیار کرلیتی ہے تو اس سے اس کو باز رکھنا لوہے کی چنے چبانے کے مترداف ہے اس طرح یہود بھی اس گمراہی پر جمے ہی رہے اگرچہ ان کے پاس کوئی دلیل ان چیزوں کی حرمت کی نہ تھی۔ ایسے جانوروں کی موت سے پہلے تم تذکیہ کرلو تو وہ کھا سکتے ہو : 25: تذکیہ کیا ہے ؟ وہی ذبح کرلینا ، ذکیت الشاۃ کے معنی میں بکری کو ذبح کیا کیونکہ اس طرح جانور کی رگیں کٹ جانے سے اس کی حرارت عزیزی کا اخراج ہوجاتا ہے اور اس کا نام ترکیہ ہے۔ مطلب اس جملہ کا بالکل واضح ہے کہ کسی نے جانور کا گلا گھونٹا لیکن وہ مرا نہیں تھا کہ اس نے چھوڑا دیا یا اس سے چھڑوا لیا گیا ابھی وہ مرا نہیں تھا کہ اس کو ذبح کرلیا گیا تو وہ حلال وطیب ہے اسی طرح کسی نے لاتھی پھینکی جانور کو دور بھگانے کے لئے مگر وہ اس طرح لگی کہ جانور اس جگہ تڑپنے لگا ابھی وہ مرا نہیں تھا کہ اس کو ذبح کرلیا گیا تو وہ بھی حلال و طیب ہے ۔ کوئی جانور کسی اونچی جگہ لڑھک گیا یا غصہ میں آکر اس کو دھکیل دیا گیا وہ لڑھک کر جہاں گرا ابھی تڑپ رہا تھا کہ کسی مسلمان مرد یا عورت نے اس کو ذبح کرلیا تو وہ حلال و طیب ہے ۔ کسی درندہ نے کسی حلال جانور پر حملہ کیا جس سے وہ زخمی ہوگیا لیکن ابھی وہ مرا نہیں تھا کہ اس کو ذبح کرلیا گیا تو وہ بھی حلال و طیب ہے کیونکہ وہ جانور اس اعمال میں سے کسی عمل سے بھی ابھی مرا نہیں تھا کہ ذبح کرلیا گیا۔ ہاں اس عمل میں سے کسی عمل سے جانور کا کوئی عضو اس کے بدن سے الگ ہوگیا جس سے وہ مرا نہیں تھا کہ اس کو ذبح کرلیا گیا بعد ازیں وہ عضو بھی دستیاب ہوگیا تو اس کا کھانا جائز نہیں بلکہ وہ مردار کے حکم میں رہے گا ۔ مثلاً بلی نے مرغی پر حملہ کیا اور اس طرح مرغی کا بازو اس کے منہ میں آیا اس نے اس زور سے کھینچا کہ مرغی کا بازو الگ ہوگیا۔ بروقت کوئی آدمی موقعہ پر پہنچا جس کو دیکھ کر بلی بھاگ نکلی لیکن وہ بازو بھی ہیں رہ گیا ۔ مرغی تڑپ رہی تھی کہ ذبح ہوگئی تاہم اس مرغی کا وہ بازو جو اس کا تزکیہ ہونے سے پہلے اس کے بدن سے جدا ہوچکا ہے وہ مردار کے حکم میں ہے اور مرغی چونکہ ذبح ہوچکی ہے وہ قابل استعمال ہے شوق سے اس کو کھایا جاسکتا ہے ۔ اس بات کو قرآن کریم نے ” الا ماذکبتم “ کے الفاظ سے بیان فرمایا ہے۔ اس میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ وہ جانور خواہ کسی طریقہ سے بھی موت کے قریب تو پہنچ چکا تھا لیکن ابھی مرا نہیں تھا کہ وہ ذبح کرلیا گیا اور ذابح بھی مسلمان تھا خواہ مرد یا عورت لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اس سے ” دم مسفوح “ نکلا ہوا گر اس کا خون اس قدر نکل چکا تھا کہ اس کی رگ کانٹے سے کچھ نہیں نکلا تو وہ مردہ ہی تصور ہوگا۔ اس طرح کوئی قریب المرگ جانور ذابح نے ذبح کیا لیکن اس کا خون مرض کی وجہ سے ایسا جل گیا کہ اس کی رہ کانٹے سے کچھ نہیں نکلا یعنی بہہ کر نکلا تو وہ جانور مردہ ہی تصور ہوگا۔ ذابح کے اس بیان کا کوئی اعتبار نہیں کہ اس نے زندہ کو ذبح کیا ہے ۔ نہیں بلکہ اس نے مردہ کو ذبح کیا ہے اور اس طرح مردہ کو ذبح کرنے سے وہ کبھی ذبح شدہ متصور نہیں ہو سکتا اس جانور کے ہلنے کی شہادت بھی موجود ہے۔ تھانوں پر ذبح کئے گئے جانور بھی حرام ہیں ان کو بھی نہیں کھایا جاسکتا : 26: قرآن کریم نے نَصَبٌکا الفاظ استعمال کیا ہے جب نصاب کی جمع ہے جس کا معنی ارود میں تھان کیا گیا ہے۔ چناچہ ضیاء القرآن میں ترجمہ اس طرح ہے کہ ” جو ذبح کیا گیا ہو تھانوں پر “ پیر کرم شاہ صاحب اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ” ماذبح علی النصب “ امام ابن جریر نے قتادہ سے نکل کیا ہے کہ نصب وہ پتھر ہیں جن کی زمانہ جاہلیت میں پوجا کی جاتی تھی اور ان کی جانور ذبح کئے جاتے تھے اور اس سے مراد ہر ایسی جگہ ہو سکتی ہے جو مشرکانہ رسوم کی ادائیگی کے لئے مخصوص ہو۔ “ مطلب واضح ہے کہ وہ چوپائے جو غیر اللہ کے استھانوں ، ان کی خانقا ہوں ، ان کی یادگاروں ان کی قربان گاہوں پر ان کی تعظیم اور ان کا تقرب حاصل کرنے کے لئے ذبح کئے جائیں وہ بھی حرام ہیں ذبح کے وقت چاہے غیر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو بلکہ اللہ ہی کا لیا گیا ہو جیسا کہ آج کل جاہل مسلمان کرتے ہیں یا جاہل علماء کہلانے والے ان سے کراتے ہیں۔ جس طرح فوت شدہ بزرگوں کی نذر ومنت کے بکرے جو عرسوں اور میلوں کے ایام میں قبروں پر لے جاتے ہیں اور وہاں ذبح کرتے ہیں جیسا کہ شاہ کوٹ اور بھڑی شاہ رحمٰن اور دوسرے بزرگوں کے عرسوں اور میلوں کے ایام میں قبروں پر لے جاتے ہیں اور وہاں جا کر ذبح کرتے ہیں اور بعض جانور مزاروں پر لے جا کر خود ذبح نہیں کرتے بلکہ مجاوروں اور گدی نشینوں کے حوالے کردیتے ہیں ، دونوں کا حکم ایک ہی جیسا ہے اور دونوں ہی حرام ہیں۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ ” وَ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ 1ۚ بِهٖ “ اور ” وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ “ دونوں کا ایک ہی حکم ہے فرق صرف یہ ہے کہ : ” وَ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ 1ۚ بِهٖ “ میں ہر وہ چیز آجاتی ہے جو کھانے ، پینے ، پہنے اور برتنے میں آتی ہے جیسے غلہ اور نقدی اور ” وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ “ میں صرف وہ جانور ہی مراد ہو سکتے ہیں جو ان جگہوں کی طرف تقرب حاصل کرنے کے لئے یا نذر و نیاز کے طور پر لے جائے جاتے ہیں اور غیر اللہ کی تعظیم کے لئے استہانوں پر ذبح کئے جاتے ہیں چونکہ بزرگوں کے استہانوں اور ان کی یاد گاروں اور خانقاہوں کی لوگوں کے دلوں میں بڑی قدر و منزلت ہے اور ان کی عظمت اور تقویٰ کی وجہ سے وہاں چوپایوں کو لے جا کر ذبح کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس وقت کے مشرک اپنے زمانہ کے نشانات کی طرف بڑھتے ہیں حالانکہ تورات بھی ایسی قربانیوں سے منع کرتی ہے چناچہ تحریر ہے کہ ” جو قربانی غیر قومیں کرتی ہیں شیاطین کے لئے کرتی ہیں نہ کہ خدا کے لئے اور میں نہیں چاہتا کہ تم شیاطین کے شریک ہو۔ تم خداوند کے پیالے اور شیاطین کے پیالے دونوں میں نہیں پی سکتے۔ “ (کرنتھوں 10 : 20 ، 21) روایات میں آتا ہے کہ حضرت علی (رح) جو کوفہ کے حاکم تھے اس وقت ابن نائل نامی قبیلہ بنو رباح کا ایک شخص جو شاعر بھی تھا فرزوق کے دادا سے مقابل ہوا اور بات یہ ٹھہری کہ دونوں آمنے سامنے ایک ایک سو اونٹ کی کو چس کاٹیں گے چناچہ وہ کوفہ کی پشت پر پانی کی جگہ پر آئے اور جب ان کے سامنے ان کے اونٹ آئے تو یہ اپنی تلوارہی لے کر کھڑے ہوگئے اور اونٹوں کی کونچیں کاٹنی شروع کردیں اور دکھاوے ، سناوے اور فخریہ ریا کاری کے لئے دونوں اس میں مشغول ہوگئے ، کو فیوں کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ اپنے اپنے گدھوں اور خچروں پر سوار ہو ہو کہ گوشت لینے کے لئے آئے تو اتنے میں سیدنا علی (رح) رسول اللہ ﷺ کے سفید خچر پر سوار ہو کر یہ منادی کرتے ہوئے وہاں پہنچے کہ ” لوگوں ! یہ گوشت نہ کھاؤ کیوں ؟ اس لئے کہ یہ گوشت لغیر اللہ میں داخل ہیں۔ “ (ابن ابی حاتم) تیروں کے ذریعہ حصہ اور مقدر معلوم کرنا بھی حرام ہے : 27: مشرکین کی یہ بھی عادت تھی کہ جب کوئی کام کرنے لگتے تو کسی کپڑے وغیرہ میں تیر جو اس مقصد کے لئے پہلے تیار رکھے ہوئے تھے ڈالتے۔ ایک پر لکھا تھا : ” امرنی ربی “ یعنی میرب رب نے مجھے اس کا حکم دیا ہے دوسرے پر لکھا تھا منغنی ربی یعنی مجھے میرے رب نے اس سے منع کیا ہے اور تیسرا خالی ہوتا۔ آنکھیں بند کر کے ہاتھ ڈال کر ایک تیر نکالتے اور جو تیر نکلتا اس کے مطابق عمل کرتے اس فعل سے انہیں روکا جا رہا ہے کیونکہ جب کسی چیز کے کرنے نہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہو تو ان کو عقل خدادادا سے کام لینا چاہئے اور اس کے فوائد و نقصانات کا پوری سنجیدگی سے جائزہ لے کر کوئی فیصلہ کرنا چاہئے ۔ فہم و دانش کی نعمت جو ہمیں عطا کی گئی ہے اس کی یہ کتنی توہین ہے کہ ہم ایسے موقعوں پر اس سے کام نہ لیں بلکہ اتفاقات پر اپنے اعمال کی بنیاد رکھیں چناچہ تَسْتَقْسِمُوْا کا معنی علامہ بیضاوی نے یہی کیا ہے کہ : طلب معرفۃ ما قسم لھم دون مالم یقسم لھم بالا زلام ، اہل عرب کی دوسری عادت یہ تھی کہ وہ تیروں کے ذریعہ جوا کھیلا کرتے۔ ان تیروں کی تعداد دس ہوا کرتی سات پر کچھ نہ کچھ لکھا ہوتا اور تین خالی ہوتے اس فعل بد کو بھی ممنوع کیا گیا کیونکہ انسان اس طرح بھی دولت کمانے کے ایسے رستے تلاش کرنے کا خوگر ہوجاتا ہے جن میں نہ ذہنی کاوش کا کوئی دخل ہوتا ہے اور نہ جسمانی مشقت کا۔ اس میں ہارنے والے کا مال جتنے والے کے پاس چلا جاتا ہے اور یہ ناجائز ذرائع سے دوسروں کا مال ہڑپ کرنے کی ایک واضح صورت ہے جس سے اسلام نے منع فرمایا ہے چشم زون میں امیر کبیر بن جانے کی ہوس میں لوگوں کو گھروں کی اینٹیں بیچتے دیکھا ہے کئی خوشحال کنبے چند ہی دونوں میں غربت و افلاس کے گڑھے میں گرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جو چیز اتنی خرابیوں کا باعث ہو اسلام اسے کیسے گوارا کرسکتا ہے۔ ایک بات اور بھی یہاں غور طلب ہے وہ یہ کہ اس وقت بھی کئی لوگ جوے میں جیتی ہوئی رقم کو اپنے اوپر خرچ نہ کرتے تھے بلکہ غریبوں ، یتیموں اور بیواؤں کی اس سے اعانت کرتے لیکن قرآن کریم نے اس کو ممنوع کرتے وقت اس صورت کو بھی مستثنیٰ نہیں کیا بلکہ جوا کی دیگر صورتوں کی طرح اس کو بھی حرام کردیا۔ آج کل ہمارے ہاں جو یہ رسم قبول عام حاصل کررہی ہے کہ کہیں طوفان یا سیلاب آیا یا کوئی دوسری مصیبت ٹوٹی تو مصیبت زدگان کی امداد کے لئے چندہ فراہم کرنے کے لئے کہیں رقص و سرود کی محفلیں سجائی جاتی ہیں اور کہیں فلمی اداکاروں کے میچ کرائے جاتے ہیں ان سب کا حکم بھی اس آیت سے واضح ہوجاتا ہے بجائے اس کے کہ قوم کے انسانی اور اسلامی جذبات کو بیدار کیا جائے ہم ان کے شہوانی جذبات کو اکسا کو دولت اکٹھی کرتے ہیں ۔ خود چوچئے کہ اس طرح کے کام کر کے ہم قوم کو کسی پستی کی طرف دھکیل رہے ہیں دوسرا اللہ کے غضب کا مقابلہ اور اس کی حدود کو توڑ توڑ کر کرنا کیا ایک کلمہ گوکو زیب دیتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ نہیں اور ہرگز نہیں تو پھر مسلمان ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ آج کے دن کفر کی راہ اختیار کرنے والے تم سے مایوس ہوگئے : 28: ” الیوم “ سے کونسا دن مراد ہے کہ اس سے وہی دن مراد ہو سکتا ہے جس دن یہ آیت نبی کریم ﷺ پر نازل ہوئی جس میں ان تحریمات کا واضح حکم موجود ہے اور اس سلسلہ کی کوئی بات بھی مبہم نہیں رہنے دی گئی۔ رہی یہ بات کہ یہ آیت کس روز نازل ہوتی تو یہ بات متفق علیہ ہے کہ یہ حجۃ الوداع کے روز میدان عرفات میں نازل ہوئی جس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ 9 ذی الحجہ کا دن تھا اور جمعہ کا روز اور سنہ ہجری کے لحاظ سے 10 ہجری کی بات ہے۔ ” وقیل یوم نزول الایۃ وروی عن ابن حریج و مجاھد وابن زید و کان کما رواہ الشخان عن عمر (رح) عصر یوم الجمعۃ عرفۃ حجۃ الوداع “ (روح جلد 6 ص 60) آیت کا مطلب واضح ہے۔ کہ ان محرمات کے بیان کے بعد مشرکین کو اب یہ امید باقی نہ رہی کہ وہ تمہارے دین کو کبھی مٹاسکیں گے اور نہ ان کو تم سے یہ توقع باقی رہی ہے کہ تم دوبارہ ان کا دین قبول کرلو گے اور مذکورہ بالا خبائث و محرمات کو کھانے لگو گے اس اعلان کے بعد کوئی مسلما بھی ان محرمات کو سمجھ کر کھانے کے لئے تیار نہیں ہو سکے گا کیونکہ اگر وہ ان محرمات کو سمجھ کر کھائے گا تو آخر وہ مسلمان کیسے سمجھا جائے گا ؟ جب کہ ان چیزوں کو حلال قرار دینا دین اسلام سے نکلنے کے لئے ہر حال میں کافی ہے خواہ وہ کوئی ہو۔ مشرکین کی مایوسی سے تم خوف زدہ نہ ہو بلکہ اللہ کا ڈر اختیار کرو : 29: ” پس ان یعنی مشرکین سے مت ڈرو بلکہ صرف اور صرف مجھ ہی سے ڈرو۔ “ یعنی اب تم اس بات سے مت ڈرو کہ مشرکین تم پر اور تمہارے دین پر غائب آجائیں گے بلکہ مجھ سے ڈرو ، میرے احکام کی پیروی کرو اور میری نافرمانی سے بچو تاکہ میری تائیدونصرت ہمیشہ شامل حال رہے ۔ فرمایا آج کافر تمہارے دین سے مایوس ہوگئے یعنی ان کی یہ امیدیں خاک مل گئیں کہ وہ تمہارے دین میں کچھ خلط ملط کرسکیں اور اپنے دین کو تمہارے دین میں گڈمڈ کرلیں چناچہ احادیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شیطان اس سے تو مایوس ہوچکا ہے کہ مسلمان کبھی جزیرۃ العرب میں اس کی پرستش کریں۔ ہاں ! اب وہ اس کوشش میں رہے گا کہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف بھڑکاتا رہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مشرکین اس سے مایوس ہوگئے کہ مسلمانوں سے ملے جلے رہیں کیونکہ اسلام کے احکام نے ان دونوں جماعتوں میں بہت کچھ تفاوت ڈال دیا ہے جیسے رات اور دن میں اور روشنی اور اندھیرے میں تفاوت ہے اور یہ بات اصولی ہے کہ ضدین کبھی اکٹھی نہیں ہو سکتیں ۔ اس لئے حکماً کیا جا رہا ہے کہ مومن صبر کریں ، ثابت قدم رہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈریں ، کفار کی مخالفت کی کچھ پروانہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے گا اور انہیں اپنے مخالفین پر غلبہ دے گا اور ان کے ضرر سے ان کی محافظت کرے گا۔ شرط یہ ہے کہ مسلمان صحیح معنوں میں مسلمان رہیں۔ آج میں نے اپنی نعمت کی تم پر تکمیل کردی اور تمہارا دین کامل ہوگیا : 30: نعمت سے اس جگہ کونسی نعمت مراد ہے ؟ فرمایا تمہارا دین سب نعمتوں سے بڑھ کر نعمت ہے اور آج اس کی تکمیل کردی گئی ہے جس میں کبھی کمی ہوگی اور نہ بیش۔ تمہیں اس دین کے سوا کسی اور دین کی احتیاج نہیں اور نہ ہی اس نبی اعظم و آخر ﷺ کے سوا کسی اور نبی کی تمہیں کوئی حاجت ہے اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی ﷺ کو خاتم النّبیین کیا ہے انہیں تمام جنوں اور انسانوں کی طرف بھیجا ہے حلال وہی ہے جسے وہ حلال کہیں اور حرام وہی ہے جسے وہ حرام کہیں۔ دین وہی ہے جسے وہ مقرر فرمائیں ان کی تمام باتیں حق و صداقت والی ہیں جن میں کسی طرح کی کوئی ملاوٹ اور بناوٹ نہیں۔ جیسے ارشاد الٰہی ہے کہ : وَ تَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّ عَدْلًا 1ؕ : یعنی تیرے رب کا حکم پورا ہوا جو خبریں دینے میں سچا ہے اور حکم و منع میں عدل والا ہے۔ دین کو کامل کرنا تم پر اپنی نعمت کو بھر پور کرنا ہے چونکہ میں خود تمہارے اس دین اسلام پر خوش ہوں اس لئے تم بھی اس پر راضی رہو۔ یہی دین اللہ کو پسند ہے اس نے اپنے تمام رسولوں سے افضل رسول کو بھیجا ہے اور اپنی سب کتب سے اشرف کتاب اس پر نازل فرمائی ہے جو تمہیں راہنمائی کے لئے کافی وافی ہے۔ حضرت سدی (رح) فرماتے ہیں کہ ” یہ آیت عرفہ کے دن نازل ہوئی اس کے بعد حلال و حرام کا کوئی حکم نازل نہیں ہوا اس حج سے لوٹ کر رسول اللہ ﷺ کا چند مہینوں کے بعد انتقال ہوگیا۔ “ اور آپ اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھا لے گئے۔ حضرت اسماء بنت عمیس فرماتی ہیں کہ اس آخری حج میں خود رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہم جا رہے تھے کہ اتنے میں جبرئیل (علیہ السلام) کی تجلی ہوئی ۔ نبی کریم ﷺ اپنی اونٹنی پر جھل پڑے وحی اترنی شروع ہوئی اونٹی بوجہ وحی کی اس کی طاقت نہ رکھتی تھی میں نے اس وقت اپنی چادر آپ (علیہ السلام) پر ڈال دی۔ ابن جریر کہتے ہیں کہ اس وحی کے بعد آپ (علیہ السلام) اکیاسی دن تک حیات رہے۔ حج اکبر کے دن جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ (علیہ السلام) نے اس کو پڑھ کر سنایا تو حضرت عمر ؓ زار و قطار رونے لگے نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا تو جواب دیا کہ ہم ابھی دین کی اور زیادتی کی امید رکھتے تھے اب جب کہ وہ کامل ہوگیا تو دستور یہ ہے کہ کمال کے بعد نقصان شروع ہوجاتا ہے آپ (علیہ السلام) نے فرمایا سچ ہے ایک یہودی نے فاروق اعظم ؓ سے کہا تم اس آیت : ” الیوم اکملت “ کو پڑھتے ہو اگر وہ ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا واللہ ! مجھے علم ہے کہ یہ آیت کس وقت اور کس دن نازل ہوئی یہ عرفہ کے دن جمعہ کی شام کے قریب نازل ہوئی ہم سب اس وقت میدان عرفات میں تھے اور حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ ہمارے ہاں تو یہ آیت دوہری عید کے دن اتری ہے عید کا دن بھی تھا اور جمعہ کا دن بھی۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ” اس وقت نبی اعظم و آخر کو میدان عرفات میں یہ آیت نازل ہوئی جب آپ (علیہ السلام) موقف میں کھڑے تھے۔ اسلام کیا ہے ؟ اسلام کسی قوم اور زات و برداری کا نام نہیں ہے کہ اس میں پیدا ہونے والا ہر آدمی آپ سے آپ مسلمان ہو اور مسلمان بننے کے لئے اس کو کچھ کرنا نہ پڑے جس طرح شیخ یا سید خاندان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ خود بخود شیخ یا سید ہوجاتا ہے اور اس کو شیخ یا سید بننے کے لئے کچھ کرنا نہیں پڑتا بلکہ اسلام نام ہے اس دین کا اور اس طریقہ پر زندگی گزارنے کا جو اللہ کے محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے جو کلمہ طیبہ سے شروع ہو کر نماز ، زوزہ اور زکوٰۃ سے گزرنا ہوا حلت و حرمت پر پہنچ کر مکمل ہوگیا ۔ اب اس کے احکام میں نہ کمی ہو سکتی ہے اور نہ بیشی اور اگر کہیں اور کسی حال میں کوئی کمی بیشی ہوگی تو وہ اسلام نہیں کہلائے گی خواہ وہ کمی وبیشی کرنے والا کون ہو ؟ کمی بیشی کرنے والا خود اسلام سے نکل جائے گا۔ دین اسلام کی تکمیل کے ساتھ ہی نبوت و رسات کے عہدہ خاص کو بھی ختم کردیا گیا اور اب کوئی نبی نہیں آئے گا جو بھی ایسا دعویٰ کرے گا وہ دعویٰ کرنے کے ساتھ ہی اسلام سے نکل جائے گا اور اس کے عمل کی کوئی وقعت باقی نہیں رہے گی۔ ارشاد الٰہی ہے کہ ورضیت لکم الاسلام دنیا کے تمام ادیان میں سے دین اسلام کو تمہارے لئے پسند کیا کیونکہ یہی وہ دین ہے جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اور جس پر تمامانبیائے کرام کا بند تھے اور یہی قیامت تک کے تمام انسانوں کا اصل دین ہے اور اس دین پر قائم رہنے کی دعا اللہ تعالیٰ سے کرتے رہنا چاہئے۔ رضیت با للہ بالاسلام دینا۔ ہاں ! اضطراری اور مجبوری کو اس سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے جو بھوک کی وجہ سے ہو : 31: اضطراری حالت وہ ہے جب کوئی انسان بھوک کی وجہ سے اس قدر بےبس ہوجائے کہ حرام کھانے کے سوا چارہ نہ رہے : ” المخمصۃ “ المکاعۃ وخلاء البطن گویا ایک انسان بھوک کی ایسی مصیبت میں گرفتار ہوجائے کہ موت یا حرام میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کے سوا چارہ باقی نہ رہے۔ ایسی حالت میں اگر کوئی شخص موت کو اختیار کرلے اور حرام نہ کھائے خصوصاً وہ حرام جو شرک کی آلودگی سے حرام ٹھہرایا گیا ہے تو اس کا کمال ہے اور ایسا دن و دنیا میں گویا کامیاب مرا اور اس نے راہ حق پر جان قربان کی ۔ وہ شاباش کے لائق ہے اور اس کی موت اس کی زندگی سے بدرجہا بہتر ہے ۔ کسی چیز کی اجازت ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو اختیار کرنا لازم و ضروری ہے اگر اختیار نہ کیا تو کوئی جرم کیا۔ نہیں ہرگز نہیں پھر جان تو ایسی چیز ہے جس کو بچایا جاہی نہیں سکتا وہ اگر آج نہ گئی تو کل چلے جائے گی۔ شرک میں آلودہ ہونا اگرچہ وہ اضطراری حالت ہی میں ہو کمال نہیں کہلا سکتا بلکہ زوال ہی کہلا سکتا ہے ہاں ! کمال یہ ہے کہ جان جاتی ہے تو جائے لیکن شرک کی آلودگی میں آلودہ نہ ہو ۔ اس کی سینکڑوں مثالیں کتاب و سنت سے پیش کی جاسکتی ہیں تاہم کسی شخص نے اضطرار کی حالت میں حرام کا لقمہ گلے سے اتار لیا تو اس کا گناہ یقیناً قابل معافی ہے بشرطیکہ جو کچھ اس سے ہوا بادل نخواستہ ہوا دل کی چاہت سے نہ ہو اور نہ ہی وہ سدر مق کی حد سے آگے بڑھا یعنی ایسا نہ ہو کہ اسکو تربتر لقمہ سمجھتے ہوئے نگلتا ہی چلا جائے اور خوب سیر ہو کر کھائے ۔ ایسا کرنا سرد مق کے لئے نہیں بلکہ حدود سے تجاوز کرنا سمجھا جائے گا اور وہ عند اللہ یقینا مجرم تصور ہوگا۔ اس آیت کے اندر ہی قید بھی بڑھا جائے کہ ” یہ بات نہ ہو جہ دانستہ گناہ کرنا چاہئے “ اگر کوئی اس بات پر اتنا دلیر ہوگیا تو اس نے بہر حال جرم کیا اور وہ اپنے جرم کی یقینا سزا پائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کی رخصت بہر حال رخصت ہے اور حرام بہر شکل حرام ہے ظاہر ہے کہ کوئی حرام چیز بھی شیر مادر نہیں بن سکتی اور نہ ہی کوئی رخصت ابدی پروانہ ہو سکتی ہے۔ یہ باتیں جو عام طور پر لوگوں میں مشہور ہیں اور جاہل ملاں ایسے حالات سے فائدہ اٹھانے کا درس دیتے اور کھلے بندوں یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جان بچانا فرض ہے لہٰذا اس ترلقمہ کے لئے کوئی نہ کوئی حیلہ بہانا بنا ہی لینا چاہئے بالکل حرام کاری اور مکاری ہے۔ دھوکہ ہے فریب ہے اور ایسی باتیں وہ کسی اپنی ذاتی مصلحت کی بناء پر کرتے ہیں اس طرح وہ خود بھی بات بات پر مجبور و مضطر بنتے ہیں اور دوسروں کو بی ایسا کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے پیٹ کی آگ بظاہر بجھاتے ہیں حالانکہ اس سے ان کے پیٹ کی آگ کبھی نہیں بجھتی بلکہ وہ مزید بھڑک کر ان کو بھی ہضم کر جاتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے اضطراری حالت میں بھوک کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے کسی انسان نے موت پر حرام کو ترجیح دے دی تو اگرچہ اس کا یہ فعل مستحسن تو نہیں کہا جاسکتا لیکن ناپسند ہونے کے باوجود برداشر کیا جاسکتا ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرنے کی تلقین کی جاسکتی ہے یہ لقمہ جو تم نے گلے سے اضطراری حالت میں اتار لیا ہے اس کی اپنے اللہ سے معافی طلب کرو اور اپنے اس فعل پر نادم ہو کہ میں نے کیا کرلیا ہے ؟ تم نے ایسا کیا تو یقینا اللہ تعالیٰ نیتوں سے خوب واقف ہے تمہارے اس گناہ کو معاف فرما دے گا اس لئے کہ وہ ہی ہے جو بخشنے والا اور رحمت رکھنے والا ہے۔ ہمارے وہ بھائی جو یورپ و امریکہ کے اکثر ملکوں میں رہائش پذیر ہیں ان کے اللّے تللے کرنے کے لئے یہ آیت کام نہیں دیتی کہ جب ان ملکوں میں سور کا گوشت عام بکتا ہے اور ان کا ذبیحہ بھی اسلامی طریقہ کے خلاف ہے اس لئے وہ مجبور محض ہیں لہٰذا ان کو اس آیت نے چھوٹ دے دی ہے ۔ حاشا کلا ہرگز ایسا نہیں اور یہ بھی اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ اگر کوئی شخص گوشت بالکل ہی ترک کر دے اور مطلق نہ کھائے تو اس پر کوئی قیامت برپا نہیں ہوتی اور نہ ہی زندگی کی رعنائیوں میں کوئی فرق پڑتا ہے ۔ اپنے اوپر ذرا کنٹرول کرکے عادت کو پھلوں اور اجناس و نباتات کی طرح راغب کرنا پڑتا ہے جو بالکل مشکل نہیں ہے۔ اس طرح ہمارے ان علماء کو بھی یہ آیت بالکل رعایت نہیں دیتی جو معاشرے کے بگاڑ کے باعث غیر اللہ کی نذرونیاز کے کھانے پر اپنے آپ کو مجبور محض سمجھ بیٹھے ہیں اور ان چیزوں کو حرام سمجھنے کے باوجود ان کو لینے پر اپنے آپ کو مجبور سمجھتے ہیں یہ بالکل شیطانی ایماء ہے جو یقینا قابل گرفت ہے اور ان کی یہ تاویل ان کے کچھ کام نہیں آئے گی بلکہ وہ اس شیطنت سے شیطان کے بھائی بند ٹھہریں گے۔
Top